مشرف عالم ذوقی کے منتخب افسانے۔ حصہ اول

الف عین

لائبریرین
(1)

’نہیں انجلی۔ یہاں نہیں۔ یہاں میں پڑھ رہا ہوں، نا۔ یہاں سے جاؤ____‘
’لیکن کیوں پاپا۔‘
’بس۔ میں نے کہہ دیا نا۔ جاؤ۔ کبھی کبھی سن بھی لیا کرو____‘
’پاپا۔ مجھے یہاں اچھا لگ رہا ہے۔‘
’نہیں۔ میں نے کہہ دیا نا۔ میں کچھ ضروری کام کر رہا ہوں۔ سنا نہیں تم نے۔‘
’پاssپاss‘ آواز میں ہلکی سی خفگی تھی____ تمہارے پاس اچھا لگتا ہے مجھے۔‘
***
ہّمت جٹاتا ہوں۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے قریب آتا ہوں۔ بن ماں کی بچی۔ دل میں بہت سارا پیار امڈتا ہے____اندر کے غصّے کو اس کے معصوم چہرے پر ہولے، سے رکھ دیتا ہوں____ جیسے ’دیا سلائی‘ کے ننھے سے شعلے پر موم کو۔ ۔ پتہ نہیں کتنا پگھلا ہوں____؟ یا شاید پگھل گیا ہوں____ اس کے سر پر آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرتا ہوں۔
’میں تمہارے سامنے پڑھتی ہوں تو اس طرح ناراض کیوں ہوتے ہو؟‘
انجلی ’ہپّا‘ ہے۔ ۔ ’جاؤ نہیں بولتی۔‘
’اچھا۔ ناراض نہیں ہو،نا____‘ میں ہنس دیتا ہوں۔
’ہپّا‘ انجلی خوش ہو کر بچوں کی طرح مجھ پر بچھنا چاہتی ہے۔ میں پیچھے ہٹتا ہوں۔ اس کے ہاتھوں کو____ نہیں۔ اس کے جسم کو____ خود سے دور رکھنا چاہتا ہوں۔
’نہیں۔ نہیں انجلی۔ ٹھیک ہے۔ ۔ بچپنا نہیں۔ اب بڑی ہو رہی ہو تم۔ ۔ سمجھ گئی۔ ۔ بڑی ہو رہی ہو۔‘
’’ہونہہ۔ پپاّ کے سامنے بڑے، بچے ہی رہتے ہیں۔‘
’لیکن تم۔ ۔ ‘، بچی ہو____کہتے کہتے ٹھہر جاتا ہوں۔انجلی حیرانی سے میرا منہ تکتی ہے۔
’تم کیا پاپا۔ ۔ ‘
مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں____ ’تم نہیں سمجھو گی، انجلی۔
انجلی منہ بچکاتی ہے____ ’میں اب بڑی ہو گئی ہوں۔ میں اب سب سمجھتی ہوں پاپا۔ کبھی کبھی تم سمجھ میں نہیں آتے پاپا۔ لو، میں تمہارے پاس سے جا رہی ہوں۔ لیکن سنو، اکیلے کمرے میں مجھے ڈر لگتا ہے۔ اب میں تمہارے پاس ہی سویا کروں گی، پاپا____ تمہارے ہی کمرے میں۔‘
’میرے کمرے میں؟‘
’کیوں، سب بچے سوتے ہیں۔‘
’نہیں۔ میں نے اس لئے پوچھا کہ میں رات بھر لائٹ جلا کر کچھ نہ کچھ آفس کا کام کرتا رہتا ہوں۔‘
’مجھے لائٹ ڈسٹرب نہیں کرے گی پاپا____‘ انجلی مسکرائی ہے۔‘ کل سے یہیں سوجاؤں؟‘
’نہیں۔ بس کہہ دیا نا۔ اب تم بڑی ہو رہی ہو۔ اس سے زیادہ سوال نہیں۔‘
انجلی کے معصوم چہرے پر سوالوں کی سلوٹیں بکھر جاتی ہیں۔ میں جاتے جاتے اس کے الفاظ میں دکھ محسوس کر لیتا ہوں۔
’کوئی بات نہیں پاپا‘
انجلی اپنے کمرے میں واپس لوٹ گئی ہے۔ اس کی سلوٹوں بھری سوالیہ آنکھیں اب بھی کمرے میں موجود ہیں۔ یہ آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں۔
’انجلی کو کیوں بھیج دیا؟
میز پر آفس کی کچھ بے حد ضروری فائلیں بکھری پڑی ہیں۔ لیکن ابھی، اس لمحے مجھے ان فائیلوں کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
’انجلی کیوں گئی؟ میں نے اسے اپنے کمرے میں کیوں بھیج دیا۔؟
پتہ نہیں____ لیکن شاید یہ میرے اندر کا سناٹا ہے، جو مجھ سے لڑ رہا ہے۔ کیا ہو جاتا ہے تمہیں۔ کیا ہو جاتا ہے تمہیں۔ اچھے خاصے آدمی سے اچانک ’لڑکی‘ کے باپ کیوں بن جاتے ہو۔ بن جاتے ہو____ چلو کوئی بات نہیں۔ لیکن اپنی ہی لڑکی سے ڈرنے کیوں لگتے ہو۔ ۔
ایک بزدل آدمی جرح کرتا ہے____ ’نہیں۔ جھوٹ ہے۔ ڈروں گا کیوں؟‘
سناٹا ہنستا ہے____ ’دیکھو‘ اپنے آپ کو غور سے دیکھو۔ تم ڈر گئے تھے۔ کیونکہ۔ ۔ ‘ اندر کا سناٹا ایک انتہائی فحش سا جملہ اچھا لتا ہے____ تم اسے عموماً ایسے لباسوں میں نہیں دیکھ پاتے۔ ہے نا sss یار، وہ کانونٹ میں پڑھتی ہے۔‘ سناٹا قہقہہ لگاتا ہے۔ کانونٹ یا نئے زمانہ کی لڑکیاں اب آنچل یا اوڑھنی کا استعمال نہیں کرتیں۔ وہ اپنے بدن پر کپڑوں کا بہت زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتیں۔ تو کیا ہوا۔ وہ تمہاری بیٹی ہے۔‘
’بس ڈر جاتا ہوں۔‘
’لیکن کیوں؟‘
لمبی لمبی سانس لیتا ہوں۔ کہہ نہیں سکتا۔
’بیٹی میں لڑکی تو نہیں دیکھنے لگتے؟‘
اندر کا سناٹا دیر تک ہنستا رہتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
(2)
اس دن مسز ڈھلن سے یہی تو پوچھا تھا میں نے۔ ۔
’بیٹیوں میں لڑکیوں کاجسم کیوں آ جاتا ہے۔‘
’کیا؟‘ مسز ڈھلن زور سے چونکی تھیں۔ ۔ لڑکیوں کا جسم۔ ۔ ہنستے ہنستے چائے کے کپ پر ان کے ہاتھ تھرتھرائے تھے۔ ۔ ’آپ شادی کر لو، آپ کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ ۔ ‘
’بیٹی میں لڑکی کا جسم۔ میں نے بہت معمولی بات کہی ہے، مسز ڈھلن۔یہ لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں بیٹی میں۔ ۔ لڑکیاں۔ پرائی لڑکیاں۔ پرائی لڑکیوں کے جسم پر، مدھو مکھی کے چھتوں کی طرح، گرتی ہوئی پرائی آنکھیں۔ ۔ یہ بیٹیاں بس بیٹیاں کیوں نہیں رہتیں۔ ۔ بغیر جسم والی۔ ۔ نہیں، سنو مسز ڈھلن! قصور آپ کا نہیں____ یقیناً آپ میری بات نہیں سمجھ سکتیں۔ ۔ لیکن بیٹیوں میں یہ لڑکیوں والا جسم نہیں آنا چاہئے۔ ۔ ہے، نا؟‘
***
شاید سب کچھ اچانک بدلا تھا____ اچانک____
ہاں، شاید سب کچھ اچانک ہی بدل جاتا ہے۔ گھر میں خوشیوں کا ایک روشندان تھا میرے پاس____ سنہری کرنیں آیا کرتی تھیں____ یہ سنہری کرنیں مسکراتیں تو گھر جگ مگ، جگ مگ کرنے لگتا۔ ۔
وہ انجلی کی ماں تھی۔ ۔ روشن دان سے جھن جھن جھانکنے والی روشنی کی کرن۔ ۔
’تمہیں پتہ ہے، پہلی بار اسکیٹنگ کرنے والوں کو برف کیسی لگتی ہے؟‘
’نہیں‘
’چکنی اور خوبصورت۔‘
یہ اس کے لئے میرا پہلا کمپلی منٹ تھا۔ ۔
وہ زور سے ہنسی تھی۔ ۔ ’’کیا یہ تمہاری پہلی اسکیٹنگ ہے؟‘
’اگر ہاں کہوں تو؟‘
یقین کر لوں گی۔‘
’’تو پھر یقین کرو۔اس سے پہلے کبھی برف پر چلنے کا خیال ہی نہیں آیا۔‘
’برف پر۔ ۔ ‘ اس کے موتیوں جیسے دانت ہنس رہے تھے۔ ۔ اُف کتنے شفاف اور قرینے سے رکھے ہوئے____
’کیا یہ سارے ہیرے میرے ہیں؟‘ میں نے اس کے ہونٹوں کا بوسہ لیا۔
’ہاں‘____ وہ پھر دلکش انداز میں ہنسی تھی۔ ۔ ’اس کے لئے جو پہلی بار اسکیٹنگ سیکھ رہا ہے۔ ۔ ‘
***
پھر یہ ’اسکیٹنگ‘ جیسے زندگی کا ایک حصہ بن گئی____ گھر میں خوشیوں والا روشندان کھل گیا۔ ۔
وہ مسکراتی تھی۔ ۔
’اب کہیں اسکیٹنگ کرنے جاتے ہویا نہیں؟‘
’اب تو تم سے ہی فرصت نہیں ملتی‘
’اب کرو گے بھی نہیں۔ اس لئے کہ تمہیں اسکیٹنگ سے روکنے والی آ رہی ہے۔ ۔ ‘
***
یہ انجلی تھی____ جس کے بارے میں شروع سے ہی اس کا خیال تھا۔ بچی ہوگی۔
’کیوں۔‘
’زیادہ تر بچیاں اپنے لئے سردیاں پسند کرتی ہیں۔ میں خودسردی کے موسم میں پیدا ہوئی تھی____ سنو۔ اگر بیٹی ہوئی اور بیٹی نے تمہاری طرح اسکیٹنگ کرنی چاہی تو۔ ۔ ؟‘
میرا چہرہ ایک لمحے کو فق ہو گیا تھا____
وہ زور سے ہنسی۔ ۔ بس ہو گئی نا چھٹی۔ تم مردوں میں ہر وقت ایک چور مرد کیوں رہتا ہے۔ بیٹا ہو تو تاڑ پر چڑھا دو۔ دس گنا ہ معاف۔ کچھ بھی پہن لے۔ دس دس محبوباؤں کے ساتھ گھومتا رہے۔ مگر بیٹیاں۔‘
وہ میرے چہرے پر جھک گئی تھی۔ ۔
’ساری۔ ۔ میں کھیل کر رہی تھی۔ ۔ ‘ اس کی مخروطی، جلتی انگلیاں میرے برف جیسے چہرے پر موم کے شعلوں کی طرح اپنی آنچ دے رہی تھیں۔ ۔ میں جانتی ہوں، تم ایسے نہیں ہو۔ ۔ تم اپنی بیٹی سے بھی ویسی ہی محبت کرو گے، جیسے۔ ۔ ہے نا۔ ۔ بیٹی اگر میری طرح ہوئی تو۔ ۔ ‘
میں نے پھونک مار کر شعلہ بجھا دیا تھا____
’بیٹی تمہاری طرح نہیں ہونا چاہئے‘
’کیوں‘
میں شاید خاموش رہ گیا تھا____ بیٹی اگر بڑی ہوئی تو۔ ۔ ؟ وہی خاموشی سے ڈس جانے والا کمپلیکس۔ ۔ ’یہ بدن کچھ جانا پہچاناسا ہے۔ ۔ یہ چہرہ کچھ۔ ۔ !‘
 

