مسلمان قیدیوں کو دشمن کے ہاتھوں سے چھڑانے کے لیے مال اور جان کی قربانی دینے کا بیان

مسلمان قیدیوں کو دشمن کے ہاتھوں سے چھڑانے کے لیے مال اور جان کی قربانی دینے کا بیان

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :

[ARABIC]وَمَا لَكُمْ لا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا [/ARABIC]( سورہ النساء ۔ 75)
اور تمھارے پاس کیا عذر ہے ( تمھیں کیا ہوگیا ہے ) کہ تم نہیں لڑتے اللہ کے راستے میں ان کمزور ( مظلوموں ) کی خاطر جن میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں ہیں اور کچھ بچے ہیں جو دعاء کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو اس بستی سے باہر نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارےلیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی کھڑا کیجئے اور ہمارے لیے بھیج دیجئے اپنے پاس سے کوئی مددگار۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں اللہ تعالی نے جہاد اپنے کلمے کی بلندی ، اپنے دین کے غلبے اور کمزور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے فرض فرمایا ہے اگرچہ اس میں جانیں چلی جائیں اور قیدیوں کو دشمن سے لڑ کر یا انہیں مال دے کر چھڑانا مسلمانوں پر فرض ہے اور مال کے ذریعے چھڑانا زیادہ تاکیدی فرض ہے کیونکہ یہ جان قربان کرنے سے آسان اور ہلکا ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قیدیوں کو چھڑائیں خواہ انہیں اپنا سارا مال ہی کیوں نہ دینا پڑے۔

٭ کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے قیدیوں کو چھڑاؤ ( بخاری )
اسی طرح وہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قیدیوں کے ساتھ [ جس طرح ممکن ہو رہائی اور دیگر معاملات میں ] تعاون کریں کیونکہ یہ فدیہ دے کر چھڑانے سے بھی آسان ہے ۔
اگر مسلمانوں نے کسی قیدی کو [ کافروں سے ] فدیہ دیکر چھڑایا تو اگر وہ قیدی مالدار ہے تو کیا رہائی کے بعد وہ مسلمانوں کے فدیے کی رقم واپس کرے گا یا نہیں ۔ علماء کرام کے دونوں طرح کے اقوال ہیں زیادہ صحیح یہ ہے کہ وہ رقم واپس کرے گا ۔ ( تفسیری قرطبی )
حضرت عمر بن العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر مسلمان قیدی کافروں سے فدیے کا معاہدہ کرکے واپس مسلمانوں میں آجائے تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کا فدیہ اداء کریں اور ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس قیدی کو واپس کافروں کو دے دیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
[ARABIC]وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ [/ARABIC]( سورہ بقرہ ۔ 85)
اور اگر وہ تمھارے پاس قید ہو کر آئیں تو بدلہ دے کر ان کو چھڑا بھی لیتے حالانکہ ان کا نکال دینا ہی تم کو حرام تھا۔ ( ابن عساکر)

٭ حضرت عمرو بن عوف سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خط مبارک میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ مسلمانوں کی ہر جماعت اپنے قیدیوں کا فدیہ معروف طریقے سے اور مسلمانوں کے درمیان [اس فدیئے کے بارے میں ] انصاف کے ساتھ اداء کرے گی اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے مقروض ساتھیوں کا فدیہ اور دیت اداء کرنے میں مدد کریں ۔ ( ابن عساکر عن کثیر بن عبداللہ و ھو ضعیف)

٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات مہاجرین اور انصار کو خط لکھا کہ اپنی دیتیں اداء کیا کرو اور اپنے قدیوں کو فدیہ دے کر چھڑایا کرو ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ۔ مسند احمد )

[ جنگی قیدیوں کے بارے میں پہلے طریقہ یہ تھا کہ انہیں گرفتار کرنے والے ان کی آزادی کے لیے کچھ رقم مقرر کر دیتے تھے کہ اس قیدی کو ہم اتنی رقم لیکر چھوڑ سکتے ہیں یہ رقم فدیہ کہلاتی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی معروف طریقے کے مطابق قیدیوں کو چھڑانے کی تاکید فرمائی ہے چونکہ اصل تاکید قیدی چھڑانے کے بارے میں ہے اس لیے قیدی چھڑانا لازم ہوگا خواہ وہ کسی طریقے سے ممکن ہو ان احادیث کو صرف فدیے کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا ] ۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اللہ کا فرمان ہے :
[ARABIC]اِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ[/ARABIC] ( سورہ انفال ۔ 72)
اور اگر وہ تم سے دین کے کام میں مدد چاہیں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے ۔

اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ وہ مسلمان جنہوں نے دشمن کی زمین سے دارالاسلام کی طرف ہجرت نہ کی ہو اگر مسلمانوں کو مدد کے لیے پکاریں کہ آؤ اور لشکر یا مال کے ذریعے ہمیں کافروں سے چھڑاؤ تو مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہو جاتا ہے۔ ہاں اگر وہ تمہیں ایسی قوم کے خلاف مدد کے لیے بلائیں جن کے ساتھ تمھارا صلح کا معاہدہ ہو تو پھر تم معاہدہ نہ توڑو بلکہ معاہدے کی مدت گزرنے کا انتظار کرو۔

ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کمزور مسلمان اپنی آزادی اور رہائی کے لیے بلائیں تو مسلمانوں پر ان کی مددلازم ہے کیونکہ مسلمانوں کے درمیان رشتہ ولایت قائم ہے پس مدد کی پکار سننے کے بعد کسی مسلمان کی آنکھ کے لیے جائز نہیں کہ وہ آرام کرے بلکہ اگر ممکن ہو تو ان کی مدد کے لیے نکل پڑنا چاہئے یا اپنا مال خرچ کر دینا چاہئے یہاں تک کہ کسی مسلمان کے پاس ایک درہم باقی نہ رہے۔

یہی امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کا قول ہے لیکن آج جس طرح سے مسلمانوں نے اپنے قیدی بھائیوں کو کافروں کے ہاتھوں میں چھوڑ رکھا ہے حالانکہ ان کے ہاتھوں میں بے شمار مال ، قوت اور طاقت ہے اس پر ہم صرف انا للہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھ سکتے ہیں ۔ ( تفسیر القرطبی)

٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دشمنوں کے ہاتھوں سے کسی مسلمان قیدی کو فدیہ دیکر چھڑایا تو میں [ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ] وہی قیدی ہوں ۔ ( الطبرانی ۔ مجمع الزوائد )
[ یعنی کسی مسلمان قیدی کو چھڑانا گویا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھڑانے جیسا ہے ۔ سبحان اللہ اس سے بڑھ کر اس عمل کی اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کیونکہ اس حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مسلمان کے قید ہونے کو اپنے قید ہونے جیسا اور اس کو چھڑانے کو اپنے چھڑانے جیسا قرار دیا ہے ۔ ]

٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں ایک مسلمان کو مشرکوں کے ہاتھ سے چھڑاؤں تو یہ مجھے پورے جزیرۃ العرب سے زیادہ محبوب ہے ۔ ( ابن عساکر )
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ قسطنطنیہ میں قید مسلمانوں کے نام خط میں لکھتے ہیں :
اما بعد ! معاذ اللہ آپ لوگ خود کو قیدی شمار کرتے ہیں [ ایسا ہر گز نہیں بلکہ ] آپ تو اللہ کے راستے میں روکے ہوئے لوگ ہیں یہ بات آپ کے علم میں رہنی چاہئے کہ میں جب اپنی رعایا کے درمیان کچھ تقسیم کرتا ہوں تو آپ لوگوں کے گھر والوں کو دوسروں سے زیادہ اور بہتر چیزیں دیتا ہوں میں فلاں آدمی کے ہاتھ آپ لوگوں کے لیے پانچ دینار بھجوارہاہوں اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ ظالم رومی آپ لوگوں تک یہ مال نہیں پہنچنے دیں گے تو میں اس سے زیادہ بھجواتا میں نے آپ تمام لوگوں کو منہ مانگا فدیہ دیکر چھڑانے کے لیے فلاں آدمی کو بھجوا دیا ہے ۔ آپ لوگ خوش ہو جایئے اور خوش خبری پایئے ۔ والسلام ( ابن عساکر )

مسئلہ : علامہ نووی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :
اگر کافر ہمارے ایک دو مسلمانوں کو گرفتار کر لیں تو کیا ان کے اس فعل کو اسلامی ممالک میں کافروں کی فوجوں کے داخلے جیسا سمجھا جائے گا یا نہیں ؟ زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ ان کا یہ فعل اسلامی حدود میں فوجیں داخل کرنے کی طرح شمار ہوگا [اور اسلامی سرحدوں میں کافروں کے داخل ہونے سے جہاد فرض عین ہو جاتا ہے ]کیونکہ ایک مسلمان کی حرمت کسی شہر یا ملک کی حرمت سے زیادہ ہے چنانچہ شرعی حکم یہ ہوگا کہ اگر وہ اس قیدی کو ایسے علاقے میں لے گئے ہوں جو مسلمانوں کے ملک کے قریب ہے اور حملہ کرکے قیدی کو چھڑانا ممکن ہو تو فوراً ان پر حملہ کیا جائے گا لیکن اگر وہ اسے لے کر دور دراز علاقوں میں چلے گئے ہوں اور بڑے لشکر کے بغیر وہاں تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو پھر تیاری مکمل ہونے تک انتظار کیا جائے گا ۔ ( الروضۃ للنووی رحمہ اللہ )
واقعات​
قاضی ابوبکر بن عربی لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک حکمران نے کافروں سے معاہدہ کر لیاتھا کہ ایک دوسرے کے افراد کو قیدی نہیں بنائیں گے انہیں دنوں ایک مسلمان کا کافروں کے ملک میں جانا ہوا تو ایک بند گھر میں سے ایک عورت نے [ یہ دیکھ کر کہ یہ مسلمان ہے ] ا سے پکارا اور کہا کہ اپنے حاکم کو بتا دینا کہ مجھے کافروں نے گرفتار کر رکھا ہے یہ شخص جب واپس ہوا اور اس کی مسلمان حکمران سے گفتگو ہوئی تو آخر میں اس نے اس عورت کا تذکرہ کیا ابھی اس نے اپنی بات مکمل نہیں کی تھی کہ مسلمان حکمران کھڑا ہوگیا اور اس نے فوری طور پر لشکر کو کوچ کرنے کا حکم دے دیا اور اس پورے علاقے پر قبضہ کرکے مسلمان عورت کو آزاد کرا لیا۔

علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اندلس کے حکمرانوں میں سے منصور بن ابو عامر جیسا کوئی نہیں گزرا انہوں نے پچاس سے زائد جنگیں لڑیں اور انہیں جنگوں میں ان کی وہ مشہور لڑائی بھی ہے جس میں مسلمانوں کو دو پہاڑوں کے درمیان ایسی تنگ جگہ سے گزرنا تھا جہاں سے ایک وقت میں صرف ایک گھڑ سوار گزر سکتا تھا چنانچہ رومیوں نے بے شمار فوج لاکر اس تنگ درے کو بند کر دیا اور منصور رحمہ اللہ کی پیش قدمی کو روک دیا منصور کو جب صورت حال کا علم ہوا تو انہوں نے [ عجیب جنگی تدبیر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ] خیمے اکھاڑے اور وہاں پر مضبوط عمارتیں بنوانے کا حکم دے دیا اور انہوں نے وہاں پر اپنے محل کا نقشہ بھی بنایا اور چاروں طرف اپنے گورنروں کو لکھ دیا کہ مجھ سے پہلے حکمرانوں نے اس جگہ کو نظر انداز کر کے غلطی کی ہے میں نے استخارے کے بعد یہاں قیام کا فیصلہ کر لیا ہے چنانچہ میں یہاں ایک شہر آباد کر رہا ہوں تم لوگ کاریگروں اور مزدوروں کو جلد بھجوادو ۔ رومیوں نے جب یہ منظر دیکھا تو صلح کے لیے جھک گئے اور منت سماجت کرنے لگے منصور نے کہا میں تم سے اسی وقت صلح کروں گا جب تم اپنے بادشاہ کی بیٹی میرے نکاح میں دو گے رومیوں نے جواب دیا کہ ایسی ذلت کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے چنانچہ انہوں نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کرکے لڑائی کا عزم ظاہر کیا دوسری طرف منصور کے پاس بیس ہزار شہسوار تھے دونوں لشکروں کا خوفناک مقابلہ ہوا تو مسلمانوں کو شکست ہوئی ۔ منصور رحمہ اللہ اپنے بیٹے میر منشی اور چند مجاہدین کے ساتھ اکیلے رہ گئے ۔ انہوں نے حکم دیا کہ میرا خیمہ کسی بلند جگہ پر نصب کردو چنانچہ ایسا کیا گیا ۔ مسلمانوں نے جب امیر کے خیمے کو دیکھا تو سب دوبارہ اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے ایسا ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ رومیوں کو عبرتناک شکست ہوئی ان کے بہت سارے آدمی مارے گئے اور کافی سارے گرفتار ہوئے رومیوں نے پھر صلح کی درخواست کی تو منصور رحمہ اللہ نے اپنی پرانی شرط دھرائی اور ساتھ بے شمار مال و دولت دینے کے لیے بھی کہا رومی راضی ہو گئے اور روم کے معزز لوگوں نے وہ مال اور لڑکی سطان منصور رحمہ اللہ تک پہنچائی لڑکی کو الوداع کرنے والے معزز رومیوں نے اسے کہا کہ اب تم اپنی قوم کی فلاح کے لیے کچھ کرنا تو اس لڑکی نے جواب دیا کہ عزت عورتوں کے جسم سے نہیں بلکہ مردوں کے نیزوں سے حاصل کی جاتی ہے ۔ جب منصور رحمہ اللہ فتح مند ہو کر واپس اپنے شہر پہنچے تو ایک عورت نے کہا آپ اور دوسرے لوگ خوشیاں منا رہے ہیں جب کہ میں رو رہی ہوں کیونکہ میرا بیٹا تو رومیوں کے پاس قید ہے منصور رحمہ اللہ نے اسی وقت لشکر کو واپسی کا حکم دیا اور وہ جب دوبارہ شہر میں آئے تو ان کے ساتھ عورت کا بیٹا بھی تھا ۔ ( تاریخ قرطبی )
اللہ تعالی ان بلند ہمت حضرات پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور انہوں نے دین اسلام کی عزت و عظمت کے جو ڈنکے بجائے اللہ تعالی انہیں اس پر اجر عظیم عطاء فرمائے۔ ( آمین )
# انہی سلطان منصور کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ جہاد سے واپس آتے تھے تو اپنے کپڑوں ، اپنی زرہ اور دوسرے سامان کا غبار جھاڑ کر اپنے پاس جمع فرما لیتے تھے چنانچہ ان کے پاس بہت سارا غبار جمع ہو گیا تھا جب ان کے انتقال کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت فرمائی کہ مجھے اس غبار میں دفن کیا جائے ۔ سبحان اللہ کیا عمدہ خوشبو اور کیا پاکیزہ مٹی ان کو آخری وقت میں نصیب ہوئی۔
# عارف باللہ امام عبدالغفار بنی نوح القوصی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے [ عباسی خلیفہ] معتصم باللہ کو خبر پہنچی کہ ایک رومی فوجی افسر نے عموریہ سے قید ہونے والی ایک مسلمان عورت کو تھپڑ مارا تو اس عورت نے پکار کر کہا وامعتصماہ یہ سن کر فوجی افسر نے اسے [ طنزاً] کہا معتصم تو تمھارے پاس ابلق گھوڑے پر بیٹھ کر ہی آ سکے گا ۔ یہ خبر جب معتصم باللہ کو پہنچی تو اس نے ابلق گھوڑوں کی تلاش میں ہر طرف آدمی دوڑا دیئے اور ان گھوڑوں کو خریدنے کے لیے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے یہاں تک کہ اس نے اسی ہزار ابلق گھوڑے جمع کئے اور پھر اس نے پوری عزم سچی نیت اور اسلامی غیرت کے جذبے سے سر شار ہو کر بھر پور حملہ کیا اور اس پورے علاقے کو فتح کر لیا حالانکہ اس سے پہلے یہ علاقہ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح نہیں ہورہا تھا ۔ معتصم نے اسلامی غیرت میں آکر وہاں کافروں کو خوب قتل کیا اور زیادہ سے زیادہ قیدی بنائے اور شہروں کو آگ لگا دی اور اس عورت کو اور اسے تھپڑ مارنے والے رومی کو حاضر کرنے کا حکم دیا وہ دونوں جب آئے تو معتصم باللہ ابلق گھوڑے پر بیٹھا ہوا تھا ۔ اس نے کہا لو میں ابلق گھوڑے پر بیٹھ کر آچکا ہوں ۔ ( الوحیدفی سلوک التوحید)
[ ابلق اس گھوڑے کو کہتے ہیں جس میں سیاہ اور سفید دونوں رنگ ہوں]۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح اسلام کی عزت و عظمت کی حفاظت کرنی چاہئےاور مسلمان حکمرانوں کو یہی کردار اپنانا چاہئے۔ اے اللہ ان حکمرانوں کو ان کی اس عالی ہمتی پر اجر عطاء فرما۔
مشہور شاعر ابو تمام طائی نے عموریہ کی اس لڑائی کے بارے میں ایک قصیدہ لکھا ہے اس میں یہ خوبصورت شعر بھی ہے ۔
[ترجمہ] اس دن کا سورج ایسے مسلمانوں پر طلوع نہیں ہوا جس کی بیوی لشکر میں ہو اور گرفتار ہو کر اس سے جدا ہونے والی ہو اور اس دن کا سورج کسی کنوارے پر غروب نہیں ہوا [ یعنی ہر کنوارے کو کوئی باندی مل گئی]
# اس قصے سے بھی زیادہ عجیب واقعہ امام قرطبی اپنی تاریخ میں بیان فرماتے ہیں۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک مسلمان کو گرفتار کرکے [ رومیوں کے پایہ تخت] قسطنطنیہ میں پہنچا دیا گیا ۔ اس مسلمان نے رومی بادشاہ کے سامنے جرات کے ساتھ بات کی تو سپہ سالار نے اسے تھپڑ مار دیا اس قریشی قیدی کی زبان سے نکلا۔ اے معاویہ ہمارا اور آپ کا فیصلہ اللہ تعالی کرے گا آپ ہمارے امیر ہیں اور ہم اس طرح سے ضائع کئے جا رہے ہیں یہ بات جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فدیہ بھجوا کر اس قیدی کو آزاد کروالیا اور اس سے اس رومی سپہ سالار کا نام پوچھ لیا جس نے اسے تھپڑ مارا تھا پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بہت زیادہ غور فکر کے بعد اپنے ایک نہایت معتمد اور صاحب فراست اور تجربہ کار عسکری قائد کو اس کام کے لیے منتخب فرمایا اور اسے کہا تم کسی تدبیر سے اس سپہ سالار کو پکڑ کر لے آؤ اس قائد نے کہا اس کے لیے میں پہلے ایک ایسی کشتی بنانا چاہتا ہوں جس کے چپو خفیہ ہوں اور وہ بے حد تیز رفتار ہو ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمھیں جو سمجھ آئے وہ کرو اور آپ نے اسے ہر طرح کے اسباب فراہم کرنےکا حکم جاری فرما دیا جب کشتی تیار ہو گئی تو آپ نے اسے بے شمار مال و دولت اور تحفے تحائف دیکر فرمایا کہ تم ایک تاجر بن کر قسطنطنیہ جاؤ اور کچھ تجارت کرنے کے بعد بادشاہ کے وزیروں سپہ سالاروں اور خصوصی درباریوں کو تحفے تحائف دینا مگر اس سپہ سالار کو کچھ نہ دینا جب وہ تم سے شکوہ کرے تو کہنا کہ میں آپ کو نہیں پہچانتا تھا اب میں نے آپ کو پہچانا ہے تو اگلی بار آپ کے شایان شان تحفے لے آؤں گا فی الحال تو آپ کے مناسب میرے پاس کچھ نہیں بچا۔ چنانچہ اس قائد نے ایساہی کیا ۔ اس کے بعد وہ قائد واپس آگیا اور اس نے پوری کار گزاری حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو سنائی انہوں نے پہلے سے کئی گناہ زیادہ مال و دولت اور تحفے تحائف دیکر اسے کہا کہ روم واپس جاؤ دوسروں کے ساتھ اس سپہ سالار کو بھی تحفے دینا اور واپسی کے وقت اسے کہنا کہ میں تم سے خصوصی مگر خفیہ دوستی رکھنا چاہتا ہوں تمھیں جو چیز ضرورت ہو مجھے بتا دو میں تمھارے لیے لے آؤں گا تاکہ پہلے والی کمی کی تلاافی ہوسکے اس سپہ سالار نے ایک رنگ برنگی منقش ریشمی چادر کی فرمائش کی اور اس کی لمبائی چوڑائی بھی بتائی وہ قائد جب واپس آئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مطلوبہ چادر تیار کروانے کا حکم دیا اور ایسی چادر تیار کروائی جسے دیکھنے والے حیران رہ جاتے تھے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ چادر اسے دیکر فرمایا کہ جب قسطنطنیہ کے ساحل کے قریب پہنچنا تو اس چادر کو کشتی کے اوپر بچھا دینا اور اسے کسی طرح اپنی کشتی پر بلوا لینا جب وہ آجائے تو اسے یہ چادر اور دوسرے تحفے دے کر باتوں میں لگا دینا اور اپنے ساتھیوں کو حکم دے دینا کہ وہ خفیہ چپو چلا کر کشتی کو کھلے سمندر میں لے آئیں وہاں آکر کشتی کے بادبان کھول لینا اور سپہ سالار کو باندھ کر میرے پاس لے آنا ۔ عسکری قائد چادر لے کر روانہ ہو گیا رومی سپہ سالار کو جب کشتی کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ اسے دیکھنے کے لیے نکل آیا جب اس نے وہ ریشمی چادر دیکھی تو اس کی عقل اڑ گئی اور وہ خود اس کشتی پر جاپہنچا ۔ خفیہ چپو چل رہے تھے اور رومی کو کچھ پتہ نہیں تھا جب کشتی کے بادبان کھلے تو اس نے حیرانی سے پوچھا یہ کیا ہوا ؟ مسلمانوں نے اسے اس کے ساتھیوں سمیت باندھ دیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آئے آپ رضی اللہ عنہ نے اس قریشی مسلمان کو بلوایا اور فرمایا کیا اس نے تمہیں تھپڑ مارا تھا ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا اٹھو اور ویسا تھپڑ تم بھی مار لو مگر اس سے زیادہ نہیں ۔ قریشی نے اٹھ کر تھپڑ مار دیا ۔ تو آپ نے عسکری قائد سے کہا کہ اب اس رومی کو وہ چادر دے کر واپس چھوڑ آؤ اور اس رومی سے کہا کہ اپنے بادشاہ کو کہہ دو کہ مسلمانوں کا خلیفہ اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ تمھارے تخت پر بیٹھنے والے تمھارے سپہ سالاروں اور سرداروں سے اپنے کسی مسلمان کا بدلہ لے سکے۔ جب کشتی والے اسے لیکر قسطنطنیہ پہنچے تو دیکھا کہ رومیوں نے ساحل پر حفاظتی زنجیریں لگا دی ہیں چنانچہ انہوں نے اس رومی سپہ سالار کو وہیں پھینکا اور اسے چادر بھی دے دی ۔ جب یہ واقعہ رومی بادشاہ تک پہنچا تو اس کے دل میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی عظمت و ہیبت اور زیادہ بڑھ گئی ۔ ( تاریخ قرطبی )

# تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ سلیمان بن عبدالملک رحمہ اللہ نے صرف ایک مسلمان عورت کی رہائی کے لیے ایک لاکھ بیس ہزار کا بری لشکر اور ایک ہزار کشتیوں پر مشتمل بحری لشکر روانہ فرمایا ۔ ( ابن کثیر )

# اسی طرح ایک بار مسلمانوں کو اطلاع ملی کہ کچھ مسلمان قیدی انطاکیہ میں لائے گئے ہیں ۔ غلام زرافہ رحمہ اللہ نے فورا اسلامی لشکر لے کر طرسوس کی طرف سے حملہ کر دیا اور محاصرے کے بعد شہر فتح کرکے چار ہزار قیدیوں کو آزاد کرالیا ۔

# حضرت عماد الدین زنگی رحمہ نے رہاء [ نامی شہر ] پر حملہ کیا اور منجنیقوں کے ذریعے ان پر پتھر اور آگ برسائی اور اس کی حفاظتی دیوار کو منہدم کر دیا اور اندر داخل ہوکر جنگ فرمائی اور اپنے پانج سو قیدی رہا کرالئے اور دشمن کو خوب نقصان پہنچایا اور ان کے افراد کو قیدی بنالیا۔
# سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے 583 ھ میں حطین پر حملہ کرکے اپنے بیس ہزار قیدی آزاد کروائے اور کافروں کے ایک لاکھ افراد کو قیدی بنالیا۔

# علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ ہشام بن عبدالملک ایک باعزم اور بیدار مغز حاکم تھے اور انہوں نے بڑے کارنامے سرانجام دیئے اور اپنے والیوں کو متحرک کرکے ہر طرف اسلامی لشکر پھیلا دیا اور ان میں سے ایک لشکر نے بلاد حریر پر حملہ کرکے دس ہزار مسلمان قیدی آزاد کرائے انہیں قید کرنے والے دس ہزار گھڑ سواروں کو ان کے بادشاہ ابن خاقان سمیت قتل کردیا اور ان کے دوسرے لشکر نے السریر پر حملہ کر دیا اور پندرہ سو جوان غلام لے کر صلح کی ان کے مغربی لشکرنے روم پر حملہ کیااور اتنی غنیمت حاصل کی کہ اس میں سے بیس ہزار غلام اور بے شمار کپڑے اور تحفے ہشام بن عبدالملک کے لیے روانہ کئے ان کے سندھ والے لشکر نے کئی علاقے فتح کئے اور مال غنیمت کا جو پانچواں حصہ ہشام بن عبدالملک کے لیے روانہ کیا وہ ساڑھے تین غلاموں اور دو لاکھ دراہم پر مشتمل تھا۔ ( تاریخ قرطبی )

# حضرت موسیٰ بن نصیر رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے مروان کو ایک لشکر دے کر بھیجا تو اسنے ایک لاکھ قیدی لائے اور اپنے بھتیجے کو لشکر دے کر بھیجا تو اس نے بھی ایک لاکھ بربری قیدی لائے ۔ ( سیر اعلام النبلاء )

امام داؤد نے اپنی مشہور کتاب میں قیدی کے باندھنے کے بارے میں باب ذکر کیا ہے اور پھر یہ حدیث لائی ہے ۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی ان لوگوں پر خوش ہوتا ہے جنہیں زنجیروں میں باندھ کر جنت کی طرف گھسیٹا جاتا ہے ۔ ( ابوداؤد)
[ یعنی جب مسلمان کافروں کو قید کرتے ہیں اور انہیں باندھ کر لے آتے ہیں تو پھر ان کا حسن سلوک دیکھ کرکئی قیدی مسلمان ہوجاتے ہیں تو گویا کہ یہ لوگ زنجیروں میں باندھ کر جنت کی طرف گھسیٹ کر لائے گئے ]