الف عین

لائبریرین
(3)
شاید اسی لئے انجلی کی پیدائش پر میں زور سے ڈرا تھا۔ نو مولود بچوں کا چہرہ اتنا زیادہ ماں یا باپ سے نہیں ملتا۔ لیکن انجلی میں اس کی ماں مسکرا رہی تھی۔ ۔ انجلی کو نہارتے ہوئے میں اچانک زور سے چیخا تھا۔
’’نیکر۔ ۔ نیکر کہاں ہے؟‘‘
’شی۔ ۔ جاگ جائے گی؟‘ اس کے چہرے پر خفگی تھی۔ زور سے چلائے کیوں____ وہ ہنسی۔ ۔ ’شوشو ہو گئی تھی اس لیے۔ دیکھو۔ وہاں میز پر نیکر پڑا ہے۔ بدل دونا پلیز۔ ۔ ‘
پتہ نہیں۔ لیکن شاید بہت کچھ بدلنے کی ابتدا ہو چکی تھی۔ ۔
میں نے میز سے نیکر اٹھا لیا۔
مگر میرے ہاتھ کیوں کانپ رہے تھے۔
’سنو، تم بدل دو۔‘
’کیوں____ اِتا سا کام بھی تم لوگوں سے نہیں ہوتا____ تم مردوں سے۔ بس بیوی ہی نو مہینے تک پاگل بنی رہے۔ تمہارا بچہ ہے۔ تم کیوں نہیں نیکر بدل سکتے۔ ۔ سنو۔ ۔ ‘
وہ انجلی کا نیکر بدل رہی تھی۔ میں کہیں اور دیکھ رہا تھا۔
’سنو۔ انجلی کے آ جانے سے میرے بھی کام بڑھ جائیں گے____ تم بزی رہتے ہو۔لیکن سنو____ انجلی کو صبح صبح تم ہی نہایا کرو گے۔ ٹھیک ہے نا؟
’نہیں۔‘
سردیوں کے موسم میں جیسے دانت بجتے ہیں____ اندر کنوئیں سے کوئی صدا اوپر تک آتے آتے تھم گئی تھی۔
’کیسے باپ ہو، اپنے بچے کو گود میں تو لو؟‘
اس نے انجلی کو اچانک اٹھا کر میری گود میں ڈال دیا تھا۔ وہ ہنس رہی تھی۔
’کیسا عجیب سا لگ رہا ہے۔ ہے نا؟ جیسے میں ننھی سی ہو کر تمہارے ہاتھوں میں سمٹ گئی
ہوں۔ ۔
مجھے زور کا کرنٹ لگا تھا۔ ۔
***
انجلی کے ایک سال کے ہونے تک یہ سب سلسلے چلتے رہے۔ یہ لڑکیاں صفائی کے معاملے میں پیدائش سے ہی بڑی Sensitiveہوتی ہیں۔ انجلی زیادہ اسی وقت روتی تھی، جب اس نے شو شو کر دیا ہو۔ کبھی کبھی وہ کچن میں مصروف ہوتی تو وہیں سے ڈانٹ لگاتی۔
’نیکر بدل دو____‘
شاید وہ پہلا واقعہ تھا۔ نہیں حادثہ۔ ۔ نہیں،واقعہ کہنا ہی بہتر ہوگا۔ ۔ وہ شاید شاپنگ کے لئے گئی تھی اور انجلی زور زور سے روئے جا رہی تھی۔ مجھ میں ایک باپ جاگ چکا تھا۔
لیکن کیا،ہمت کی کمی تھی مجھ میں؟
اور کیوں____؟
پیشاب سے چپ چپاتے پھلیے سے، میں نے اسے اٹھا تو لیا۔ مگر میرے ہاتھ پیشاب میں سنے نیکر اتارتے ہوئے کانپ رہے تھے۔ ۔ اس کے ننھے ننھے سے پاؤں میں دوبا رہ صاف ستھری نیکر پہنانے تک، میں نے ایک لمحے کے لئے بھی اس کی طرف دیکھنا گوا رہ نہیں کیا تھا۔ لیکن کیوں؟
ایک سہمے سہمے سے باپ کو آخر اتنا سمجھانا کیوں پڑتا ہے؟
بچی ہنس پڑی تھی۔ اب میں نے اسے غور سے دیکھا۔ ہولے سے، ’منّے‘ سے ہاتھوں کو چھوا۔ ۔ پاؤں میں چاندی کے کڑے تھے۔ ۔ وہ آسمان سے اترا ہوا فرشتہ لگ رہی تھی۔
بیساختہ اسے میں نے گود میں اٹھا لیا۔ پیشانی پر چمی لی۔
’میری بیٹی۔ میری بیٹی‘
وہ شاید پہلے ہی آ چکی تھی____ لیکن چھپ کر یہ تماشہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے زور سے تالیاں بجائیں۔ ۔
’گڈ آج سے تم باپ بن گئے۔ اب میری ضرورت نہیں رہی۔‘
’ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟‘
’کیونکہ تم میں ایک باپ آگیا ہے؟ وہ ہنس رہی تھی۔ ۔ ‘ سنو، اس باپ کو بزدل نہیں ہونا چاہئے۔ ۔ سنو، میں اس باپ کو بزدل نہیں دیکھ سکتی۔ ۔ ‘
وہ دوڑ کر آئی____ اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔ ۔
’دیکھو۔ ۔ انجلی ہنس رہی ہے۔ ہنس رہی ہے نا۔ ۔ ؟‘
***
شاید اس نے صحیح کہا تھا۔
مجھ میں ایک باپ جاگ گیا تھا اور شاید اسی لئے وہ ہمیشہ کے لئے سونے چلی گئی۔ ۔ اس رات کی نیند اتنی گہری تھی کہ وہ کبھی نہیں جاگی۔ ۔ انجلی میری گود میں تھی۔ ۔ اور میں آسمان کے کنارے تلاش کر رہا تھا۔ اس کنارے سے اس کنارے تک پھیلا ہوا آسمان۔ ۔ ایک لمبی زندگی اور معصوم سی، مٹھی بھر ہاتھوں میں سما جانے والی انجلی۔
انجلی بڑی ہو رہی تھی۔ باپ ڈر رہا تھا۔ ۔ باپ دوست بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن، لڑکی یا عورت کے بدن سے جڑی ہوئی کچھ ایسی ’خفیہ‘ کہانیاں بھی ہوتی ہیں، جو اچانک پُراسرار راتوں کی طرح جاگ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی، سہمی سہمی راتیں مجھ میں ڈر پیدا کر دیتیں۔ ۔ خاص کر سرما جیسے موسم میں____ ایک ہی لحاف میں۔ ۔ انجلی کے بدن سے لپٹے ہوئے ہاتھ اچانک، خرگوش سے سانپ جیسے بھیانک ہو جاتے۔ ۔
میں لیمپ روشن کر دیتا۔ کمرے کو اپنی لمبی لمبی، گہری گہری سانسیں سونپ دیتا ہوں۔
یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ انجلی بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔ دو ایکم دو۔ دو دونی چار۔ ۔ انجلی بیٹی ہے۔ ۔ بیٹی ہے۔ ۔ بیٹی ہے۔ ۔ دو ایکم دو۔ دو دونی چار/ انجلی بیٹی ہے۔ ۔ بیٹی ہے۔ ۔ بیٹی ہے۔ ۔ میں اپنی سانسوں سے الجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ۔
انجلی میری بیٹی ہے۔ میری جانو۔ ۔ یار____ یہ بیٹیوں میں، اچانک لڑکی جیسا بدن کیوں آ جاتا ہے۔ ۔ ؟
شاید اپنے آپ کو مضبوط کر رہا ہوں۔ مسکراتا ہوں۔ انجلی کی پیشانی کا بوسہ لیتا ہوں۔ ۔ پاکیزگی سے بھرا بوسہ۔ ۔ لحاف اوڑھاتا ہوں۔ ٹھنڈک بڑھ گئی ہے۔ ۔ لیمپ بجھاتا ہوں۔
لیکن انجلی کے لحاف میں گھسنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
کیوں؟
لحاف کے اندر انجلی کا بدن جل رہا ہے۔ ۔ میں ٹھٹھر رہا ہوں۔باہر ٹھنڈک بڑھ گئی ہے۔ ۔ کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے۔ ۔ سگار،ایش ٹرے____، اندھیرے میں یہ ہاتھ میں سب کچھ تلاش کر لیتے ہیں۔ ریوالولنگ چیئر پر بیٹھ گیا ہوں۔ ۔ سگار کا دھواں اور لحاف کے اندر ہلتی ڈلتی ہوئی انجلی۔ ۔
شاید یہ اسی فیصلے کی گھڑی تھی۔ ۔
’نہیں انجلی، اب تمہیں بستر الگ کرنے ہوں گے۔ ۔ سمجھ رہی ہونا۔ ۔ اب بڑی ہو رہی ہو تم۔ ۔ اور۔ ۔ پڑھائی بھی تو کرنی ہے تمہیں۔ ۔ !‘
***
’انجلی کی کیا عمر ہو گئی ہوگی اب____؟‘
یہ مسزڈھلن تھیں۔ ۔ فائل پر جھکی ہوئی نگاہیں____
’چہ۔ ۔ چودہ۔ ۔ ‘ کہتے کہتے ٹھہر گیا ہوں____
’مائی گاڈ۔ ۔ مسز ڈھلن کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی ہے۔ ’’چودہ کی ہو گئی انجلی۔ ۔ اب آپ کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی سر۔ گھر میں اور کون کون ہے۔ ۔ میرا مطلب، عورت۔ ۔
’پہلے ایک آیا تھی۔ ۔ ‘
’تھی۔ ۔ ؟‘
’ہٹادیا۔ ۔ ‘
’کیوں____؟‘
’وہ انجلی سے زیادہ مجھ میں دلچسپی لیتی تھی۔‘
’اوہ نو۔ ۔ ‘ فائل سے اوپر اٹھی ہوئی نگاہیں۔ ۔ انجلی کو اس عمر میں عورت کی ضرورت ہے سر۔‘
’عورت کی ہے؟‘
’Obviously۔ ۔ عورت کی سر۔ ۔ ‘ مسز ڈھلن ہنستی ہیں____ میں کیسے سمجھاؤں آپ کو۔ ۔ آپ۔ ۔ ‘
ایک خوفزدہ باپ اپنی منہ لگی اسسٹنٹ کے سامنے چپ ہے۔ ۔ پریشان سا۔ ۔
’کیا بات ہے مسز ڈھلن‘
’آپ کی زبان میں سمجھاؤں سر____ وہ ہنستی ہے۔ اس عمر میں ایک خوبصورت حادثہ، لڑکی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ ۔ خوبصورت____ نہیں سمجھ میں آنے والا اور دماغ کی رگیں چٹخانے والا۔ ۔ کیونکہ لڑکی جوان ہو رہی ہوتی ہے۔ ۔
’جوان۔ ۔ ‘ سناٹے میں میزائل چھوٹی۔
’یس سر____‘
مسز ڈھلن نے فائل بند کر دی۔ ’بہتر ہے آپ اس آیا کو پھر سے بلالیں۔ ۔ ‘
مسز ڈھلن پر آہستہ سے چیختا ہوں____ آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔ ۔
’پی۔ ۔ پی ریڈ۔اس عمر میں لڑکیوں کو۔ ۔ ‘
مسز ڈھلن آگے بڑھ جاتی ہیں____
مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ ۔ کمرے کا رنگ اچانک سرخ ہوگیا ہے۔ ۔ لال لال۔ ۔ کھڑکیوں پر چڑھے ہوئے شیشے۔ ۔ دیواریں۔ ۔ اور زمین۔ ۔ سب لال لال۔ ۔ سرخ سرخ۔ ۔ میری آنکھوں کے آگے۔ ۔ اندھیرا بھی لال اور سرخ____ میں سرتھامنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ۔
’انجلی‘
یہ بیٹیوں میں لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں۔ ۔
***
’اس دن میں، دفتر سے گھر جلد لوٹ آیا تھا____ دروازے پر داخل ہوتے ہی زور سے چیخا۔ ۔
انجلی!
مگر کوئی نہیں۔ دروازے کے پٹ کھلے تھے۔ سیڑھیاں خاموش تھیں۔ ۔ اندھیرے میں، اسکرین پر الفریڈہچکاک کی کوئی فلم شروع ہو گئی تھی۔ سسپینس اور تحیر سے بھری ہوئی فلم۔ ۔
انجلی۔ ۔
باپ الگ الگ دروازے پر دستک دیتا ہے۔ ۔ چّلاتا ہے۔ ۔ انجلی۔ ۔ وہ ’بڑی سی انجلی‘ کو اچانک دریافت کر لینا چاہتا ہے۔ مگر اس اچانک دریافت کے بعد۔ ۔ سرخ سناٹے___ جیسے ذہن کو چیونٹیوں کی طرح کاٹے جا رہے ہیں۔ ۔ انجلی۔ ۔ یہاں بھی نہیں۔ ۔ اس کمرے میں بھی نہیں۔ کہاں گئی۔ بیک گراؤنڈ سے تیز میوزک۔ ۔ دروازہ کھلا ہے۔ انجلی نہیں ہے____ کہاں گئی ہوگی۔ ۔ کہیں گئی ہوگی یار۔ ۔ بیٹیاں اچانک جوان ہو جاتی ہیں۔ کشمکش بھرے لمحے میں خود کو دی جانے والی تسلیاں۔ ۔ کہیں گئی ہوگی۔ مگر۔ اس طرح۔ گھر کو کھلا چھوڑ کر۔ ۔ اور ۔ ۔ وہی ۔ ۔ سرخ انقلاب۔ ۔
ذہن میں چکر ا رہے ہیں۔ ۔
بالکنی پر آگیا ہوں۔ ۔ یہ سانسیں دھونکنی کی طرح کیوں چل رہی ہیں۔ ۔ تیز تیز۔ ۔ شاید مجھے کچھ ہو رہا ہے____ نظروں کے آگے یہ کیسا سرخ انقلاب مجھے پریشان کئے جا رہا ہے۔
ایک بار پھر زور سے چلاتا ہوں۔ ۔ انجلی!
سرخ منظر ایک ایک کر کے ’لیزر‘ کرنوں کی طرح انجلی کے بدن میں داخل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ۔ سامنے اسکرین پر انجلی کا بدن روشن ہے۔ ۔ اور لیزر کرنیں۔ ۔ سرخ لیزر کرنیں۔ ۔
مجھے شاور کی ضرورت ہے۔ ۔ اس بدن کو ہٹاؤ۔ ۔ انجلی کے بدن کو ہٹاؤ۔ ۔
میں دونوں ہاتھوں سے سر تھامتا ہوں۔ باتھ روم کی طرف تیزی سے بھاگتا ہوں۔ ۔ دروازہ کھولتا ہوں اور۔ ۔
باتھ روم کا دروازہ کے کھلتے ہی____ ہینگر پر لپٹے ہوئے سانپ، جیسے زور سے اُچھل کر مجھے ڈس لیتے ہیں____ چیخنا چاہتا ہوں____ مگر چیخ جیسے اندر گھٹ کر رہ گئی ہے۔ ۔ میرا جسم تھرتھرکانپ رہا ہے۔ باتھ روم کی ہر ایک شئے میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ سرخ ٹائلس____ ان کے درمیان اسی کلر سے میچ کرتا باتھ ٹب۔ ۔ ہلکا ہلکا کھلا ہوا شاور۔ ۔ شاور کے چھید سے ٹپکتے ہوئے قطرہ قطرہ پانی کی بوندیں۔ ۔ اور اُدھر شاور کے داہنی طرف بے ڈھنگے پن سے ہینگر کے سرخ ’رڈ‘ میں ’کھوسی‘ گئی انجلی کی برا اور پینٹی____
شاور کے چھید سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی ہیں۔ ۔ ٹپ۔ ۔ ٹپ۔ ۔
میری آنکھیں سہم گئی ہے۔ ۔
بدن لرز رہا ہے۔ ۔
گلہ سوکھ گیا ہے۔ ۔
جسم کے اندر بھونچال آگیا ہے۔ ۔
ریزہ ریزہ کانپ رہا ہے۔ ۔
کیمرہ باتھ روم میں نہ اب کہیں Panہو رہا ہے____ نہ ٹلٹ اَپ____ نہ ہی ٹلٹ ڈاؤن۔ ۔ وہ جیسے اُسی منظر پر Freezeہوگیا ہے۔ ۔ انجلی کے کپڑے اور۔ ۔
شاور کے چھید سے ٹپکتی ہوئی پانی کی بوندیں
انجلی!
جیسے بجلی کا کرنٹ لگتا ہے۔
میرے منہ سے ایک زور کی چیخ نکلتی ہے۔ ۔ تھر تھرکانپتا ہوا کمرے میں آتا ہوں۔ ۔ بستر پر رکھا ہوا کمبل اٹھاتا ہوں۔ ۔ نہیں، مجھے ایک شکار کرنا ہے۔ ۔ باتھ روم میں سانپ آگیا ہے۔ ۔ یہ کمبل نہیں ہے، شکاری کا پھندہ ہے۔ ۔
پھر وہی باتھ روم۔ ۔ سرخ ٹائلس۔ ۔ اور میرا شکار ہے۔ ۔ آنکھیں خوفزدہ ہوکر دوسری طرف کرتا ہوں۔ کمبل ایک جھٹکے سے انجلی کے اندر پہنے جانے والے لباس پر پھینکتا ہوں۔ ۔ پکڑ لیا چور۔ ۔ ہاتھ لرز رہا ہے۔ بدن میں خون کی گردش بڑھ گئی ہے۔ پاؤں کانپ رہے ہیں۔ ۔ ہاتھ میں چوہے دانی ہے____ اور اندر حرکت کرا ہوا چوہا۔ ۔ لوپکڑ لیا۔ ۔ انجلی کا کمرہ ہے۔ ۔ اس کا وارڈ روب۔ ۔ آنکھ بند کر کے کمبل کھولتا ہوں۔ ۔ اور یہ گیا چوہا۔ ۔ کمبل وہیں پھینک کر باتھ روم کی طرف دوڑتا ہوں۔ شاور چلاتا ہوں۔ ۔ آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ پانی کی تیز بوند سرپر پڑتی ہے۔ ایک ذرا سا، خیالوں کی برہنہ گپھاؤں سے باہر نکلا ہوں۔ ۔
یہ مجھے کیا ہوگیا تھا۔ ۔
میں انجلی کی آواز سن رہا ہوں۔ ۔ پاپا۔ ۔ پاپا۔ ۔
انجلی آ گئی ہے۔ ۔
پانی میں ارتعاش پیدا ہوا ہے۔ ۔ میں اپنے جسم کو نارمل ٹمپریچر پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ۔
پاپا۔ ۔ پاپا۔ ۔
انجلی بیٹی ہے۔ ۔ بیٹی۔ ۔ میری پیاری بیٹی۔ ۔ دوایکم دو۔دو دونی چار۔ ۔ بیٹی ہے۔ ۔ بیٹی ہے۔ ۔
***
’پاپا چیخ کیوں رہے تھے؟‘
’تم گئی کہاں تھی؟‘
’جاؤں گی کہاں۔ مینو سے نوٹس مانگنے گئی تھی۔‘
’مینو؟‘
’ہاں۔ وہ پڑوس والے شرما انکل کی بیٹی۔ لیکن تم چیخ کیوں رہے تھے۔ ۔ پتہ ہے۔ دروازہ رکھلا رہ گیا تھا، اس لئے ____ساری پاپا۔ مجھے خیال نہیں رہا۔ ۔
’کوئی بات نہیں،
میں مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ انجلی بیٹی ہے۔ دو دونی چار۔ ۔ دوایکم دو۔ ۔
’ایسے کیا دیکھ رہے ہو پاپا‘
’کچھ نہی‘
’نہیں۔کچھ تو ہے۔‘
’دیکھ رہا ہوں کہ اب میری بیٹا بڑی ہو گئی ہے۔‘
’تو؟ اب میری شادی کرو گے؟‘ انجلی مسکرا رہی ہے۔ یہ ایک دم سے باپ کیوں بن جاتے ہو____ اولڈ فیشنڈ۔‘ آگے بڑھ کر اس نے میرے گلے میں پیار سے اپنی بانہیں ڈال دی ہیں۔ ’تم ایک دوست ہو پاپا۔ میرے لئے۔ ۔ پاپا سے زیادہ دوست۔‘
’ہاں بیٹا‘ میں تمہارا دوست ہی ہوں۔‘
انجلی کے ماتھے پر Kissکرتا ہوں۔ ۔ ’دوست ہوں۔ لیکن تمہیں اچانک اتنا بڑا نہیں ہو جانا چاہئے تھا۔ ۔ ‘
مسز ڈھلن کے لفظ چاروں طرف سے مجھے گھیر رہے ہیں۔ ۔ ایک خاص طرح کا ساؤنڈ ایفیکٹ ECHO۔ ۔ انجلی کو دیکھ کر میں مسکراناچاہتا ہوں مگر وہی۔ ۔
۔ ۔ ہر زور ظلم کی ٹکر میں انصاف ہمارا نعرہ ہے۔
سرخ سرخ انقلاب۔ ۔
مسز ڈھلن کے بجتے ہوئے لفظ۔ ۔ ’’اس عمر میں ایک خوبصورت حادثہ لڑکی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ ۔ خوبصورت اور نہیں سمجھ میں آنے والا۔ ۔ پھر دھماکہ ہوتا ہے۔ ۔ پیریڈ۔ ۔ تیز دھماکہ۔ ۔ جیسے ایک ملک نے دوسرے پر بمباری شروع کر دی ہو۔ ۔ دھائیں دھائی۔ ۔
اپنی دنیا میں واپس آنے تک، ایک اٹ پٹا سا سوال کر دیتا ہوں۔ ۔
’تم ٹھیک تو ہو بیٹی۔ میرا مطلب ہے رات میں؟‘
’رات میں۔ ۔ ‘
’ر۔ ۔ ا۔ ۔ ت ____‘رات میرے ہونٹوں پر آ کر____ طلسم ہوش رُبا کی پتھر بنانے والی ساحرہ بن گئی ہے۔ ۔ ہاں، رات میں۔ ۔ ٹھیک ہو،نا۔ ۔ میرا مطلب ہے۔ ۔ ‘
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے رات وات میں کچھ نہیں ہوتا ہے____ دیکھو۔ میں بالکل فٹ ہوں۔‘
انجلی میرے سامنے تن گئی ہے۔
میں مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ۔ اندھیرے میں، آسمان پر چمکتے ایک پیارے سے تارے کو ’ہولے‘ سے چھولیتا ہوں۔ ۔ نہیں۔ ۔ میں بالکل ٹھیک ہوں اور صحتمند۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
(5)
کیا میں ’پرورٹیڈ ہوں؟
نہیں۔ مجھے یقین ہے____ میں پرورٹیڈ نہیں ہوں۔ میں گندے ذہن کا آدمی نہیں ہوں۔ ویسا آدمی، جیسا ہمارے ماحول میں عام طور پر 40کے بعد کے مرد ہو جاتے ہیں۔ ۔ انہیں کہیں بھی دیکھ لیجئے۔ بس اسٹاپ سے کلب اور اپنے خوبصورت دفتر کے ’رعب دار‘ کمرے میں اپنی حسین سکریٹری کو ڈکٹیشن دیتے ہوئے۔ ۔ وہ اس بات پر دل کھول کر ہنستے ہیں کہ بغیر کرسیوں والے باس کے کمرے میں، باس کے ’بیٹھ جاؤ‘ کہنے پر نئی نئی آئی ہوئی سکریٹری نے اِدھر اُدھر کرسیاں تلاش کرنے کے بعد پوچھا تھا____ کہاں بیٹھوں سر، یہاں تو کرسیاں ہی نہیں ہیں۔ ۔ ‘
وہ بہت کچھ گھر سے اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ ۔ پرانی بیوی کا اداس بستر۔ ۔ اس کے ڈھلتے جسم کی ’سدا بہار‘ جوانی____ اور پہلے جن پتھ Kissکے نان ویج لطیفے۔ ۔ جانتا تھا، یہ سب اندر کافرسٹریشن ہے اور کچھ نہیں۔ ۔ ان ڈھلتی ہوئی عمر کی پائیدان پر کھڑے مردوں کے لئے جوانی کا اشتہار، بن جانے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے۔ ۔ جسم سونے لگتا ہے تو ہونٹ بولنے لگتے ہیں اور آنکھیں زہریلی ہونے لگتی ہیں۔ ۔
لیکن۔ ۔
انجلی کی ماں کے مرنے کے بعد سے لے کر اب تک، کسی Psychiatrist یا Sexologist کے پاس جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ میں کبھی بھی گندی ذہنیت کا قائل، کبھی نہیں رہا۔ ۔ ’ڈھلان‘ پر کی ڈھلان باتیں____ نان ویج لطیفے۔ ۔ میں ان لطائف میں انجلی کی ماں کا مذاق نہیں اڑا سکتا تھا۔ ۔ عورت میرے لئے دیوی یا تقدس کی مورتی نہ سہی، لیکن لائق احترام شئے ضرور رہی، اس لئے مجھے ہمیشہ خود پرناز رہا۔ ۔ میں ان ڈھلتی عمر کے بوڑھوں میں سے نہیں ہوں۔ ۔ جواندر کچھ باہر کچھ ہوتے ہیں۔ ۔
لیکن یہ سب اچانک۔ ۔
یہ میرے لئے عمرکا ایک نیا موڑ ہے____ یار، یہ بیٹیوں میں ایک دم اچانک سے، لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں۔ ۔
’’چلئے۔ مان لیا میں پرورٹیڈ نہیں تھا۔ پھر انجلی کے اندر گارمنٹس کو دیکھ کر ڈر کیوں گیا تھا۔ ۔ ؟حواس باختہ۔ ۔ میری چیخ کیوں نکل گئی تھی____؟
بیٹی مقدس شئے ہے تو اس کے کپڑے بھی مقدس ہوئے۔ ۔ پھر۔ ۔ ؟ میں ڈر کیوں گیا تھا؟ چوہے کو جال میں چھپانے جیسا، کمبل ڈالنے کا واقعہ کیوں پیش آیا____شاید، انسانی سائیکی ابھی بھی اپنے اندر کا بہت کچھ سراغ لگاپانے میں ناکام ہے۔ ۔
مگر۔ ۔ سرخ انقلاب اور
***
’انجلی بڑی ہو رہی ہے۔ ۔ ‘
’کتنے کی۔ ۔ چودہ۔ ۔ چودہ کی ہو گئی، ناانجلی۔ ۔ ‘ مسز ڈھلن میری آنکھوں میں جھانک رہی ہیں۔ ۔ اُن کی آنکھوں میں شرارت ہے۔
’آپ کو۔ ۔ آپ کو ہشیار رہنا چاہئے سر۔‘
’کیوں؟‘
’بس‘ کہہ دیانا____ ’یہ عمر ہی ایسی ہے۔‘
’یعنی 14۔ ۔ 14کی عمر۔ ۔ ‘
’سب سے سنسنی خیز____ لڑکیوں کے لئے سب سے سنسنی خیز عمر یہی ہوتی ہے۔ ۔ اس عمر میں لڑکیاں Love Letterبھیجنا شروع کر دیتی ہیں۔ ۔
’لو۔ ۔ لیٹر____ ‘ میری سانس رک رہی ہے۔ ۔ انجلی کا چہرہ ایک پل کو، آنکھوں کے آگے دوڑ جاتا ہے۔ یہ معصوم سی بچی۔ ۔ آنکھوں کے پردے پر چھوٹے چھوٹے انجلی کے ہاتھ ہیں۔ ۔ نہیں، یہ ہاتھ محبت بھرے خط نہیں لکھ سکتے۔ ۔ ‘
’کیا سوچ رہے ہیں سر؟ مسز ڈھلن مسکراتی ہیں۔ لیکن آپ کے لئے۔ آپ کے لئے کیا غلط ہے سر۔ ۔ آپ تو اس معاملے میں بہت لبرل ہیں۔ ۔ یعنی۔ ۔ مجھے لگتا ہے، آپ اس معاملے میں بھی انجلی سے شیئر کریں گے۔ ۔ کیوں سر۔ ۔ زمانہ بدل رہا ہے۔ بس انجلی کو پھسلنا نہیں چاہئے۔ ۔ سمجھ رہے ہیں نا سر۔ بس اسی جگہ تھوڑا سا ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ۔ ‘
لیکن کیوں ضرورت ہے مجھے____؟ بڑے ہوتے ہی ہم اپنا زمانہ کیوں بھول جاتے ہیں۔ انجلی کی جگہ لڑکا ہوتا تو؟ تب تو چلا چلا کر اس کی پہلی پہلی محبت کی خوشی میں فائیواسٹار میں ڈنر دیتا۔ ۔ لوگ پوچھتے معاملہ کیا ہے؟ تو چلا کر کہتا۔ ۔ میرے بیٹے کو پہلی بار کسی سے محبت ہوئی ہے۔ ۔ میرے۔ ۔ بیٹے کو۔ ۔
انجلی کی محبت پر پارٹی کیوں نہیں دے سکتا۔ ۔ ؟
نہیں۔ انجلی لڑکی ہے۔ انجلی کو محبت نہیں کرنا چاہئے۔ لڑکیوں کے معاملے الگ ہوتے ہیں۔ مسز ڈھلن بتاتی ہیں۔ جب ان کی بیٹی سات سال کی ہوئی تھی اور مسٹر ڈھلن بہت پیار کرنے والی اپنی بیٹی کوباتھ روم سے نہلا کر____ ٹاول باندھ کر باہر لائے تھے____ تو ان کی ممی نے اسے سمجھایا تھا۔
Not, not again. اب بیٹی کو تم ہی نہلایا کرو۔
’لیکن کیوں ممی۔ وہ باپ ہے۔‘
’باپ ہے تو کیا ہوا۔ ہے تو مرد‘
مرد۔ ۔ ؟ باپ کو مرد نہیں ہونا چاہئے۔ ۔ بیٹی۔ سگی بیٹی۔ ۔ باپ کتنی کتنی باتوں سے محروم ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے۔
مسز ڈھلن نے پوچھا تھا۔ ۔
’آپ۔ آپ کیا کرتے ہیں سر۔‘
’میں انجلی کو سات آٹھ سال کی عمر تک خود ہی۔ ۔ ‘
مسز ڈھلن نے قہقہہ لگایا تھا۔ ۔ وہی۔ ۔ آپ نے کہا تھا، نا سر____ یہ بیٹیوں میں لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں____ ماں غسل دیتی ہے تو بیٹیوں میں لڑکیاں نہیں آتیں____ بیٹیوں میں بیٹیاں ہی رہتی ہیں مگر۔ ۔ ‘
مسز ڈھلن نے کتنی آسانی سے یہ سچ اگل دیا تھا۔ ۔ اور حقیقت تھی کہ انجلی کے پھیلتے جسم کے ساتھ ہی، تقدس کے رشتے نے، قدم قدم پر اپنی Limitations کی دیوار اٹھانی شروع کر دی تھی۔ ۔ یہ جوان ہوتی لڑکیوں کا جسم اچانک لاؤڈاسپیکر کی طرح چیخنے کیوں لگتا ہے۔ ۔ !
اور یہ چیخ میرے اندر اتر رہی تھی۔ ایک کمزور باپ کی آتما میں۔ ۔ کیا انجلی کسی کو لیٹر لکھ سکتی ہے۔
’نہیں۔‘
’کیوں؟‘
’بس نہیں لکھ سکتی‘
’کیوں نہیں لکھ سکتی؟‘
’اس لئے کہ میری بیٹی ہے۔‘
لیکن اس نے اگر لکھنا شروع کر دیا تو____؟ کالج ہے۔ ۔ سارا دن اکیلے رہتی ہے۔ ۔ اس نے کبھی اس بارے میں پوچھا نہیں____ وہ اپنی تنہائیاں کس کے ساتھ شیئر کرتی ہے۔ ۔ سارا دن کس طرح اپنا دل بہلاتی ہے۔ ۔ کالج میں کیا کرتی ہے۔ ۔ کالج سے کتنے بجے گھر واپس آتی ہے۔ ۔
سوچ کی رفتار رک نہیں پا رہی تھی۔ ۔
اور اس دن گھر میں داخل ہوتے ہی ایک بار پھر وہ نازیبا واقعہ رونما ہوگیا تھا____
 