[ اللہ تعالی نے اسلام کو دنیا میں مغلوب ہونے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے بھیجا ہے اسلام ایک عزت و عظمت والا دین ہے اور جو اس دین کو قبول کر لیتا ہے اور مسلمان بن جاتا ہے تو اس کی عزت و عظمت بھی بہت بڑھ جاتی ہے اسی لیے روایت میں آیا ہے کہ مسلمانوں کی عزت و حرمت اللہ تعالی کے نزدیک کعبہ کی حرمت سے بڑھ کر ہے اور چونکہ مسلمانوں کی عزت و حرمت کے ذریعے ہی اسلام کی عزت و حرمت کا پتہ چلتا ہے اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک مسلمان کی خاطر اپنی اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جان کو خطرے میں ڈالا اور آپ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک آپ نے ایک ایک مسلمان پر ہونے والے ایک ایک ظلم کا بدلہ کافروں سے نہیں لے لیا۔ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر صرف ایک مسلمان یعنی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے موت پر بیعت لی اور خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا عزم فرمایا ۔ کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ایک مسلمان کی قدر و قیمت کیا ہے ؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ اگر ایک مسلمان کے خون کو نظر انداز کر دیا گیا یا ایک مسلمان کی حفاظت کو اہمیت نہ دی گئی تو پھر کوئی مسلمان بھی محفوظ نہیں رہے گا اور کافر انہیں ترنوالہ سمجھ کر نگل جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے ہاتھوں میں پھنس جانے والے مسلمانوں کا درد سمجھتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ان مسلمانوں کے لیے دعاء فرماتے تھے جو کافروں کے ہاتھوں میں پھنسے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کی آزادی اور رہائی کی فکر فرماتے تھے حقیقت یہ ہےکہ ایک مسلمان کے لیے کافروں کے ہاتھوں گرفتار ہوجانا بہت بڑی آزمائش ہے کافر تو اسلام کے بدترین دشمن ہیں لیکن انہیں ہر جگہ اپنی دشمنی اتارنے کا موقع نہیں ملتا ۔ اس لیے وہ اپنی ساری بھڑاس ان مظلوم و مجبور قیدیوں پر اتارتے ہیں اور انہیں طرح طرح کی خوفناک آزمائشوں میں ڈالتے ہیں ۔ کافروں کے ہاتھوں قید ہونا کتنی بڑی آزمائش ہے اس کا اندازہ نہ تو کوئی انسان گھر بیٹھ کر لگا سکتاہے اور نہ اپنے مسلمان ملکوں کی قید پر اسے قیاس کر سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی آزادی کی حالت میں رہ کر کافروں کی قید کا اندازہ لگانا چاہتا ہے تو وہ یہ اندازہ صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث شریف سے لگا سکتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدی چھڑانے کو خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چھڑانے کی طرح قرار دیا ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنے والا کوئی مسلمان کیا اس بات کو تصور بھی کر سکتا ہے کہ نعوذ باللہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کی قید میں ہوں ۔ ایک مسلمان کو تو اس بات کا تصور کرنے سے ہی پسینہ آجاتا ہے اور اس کا جسم کانپنے لگتا ہے اور اس کی آنکھوں سے خون ابلنے لگتا ہے ۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث شریف کے ذریعے سے مسلمانوں کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ جب بھی کوئی مسلمان کافروں کی قید میں ہوتا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود کو قید میں محسوس فرماتے ہیں اور جب کوئی شخص اس قیدی کو رہاکرواتا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے خو ش ہوتے ہیں جیسا کہ خود آپ کو رہائی ملی ہو ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث سے آزاد مسلمان کوئی اثر لیں یا نہ لیں ۔ قیدی مسلمان اس حدیث شریف کو جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب اور محبت کی لمس کو اپنے دل پر مرہم کی طرح محسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم لاکھوں بار قربان ہو جائیں رحمت اور شفقت کے عظیم پیکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے ہم قیدیوں کی تسلی کے لیے ایسی بات فرمادی جسے سوچ کر قید کی تلخی بھی میٹھی معلوم ہونے لگتی ہے ۔
مرض عشق کا کیامبارک مرض ہے
عیادت کو کیا کیا حسین آرہے ہیں​
اس باب میں ہم نے جو واقعات پڑھے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کے مسلمانوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو دل کے کانوں سے سنا تھا اور سمجھا تھا چنانچہ وہ ایک عورت کی خاطر لاکھوں کے لشکر لے کر شہروں کے شہر تباہ کر دیتے ہیں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک اسے آزاد نہ کرا لیتے تھے چنانچہ اس دور میں مسلمان محفوظ تھے کافر باوجود خواہش کے انہیں گرفتار کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا تھا اور کسی مسلمان قیدی پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے کافروں کو خود خوف کی وجہ سے پسینہ آجاتا تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ہم صرف اس پر ہاتھ نہیں اٹھا رہے بلکہ ہم پوری امت مسلمہ کو چھیڑ رہے ہیں ۔ اور ہماری مار سے جو درد اس کے جسم میں ااترے گا وہ پوری امت مسلمہ کے دل میں بھی اتر جائے گا اور وہ بے تاب ہوکر کھڑی ہو جائے گی اور پھر کافروں کو پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملے گا ۔ مگر آج مسلمانوں نے اس حدیث کو بھلا دیا ہے ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم کی پروا کرنا چھوڑ دی ہے ۔ اور اب وہ ایک جسم کی طرح نہیں رہے بلکہ جسم کے فالج زدہ حصوں کی طرح ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں اور بے حس ہو چکے ہیں ۔ آج لاکھوں مسلمان کافروں کی قید میں جانوروں سے بد تر زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کی داڑھیاں نوچی جا تی ہیں ان کے ناخن کھینچے جاتے ہیں اور لوہے کی گرم سلاخوں سے انہیں داغا جاتا ہے ۔ اور ہر وہ ظلم ڈھایا جاتا ہے جو کوئی جانور بھی دوسرے جانور پر نہیں ڈھا سکتا ۔ مگر افسوس آج مسلمانوں کی قدر جانوروں سے بھی گرا دی گئی ہے ۔ آج مسلمان قوموں ، قبیلوں اور ملکوں میں تقسیم ہوکر اپنی اسلامی شناخت کھو چکے ہیں ۔ ہر جگہ منافق ان پر حکومت کر رہے ہیں آج کا خون پانی سے سستا بنا دیا گیا ہے ۔ جبکہ کافروں نے اپنے لوگوں کی قدر بڑھا دی ہے وہ اپنے ایک ایک قیدی کے لیے اپنے ملکوں کی فوجوں کو حرکت میں لے آتے ہیں وہ اپنے ایک ایک فرد کے تحفظ کے لیے جنگیں لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی جہاد چھوڑ کر ذلیل ہو رہے ہیں رسوا ہو رہے ہیں ۔
الحمد للہ کافی عرصے بعد اب پہلی بار افغانستان میں اسلام کو اقتدار ملاہے اور ظلم کی خوفناک اور تاریک رات میں یہ پہلا دیا جلا ہے ۔ امید کا یہ چراغ ان قیدیوں کو بھی پہلی دفعہ نظر آیا ہے جن کو کافر لاوارث ہونے کے طعنے دیتے تھے ۔ مگر وہ بر ملا کہتے تھے کہ ہمارا وارث اللہ ہے ۔ صرف اللہ ۔ صرف اللہ ۔ تو کافر پوچھتے تھے کہاں ہےاسلامی اخوت ، کہاں ہیں تمہیں چھڑانے والے ؟
آج اسلام کا جو چراغ افغانستان میں روشن ہوا ہے اسے پوری دنیا کا کفر مل کر بجھانے کی کوشش کر رہا ہے کاش : مسلمان متحد ہو کر اس کی حفاظت کرے تاکہ یہ نور پھیلے اور یہ دیا سورج بنے اور امت مسلمہ ان عظمتوں کو پاسکے جو مدت سے مسلمانوں کے لئے ترس رہی ہے ۔
یا اللہ ہم سب مسلمانوں کو اس کی توفیق عطا فرما آمین۔]
 

شمشاد

لائبریرین
واجد صاحب یہ جو اوپر آپ نے پیغام لکھا ہے، یہ کہاں سے نقل کر کے چسپاں کیا گیا ہے، کس کتاب سے ہے، مصنف کون ہیں، برائے مہربانی یہ سب حوالے درج فرما دیں۔
 
’’فضائل جہاد کامل‘‘ علامہ ابن النحاس شہید رحمہ اللہ (متوفی814ھ) کی ایمان افروز اور مقبول کتاب ’’مشارع الاشواق الی مصارع العشاق و مثیر الغرام الی دار السلام‘‘ کی اردو تلخیص و تشریح ہے ( 1998ء)
اور یہ اس کا اکتیسواں باب ہے اور صفحہ نمبر 501 سے شروع ہوتا ہے اور 515 پر یہ باب ختم ہوتا ہے اور جہاں پر بڑی بریکٹ استعال ہوئی ہے وہ مترجم کرنے والے عالم کی طرف سے تشریح یا وضاحت ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
منصور نے کہا میں تم سے اسی وقت صلح کروں گا جب تم اپنے بادشاہ کی بیٹی میرے نکاح میں دو گے رومیوں نے جواب دیا کہ ایسی ذلت کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے چنانچہ انہوں نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کرکے لڑائی کا عزم ظاہر کیا دوسری طرف منصور کے پاس بیس ہزار شہسوار تھے دونوں لشکروں کا خوفناک مقابلہ ہوا تو مسلمانوں کو شکست ہوئی ۔ منصور رحمہ اللہ اپنے بیٹے میر منشی اور چند مجاہدین کے ساتھ اکیلے رہ گئے ۔ انہوں نے حکم دیا کہ میرا خیمہ کسی بلند جگہ پر نصب کردو چنانچہ ایسا کیا گیا ۔ مسلمانوں نے جب امیر کے خیمے کو دیکھا تو سب دوبارہ اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے ایسا ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ رومیوں کو عبرتناک شکست ہوئی ان کے بہت سارے آدمی مارے گئے اور کافی سارے گرفتار ہوئے رومیوں نے پھر صلح کی درخواست کی تو منصور رحمہ اللہ نے اپنی پرانی شرط دھرائی اور ساتھ بے شمار مال و دولت دینے کے لیے بھی کہا رومی راضی ہو گئے اور روم کے معزز لوگوں نے وہ مال اور لڑکی سطان منصور رحمہ اللہ تک پہنچائی لڑکی کو الوداع کرنے والے معزز رومیوں نے اسے کہا کہ اب تم اپنی قوم کی فلاح کے لیے کچھ کرنا تو اس لڑکی نے جواب دیا کہ عزت عورتوں کے جسم سے نہیں بلکہ مردوں کے نیزوں سے حاصل کی جاتی ہے ۔ جب منصور رحمہ اللہ فتح مند ہو کر واپس اپنے شہر پہنچے تو ایک عورت نے کہا آپ اور دوسرے لوگ خوشیاں منا رہے ہیں جب کہ میں رو رہی ہوں کیونکہ میرا بیٹا تو رومیوں کے پاس قید ہے منصور رحمہ اللہ نے اسی وقت لشکر کو واپسی کا حکم دیا اور وہ جب دوبارہ شہر میں آئے تو ان کے ساتھ عورت کا بیٹا بھی تھا ۔ ( تاریخ قرطبی )
اللہ تعالی ان بلند ہمت حضرات پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور انہوں نے دین اسلام کی عزت و عظمت کے جو ڈنکے بجائے اللہ تعالی انہیں اس پر اجر عظیم عطاء فرمائے۔ ( آمین )
یہ جہاد ہے۔ جس میں مخالف حکمران کی بیٹی کا رشتہ اور پھر ڈھیر سارا مال و دولت مانگنا۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کفر کو مغلوب اور ذلیل کرنے کا ایک طریقہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا یہ طریقہ سنت سے ثابت بھی ہے؟ دوسرا جب اس خاتون سے زبردستی کی شادی ہوئی تو ظاہر ہے کہ اسے زبردستی مسلمان بھی بنایا گیا ہوگا، کیا یہ زبردستی کا اسلام نافذ کرنا اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف نہیں؟
 

ظفری

لائبریرین
کیا یہ طریقہ سنت سے ثابت بھی ہے؟ دوسرا جب اس خاتون سے زبردستی کی شادی ہوئی تو ظاہر ہے کہ اسے زبردستی مسلمان بھی بنایا گیا ہوگا، کیا یہ زبردستی کا اسلام نافذ کرنا اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف نہیں؟

میرا خیال ہے اس سوال کے حوالے سے ابھی کوئی کتابچہ بازار میں نہیں آیا ہے ۔ اس لیئے جواب ندارد ہے ۔ ;)
 
کفر کو مغلوب اور ذلیل کرنے کا ایک طریقہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واجد صاحب آپ جانتے ہیں کہ شادی اسلام میں ایک مبارک اور بھاری معاہدہ ہے۔ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے کہ جس کی مثال اللہ تعالی نے خود اپنے آپ اور انبیاء کرام کے درمیان معاہدے سے دی ہے۔ کیا آپ ایسااعلی اور شاندار معاہدہ یعنی رسولوں اور اللہ تعالی کے معاہدہ یا شادی کے معاہدے کو مغلوب اور ذلیل کرنے کا نام دے سکتے ہیں؟ نعوذ باللہ۔