الف عین

لائبریرین
(6)
وہ اپنے کمرے میں تھی____ وارڈ روب کے، ہینگر میں لپٹے کپڑے اس کے بستر پر پھیلے تھے____ مجھے سامنے دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی____ اس نے اپنے ہاتھوں کو اچانک پیچھے کر لیا تھا۔ ۔ چھپا کر۔ ۔ مسزڈھلن کے لفظ میرے اندر چیخ رہے تھے۔ ۔
’کیا۔ ۔ کیا بات ہے پاپا۔ ۔ ‘
وہ چوکنّا تھی____ اس کی نظریں مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھیں۔‘ یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟‘
’کچھ نہیں۔‘
’کچھ نہیں کچھ۔ ۔ لاؤ دکھاؤ۔‘
’نہیں پاپا۔ ۔ ‘
’دکھاؤ۔ ۔ ‘
’میں نے کہہ دیانا، کچھ نہیں ہے پاپا۔‘
’پھر چھپا کیوں رہی ہو۔‘
بس ایسے ہی۔
’لاؤ دکھاؤ، میں غصّے کا مظاہرہ کرتا ہوں۔ وہ بستر سے چھلانگ لگاتی ہے۔ ۔ یقینا لولیٹر۔ ۔ اشا رہ سے دکھانے کو کہتا ہوں۔ وہ پیچھے دیوار کی طرف، میری طرف منہ کئے ہٹتی ہے۔ ۔
’نو۔ ۔ نوپاپا۔ ۔ کچھ نہیں ہے۔ آپ جاؤ۔ ۔ ‘
’نہیں۔ ۔ لاؤ۔ ۔ ‘
اور۔ ۔ اب دیوار ہے۔ وہ پیچھے نہیں جاسکتی۔وہ دیوار کے پار نہیں ہوسکتی۔ میں چیختا ہوں____ اور وہ چور خط میرے سامنے کھول دیتی ہے۔ ۔ انجلی کی آنکھیں بند ہیں۔ بدن تھر تھر کانپ رہا ہے۔ کھلے ہوئے ہاتھوں پر اس کی ’برا‘ اچانک سانپ کے پھن کی طرح میرے سامنے تن جاتی ہے۔ ۔
’نہانے جا رہی تھی۔ ۔ ‘
’کیا۔ ۔ ؟‘
وہ اچھلی۔ ۔ باپ کے سامنے جوان ہوتی عمر کے چغلی کھانے کا احساس اُسے اچھا نہیں لگا تھا____ انجلی نے برا کو پھر سے مٹھیوں میں جکڑ لیا تھا اور باتھ روم بھاگ گئی تھی۔ ۔
***
میں سرتا پالرز رہا تھا۔
اس کی کھلی مٹھی میں جگنو نہیں تھے____ تارے نہیں تھے____ محبت بھرے خط نہیں تھے۔ ۔ دھماکہ تھا۔ ۔ اشتعال تھا۔ سنسنی خیزی تھی۔ ۔ وہ شئے تھی، جس کے احساس سے ذہن، بدن کے خطوط ناپنے لگتا ہے۔ ۔
انجلی کی کھلی مٹھیاں۔ ۔ انجلی کی بند آنکھیں۔ ۔ پھر انجلی کا اچھل کر بھاگنا۔ ۔
یہ۔ یہ کیا ہوگیا۔ ۔ کیا سمجھا ہوگا انجلی نے۔ ۔ کتنا Guilt محسوس کیا ہوگا۔ ۔ اس کا ذہن تناؤ کا شکار ہے۔ رگیں پھٹ رہی ہیں۔ ۔
میزائلیں مسلسل چھوٹ رہی ہیں۔ ۔
بدن۔ بارش۔ شاور۔ ۔ اور کھلی ہوئی ہتھیلیاں ____اور کھلی ہتھیلیوں کا چور____
مجھے کچھ کرنا ہوگا۔ اپنے آپ کو شانت کرنے کے لئے مجھے کچھ کرنا ہوگا۔ ۔
لیکن کیا کرنا ہوگا۔
انجلی۔بدن۔ بارش۔شاور اور کھلی ہتھیلیوں کا چور۔ ۔ مجھے کچھ کرنا ہوگا۔ ۔
واتسائن اور انجلی
انجلی اور وانسیائن۔ ۔
مجھے کچھ کرنا ہوگا____
ٹہلتا ہوں۔ تیز تیز سانسوں کو دل کے کبوتر خانے میں جکڑنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ۔ سانسوں کی لہروں کو سمجھاتا ہوں۔اتنا تیز مت بہو۔ ۔
کیوں۔ ۔
مت بہواتنا تیز۔ ۔
انجلی بیٹی ہے۔ دوایکم دو۔ دودونی۔ ۔ انجلی بیٹی ہے۔ ۔ ٹہلتے ہوئے انجلی کی میز تک آگیا ہوں۔ ۔ کتنی گندی ہو رہی ہے یہ میز۔ کتابیں بکھری پڑی ہیں۔ ۔ یہ آنکھیں____ ان کتابوں پر جمانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ۔
فزکس۔کیمسٹری۔ الجبرا۔ ۔
موٹی موٹی کتاب کے صفحات میرے ہاتھوں کا لمس جذب کرتے ہیں۔ کتنی مدت ہو گئی۔ انجلی کو ساتھ پڑھانے بھی نہیں بیٹھا۔ کبھی پوچھا بھی نہیں۔ دسویں پاس کرنے کے بعد کیا لیا۔ ۔ سائنس یا آرٹس____ بس کالج اور ٹیوشن کے پیسے دیتا ہوں۔ ۔ اور یہ کتابیں____ فزکس۔ کیمسٹری۔ الجبرا۔ ۔ میز کتنی گندی ہو رہی ہے۔ روشنائی بھی گر گئی ہے۔ میز صاف کر رہا ہوں____ فزکس، کیمسٹری۔ ۔ الجبرا۔ ۔
انجلی کی کھلی ہتھیلیاں اور بند آنکھیں ذہن کی Retina پر Freeze ہو جاتی ہیں۔ انڈرگارمنٹس۔ پینٹی، برا اور ۔ ۔ فزکس۔کیمسٹری۔ ۔
پینٹی برا۔ ۔
فزکس، کیمسٹری۔ ۔
کتابوں کو قرینے سے سجا رہا ہوں۔ ۔
یہ انجلی کی کتابیں ہیں اور وہ۔ ۔ انجلی کے انڈرگارمنٹس۔
فزکس، کیمسٹری، الجبرا۔ ۔
پینٹی اور برا۔ ۔
میں وہیں کرسی پر بیٹھ گیا ہوں____ ان میں فرق کیا ہے۔ کتابوں میں اور کپڑوں میں۔ دونوں انجلی کے ہیں۔ ۔
انجلی میری بیٹی ہے۔ ۔
کتابیں میز پر سجا سکتا ہوں تو بیٹی کے انڈرگارمنٹس چھوتے ہوئے بدن میں زلزلہ کیوں آ جاتا ہے۔ ۔
مقدس باپ کے ذہن میں کہیں کوئی ایک چور دروازہ بھی ہوتا ہے کیا۔ ۔ ؟
اس چور دروازے سے ہوکر بیٹی لڑکی کیوں بن جاتی ہے۔ ۔
فزکس۔ ۔ کیمسٹری۔ ۔
کیمرہ پین ہوتا ہے____ سرخ ٹائلس۔ باتھ روم۔ ۔ باتھ روم کی دیواریں۔ سرخ بیسن۔ باتھ ٹب۔ ۔ ایک بار پھر شاور کے پاس ہی ہینگر سے جھولتے انجلی کے انڈرگارمنٹس۔ ۔ پینٹی اور برا۔ ۔ فزکس، کیمسٹری۔ ۔ الجبرا۔ ۔
مڈشاٹ ____کلوز میں، میں ہوں۔ میں نے ہاتھ بڑھا دیا ہے اور یہ کیا____ میرے ہاتھوں سے سانپ کے پھن غائب ہو گئے ہیں۔ ۔ کلوز میں میرا ہنستا ہوا چہرہ۔ ۔ ڈیزالو۔ ۔
انجلی کپڑے بدل کر کمرے میں آ جاتی ہے۔ ۔ سجی ہوئی میز کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکراتی ہے۔ ۔
I am proud of you, my papa ____ تم نے میری میز صاف کر دی۔
’کیوں؟‘ اس میں Proud کی بات کیا ہے؟‘
’ہے کیسے نہیں؟‘
’کیسے____ ؟‘
’میری سہیلیوں کے پاپا ایسا نہیں کرسکتے۔ ‘
’کیوں نہیں کرسکتے۔‘
’بس نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ وہ میرے پاپا نہیں ہیں۔
وہ اُچھل کر اپنی بانہیں میرے گلے میں حمائل کرتی ہے۔ I love you papa
’فزکس، کیمسٹری۔ ۔ الجبر۔ ۔ ‘
میں مسکراتا ہوا، اس کو اپنی بانہوں میں لیتا ہوں____
انجلی میری بیٹی، تم اپنی ماں سے کتنی ملنے لگی ہو۔‘
’ماں سے؟‘ وہ ہنستی ہے____ ’’مسکراتی ہے۔ اسی لئے پیار ہو رہا ہے۔ کیونکہ مجھ میں ماں آ گئی ہے۔ ‘‘
انجلی پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی ہے۔ ۔ وقت نے یہ منظر یہیں فریز کر دیا ہے۔ ۔
***
 