آپ سے استدعا ہے کہ آپ قرآن پڑھا کریں۔ تاکہ واہیات قسم کے نظریات پر کچھ قرآن کا رنگ چڑھے ۔

والسلام
 

شمشاد

لائبریرین
کیا یہ طریقہ سنت سے ثابت بھی ہے؟ دوسرا جب اس خاتون سے زبردستی کی شادی ہوئی تو ظاہر ہے کہ اسے زبردستی مسلمان بھی بنایا گیا ہوگا، کیا یہ زبردستی کا اسلام نافذ کرنا اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف نہیں؟

یہاں ایک بات کہوں گا کہ مسلمان مرد کی شادی اہل کتاب غیر مسلم عورت سے رضامندی سے جائز ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہاں ایک بات کہوں گا کہ مسلمان مرد کی شادی اہل کتاب غیر مسلم عورت سے رضامندی سے جائز ہے۔

جی شمشاد بھائی، رضامندی کی بات نہیں‌ہو رہی۔ جیسا کہ واجد حسین نے لکھا، یہ بطور مطالبہ یا یوں کہیں کہ بطور ہرجانہ مانگا گیا تھا۔ اس میں کیا رضامندی لی گئی ہوگی؟
 

ظفری

لائبریرین
آپ دیکھیں کہ یہاں جہاد کی کیسی توجیحات اور تشریحات پیش کیں جا رہی ہیں ۔ اور اپنی توجیحات اور تشریحات تک کا ان کے پاس جواب نہیں ۔

جہاد اسلام میں ایسے نہیں ہوتا جیسا کہ یہاں کتابچوں میں بتایا جارہا ہے ۔ جہاد کے لیئے اسلام میں ایک پورا قانون ہے ۔ جس کو بڑی وضاحت کیساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے چند بنیادی نکات ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئیں ۔ جہاد علماء نے نہیں بلکہ حکومت کو کرنا ہوتا ہے ۔ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ لوگوں پہ اللہ تعالیٰ کے حدود ، کوئی عام آدمی نافذ کردے ۔ کوئی تنظیم نافذ کردے ۔ کوئی جماعت نافذ کردے ۔ یہ ذمہ داری باقاعدہ ایک حکومت کی ہے ۔ یہی ذمہ داری جہاد کے معاملے میں ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آپ جہاد کس مقصد کے لیئے کرتے ہیں ۔ اسلام میں جہاد ، نہ تو مالِ غنیمت کے لیئے کیا جاتا ہے ۔ نہ ہی دنیا کو تسخیر کرنے کے لیئے کیا جاتا ہے ۔ نہ کسی مذہبی تبلیغ کے لیئے ہوتا ہے ۔ نہ اپنا دین لوگوں پہ نافذ کرنے کے لیئے ہوتا ہے اور نہ ہی کسی نظام کے غلبے کے لیئے ہوتا ہے ۔ اسلام میں جہاد صرف " ظلم و ادوان " کے خلاف ہوتا ہے ۔ جس طریقے سے کوئی سرکش ہوجاتا ہے ۔ تو آپ اس کے خلاف اقدام کرتے ہیں ۔ جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو اللہ تعالیٰ نے حرمت عطا فرمائی ہے ۔ اس بنیادی بات کو پہلے سمجھ لینا چاہیئے ۔ اس دنیا میں اللہ نے امتحان کا جو پلان مقرر کر رکھا ہے ۔ اس کے لیئے اس نے یہ اہتمام کیا ہے کہ لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو آزاد رکھا جائے ۔ اور یہ عقل و رائے کی ہی آزادی ہے جس کو اللہ یوں بیان فرماتا ہے کہ " میں نے اپنے تکمیلی نظام میں لوگوں پر کوئی جبر نہیں کیا ( لا ابراھا فی دین ) ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میں‌نےانسانوں‌کو یہ حق دیا ہے کہ " جس کا جی چاہے وہ ایمان قبول کرے ، جس کا جی چاہے وہ کفر اختیار کرے " ۔ یہ فرمان ہے آزادی کا حریت کا ۔ چنانچہ اللہ چاہتا ہے کہ دنیا میں جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کی آزادی رہے ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں کتنی بلاغت کیساتھ فرمایا ہے کہ " یہ دن ( یوم النہر) جو حرمت رکھتا ہے ، یہ مہینہ ( ذی الحج ) جو حرمت رکھتا ہے ، یہ شہر ( مکہ ) جو حرمت رکھتا ہے ، اس سے بڑی اسلام میں اور کیا کسی کی ہوسکتی ہے ۔ مگر یہاں فرمایا کہ اس سے بڑھ کر حرمت تمہاری جان ، مال ، آبرو کو حاصل ہے ۔ " سو یہ وہ حرمت ہے ۔ جس کی حفاظت کرنا ہر اجتماعی نظام کی ذمہ داری ہے ۔ یہی حفاظت ، حکومت ایک قانون بنا کر کرتی ہے ۔ اگر قومیں سرکش ہوجائیں تو پھر ان کے خلاف جنگ کی جاتی ہے ۔ جہاد ایک وسیع اصطلاح ہے ۔ جہاد صرف جنگ کے لیئے قرآن مجید میں استعمال نہیں‌ ہوتا ۔ اصل لفظ قتال ہے ۔ اور قتال کا حکم لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو حکومتوں ، قوموں ، قبیلوں ، جماعتوں کے ظلم سے بچانے کے لیئے ہے ۔
اگر اس نوعیت کا کہیں ارتکاب ہو رہا ہے ، آپ کو معلوم ہے کہ جان و مال اور آبرو و عقل رائے کے خلاف ظلم ہورہا ہے ۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاد فوراً فرض ہوگیا ہے ۔ اگر آپ کے پاس اس ظلم کا ازالہ کرنے کی طاقت ہے تو تب آپ جہاد کے لیئے اٹھیں گے ۔ اس کے لیئے قرآن مجید نے نسبت و تناسب کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اور جب یہ ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام پر ڈالی گئی تو 1 نسبت 2 کی حساب سے ڈالی گئی ۔ اس وقت مسلمان کہاں جہاد کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ اگر یہ پوزیشن میسر نہیں ہے تو پھر تصادم کی فضا نہ پیدا ہونی دی جائے ۔ آپ حالات میں خرابی نہ پیدا ہونے دیں ۔ آپ ہر قیمت پر امن خریدیں تاکہ آپ اپنے اندر طاقت بھی پیدا کریں اور قوت بھی پیدا کریں ورنہ جرم ِ ضعیفی کی سزا ، مرگِ مفاجات ۔ اگر طاقت نہیں ہے تو پھر اس کے بعد آپ خودکشی کریں گے ۔ اور اب کیا ہورہا ہے ۔ افغانستان میں جہاد کرکے ہم نے کیا کیا ۔ سامراجی قوتوں کے جانے کے بعد ہم نے اپنے ہی لوگوں کے گلے کاٹے ۔ اب پاکستان میں بھی ہم جہاد کر رہے ہیں ۔ کس کے خلاف کر رہے ہیں ۔ خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں ۔ اصل میں جہاد کو جب ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے قانون سے مبرا قرار دیکر اپنے نظریوں اور عقائد میں ڈھال لیا ہے ۔ اور اب ہر جگہ کا ایک امیر المومینن ہے ۔ جس کے ہاتھ میں اب لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل رائے کا اختیار آگیا ہے ۔ اب وہ جہاں چاہیں کسی کو بھی اغواء کرکے ، اس کے سر قلم کے مناظر والی وڈیو فخر سے دنیا کے سامنے پیش کریں ۔ کسی بھی خاتون کا فاحشہ قرار دیکر اس کو زندگی سے محروم کردیں ۔۔۔ جب اس سے بھی مطمئن نہ ہوئے تو اب کم عمر بچوں کو ورغلا کر انہیں بازاروں ، چوراہوں ، مسجدوں ، جنازوں ، شادیوں وغیرہ میں خود کش حملوں میں استعمال کیا جارہا ہے ۔ یہ ہے وہ جہاد ۔۔۔ جس کی نوید مولوی عرصے سے سنا رہے ہیں ۔ اور یہ ہے وہ آثار جس کے بعد مسلمان ایک عظیم قوم بن کر سامنے آنے والی ہے ۔
 

سارا

محفلین
ماشا اللہ ظفری بھائی بہت ہی تفصیل سے آپ نے جواب دیا ہے میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ آپ ایک جہاد کے ٹاپک پر اپنا الگ سے دھاگہ کھولیں اور اس میں ساری جہاد کے متعلق تفصیل بیان کریں قرآن اور حدیث کی روشنی میں۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات بتائیں کہ انہوں نے کن حالات میں جہاد(قتال) کیا اور مسلمانوں کو کس وقت جہاد کرنے کا حکم دیا۔۔۔مسلمانوں پر جب حملہ ہو گا تو وہ کیسے دفاع کریں گے یا ہجرت کریں گے؟ اور وہ کس طرف ہجرت کریں گے ان کو پناہ کون دے گا؟ یا اگر وہ اپنے اس زمین کے ٹکڑے جس پر ان پر حملہ کیا گیا اس کے لیے لڑیں گے اور اپنے مسلمان بھائیوں سے مدد چاہیں گے تو ہم کیسے ان کی مدد کریں گے ؟ اور کن حالات میں ہم پر ان کی مدد کرنا فرض ہو جائے گا؟ اگر ممکن ہو سکے تو حدیث یا قرآن کی ایسی آیت بھی بتائیے گا جس میں بیان کیا گیا ہو کہ ہم صرف اسی وقت جہاد کر سکتے ہیں جب حکومت جہاد کی اجازت دے گی؟
وہ کونسے ایسے حالات تھے کہ صرف 313 لوگ جن میں بچے بوڑھے بھی شامل تھے جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے اور آج لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے پاس وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کر سکیں۔۔یا اپنے دفاع کے لڑ سکیں۔۔
نوٹ۔۔پلیز میرے یہ سوال جہاد کے متعلق ہیں نہ کہ خودکش حملوں کے متعلق۔۔اگر کوئی بھی بھائی اس بارے میں ایک الگ سے دھاگہ کھول کر ان سب پوائینٹس پر بات کرے تو یقینا علم میں اضافہ ہو گا ۔۔جزاک اللہ خیرا۔۔
 