الف عین

لائبریرین
(I)
وہ چپ چاپ اس بات کا اعتراف کر لیتا تھا ۔ ۔ ’’ہاں،میرے فریج میں ایک عورت ہے‘‘۔
۔ ۔ فریج میں عورت؟‘
۔ ۔ ’کیوں۔عورت فریج میں نہیں ہوسکتی۔ میں جب چاہوں، اسے فریج سے باہر بلالیتا ہوں۔کمرے میں یار، اس کے ساتھ ہنستا ہوں۔ باتیں کرتا ہوں۔ دل بہلاتا ہوں۔‘
***
فریج والی عورت پہلی بار اس کے کمرے میں کب آئی یا اس کے کمرے نے پہلی بار فریج کا منہ کب دیکھا، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ ۔ ممکن ہے آپ اس کہانی پر کچھ زیادہ یقین بھی نہ کریں، یا یہ کہانی آپ کو بے وقوفی سے بھری ہوئی ایک من گھڑنت کہانی نظر آئے۔ تسلیم! اس کے باوجود میں کہوں گا آپ اس کہانی کا مطالعہ ضرور کریں۔ ۔
بہار کے موتیہاری ضلع کے رہنے والے نربھے چودھری کو دلّی میں جگہ کیا ملی، قسمت کھل گئی۔ عام طور پر مہانگرمیں آنے کے بعد آنکھیں چوندھیا جاتی ہیں۔ مگر نربھے چودھری کا رویہ دوسرا تھا۔
’’کا ہے، موتیہاری اب کم ہے کا۔ ارے اب یہاں بھی شوٹنگ ہوتی ہے۔ بڑے بڑے ہیرو ہیروئین آتے ہیں۔‘‘
ان دنوں موتیہاری میں شول فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی، اور نربھے چودھری کے اپنے لفظوں میں۔ ۔ ’’یار روینہ کو تو دیکھے کے ہم پگلئے۔ ۔ گئے۔ ۔ ‘‘
آپ مانیں یا نہ مانیں، ہر آدمی کے دماغ کے اندر ایک رنگین گلیمر کی دنیا ہوتی ہے ۔ سویہ دنیا ہمارے ہیرو نربھے چودھری کے ذہن میں بھی موجود تھی۔ ۔ غلط پہاڑا رٹنے کی باری تب آئی جب اپنے نربھے چودھری کو کچھ دنو ں تک جے این یو یعنی جواہر لال نہرو یونیورسٹی رہنے کا اتفاق ہوا۔ پیسوں کی تنگی ہوئی تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کمپیوٹر میں گھس گئے۔ ۔ کمپیوٹر کے آئیں۔بائیں۔ شائیں، بٹنوں پر کمانڈ نہیں ہوا تو، ائیرکنڈیشن، والوں کو جوائن کر لیا۔ ۔ ائیرکنڈیشن کی ٹھنڈک برداشت نہیں ہوئی تو واشنگ مشین بنانے والی ایک نئی کمپنی میں سلیس مین ہو گئے۔ یہ نوکری بھی نہیں پچی تو کچھ دنوں تک ٹیوشن پڑھانے کا کام شروع کیا۔ ۔ یہاں تک کہ ساؤتھ ایکس جیسی پاش کالونی میں ایک لڑکی کو پڑھانے کا کام مل گیا۔ آخر ایم اے پاس تھے۔ لیکن ’بہاری‘ میں انگریزی بولنے کی وجہ سے ، یہ ’’ریسپیکٹیڈ‘‘ کام بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ ۔ ان کی دقّت یہ تھی کہ:۔ ۔
’’ایاں لوگ انگریزی نہیں جانتے ہیں نا۔ بڑبک۔ ہم کو بہاری کہتے ہیں۔ بتائیے بہار کوئی انڈیا سے باہر کا ہے۔؟ بڑے قابل بنتے ہیں۔ ارے ہم جو انگریزی بول دیں گے۔ ای کا بولیں گے۔ گاندھی جی بھی موتیہاری گئے تھے۔ پتہ ہے۔‘‘
ڈھنگ کی نوکری کیا ملتی، چپل گھستے گھستے دور درشن کے لئے سیریل بنانے والے پروڈیوسر اجے گوسوامی سے ملاقات ہو گئی۔ کریٹیو ریلس۔ ۔ بن گئے۔ کریٹیو ریلس کے پروڈکشن منیجر۔ ویزیٹنگ کارڈ بھی چھپ گیا۔ جمنا پار علاقے میں سستے ریٹ پر ایک چھوٹا سا کمرہ بھی مل گیا۔
توگلیمر کی جو رنگین سی دنیا کبھی فلم ریل کی طرح ذہن کے پردے پر چلتی تھی، اب آنکھوں کے سامنے تھی۔ ۔ شوٹنگ، ایکشن، کٹ، لائٹس، لڑکے، لڑکیاں۔ ۔ اور مزے کی بات یہ، کہ چاروں طرف دوڑتے ہوئے ہمارے نربھے چودھری۔ کہیں اکڑتے ہیں۔ کسی لائٹ والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے باتیں کرتے ہیں۔ کبھی ’’ہیروئین‘‘ کے سامنے ٹھمکا لگاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
کچھ چاہئے تو نہیں آپ کو۔ ۔ ؟
ہیروئین مسکراکر پوچھتی۔ ’آج آپ بڑے خوش نظر آ رہے ہیں۔‘
جو اب ملتا۔ ’آپ کو دیکھ کر کون خوش نہیں ہوگا۔‘
’ہوs s ہو‘۔ ۔ ہیروئین قہقہہ مار کر ہنستی۔ ۔
پیک اپ کے بعد جب چار یار شراب کی بوتلیں کھول رہے ہوتے، تو یہ باتیں ایک دم سے فنٹاسی کی طرح نربھے چودھری کو پاگل بنادیتی____ عورت۔ ۔ سیکس۔ ۔ سچویشن۔ یہاں گفتگو میں صرف اور صرف عورتیں ہوتیں۔ چور دروازے سے دل میں داخل ہونے والی عورتیں۔ ۔ ان عورتوں کو لے کر ہزاروں قصّے تھے ____اور ایسا ہر قصہ نربھے چودھری کو زخمی کرجاتا تھا۔
***
رات گئے شوٹنگ کے خاتمے کے بعد نربھے چودھری جب اپنے کمرے میں پہنچتے تو خالی کمرے کا اندھیرا انہیں ڈسنے لگتا۔ ۔ گفتگووالی عورتیں۔ ۔ تنہائی اور خاموشی کی بین کی آواز پر ناگن جیسی لہرانے لگتیں۔ ۔ بین کی آواز تیز ہوتی جاتی۔ پھر یہ ناگ ناگن تیز تیز لہراتے ہوئے ایک دم سے نربھے چودھری کے جسم میں داخل ہو جاتے۔ کافی دیر بعد جب اندر کا طوفان تھم جاتا تو نربھے چودھری کو لگتا۔ ۔ اس کی زندگی میں ایسی ہریالی کب آئے گی؟ کب تک عورت کے بغیر رہنا ہوگا۔
***
اجے گوسوامی۔ ۔ نربھے چودھری کی نگاہ میں دنیا کا سب سے خوش قسمت آدمی تھا۔ آخر کو پروڈیوسر تھا۔ لڑکیاں اس سے چپکی رہتی تھیں۔ زندگی ہو تو ایسی، نربھے چودھری کو، اجے گوسوامی یعنی اپنے ہونہار آقا پر رشک آتا تھا۔ ۔
لیکن بھائی، پیٹ کا اپنا ’اتہاس‘ ہے۔ ۔ اور کبھی کبھی جب پیٹ کا جغرافیہ بگڑتا ہے نا، تو حالت بڑی بے رحم ہو جاتی ہے۔ کہنے کو تو نربھے چودھری فلمی دنیا کے آدمی بن گئے تھے، مگر اصل میں تھے کیا خاک پتی۔ ۔ نہ لاکھ پتی۔ ۔ نہ ہزار پتی۔ بک بک جھک جھک کے بعد تو اجے گوسوامی کی گانٹھ سے بندھے ٹکے دو۔چار۔ پانچ سو روپے نکلتے تھے____ ’کیا کہوں بھائی۔ دوردرشن کی حالت خراب ہے۔ ٹونٹی پرسنٹ تک دینے کو تیار نہیں۔ اب تم لوگوں کو دوں تو کہاں سے دوں۔ ۔ ‘
یہ الگ بات ہے کہ پروڈیوسر کو دھکا دھک ٹریپل فائیو پینے کے پیسے مل جاتے تھے۔ ۔ کبھی کبھی نربھے چودھری عجیب عجیب حساب لگاتا۔ ایک آدمی کے کھڑے ہونے میں کتنے پیسے درکار ہیں؟ شادی کرنے میں کتنا خرچ بیٹھے گا؟ شادی کے بعد کے خرچ میں کیا ہوں گے؟ اور اگربچے آ گئے تو؟ یعنی کم پیسے میں ایک ایسی دنیا جسے طے کرنے میں قطب مینار کی بلندی تک کے فاصلے پسینے نکال دیتے تھے۔ ۔ ’نابھائی۔ ۔ وہ ساری زندگی شادی نہیں کرسکتے۔ نانو من تیل ہوگا، نارادھا ناچے گی۔ ۔ ‘
نربھے چودھری گھبرا جاتے تو اجے گوسوامی کے بیڈروم میں منڈرانے والی لڑکیاں چپکے چپکے ان کے دل ودماغ پر قبضہ کرنے بیٹھ جاتیں۔ ۔ ہری ہری لڑکیاں۔ آسمان سے اتری ہوئی پریاں۔ ۔ جیسے ایک دھند ہوتی ہے۔ ۔ جیسے اس گھنی دھند میں کچھ بھی آگے پیچھے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا ہے____لیکن نربھے چودھری اپنی پریشانی کی کینچلی اتارتے ہوئے دھند میں چپکے چپکے اتر جاتے۔
***
گھر سے خط آ رہے تھے۔ پیسے چاہئیں۔ اجے گوسوامی سے ڈرتے ڈرتے پیسے مانگے تو ناراض ہو گئے۔ ’’پیسے کیا ڈال میں پھلتے ہیں‘‘
نربھے چودھری کے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی۔ لہجہ کمزور ہوا۔ ۔ دھیرے سے بولا
’’ڈال میں تو نہیں۔ لیکن ہمارے بنتے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے۔‘‘
اجے گوسوامی نے ایک پل کو انہیں دیکھا۔ پھر ٹھٹھا کر ہنسے۔
’کتنے دن سے شیونہیں بنایا ہے؛ وہ پھر ہنسے۔ ۔ پروڈکشن میں ہو۔ ایسے چہرہ بگاڑکر رہو گے تو لڑکیاں گھاس نہیں ڈالیں گی۔ سنو، تم کہہ رہے تھے کہ ٹھنڈے پانی کی تکلیف ہے۔ کہہ رہے تھے نا؟
***
گودریج کمپنی کا ایک پرانا سا فریج اس نے ڈرائنگ روم کے پاس والے کباڑ خانے میں دیکھا تھا۔ ایک دم علاء الدین کے چراغ جیسا۔ ۔ کبھی کبھی اس میں بوتلیں بھی رکھی دیکھی تھیں۔ ۔ دو ایک بار اس نے خود اس میں سے بوتل نکال کر پانی پیا تھا۔ خشک گلے کو تر کیا تھا۔ اسے یاد آگیا۔ اجے گوسوامی اسے ٹٹولتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
’اچھا فریج ہے۔ پینٹ کرالوتو کوئی مانے گا نہیں کہ سترہ ہزار سے کم کا ہے۔صرف اندر کی لائٹ نہیں جلتی۔ ۔ ’ڈھبری؛ ڈھبری کہتے ہونا۔ وہ پھر ہنسے۔ ۔ مگر کیا روشنی میں موم بتی ڈھونڈنا ہے۔ ۔ ارے کھانا رکھو۔ چار دن بعد کھاؤ۔ تازہ ملے گا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پیو۔برف جماؤ۔ شربت لسیّ بناؤ، کیوں، فریج چاہئے۔ ۔ ؟‘
اور اس طرح علاء الدین کے چراغ جیسی وہ فریج کب کیسے، نربھے چودھری کے کمرہ میں آ گئی، اس واقعہ کا ذرا تاریخ یاد نہیں ہے۔ لیکن فریج ان کے کمرہ نما دنیا میں آ چکی تھی اور یہیں سے اس کہانی کی شروعات ہوئی تھی۔ ۔ جس نے نربھے چودھری کے مکمل وجود کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
(2)
بہت پیچھے چھوٹا ہوا ایک گھر۔ ۔ گھر کے کسی تنگ کمرے اور تنگ کمرے کے کسی گرد آلود طاقچے پر رکھی ہوئی کچھ آدھی ادھوری خواہشیں۔ ۔ مٹی کے مرجھائے پودے والے گملوں میں رکھے ہوئے کچھ خواب۔ ۔ شہر کی تنگ ویران گلیوں میں، اب اکیلے مٹر گشتی کرنے والے دوستوں کی جماعتیں۔
گھر سے چٹھی آتی تو جیسے یادوں کا ایک کارواں چل پڑتا۔ ۔ اور جیسے سب نربھے چوھدری کو گھیر کر بیٹھ جاتے۔ ۔ ’’وہاں موتیہاری میں سب کچھ چھوڑ کر آئے ہو۔ ہیاں تیر مار لیا؟
نربھے چودھری کو پرچھائیاں گھیر کر بیٹھ جاتیں۔ ۔
اس دن گھر سے پھر چٹھی آئی تھی۔ ۔ چٹھی میں ایک ماں کا خواب بند تھا۔ ۔ وہی پرانی داستاں کے بوسیدہ صفحے۔ ۔ باپ ریٹائر ہو رہا ہے۔ بہن جوان ہے۔ ۔ فکر کے چھوٹے چھوٹے طاقچوں سے گزرتے مسئلے۔ ۔
نیند نہیں آ رہی تھی نربھے چودھری کو۔ ۔
آسماں کے نیلگوں پردے پر رات بکھر چکی تھی۔ اچانک کمرے میں سرسراہٹ سی ہوئی۔ ۔ پہلے چھم سے کوئی پائل بجی۔
نربھے چونک گئے۔ ۔ کون؟
نقرئی سا قہقہہ گونجا۔
نربھے چودھری اچھل گئے۔
’کون۔؟‘‘
’’میں۔ ۔ میں ہوں‘‘
وہاں روشنی تھی۔ روشنی کے دائرے میں ایک بلا کی قیامت کھڑی تھی____ قیامت کے بدن پر کپڑے بھی قیامت کے تھے۔ چہرہ ایسا کہ خوبصورتی نے اپنی حدوں کو چھولیا ہو۔ ۔ ’بس اس سے زیادہ نہیں‘____بدن کے نقوش اتنے تیکھے کہ دنیا کی ساری حسین عورتوں کے بدن بھی شرما جائیں____ کپڑے اتنے باریک کہ شاہی مخمل و کمخواب کے خزانے بھی ماند پڑ جائیں۔
اپنے نربھے چودھری خاصہ ہکلا رہے تھے۔
____’کہاں۔ ۔ کہاں سے آئی ہو؟‘
____’وہاں۔ ۔ فریج سے!‘
____’فریج سے؟‘
____’ہاں۔ ۔ ‘
____’کیوں۔ ۔ ؟‘
____’کیوں!‘ عورت کے ہونٹوں پر بلا خیز تبسم تھا۔ ۔ ’بوتل سے جن آسکتا ہے فریج سے عورت نہیں آسکتی؛
____’لیکن کیوں آئی ہو؟‘
جواب میں عجیب سی بے تکلفی شامل تھی۔
____’تمہارے لئے؛
____’میرے لئے!‘
____’ہاں۔ تمہارے لئے‘
یقینا وہ دنیا کی سب سے خوبصورت مسکراہٹ تھی جو اس کے ہونٹوں پر سجی تھی۔
۔ ۔ ’صرف تمہارے لئے‘
۔ ۔ ’مجھے۔ ۔ یقین کیوں نہیں ہو رہا ہے‘‘
____’پاگل ہو، فریج والی عورت ہنسی۔ دیکھو میں صرف تمہارے لئے ہوں۔‘
۔ ۔ تو کیا میں تمہیں چھو سکتا ہوں____؟
نقرئی قہقہہ پھر گونجا____ ’دریا سے صرف قطرے کی تمنا رکھتے ہو۔ ۔ ارے آگے بڑھو۔ میں تمہاری ہوں صرف تمہاری۔ ۔ ‘‘
اس نے ہلکی سی انگڑائی لی۔ ۔ کمرے میں یوں ہلچل ہوئی جیسے آندھی سے گھر کی کھڑکیاں۔ دروازے ہلنے لگے ہوں۔ یقینا یہ ایک توبہ شکن انگڑائی تھی۔ ۔ سرخ پھولے ہوئے ہونٹ۔ ۔ لمبی گردن۔ ۔ کپڑوں سے انگاروں کی بارش کرتا ہوا نوخیز بدن۔ ۔
وہ والہانہ طریقے سے ہنسی۔ ۔ ’’بڑھو،نا۔ ۔ آگے بڑھو۔ ۔ ‘‘
اور ایک جھٹکے سے اس نے کپڑوں کے ہوک کھول دئے تھے۔ ۔ اندھیرے کمرے میں روشنی کے گول دائرہ کے بیچ ایک برہنہ جسم دعوت نظا رہ دے رہا تھا۔
’’یار! یہ صرف تمہارا ہے۔ ۔ دریا سے صرف قطرے کی توقع رکھتے ہو۔ ۔ !‘‘
نربھے چودھری کے بدن میں لرزش ہوئی۔ جسم میں ایک طوفان سا آیا۔ شریانوں میں خون کے گرم گرم لاوے دوڑ گئے۔ تو کیا یہ کوئی خواب تھا۔ مگر نہیں۔ ۔ وہ مجسم سامنے کھڑی تھی۔ ۔ اور ایسا تو بہ شکن، پُرکشش بدن انہوں نے کبھی خوابوں خیالوں میں بھی نہیں دیکھا تھا۔
پھر جیسے چاند کی کشتی میں ہلچل ہوئی۔ ۔ اور کشتی چاند کی برفیلی سطح کو پگھلاتے پگھلاتے دھند کی سرنگ میں ڈوب گئی۔ ۔
وہ ہوش میں آئے تو سانس تیز تیز چل رہی تھی۔ ۔ کپڑے ادھر ادھر بکھرے تھے۔ ۔ عورت غائب تھی۔ ۔ فریج کا دروازہ بند تھا۔ ۔ مگر، کمرے میں ایک عجیب سی خوشبو پھیلی تھی۔ ۔ اور اس سے بھی زیادہ بدن ایک عجیب سی لذت میں ڈوبا ہوا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
(3)
’’سنو یہ کیا کہہ رہا ہے۔‘‘ اجے گوسوامی زور زور سے قہقہہ لگا رہے تھے۔ ۔ ’نہیں بھائی، مجھے۔ ۔ مجھے مت روکو ۔ ۔ ہنسنے دو۔ ۔ یعنی کہ فریج میں عورت۔ ۔ فریج میں۔ ۔ اور کہیں نہیں ملی ss ہو s۔ ۔ ہو ہو sss۔ ۔ یعنی کہ چوکی کے نیچے، نہیں، ٹب کے اندر نہیں۔ ۔ ssانٹرنیٹ کی عورت سنی ہے ssٹیلی فون کال والی عورت کے بارے میں سنا ہے۔ نمبر ملایئے مستی بھری باتیں کیجئے۔ ۔ یہ سب ٹھیک۔ ۔ مگر فریج میں، ہو ہو؟ یار تم سچ مچ پگلا گئے ہو۔ ۔ s
اجے گوسوامی کے ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے لوگوں نے بھی ٹھہاکہ لگایا۔ اس وقت ان کے گھر نئی اسکرپٹ کو لے کر میٹنگ چل رہی تھی۔ نربھے چودھری نے بس یونہی دریافت کیا تھا۔ ۔ یار فریج ٹھیک سے کام کر رہا ہے نا؟
’کام کیا کر رہا ہے۔ ۔ فریج میں عورت آ گئی ہے۔‘
نربھے چودھری کے منہ سے یہ جملہ نکل تو گیا لیکن ماحول پر جیسے اس جملے کا پہلی بار میں کوئی اثر نہیں ہوا۔ اجے گوسوامی رائٹر کے ساتھ اسکرپٹ کی بات چیت میں لگا رہا۔ ہاں پاس بیٹھے آدمی نے چٹکی لی۔
’’نربھے جی! شادی نہیں کرو گے تو فریج میں عورت ہی رہے گی۔ سامان تو نہیں رہیں گے نا۔ ۔ ‘‘
’’اب لو جیسے ہم جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ عورت آ گئی ہے تو سامان کہاں رکھیں بھائی۔‘‘
اجے گوسوامی نے ڈانٹا۔ ۔ ’’اپنا بہاری غصہ یہاں مت دکھاؤ۔ ۔ کہہ دیا نا، پیسے مل جائیں گے۔ ۔ شوٹنگ شروع ہونے والی ہے۔ تم آرٹ ڈائرکٹر، سیٹ ڈیزائنر، کسٹیوم، میک اَپ مین، کی ڈیٹل تیار رکھو۔ ۔ اور ہاں۔ وہ رائٹرکی طرف دیکھتے ہوئے ہنستے تھے۔ ’’شادی کرلو۔ ۔ کہو تو اس سیریل کی ہیروئین سے کروادیں۔ کیوں؟‘‘
رائٹر نے بھی ٹھہاکہ لگایا۔ ’’پھر فریج سے عورت نہیں آئے گی۔‘‘
’’آپ سمجھتے ہیں کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔ پیسہ مانگنے کے لئے اپنی جھنجھلاہٹ دکھا رہے ہیں۔ سمجھئے۔ ۔ آپ کی مرضی۔ ۔ لیکن ہم جھوٹ نہیں بول رہے ہیں۔ ہنمان جی۔ ۔ جے بجرنگ بلی، جس کی چاہیں قسم لے لیجئے۔ وہ عورت تھی۔ ہاڑمانس کی عورت، ارے، پری لوک میں ایسی کیا عورت ہوگی۔ جو وہ تھی۔ ۔ ہم تو آواز سنتے ہی سکپکا گئے۔‘‘
کمرے میں ہنسی کا دورہ پڑا۔ ۔
ایک آواز ابھری۔ ۔ ’پھر وہ فریج کھول کر آپ کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔‘
’ہاں ایسا ہی ہوا۔ بالکل ایسا ہی۔ ۔ ‘
’پھر تو آپ نے۔ ۔ ‘
اس کے بعد ہنسی کے دورے نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔
’’ہنسئے آپ لوگ۔ ہنسئے۔ میرے پاس بے کار کا وقت نہیں ہے۔ آپ کی ہنسی میں شریک ہونے کے لئے۔ ۔ میں جا رہا ہوں۔‘‘
نربھے چودھری غصّے کے عالم میں ہنسی ٹھہاکہ کے بیچ کمرے سے باہر نکل گئے تھے۔
مگر۔ ۔ جاتے کہاں؟
ذہن سائیس سائیں کر رہا تھا۔ کیا سچ مچ رات جو کچھ ہوا وہ خواب نہیں تھا۔ ۔ فریج میں سے عورت۔ ۔ جیسے آسمان سے دودھیا چاند، خاموشی سے ایک رات آپ کے ساتھ رہنے کے لئے آ جائے۔ ۔ نہیں نربھے چودھری، وہم ہوا ہے تمہیں۔ ۔ وہم۔ ۔ !
***
نربھے شام گئے تک آوا رہ سڑکیں ناپتے رہے۔ سڑکوں پر ناچتی تتلیاں۔ ۔ لیکن فریج والی تتلی۔ ۔ شام کے گھنے سائے پھیل گئے تھے۔ ڈھابے میں کھانا کھایا۔ ۔ تب تک رات کے نو بج چکے تھے۔ اب ایک ہی منزل تھی، گھر____ پھر وہی راستے۔ ۔ وہی کمرہ۔ ۔ وہی تنہائی۔ ۔ مگر۔ ۔
دروازے کا تالا کھولتے تک، نئے احساسوں والا کپڑا بدل چکے تھے نربھے چودھری____ کیوں؟ اس کا جواب نہیں دے سکتے تھے۔ بس دروازے۔ ۔ اور تالا کھولنے تک کوئی پختہ ذہن کا آدمی ان کے اندر سما گیا تھا۔ کہیں سے خوشبو کا تیز ریلا اٹھا تھا۔ ایک جانی پہچانی سی خوشبو۔ ۔ یہ خوشبو ان کے پورے جسم، پورے وجود کو معطر کر رہی تھی____ لیکن کیوں؟ دل دھڑک رہا تھا۔ اس طرح کی بے چینی سے پہلے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا____ اور یہ سب کل ملا کرایسا تھا، جیسے ابھی حال میں ان کی شادی ہوئی ہو۔ گھر پر نئی نویلی دلہن انتظار کر رہی ہو۔ ۔
وہ دروازہ کھول کر اندر گئے اور جیسے سہم گئے۔ ۔ چھناکہ سا ہوا۔ ۔
کمرے میں روشنی تھی۔ بتی جلی ہوئی تھی۔ ایک خالی میز جو کافی دنوں سے بیکار پڑی تھی۔ صفائی کر کے اسے سنگھار میز میں بدلاجاچکا تھا۔ کمرے میں جیسے عطر کا چھڑکاؤ ہوا تھا۔ نیا بستر۔ ۔ نئی چادر، چادر پر خوشبو دیتے پھول بھی بکھرے تھے۔ سنگھار میز کے پاس وہ دنیا جہاں سے بے نیاز اپنے سنگھار میں یوں ڈوبی تھی، جیسے نئی نویلیاں دلھے کے آنے کے انتظار میں دنیا جہاں سے بے خبر ہو جایا کرتی ہیں۔
اس نے نظر اٹھائی۔ مسکرائی____ کان کے جھمکے کی کیل درست کی۔ ۔ آئینے میں فخر سے اپنا چہرہ دیکھا۔ ۔ پھر جیسے جل ترنگ کو دھیرے سے چھوڑ دیا گیا ہو۔ ۔ !
۔ ۔ ’آ گئے تم؟‘
۔ ۔ ’میں۔ ۔ ‘ نربھے پسینے پسینے تھے۔ ۔
۔ ۔ ’ہاں تم۔ ۔ تم‘
وہ آہستہ سے ہنسی۔ ۔ جسے موسیقی سناتی لہروں کو، موسیقار نے اچانک ایک نئی دھن دے دی ہو۔ ۔ وہ آگے بڑھی۔ ۔ آج اس نے ریشمی ساڑی پہن رکھی تھی۔ ہلکی، آسمانی رنگ کی۔ ۔ اس پر سانولی دھوپ کے رنگ کی لکیریں جھلملا رہی تھیں____ اس سے میچ کرتا بلاؤز تھا۔ ۔ وہ اس کے بلکل قریب آ کر ٹھہر گئی۔ ۔ اتنے قریب کہ وہ اس کے سانسوں کے سرگم سن سکتا تھا۔ ۔ اتنے قریب کے وہ دھڑکنوں کا حساب لگا سکتا تھا۔ ۔ وہ ہنس رہی تھی۔ ۔