جو صاحب بھی رسول اکرم کی سنت کے بارے میں جواب دیں ، اس امر پر بھی روشنی ڈالیں کہ رسول اکرم نے کتنے غزواۃ میں حملہ کیا اور کتنے غزواۃ میں‌دفاع کیا؟ بہت مہربانی ہوگی۔

اگر ممکن ہو سکے تو حدیث یا قرآن کی ایسی آیت بھی بتائیے گا جس میں بیان کیا گیا ہو کہ ہم صرف اسی وقت جہاد کر سکتے ہیں جب حکومت جہاد کی اجازت دے گی؟

جان بوجھ کر قرآن سے حوالے نہیں دے رہا ہوں۔ لہذا آپ سب کی سوچوں کے ارتقاء کے لئے سوال حاضر ہے:
اس ضمن میں یہ عرض‌ہے کہ اگر حکومت منظم ہونے کا نام نہیں، فلاحی ریاست کا نام نہیں ، جہاد اس فلاحی ریاست کے دفاع کا نام نہیں تو کیا کسی انارکی، طوائف الملوکی کا نام ہے، کہ جس کا منہہ اٹھے وہ حکومت کرنے لگے اور جو چاہے وہ جہاد ڈیکلئر کردے؟؟؟؟

والسلام۔
 

سارا

محفلین
فاروق بھائی پلیز اگر ممکن ہو تو یہ سوالات اور جو بھی بھائی ان کے جوابات دے گا اس کے لیے الگ سے دھاگہ کھولیں کیونکہ اس دھاگے کا ٹاپک مختلف ہے۔۔۔
 
بہن سارا، آرگومینٹ‌نہیں کررہا، جو سوالات اس ٹاپک سے متعلق ہیں ان کے جواب کا منتظر ہوں ۔ جہاد پر کئی دھاگہ پہلے ہی کھلے ہیں۔ اپنے اور میرے سوالات آپ وہاں بصورت اقتباس منتقل کرسکتی ہیں۔ اس دھاگہ پر جو اعتراضات ہیں‌ ان کے جواب کا انتظار رہے گا۔ ظفری کا جواب بامعنی اور مکمل طور پر دھاگہ سے متعلق ہے البتہ( معذرت کے ساتھ) آپ کا اعتراض‌ بے معنی ہے، التماس ہے کہ پورا دھاگہ دوبارہ پڑھ لیجئے۔ بتانے کی زحمت فرمائیے کہ لکھنے والا کیا لکھ رہا ہے؟ اور یہ مثالیں کیوں دی جارہی ہیں؟
 

ظفری

لائبریرین
ماشا اللہ ظفری بھائی بہت ہی تفصیل سے آپ نے جواب دیا ہے میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ آپ ایک جہاد کے ٹاپک پر اپنا الگ سے دھاگہ کھولیں اور اس میں ساری جہاد کے متعلق تفصیل بیان کریں قرآن اور حدیث کی روشنی میں ۔
بلکل انشاءاللہ میں ضرور یہ کام کروں گا ۔ یہ وقت طلب کام ہے اس لیئے جیسے جیسے فراغت نصیب آئے گی میں اس پر کچھ نہ کچھ لکھ کر جمع کرتا رہا ہوں گا اور پھر یہاں پیش کردوں گا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات بتائیں کہ انہوں نے کن حالات میں جہاد(قتال) کیا اور مسلمانوں کو کس وقت جہاد کرنے کا حکم دیا۔۔۔مسلمانوں پر جب حملہ ہو گا تو وہ کیسے دفاع کریں گے یا ہجرت کریں گے؟ اور وہ کس طرف ہجرت کریں گے ان کو پناہ کون دے گا؟ یا اگر وہ اپنے اس زمین کے ٹکڑے جس پر ان پر حملہ کیا گیا اس کے لیے لڑیں گے اور اپنے مسلمان بھائیوں سے مدد چاہیں گے تو ہم کیسے ان کی مدد کریں گے ؟ اور کن حالات میں ہم پر ان کی مدد کرنا فرض ہو جائے گا؟ اگر ممکن ہو سکے تو حدیث یا قرآن کی ایسی آیت بھی بتائیے گا جس میں بیان کیا گیا ہو کہ ہم صرف اسی وقت جہاد کر سکتے ہیں جب حکومت جہاد کی اجازت دے گی؟
وہ کونسے ایسے حالات تھے کہ صرف 313 لوگ جن میں بچے بوڑھے بھی شامل تھے جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے اور آج لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے پاس وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کر سکیں۔۔یا اپنے دفاع کے لڑ سکیں۔۔
نوٹ۔۔پلیز میرے یہ سوال جہاد کے متعلق ہیں نہ کہ خودکش حملوں کے متعلق۔۔اگر کوئی بھی بھائی اس بارے میں ایک الگ سے دھاگہ کھول کر ان سب پوائینٹس پر بات کرے تو یقینا علم میں اضافہ ہو گا ۔۔جزاک اللہ خیرا۔
سارا بہن ۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ ذکر اور دیگر بیان سنتیں رہتیں ہیں‌ ۔ آپ سے ایک سوال ہے کہ کیا کبھی آپ کے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ جو کہا جارہا ہے ۔ اس کا ماخذ کیا ہے ۔ اس کا پس منظر کیا ہے ۔ یا جو بات کہی جارہی ہے اور اس کا تعلق اگر قرآن سے ہے تو اس کا سیاق و سباق کیا ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک سورہ کی دو آیتیں اوپر سے اور دو آیتیں آخر سے لیکر ایک تاثر دیدیا گیا ہو اور سورہ کا اصل ماخذ پس منظر میں چلا گیا ہے ۔ یا آپ نے کبھی اس قسم کی تحقیق کی ۔ یا بیان سن کر یا پڑھ کر فورا ً ہی یقین کر لیا کہ بس یہی صحیح ہے ۔ اور یہ حرفِ آخر ہے ۔ ا سکے بعد اس میں کسی تصحیح یا غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔ آپ کیساتھ یقیناً ایسا ہی ہے ۔ کیونکہ میں‌ نے قرآن مجید کی جہاد کے بارے میں بنیادی باتیں لکھیں ہیں ۔ اور اگر آپ نے اس کو غور سے پڑھا ہوتا تو آپ میرے کسی جملے کو " کوٹ " کرتیں اور کہتیں کہ یہاں مجھے اختلاف ہے کیونکہ یہ بات میرے علم میں اس طرح آئی ہے جو آپ کی بات سے بلکل مختلف ہے ۔ یہ کسی بھی بحث کا علمی انداز ہوتا ہے ۔ جہاں انسان حقائق کو جاننے کی کوشش کرتا ہے ۔ حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ خیر میں یہاں زیادہ نہیں الجھتا ۔ آپ کے باقی سوالوں‌کا جوابات میں جلد ہی یہاں پوسٹ کروں گا ۔ مگر ابھی میں نے جو ریڈ کلر میں آپ کا سوال ظاہر کیا ہے ۔ اس کامیں جواب دینا چاہوں گا کہ آپ کو جہاد کے معاملے میں اللہ کے قانون کا تھوڑا بہت اندازہ ہوجائے ۔
آپ نے سوال کیا ہے تو آپ کو یہ بھی علم ہوگا کہ اس 313 صحابہ پر مشتمل لشکر کا پسِ منظر کیا تھا ۔ یعنی مدینہ میں تھے ۔ یعنی ہجرت کرکے مدینہ آچکے تھے ۔ اپنا سامان حرب جیسے تیسے تیار کر چکے تھے ۔ مکہ والے ان پر حملہ کرنے آرہے تھے ۔ یہ لوگ مکہ والوں پر حملہ کرنے نہیں نکلے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اللہ سے جو دعا مانگی وہ یہ تھی " اے اللہ ! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کےساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی “
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی ’’سورۃ انفال‘‘ میں اس کا ذکر ہے۔
اب آپ آئیں مکہ کی طرف ۔۔۔ کفار کے مظالم عروج پر ہیں ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ ہجرت کا حکم آجاتا ہے ۔ یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ آپ کے جتنے بھی دوچار ساتھی ہیں وہ آپ کیساتھ آگے بڑھیں اور ان کفار کیساتھ جہاد کریں ۔ اللہ فتح نصیب فرمائے گا ۔ یہاں اللہ نے مصلحت کا راستہ اختیار کرنے کو کہا ۔ ہجرت کا حکم صادر فرمایا ۔ ایک خاص جگہ جاکر اپنی جماعت کو مضبوط کرنے کو کہا گیا ۔ مگر جب وقت سے پہلے حالات ایسے ہوگئے کہ جنگ ناگزیر ہوگئی تو اللہ نے فتح دلادی ۔ اب آپ جنگ ِ احد کو بھی دیکھیں کہ وہاں فتح نہ ہونے کے اسباب کیا تھے ، جبکہ اللہ کے پیغمبر اس وقت موجود تھے ۔ اس پر بھی غور فرمائیں ۔
اس کے بعد آپ دیکھ لیں کہ اللہ نے ایک نسبت دو کے تناسب سے جنگ کرنے کا حکم دیا ۔ یعنی دشمن کے مقابلے میں کم ازکم نصف طاقت ضرور حاصل ہو تب اللہ مدد فرمائے گا ( اس میں بھی اللہ کی حکمت پوشیدہ ہے ۔ ورنہ ہر جماعت ، ہرجھتہ ، ہر فرد آج کی طرح اس وقت بھی جہاد کرنے نکل پڑتا ) ۔ آج ہم جہاد کے معاملے میں کہاں کھڑے ہوئے ہیں ۔ لوگ 313 کی تعداد کا حوالہ تو ضرور دیتے ہیں مگر ا سکا صحیح پس منظر بیان نہیں کرتے کہ اللہ نے ان کو کیوں ، کس طرح فتح نصیب فرمائی ۔ کیا آپ سمجھتیں ہیں کہ آج کسی جماعت کو 313 کا ہندسہ حاصل ہوجائے تو کیا اس کو دشمن کے مقابلے میں فتح حاصل ہوجائے گی ۔
آپ تاریخ اٹھائیں اور دیکھیں کہ مسلمانوں میں جو مزاحمتوں کی جو تحریکیں اٹھیں ۔ اس میں آپ نے جہاد بھی کیا ، آپ کے بڑے صالحین جہاد کرنے کے لیئے اٹھے ۔ تاریخ پر ایک نظر ڈال کر دیکھئے کہ کہاں کامیابی ہوئی ۔ اصل میں دنیا کے اندر میدان جنگ میں کامیابی کی اپنی ایک سائنس ہے ۔ اور اسی کے مطابق کامیابی ہوگی ۔ ٹیپو سلطان کو کامیابی ہوئی ، بخت خان کو جنگِ آزادی میں کامیابی ہوئی ۔ ؟ سید احمد شہید کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ مہدی سوڈانی کو کامیابی ہوئی ۔ انور پاشا کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ امام شامل کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ ملا عمر کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ صدام حیسن کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ کارگل میں آپ کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ جنگِ رمضان میں مصر کو کامیابی ہوئی ۔؟
آج آپ کا مقابلہ جن لوگوں سے ہے ذرا ان سے اپنی نسبت اور تناسب کا موازانہ تو کجیئے ۔ صفر اور لاکھ ہے ۔ ہے کیا آپ کے پاس ۔ ؟ نہ آپ کے پاس ٹیکنالوجی ہے ، نہ آپ کے پاس علوم ہے ، نہ آپ کے پاس کوئی پس منظر ہے ، نہ آپ کی اقتصادی حالت اس قابل ہے ۔ جنگ کیا کوئی کھیل ہے کہ کوئی قوم آج جنگ کا فیصلہ کر لے ۔ ہمارے پاس آج رہنمائی اور جنگ کا کیا طریقہ ہے کہ آپ یہاں ایک بم چلا دیں ، وہاں ایک خودکش حملہ کردیں ، معصوم لوگوں کے پرخچے اڑادیں ۔ گھر جاتی ہوئی ، راہ چلتی ہوئی عورتوں کو قتل کردیں ۔ یہ تو ایک بدترین ظلم ہے ۔ آپ کو جہاد کرنا ہے تو اس کے لیئے تو آپ کو طاقت چاہیئے ۔ وہ ہوگی تو ہوگا ، ورنہ نہیں ہوگا ۔ اس وقت ہمیں اپنے لیئے امن کا وقفہ حاصل کرنا ہے ۔ جس کے دوران ہم اپنی ارسرِنو تعمیر کرسکیں ۔ قومیں مہینوں یا سالوں میں نہیں بن جاتیں ۔ اس کے لیئے صدی بھی لگ سکتی ہے ۔ پانچ سو سال قبل جب ہمارا زوال شروع ہوا تھا اگر یہی حکمتِ عملی اس وقت اختیار کر لی جاتی تو آج صورتحال قدرے مختلف ہوتی ۔ جب تک ہمیں امن کا زمانہ میسر نہیں آئے گا ہم کبھی بھی اپنی تعمیر اور ترقی کی راہ پا نہیں سکتے ۔ لہذا کسی کی طاقت اور ظلم کا رونا رونے کے بجائے ، ہمیں اپنی کوتاہیوں ، کمزوریوں کا ازالہ کرنا پڑے گا ۔ بصورتِ دیگر ایک بھٹکی اور انتشار میں گھری قوم کی اپنی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔
 