۔ ۔ کیا آج بھی تمہیں سب کچھ خواب سا لگ رہا ہے۔
۔ ۔ ہاں!
۔ ۔ ’پاگل ہو۔ ۔ دیکھو۔میں کتنی دیر سے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ کہہ سکتے ہو، یہ وہی کمرہ ہے جہاں تم رہتے تھے۔‘
۔ ۔ نہیں!
۔ ۔ ’وہ پینٹنگس دیکھی؟‘
۔ ۔ ’پینٹنگس؟‘
۔ ۔ ’’ہاں، وہ ہنسی۔ ۔ وہ دیکھو۔ ۔ ’ناریوفو‘، کی پینٹنگس۔ ۔ خواب دیکھتی عورت کے ہاتھ میں ایک مرا ہوا بچہ۔ ۔ ‘‘
۔ ۔ بچہ مر کیوں گیا ہے؟‘‘
میں نہیں بتاؤں گی۔ تم بولو۔ ۔ میں تو فریج سے آئی ہوں اور یہ پینٹنگ تمہاری دنیا، تمہارے لوگوں کے لئے ہے۔ ۔ لیکن سچائی یہی ہے کہ عورت خواب دیکھ رہی ہے اور بچہ۔ ۔ بچہ مرچکا ہے۔ ۔ !‘
۔ ۔ ’’بچہ مر کیوں گیا ہے۔ ۔ ؟‘‘ وہ پھر بوجھل آواز میں بولا۔
’اس لئے کہ عورت خواب دیکھ رہی ہے۔ ۔ جانتے ہو۔ ۔ نا ریوفونے یہ غیر معمولی پینٹنگ کب بنائی تھی؟ 1942ء کے آس پاس۔ جب تم دنیا کو دوسری عالمی جنگ میں جھونک چکے تھے۔ کیا نہیں۔ ۔ ؟ یاد آیا اور خود تم لوگ کیا تھے۔ ۔ آزادی مانگ رہے تھے۔ بھکاریوں کی طرح۔ ۔ مٹھی بھر لوگ جو تمہارے گھر پر قبضہ کر چکے تھے۔ تم ان سے چلے جانے کی مانگ کر رہے تھے۔ ۔ ہے نا، وہ بھی بھکاریوں کی طرح۔ ۔ ایسے ہی ہو تم۔ ۔ ‘ اس نے ٹھنڈا سانس بھرا۔ ۔
’’ایک پُراسرار تہذیبی شہر کی تعمیر کرنے والے اور ایک جھوٹی جذباتیت کا استقبال کرنے والے۔ ۔ ہے نا۔ ۔ ‘‘ وہ کہتے کہتے پھر ہنسی۔ ۔
۔ ۔ ’لیکن یہ سب تم۔ ۔ ؟‘
۔ ۔ ’تمہارے لئے لائی ہوں۔ گھبراؤ مت۔ چوری نہیں کی ہے۔ چوری کربھی نہیں سکتی ہوں۔ ۔ بازار سے لائی ہوں؟
۔ ۔ ’تم بازار گئی تھی؟‘
۔ ۔ ہاں، کیوں؟‘
۔ ۔ نہیں میں سمجھ رہا تھا۔ ۔ ‘
۔ ۔ تم زیادہ سمجھنے کی کوشش مت کیا کرو۔ ۔ سنو مجھے اس طرح گندے میں رہنا پسند نہیں ہے۔ ۔ سنا تم نے۔ اس لئے میں صفائی کی۔ ۔ عطر کا چھڑکاؤ کیا۔ ۔ دیواروں پر پینٹنگس لگائی۔ پھر تمہارے آنے کی راہ تکنے لگی اور تم آ گئے۔ ۔ ‘‘
اس نے گلے میں با نہیں ڈال دیں۔ ۔
شاید وہ دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی کی سب سے خوبصورت انگلیاں تھیں۔ ۔ ایسی انگلیاں۔ ۔ جن کے لئے الفاظ اور محاورے بھی کم پڑجاتے ہیں۔
پشت پر اس کی گرم گرم ہتھیلیوں کارقص، جسم میں عجیب سی سنسناہٹ پیدا کر رہا تھا۔ پھر جیسے ’تابڑ توڑ‘ اپنے گرم گرم بوسے سے اس نے نربھے کی آتما کے اندر تک، عجیب سی سنسنی پھیلا دی۔ ۔ ایک لمحہ کوٹھہری۔ پھر بارش کے آخری قطرے تک اسے شرابور کرتی چلی گئی۔ ۔
’سنو!‘
’کیا ہے۔ ۔ نربھے کی آواز جیسے ہزاروں فٹ نیچے کنویں میں چھوٹ کر رہ گئی تھی۔ ۔
’سنو؛ جب تم چلے جاتے ہو، تو بڑے یاد آتے ہو۔ اتنا انتظار کیوں کراتے ہو۔ ۔ ‘
قسم سے۔ وہ دنیاکے سب سے مدھر، سب سے ذائقہ دار، سب سے حسین اور سب سے زیادہ جلتے ہوئے ہونٹ تھے۔ ۔ جس نے اپنی تپش سے ایک بار پھر اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے تھے۔ ۔
’’چلو منہ ہاتھ دھولو۔ ۔ تم کتنے کمزور ہو گئے ہو۔ گھبراؤ مت۔ ۔ اب تمہارا پورا خیال رکھوں گی ۔ ۔ میں۔ ۔ مگر۔ ۔ ‘‘
’’مگر۔ ۔ مگر کیا۔ ۔ ؟‘‘
’ابھی نہیں۔ ۔ اوہ۔ ۔ تم میں کچھ بھی جاننے کی بے چینی کس قدر ہے۔ شاید تم نہیں جانتے۔ ۔ انہیں باتوں نے۔ ۔ ہاں، انہیں باتوں نے تو۔ ۔ اوہ۔ ۔ آئی لو یو نربھے۔ ۔ ‘‘
جیسے زمین چلتے چلتے رک گئی ہو۔ ۔ آسمان تھم سا گیا ہو۔ ۔ کوئی چونکانے والا، جذباتیت سے بھرا فلمی نظا رہ ہو۔ ۔ پہلی بار اس لڑکی کے ہونٹوں پر نربھے کا نام آیا تھا۔ ۔ نر۔ ۔ بھے____ پہلی بار۔ ۔ دلّی کے بازار، کنزیومر کلچر میں آہستہ آہستہ یہ نام کتنا عجیب، کتنا بے رس اور کتنا بدنما لگنے لگا تھا۔ ۔ جیسے ’موتیہاری کی ایک خاص خوشبو اس کے نام سے لپٹی ہوئی ہو۔ ۔ وہ اس نام کو بار بار دلّی کے رنگ میں بدلنے کا خواہشمند تھا۔ مگر آج۔ ۔ جیسے اس نام سے زیادہ خوبصورت کوئی دوسرا نام ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ۔
’چائے‘۔ ۔ وہ اچھانک جیسے خواب سے جاگا۔ ۔
۔ ۔ اتنی دیر میں اس نے چائے بھی بنالی تھی۔ ۔ چائے نربھے کے ہاتھ میں کانپ رہی تھی۔ ۔ وہ اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
’ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘ وہ مسکرائی
’کیا یہ خواب ہے؟‘
’کیوں؟‘
’سوچ رہا تھا‘ ہم جیسوں کے لئے خواب ہی کیوں ہوتے ہیں؟ زندہ رہنے کے لئے بھی خواب۔ ۔ محبت کرنے کے لئے بھی خواب۔ ۔ ‘
’لیکن یہ خواب نہیں ہے۔ ۔ ‘
’پتہ نہیں‘
’خواب کا جسم نہیں ہوتا ہے۔ ۔ اس کی نقرئی ہنسی کمرے میں پھیلتی چلی گئی۔ ۔ وہ اٹھ کر سنگھارمیز کے قریب کھڑی ہو گئی۔ ۔ وہ جیسے اپنے عکس کو بے حد پُرکشش انداز میں دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ۔ پھر جیسے کمرے کی تنہائی میں شعلہ بھڑکا۔ ۔ رات اسٹوب گیس‘ کی طرح چیخی۔ ۔ اور کمرے میں آگ کی تیز لپٹیں اٹھنے لگیں۔ ۔ اس نے بلاؤز کے ہوک کھول دیئے تھے۔ ۔ ریشمی ساڑی، دنیا کے سب سے حسین جسم سے الگ ہوکر، اس کے بستر پر، بے ترتیبی سے پھیل گئی تھی____کمرے میں جیسے ’لیزر ریز‘ کا رقص چل رہا ہو۔ ۔ گداز بانہیں، صدیوں کی پیاس اور عقیدت کی حد تک، میناروں کے سفید گنبد کی طرح، تنے ہوئے مصفّہ سینے۔ ۔ یا ۔ ۔ دو قبۂ نور۔ ۔ دنیا کے سب سے حسین پاؤں۔ ۔ اس کی آنکھوں کی کشتیوں میں اس وقت وہی کشش تھی جو شاید خالق دوجہاں کو، سب سے خوبصورت ’تصور‘ گڑھنے کے دوران ہوئی ہو____! ا س نے اپنی بانہیں بچھائیں۔ ۔
’آؤ۔ ۔ ‘ اس کی آواز میں ’ہیجان‘ کی حد تک سنسنی خیزی، آ گئی تھی____ ’۔ ۔ آؤ۔ ۔ ‘ اوہ۔ ۔ تم دیر کر رہے ہو۔ ۔ آؤ۔ اس سچ کے لئے، جس کے لئے ہم پیدا ہوئے ہیں۔ ۔ اُس سچ کے لئے جس کے لئے آخری سانس تک ہم اپنے جینے کی آس قائم رکھتے ہیں۔
اور نربھے چودھری۔ جیسے آنکھیں بندتھیں____ جیسے خوابوں سے جنت کی طرف ایک خوشبو لٹاتی، کھڑی کھل گئی ہو۔ ۔ جیسے ہوا میں تیرتا ہوا ایک رتھ ہو۔ ۔ اور رتھ، زندگی کے سب سے خوبصورت ذائقے کو پور پور میں اُتارتا ہوا اڑتا جاتا ہو۔ ۔
۔ ۔ جیسے ہوا تھم گئی۔ ۔ سانسیں رُک گئیں۔ ۔ اُس کے بدن پر دنیا کا سب سے خوبصورت ننگا جسم اور ۔ ۔ تمام تر ہیجان خیزیاں لٹاکر تھکا ہارا۔ ۔ اس کے جسم کے گوشت سے ’عبادت‘ کی ایک نئی عبارت لکھنے میں مصروف تھا____ اس کی آنکھوں میں شوخیاں تھیں۔ ۔
’سنو۔‘
اس کے بدن کی بے کراں موجیں، اس کے بدن کے ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر لوٹ رہی تھیں۔ ۔
’سنو۔ اب میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘ آواز میں تھرتھراہٹ تھی۔ ۔
’ہاں پیسے۔ جو تھے سب ختم ہو گئے۔ پینٹنگس۔ ۔ عطر، چادریں اور۔ ۔ جو پیسے تھے۔ وہ تمہارے گھر کی خریداری میں لگ گئے۔ ۔
’ہاں‘
’مجھے چاہتے ہو تم؟‘
’ہاں‘
’میری سانسوں سے پیار ہے؟‘
’ہاں‘
’میرے جسم سے؟‘
’ہاں؟
’اور مجھ سے؟‘
’ہاں‘
’اور یہ بھی چاہتے ہو کہ میں کہیں نہیں جاؤں۔ میں ہمیشہ تمہارے پاس رہوں۔ ۔ ‘‘
’ہاں‘
’تو پھر تمہیں میرا خیال رکھنا ہوگا۔‘
وہ اپنے بدن کی ’بے کراں موجوں‘ کو سنبھالے، اس کے بدن کے ساحل سے ہٹ گئی تھی۔ ۔
’سمجھ رہے ہونا، نربھے چودھری۔ ۔ تمہیں میرا خیال رکھنا ہوگا۔ ۔ ‘‘
وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنی ریشمی ساڑی کی ’شکنوں‘ میں کھو گئی تھی____
’تمہیں مجھے خوش رکھنا ہوگا۔ میری۔ ۔ میری فرمائشیں پوری کرنی ہوں گی۔ ۔ سن رہے ہو، نربھے چودھری۔ ۔ میرے لئے۔ ۔ ‘
اس کی نقرئی، لڑکھڑاتی آواز کا ’جل ترنگ‘ کمرے میں گونج رہا تھا۔ ۔
’سوچو میں۔ ۔ ڈھل جاؤں تو؟ میں جیسی ہوں، ویسی نظر نہ آؤں تو____ یہ سب کچھ تم پر ہے نربھے چودھری۔ ۔ تم پر____ مجھے خوبصورتی پسند ہے۔ اس کمرے کو جنت سے زیادہ خوبصورت بنادو۔ ۔ مجھے خوشبوئیں پسند ہیں۔ ۔ میرے لئے خوشبوؤں کا خزانہ لے آؤ____ میرے لئے تم بھی اپنے آپ کو بدلو گے نربھے چودھری۔ ۔ بدلو گے نا۔ ۔ ؟ خوشبو کو، خوشبو اور ایک حسین جسم کو ایک حسین جسم کی چاہت ہوتی ہے۔ ۔ میرے لئے تم یہ سب کرو گے نا، نربھے چودھری، ورنہ۔ ۔ ورنہ۔ ۔ ‘
***
لفظ بجتے رہے۔ ۔ بجتے رہے۔ ۔ وہ اٹھا تو سورج کی شعائیں سیدھے کھڑکی سے ہوتی ہوئی اس کی آنکھوں پر پڑرہی تھیں۔ ۔ فریج والی لڑکی غائب تھی____ رات کی سچائی کے احساس کے لئے وہ سب چیزیں، یہاں تک کہ ’ناریوفو‘ کی پینٹنگس تک کمرے میں موجود تھی۔ بستر پر وہ ننگ دھڑنگ پڑا تھا۔ ابھی بھی جیسے خوشبوؤں نے چاروں طرف سے، اسے اپنے دائرے میں لے رکھا تھا۔ ۔ مسرت کا عجیب سا احساس اب بھی ہو رہا تھا۔
’یہ سب کیا ہے؟‘
یہ کیا کیسا خواب ہے۔ وہ سمجھ پانے سے قاصرتھا۔ کپڑے پہن کر اس نے ڈرتے ڈرتے فریج کھولا۔ فریج خالی تھا۔ ۔ مگر وہی رات والی خوشبوئیں فریج کے اندر بھی بسی ہوئی تھیں۔
 

الف عین

لائبریرین
(4)
اب نربھے چودھری نکلنے کے لئے تیار تھے۔ لیکن کیا یہ وہی پرانے نربھے چودھری تھے۔ ’حلیہ پوری طرح سے بدلا ہوا۔ کالی آئرن کی گئی پینٹ پر، پوری آستین والی سفید شرٹ۔ ۔ اور دنوں کی طرح جھٹ پٹ جو ملا پہن کر تیار نہیں ہوئے نربھے چودھری۔ ۔ کپڑے ہی کتنے تھے۔ اس پر بھی دُھلے ہوئے کپڑوں کی تعداد کتنی ہوتی تھی۔ لے دے کر ایک جوڑا۔ ۔ کپڑے بھی خود ہی دھونے پڑتے تھے۔ لاجپت نگر مارکیٹ سے دو نمبر کا سستا سا آئرن مل گیا تو اٹھاکر لے آئے نربھے چودھری۔ لیکن کپڑے آئرن کون کرے۔ صبح صبح بس پکڑنے کے چکّر میں آئرن بے چارا ویسے ہی ’کوٹ‘ کے ڈبے میں بند رہا لیکن۔ ۔ دلّی آنے کے اتنے برسوں بعد جیسے سارے قاعدے قانون ان کے لئے بدل گئے تھے؟۔ ۔ اور تو اور۔ ۔ دو ایک ٹائی لوہے والے صندوق میں پڑی تھی۔ کبھی گفٹ میں ملی ہوگی۔ لیکن پہننے کی نوبت نہیں آئی۔وہی موتیہاری کا چھیلا۔ اپنے یہاں عام دنوں میں وہ ایسے سوٹیڈ بوٹیڈ ہوکر نکل سکتے تھے؟ کیوں نربھے چودھری؟ پیچھے سے ’’سٹاک‘‘ سے کمینٹ پاس ہوتا۔ ۔ ’’نیا ہے‘‘ کا ہے بھائی۔ موتیہاری کا چھیلا‘‘۔
لیکن آج موتیہاری کے اسی چھیلے نے اپنی شکل وصورت بدل ڈالی تھی۔ اس پر پرفیوم۔ یہ پرفیوم کی شیشی اسے مادھری نے دی تھی۔ اپنے کریٹیو ریلس کی پرمانینٹ ایکٹریس۔ جس کے بارے میں یونٹ والوں کا کہنا تھا۔ ۔ ارے مادھری کا ٹانکا اجے گوسوامی سے، کوئی آج سے ’بھڑا‘ ہے۔ ۔ دیکھتے نہیں، ان کے ہر پروڈکشن میں کوئی نہ کوئی رول ضرور ہوتا ہے۔
’مادھری!‘
ایک مخمور کا یا۔ ۔ بنداس۔ پتہ نہیں، اس دن کیا خاص بات تھی۔ کوئی خاص بات تھی، تو بس یہ تھی کہ مادھری اسے سیٹ پر تلاش کرتی پھر رہی تھی۔ پھر اسے دیکھ کر مادھری کی آنکھوں میں جیسے چمک آ گئی۔ ۔ ’’نربھے جی! آپ یہاں ہو‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ارے ہم آپ کو کہاں کہاں تلاش کر رہے تھے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ مادھری جیسی لڑکی اسے تلاش کرسکتی ہے۔ ۔ بیٹا یہ ہے فلم میں آنے کا مطبل۔ ۔ کا؟ کہ مادھری جیسی لڑکیاں بھی۔ ۔ ہےs s ہے s sاس نے کھیسیں پنوریں۔ اور مادھری نے پرفیوم اس کی طرف بڑھا دیا۔ ۔ ’’خاص تمہارے لئے۔ دارجلنگ گئی تھی شوٹنگ میں۔ دیکھو وہاں بھی تمہیں نہیں بھولی۔‘‘
نازک سا لمس۔ مادھری نے ہلکے سے پرفیوم کا چھڑکاؤ اس کی قیمض پر کیا۔ آنکھوں میں قوس قزح تن گئے۔ لیکن فوراً ہی الیا راجا کی فلم ’اپوّ راجا‘ کا وہ بونا اُسے یاد آگیا۔ ۔ جسے فلم کی اداکا رہ نے انگوٹھی دیتے ہوئے جلدی جلدی کہا تھا۔ ۔ ’’منگنی سمجھتے ہونا۔ کل صحیح وقت پر پہنچ جانا۔ دیر مت کرنا۔ ۔ ‘‘ اداکا رہ نے وہ انگوٹھی اس کی انگلی میں پہنادی تھی۔ بونا کمل ہاسن اپنے بونے جوکر دوستوں میں منگنی کی اس انگوٹھی کو لے کر کتنا خوش ہوا تھا۔ گانا بھی گایا۔ دوستوں نے بھگوان کی طرف سے ’اچنبھے کے طور پر لکھی جانے والی تقدیر‘ کے لئے اُسے مبارکباد بھی دی۔ مگر آگے۔ ۔ اس وقتی خوشی کا نتیجہ کیا نکلا تھا۔ ۔ ’’ارے اپوّ! انگوٹھی تو نکالو۔ دیر ہو رہی ہے۔‘ اور اداکا رہ رجسٹرار کے پوچھے جانے پر ہنستی ہے۔ ۔ ’’گواہ یہ ہے اپنا اپوّ۔ ۔ چلے گا۔ ۔ ‘‘
’چلے گا۔ ۔ ؟‘ رجسٹرار ہنستا ہے۔ ۔
پرفیوم لے کر دیر تک نربھے چودھری گم صُم کھڑا رہا۔ ۔ لیکن وہاں اس پر ہنسنے کے لئے کوئی رجسٹرار نہیں تھا۔ اسے لگا، الف لیلیٰ جیسی کسی کہانی کے اوراق اس کے سامنے کھل گئے ہوں۔ ۔ مادھری بنداس ہے تو کیا ہوا۔ ۔ لوگ غلط بولتے ہیں۔ ۔ مادھری ایسی ہو ہی نہیں سکتی۔ ۔ وہ بھی اجے گوسوامی۔ ۔ ؟ کیا اس کے پاس اجے گوسوامی جیسے لوگوں کی کمی ہے۔ ۔ ؟ اور پھر۔ ۔ یہ تو میڈیا ہے میڈیا۔ یہاں تو ایسی کہانیاں روز بن جاتی ہیں۔
’مادھری!‘
ہونٹوں تک آ کر یہ نام جیسے’رس شرنگار‘سے بھرپور غیر معمولی شاعری میں بدل گیا ہو۔ ۔ لیکن شاعری کتنی جلد باسی اور سٹراند دینے لگی تھی۔ ۔

’مادھری‘۔ ۔ وہ اسے پکارتا ہوا میک اَپ روم میں چلا گیا۔ ۔ دروازہ کے پٹ آن میں کھلے تو، وہ جیسے موتیہاری کا لمبے قد والا بونا بن گیا تھا۔ ۔ اجے گوسوامی کی بانہوں میں قید مادھری۔ مادھری نے چلا کر آواز دی تھی۔ ۔ ’ارے۔ ۔ نربھے۔ ۔ سنوتو۔ ۔ ‘
’جانے دو۔ ۔ ‘ یہ اجے گوسوامی کی آواز تھی۔ ۔
’تمہارے والے میں سے ایک پرفیوم میں نے۔ ۔ ‘
اجے ہنس رہے تھے۔ ۔ ’’پرفیوم، اور یہ بہاری۔ ۔ تم بھی پاگل ہو مادھوری۔ ۔ ‘‘
دونوں کا ایک ساتھ قہقہہ گونجا تھا۔ لیکن اب، کچھ بھی آگے سننے کو وہاں رُکا نہیں، نربھے چودھری۔ جیسے پیچھے ہزاروں کی تعداد میں کتے پڑے ہوں۔ ۔ ڈیفوڈل ڈاگس۔ ۔ ڈیفوڈل۔ جلتے ہوئے۔ ۔ ان گنت تعداد میں۔ اداکا رہ نے منو کو انگوٹھی دی ہے۔ مادھری نے نربھے کو پرفیوم دیا ہے۔ ۔ ’اپوّ سمجھتا ہے کہ‘۔ ۔ ’نربھے کو لگتا ہے کہ۔ ۔ ‘
بونا اپوّ ’پست‘ ہوتے ہوئے اپنے قد سے کتنا کم ہوا ہوگا؟ مگر۔ ۔ نربھے۔ ۔ وہ اپوّ سے زیادہ ’بے وجود‘ ہو گئے تھے____ چھوٹا لمبے قد والا بونا۔ ۔ پھر وہ پرفیوم کمرے کی کال کوٹھری میں پھینک دیا گیا۔ شاید اسی، نئی صبح کے انتظارکے لئے۔ اسی دھانی دھانی صبح کے انتظار کے لئے۔ ۔
پرفیوم کپڑے میں مارتے ہوئے ایک عجیب سی خفیف ہنسی، نربھے کے ہونٹوں پر کھل رہی تھی۔ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے اس نے پیسے گنے تھے اور پہلا کام کیا تھا۔ ۔ اپنے قدم پاس والے بیوٹی پارلر کی طرف تیز کئے تھے۔
 

الف عین

لائبریرین
(6)
’’زندگی سرکس نہیں ہے اور سنو نربھے۔ تم اپوّ نہیں ہو۔ تم اپوّ ہو بھی نہیں سکتے۔تمہارے ساتھ میں ہوں، میں۔ ۔ سن رہے ہونا۔ ۔ ؟‘‘
کمرے میں خوشبو پھیل چکی تھی۔ ۔ نقرئی قہقہہ پھر گونجا ۔ ۔
’’دیکھو s s s s s آج میں نے نیا سنگھار کیا ہے، تمہارے لئے صرف تمہارے لئے لئے۔ ۔ ‘‘
عورت اُٹھتے ہوئے، آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ پور پور سے خوشبو کی لہریں پھوٹ رہی تھیں۔ ۔ ’آئینہ‘ یقینا حیران تھا کہ کبھی اس کے شیشے، جیسے وجود میں اتنا غیر معمولی ’عکس‘ بھی سما سکتا ہے۔
’’پتہ نہیں مجھے۔ ۔ مجھے کیا ہوگیا تھاs s پتہ نہیں۔ اب وہ۔ ۔ ‘‘
’’ڈرتے ہو۔‘‘
’’ڈرنا پڑتا ہے۔ ۔ گھر ہے۔ ۔ پتا جی ہیں۔ ۔ اور۔‘‘
’’میں s s ‘‘۔ ۔ آئینہ نشے میں ڈوب گیا تھا۔ ۔
’’میں s s sتمہیں میری پرواہ نہیں۔ پتھر ہو تم۔ میری طرف دیکھو۔ ۔ اُس کا ’سنگھار‘ ویسا تھا۔ ۔ جیسے سارا عالم ہنسی روکے ہو، کہ بادشاہ تو ننگا ہے۔ ۔ !
’’کیا دیکھ رہے ہو۔ ۔ ‘‘
جسم سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔
’’تم نے کوئی غلط کام نہیں کیا نربھے۔ سمجھ رہے ہونا۔ ۔ دیکھو تم مضبوط ہوئے۔ ۔ اور یہ کمرہ پہلے سے زیادہ روشن ہوگیا۔ یقین کرو میں صرف تمہارے لئے بنی ہوں۔ ۔ تمہارے لئے۔ ۔ میں لہر ہوں۔ ۔ جھرنا ہوں۔ ۔ سنگیت ہوں۔ ۔ خوشبو ہوں۔ ۔ اور سب سے زیادہ میں تمہاری ہوں۔ ۔ تمہاری ہوں نربھے۔ ۔ s s ‘‘
پھر جیسے روشنی کا جھمکاکہ ہوا۔ ۔
’’آواز میں سنگیت پیدا ہوا۔ ۔ ’آؤ مجھ میں سما جاؤ s s سماجاؤ s s s ‘‘
اور۔ ۔
قارئین!
ٹھیک اُسی لمحہ جو کچھ پیش آیا۔ نہیں جانے دیجئے۔ نہیں ٹھہرئیے۔ یعنی، جو کچھ ہونے جا رہا تھا۔ نہیں ٹھہرئیے۔ میں اپنا تبصرہ اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔ مگر اُسی لمحہ، اس جگمگاتے، روشن کمرے میں یکایک بھگدڑ مچ گئی۔ یکایک باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ عورت پہلے متحیر ہوئی۔ پھر سنگیت تھما۔ خوشبو اُڑی۔ لہریں گم ہوئیں۔
دستک بڑھتی گئی۔
کمرہ یکایک چیخ وپکار کرنے لگا۔ عورت فریج میں چلی گئی۔
دروازے پر اجے کے آدمی کھڑے تھے۔ لفافہ میں نربھے کے پیسے پڑے تھے۔ ۔
’’گن لو۔ ۔ ‘‘
’’گنّے کی ضرور نہیں ہے‘‘
’’اور۔ ۔ صاحب نے کہا ہے کل سے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’ٹھیک‘‘۔ ۔ نربھے نے دروازہ بند کرنا چاہا۔
آگے والے ’مسٹنڈے‘ آدمی نے دروازہ چھیک لیا____
’’سنئے، دروازہ مت بند کیجئے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’مزدور ساتھ میں ہیں۔ ۔ صاحب نے فریج واپسمنگوایا ہے!۔‘‘
نربھے حیرت زدہ کھڑے ہیں۔ ۔
مزدور فریج اُتارنے اور لے جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
***
 
Top