سارا

محفلین
بہن سارا، آرگومینٹ‌نہیں کررہا، جو سوالات اس ٹاپک سے متعلق ہیں ان کے جواب کا منتظر ہوں ۔ جہاد پر کئی دھاگہ پہلے ہی کھلے ہیں۔ اپنے اور میرے سوالات آپ وہاں بصورت اقتباس منتقل کرسکتی ہیں۔ اس دھاگہ پر جو اعتراضات ہیں‌ ان کے جواب کا انتظار رہے گا۔ ظفری کا جواب بامعنی اور مکمل طور پر دھاگہ سے متعلق ہے البتہ( معذرت کے ساتھ) آپ کا اعتراض‌ بے معنی ہے، التماس ہے کہ پورا دھاگہ دوبارہ پڑھ لیجئے۔ بتانے کی زحمت فرمائیے کہ لکھنے والا کیا لکھ رہا ہے؟ اور یہ مثالیں کیوں دی جارہی ہیں؟

بھائی میں نے اعتراض نہیں کیا کچھ سوالات کیے ہیں ظفری بھائی نے بہت تفصیل سے جواب دیا تھا اس لیے میں نے ان کو مخاطب کیا ہے کہ وہ ان سوالات کے بھی تفصیل سے جوابات دیں۔۔جہاں تک جہاد کے متعلق بہت سے دھاگے ہونے کا سوال ہے تو میرا خیال ہے کہ ایک اور کھلنے سے اتنا فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ ہر دھاگے کا ایک الگ ٹاپک ہوتا ہے اس دھاگے سے میرے سوالات ملتے نہیں ہیں اس لیے ان کے لیے الگ سے بات کی۔۔مجھے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں نے ان کے لکھے پر تبصرہ نہیں کیا ہے بلکہ میرے ذہن میں جو سوالات آ رہے تھے وہ پوچھے ہیں۔۔
 

سارا

محفلین
بلکل انشاءاللہ میں ضرور یہ کام کروں گا ۔ یہ وقت طلب کام ہے اس لیئے جیسے جیسے فراغت نصیب آئے گی میں اس پر کچھ نہ کچھ لکھ کر جمع کرتا رہا ہوں گا اور پھر یہاں پیش کردوں گا ۔


سارا بہن ۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ ذکر اور دیگر بیان سنتیں رہتیں ہیں‌ ۔ آپ سے ایک سوال ہے کہ کیا کبھی آپ کے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ جو کہا جارہا ہے ۔ اس کا ماخذ کیا ہے ۔ اس کا پس منظر کیا ہے ۔ یا جو بات کہی جارہی ہے اور اس کا تعلق اگر قرآن سے ہے تو اس کا سیاق و سباق کیا ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک سورہ کی دو آیتیں اوپر سے اور دو آیتیں آخر سے لیکر ایک تاثر دیدیا گیا ہو اور سورہ کا اصل ماخذ پس منظر میں چلا گیا ہے ۔ یا آپ نے کبھی اس قسم کی تحقیق کی ۔ یا بیان سن کر یا پڑھ کر فورا ً ہی یقین کر لیا کہ بس یہی صحیح ہے ۔ اور یہ حرفِ آخر ہے ۔ ا سکے بعد اس میں کسی تصحیح یا غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔ آپ کیساتھ یقیناً ایسا ہی ہے ۔ کیونکہ میں‌ نے قرآن مجید کی جہاد کے بارے میں بنیادی باتیں لکھیں ہیں ۔ اور اگر آپ نے اس کو غور سے پڑھا ہوتا تو آپ میرے کسی جملے کو " کوٹ " کرتیں اور کہتیں کہ یہاں مجھے اختلاف ہے کیونکہ یہ بات میرے علم میں اس طرح آئی ہے جو آپ کی بات سے بلکل مختلف ہے ۔ یہ کسی بھی بحث کا علمی انداز ہوتا ہے ۔ جہاں انسان حقائق کو جاننے کی کوشش کرتا ہے ۔ حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ خیر میں یہاں زیادہ نہیں الجھتا ۔ آپ کے باقی سوالوں‌کا جوابات میں جلد ہی یہاں پوسٹ کروں گا ۔ مگر ابھی میں نے جو ریڈ کلر میں آپ کا سوال ظاہر کیا ہے ۔ اس کامیں جواب دینا چاہوں گا کہ آپ کو جہاد کے معاملے میں اللہ کے قانون کا تھوڑا بہت اندازہ ہوجائے ۔
آپ نے سوال کیا ہے تو آپ کو یہ بھی علم ہوگا کہ اس 313 صحابہ پر مشتمل لشکر کا پسِ منظر کیا تھا ۔ یعنی مدینہ میں تھے ۔ یعنی ہجرت کرکے مدینہ آچکے تھے ۔ اپنا سامان حرب جیسے تیسے تیار کر چکے تھے ۔ مکہ والے ان پر حملہ کرنے آرہے تھے ۔ یہ لوگ مکہ والوں پر حملہ کرنے نہیں نکلے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اللہ سے جو دعا مانگی وہ یہ تھی " اے اللہ ! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کےساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی “
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی ’’سورۃ انفال‘‘ میں اس کا ذکر ہے۔
اب آپ آئیں مکہ کی طرف ۔۔۔ کفار کے مظالم عروج پر ہیں ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ ہجرت کا حکم آجاتا ہے ۔ یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ آپ کے جتنے بھی دوچار ساتھی ہیں وہ آپ کیساتھ آگے بڑھیں اور ان کفار کیساتھ جہاد کریں ۔ اللہ فتح نصیب فرمائے گا ۔ یہاں اللہ نے مصلحت کا راستہ اختیار کرنے کو کہا ۔ ہجرت کا حکم صادر فرمایا ۔ ایک خاص جگہ جاکر اپنی جماعت کو مضبوط کرنے کو کہا گیا ۔ مگر جب وقت سے پہلے حالات ایسے ہوگئے کہ جنگ ناگزیر ہوگئی تو اللہ نے فتح دلادی ۔ اب آپ جنگ ِ احد کو بھی دیکھیں کہ وہاں فتح نہ ہونے کے اسباب کیا تھے ، جبکہ اللہ کے پیغمبر اس وقت موجود تھے ۔ اس پر بھی غور فرمائیں ۔
اس کے بعد آپ دیکھ لیں کہ اللہ نے ایک نسبت دو کے تناسب سے جنگ کرنے کا حکم دیا ۔ یعنی دشمن کے مقابلے میں کم ازکم نصف طاقت ضرور حاصل ہو تب اللہ مدد فرمائے گا ( اس میں بھی اللہ کی حکمت پوشیدہ ہے ۔ ورنہ ہر جماعت ، ہرجھتہ ، ہر فرد آج کی طرح اس وقت بھی جہاد کرنے نکل پڑتا ) ۔ آج ہم جہاد کے معاملے میں کہاں کھڑے ہوئے ہیں ۔ لوگ 313 کی تعداد کا حوالہ تو ضرور دیتے ہیں مگر ا سکا صحیح پس منظر بیان نہیں کرتے کہ اللہ نے ان کو کیوں ، کس طرح فتح نصیب فرمائی ۔ کیا آپ سمجھتیں ہیں کہ آج کسی جماعت کو 313 کا ہندسہ حاصل ہوجائے تو کیا اس کو دشمن کے مقابلے میں فتح حاصل ہوجائے گی ۔
آپ تاریخ اٹھائیں اور دیکھیں کہ مسلمانوں میں جو مزاحمتوں کی جو تحریکیں اٹھیں ۔ اس میں آپ نے جہاد بھی کیا ، آپ کے بڑے صالحین جہاد کرنے کے لیئے اٹھے ۔ تاریخ پر ایک نظر ڈال کر دیکھئے کہ کہاں کامیابی ہوئی ۔ اصل میں دنیا کے اندر میدان جنگ میں کامیابی کی اپنی ایک سائنس ہے ۔ اور اسی کے مطابق کامیابی ہوگی ۔ ٹیپو سلطان کو کامیابی ہوئی ، بخت خان کو جنگِ آزادی میں کامیابی ہوئی ۔ ؟ سید احمد شہید کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ مہدی سوڈانی کو کامیابی ہوئی ۔ انور پاشا کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ امام شامل کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ ملا عمر کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ صدام حیسن کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ کارگل میں آپ کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ جنگِ رمضان میں مصر کو کامیابی ہوئی ۔؟
آج آپ کا مقابلہ جن لوگوں سے ہے ذرا ان سے اپنی نسبت اور تناسب کا موازانہ تو کجیئے ۔ صفر اور لاکھ ہے ۔ ہے کیا آپ کے پاس ۔ ؟ نہ آپ کے پاس ٹیکنالوجی ہے ، نہ آپ کے پاس علوم ہے ، نہ آپ کے پاس کوئی پس منظر ہے ، نہ آپ کی اقتصادی حالت اس قابل ہے ۔ جنگ کیا کوئی کھیل ہے کہ کوئی قوم آج جنگ کا فیصلہ کر لے ۔ ہمارے پاس آج رہنمائی اور جنگ کا کیا طریقہ ہے کہ آپ یہاں ایک بم چلا دیں ، وہاں ایک خودکش حملہ کردیں ، معصوم لوگوں کے پرخچے اڑادیں ۔ گھر جاتی ہوئی ، راہ چلتی ہوئی عورتوں کو قتل کردیں ۔ یہ تو ایک بدترین ظلم ہے ۔ آپ کو جہاد کرنا ہے تو اس کے لیئے تو آپ کو طاقت چاہیئے ۔ وہ ہوگی تو ہوگا ، ورنہ نہیں ہوگا ۔ اس وقت ہمیں اپنے لیئے امن کا وقفہ حاصل کرنا ہے ۔ جس کے دوران ہم اپنی ارسرِنو تعمیر کرسکیں ۔ قومیں مہینوں یا سالوں میں نہیں بن جاتیں ۔ اس کے لیئے صدی بھی لگ سکتی ہے ۔ پانچ سو سال قبل جب ہمارا زوال شروع ہوا تھا اگر یہی حکمتِ عملی اس وقت اختیار کر لی جاتی تو آج صورتحال قدرے مختلف ہوتی ۔ جب تک ہمیں امن کا زمانہ میسر نہیں آئے گا ہم کبھی بھی اپنی تعمیر اور ترقی کی راہ پا نہیں سکتے ۔ لہذا کسی کی طاقت اور ظلم کا رونا رونے کے بجائے ، ہمیں اپنی کوتاہیوں ، کمزوریوں کا ازالہ کرنا پڑے گا ۔ بصورتِ دیگر ایک بھٹکی اور انتشار میں گھری قوم کی اپنی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔

جیسا کہ‌آپ نے اوپر کہا کہ میں آپ کے کسی جملے کو کوٹ کرتی اور کہتی کہ یہاں مجھے اختلاف ہے یہ کسی بھی بحث کا علمی انداز ہوتا ہے۔۔میں نے ایسا اس لیے نہیں کیا کیوں کہ میرے پاس معلومات ہی نہیں ہیں نہ مجھے اس بارے میں علم ہے ہاں اگر میں آپ کے کہے پر بحث کر سکتی تو ضرور کرتی۔۔اس لیے اس سب کو پڑھ کر میرے ذہن میں جو سوالات آئے وہ میں نے پوچھ لیے۔۔میں چاہتی ہوں جو آج کل جہاد نہ کرنے کی بات کرتے ہیں کیوں کہ وسائل نہیں ہیں وغیرہ تو ان کے بارے میں بھی تفصیل سے پڑھوں کہ ان کا نظریہ کیا ہے اور ان کے پاس کیا دلائل ہیں کونسی آیات ہیں کونسی احادیث ہیں۔۔۔
جیسا کہ آپ نے کہا کہ اکثر بیان کرنے والے دو آیتیں آگے سے 2 پیچھے سے بیان کر دیتے ہیں سورہ کا اصل ماخذ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔۔'' بات تو ایک ایک آیت کو بھی سمجھنے کی ہوتی ہے میں پہلے کبھی تحقیق نہیں کرتی تھی لیکن کچھ عرصہ ہوا پڑھانے والوں نے ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈالی کہ کہنے والے تمہارے استاد ہوں یا والدین ان سے بھی حوالے لیا کرو کہ یہ صحیح حدیث ہے یا نہیں یہ قرآن کی کونسی آیت ہے؟ اور ہم انشا اللہ ہر وقت اپنے آپ کو تیار رکھتے ہیں کہ کوئی اگر کہے کہ آپ یہ کام غلط کر رہے ہو خلافِ سنت ہے تو انشا اللہ اسی وقت اس کام کو چھوڑ دیں گے ہمارے لیے کوئی بھی بات حرفِ آخر نہیں ہے صرف اللہ اور اس کے رسول کی بات کے سوا انشا اللہ''۔۔
خودکش حملے کرنے والے' بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے والے ظالم ہیں ایسے لوگ کبھی بھی حق پر نہیں ہو سکتے چاہے وہ یہ حملے کافروں پر ہی کیوں نہ کریں۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے الفاظ ذہن میں آرہے ہیں کہ ' بچوں کو کچھ نہ کہنا عورتو‌ں کو کچھ نہ کہنا'' یہ کچھ ظالم لوگ ہیں اور جب بھی ایسا کچھ ہوتا ہے تو پہلا جملہ جو میرے ذہن میں آتا ہے کہ ''کیا یہ مسلمان ہیں؟
مجھے آپ کی تحریر کا انتظار رہے گا آپ یہ بھی بتائیے گا کہ دنیا میں اگر کسی جگہ مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے تو ہم ان کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟؟ جزاک اللہ خیرا۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
سارا بہن ! ۔۔۔ آپ کا مثبت ردعمل دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ مجھے آج کل وقت کی کمی کی دقت کا سامنا ہے ۔ اس لیئے اس بڑے موضوع پر فوراً ہی تفصیل سے کچھ لکھنے سے قاصر ہوں ۔ مگر میں‌ یہاں کوشش کررہا ہوں کہ آپ کی کچھ باتوں کے بارے میں اپنا استدلال اور معلومات سرسری طور سے بیان کروں ۔ اسے ایک طرح کی تمہید سمجھ لیں جو میں انشاءاللہ مستقبل میں " جہاد " کے حوالے سے پوسٹ کرنے والا ہوں ۔
آپ نے جو سوالات یہاں اٹھائے ہیں ۔ ان کے جوابات بہت آسان اور سہل ہیں ۔ شرط صرف اتنی ہے کہ آپ اس ساری بحث کو علمی انداز میں لیں ۔ اگر ایسا ہوگا تو دلائل اور استدلال بڑی آسانی سے سمجھ آجائیں گے ۔

ہمیں دفاعی لڑائی یا جہاد اور اقدامی لڑائي یا جہاد میں فرق کرنا چاہیے۔جب ہمارے اوپر کوئي حملہ آور ہوگا تو ہمیں تو ہرحال میں اپنا دفاع کرنا ہوگا ، خواہ ہمارے پاس طاقت ہو یا نہ ہو بس اس دفاعی حکمت عملی میں اہمیت اس بات کی ہے کہ ہماری طاقت اور حالات کے لحاظ سے حکمت عملی کی نوعیت کیا ہوگی ۔ مثال کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق میں لڑنے کی بجائے اپنے دفاع کے لیے خندق کھودی۔ جہاں تک اپنی طرف سے کسی کے خلاف اقدام کا معاملہ ہے تو وہ لازماً دو ہی صورتوں میں جائز ہے ایک ظلم کے خلاف اور دوسرا اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف ۔واضح رہے کہ دوسری قسم کا تعلق خدا کے رسولوں کے ساتھ خاص ہے ۔ ( یہ وہ جہاد ہے جس کو آج اسامہ اور اسکے ساتھی سورہ احزاب کی اُن آیتوں کے حوالے سے اپنے جہاد سے منسلک کر رہے ہیں ، جن کا تعلق اتمامِ حجت سے ہے ۔ یعنی یہ جہاد اللہ نے رسولوں کے لیئے مختص کیا ہوا تھا ۔ چونکہ اب کسی نبوت کا ظہور نہیں ہونا ۔ کسی نبی کو مبعوث میں نہیں ہونا ۔ لہذا اس جہاد کا اطلاق اللہ کے آخری پیغمبر کیساتھ ختم ہوگیا ۔ اس پر تو کوئی بحث ہی نہیں ) ۔ آپ دیکھیں کہ جہاد میں دوسروں کی جان کے خلاف اقدام کیا جاتاہے اور یہ ایک حساس اجتماعی معاملہ ہے اس لیے یہ افراد پرنہیں چھوڑا جاسکتا ۔ اسی لیے اس کے لیے حکومت کی شرط ضروری ہے ۔ اور مکہ میں اسی لیے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت نہیں دی گئی ۔سورہ حج آیت 39 میں جب جہاد کی اجازت دی گئي تو اس وقت مدینہ میں اسلامی ریاست بن گئی تھی ۔ اس لیئے میں‌کہتا ہوں کہ قرآن میں ‌جب بھی کسی قانون یا جہاد کا حکم ملتا ہے تو پہلے اس کا سیاق و سبق اور پس منظر دیکھنا ضروری ہے ۔ تاکہ قرآن کی بات صحیح طور پر سمجھی جا سکے ۔
 
Top