مسلمانوں کے تخلیقی اذہان کی مغرب منتقلی (برین ڈرین)۔۔۔ غزالی فاروق

پاکستان میں کتنے ہزار مدرسے ہیں؟ اور کتنے مدرسوں میں معیاری سائنسی تعلیم دی جاتی ہے یا کم از کم مشاہدوں پہ اکسایا جاتا ہے؟ کیا وہاں یہ تعلیم نہیں دی جاتی کہ جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہی حتمی ہے؟ سائنس کی بنیاد تشکیک سے اور مذہب کی بنیاد ایمان سے شروع ہوتی ہے، کیا اس گیپ کو بھرنے کی صلاحیت ہے ہمارے اساتذہ اور علماء میں؟ لازم نہیں کہ اس کے خلاف دھرنے ہی ہوں یا اس کے خلاف بات ہو تو یہ کہا جائے کہ مشاہداتی ترویج سے روکا جا رہا ہے بلکہ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس کی ترویج ہو کتنی رہی ہے؟ یہ ترویج کسی باہر سے آئے فرد نے تو نہیں کرنی بلکہ اسی معاشرے سے پروان چڑھنی ہے اور معاشرے کی اکثریت کی سوچ ابھی مذہبی تاویلات میں دھنسی ہوئی ہے، ادھر سے فرصت ملے گی تو ادھر کچھ سوچے گی۔
جہاں تک سٹیٹ آف پاکستان کی بات ہے تو وہ ایک حد تک بے بس ہے۔ ملک میں کسی بھی مواقع پیدا کرنے، انڈسٹری لگانے میں حکومت درج ذیل اقدامات کرتی ہے۔
  • حکومتی کے پاس وسائل ملکی پروڈکشن سے منلسلک ہوتے ہیں اور حکومت انہیں مختلف شعبوں میں بلحاظ ضرورت خرچ کرتی ہے۔
  • حکومتی سرمایہ داروں کو دعوت دیتی ہے اور ان کو لیول پلے فیلڈ مہیا کرتی ہے اور ملک میں امن قائم کرتی ہیں۔
اول یہ کہ حکومت کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ اس کے تین بڑے ذرائع ہیں۔
  1. حکومت خود سرمایہ کاری کرے اور منافع کمائے۔
  2. اندرونی نجی شعبوں کی پیداوار کی فروخت پہ ٹیکس اکٹھا کرے۔
  3. باہر سے آنے والی چیزوں پر ٹیکس وصول کرے۔
پہلے نقطے میں حکومتی مشینری کے شعبوں میں کتنے ادارے ہیں جو پیداوار دے رہے ہیں؟ فوج جو بجٹ کا اتنا بڑا حصہ لیتی ہے اس سے کیا پیداوار ہے اور روزگار کے کیا مواقع پیدا کرتی ہے؟ اس کے علاوہ دیگر سرکاری شعبوں میں بھی پیداوار کی کیا شرح ہے؟ بوجہ مجبوری حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے۔ حکومت کو یقینا چاہیے کہ اس طرح کے اداروں کے اخراجات کو کم سے کم کر کے صنعتی اور سائنسی اداروں کو فروغ دے لیکن جونہی ان ڈیڈ اداروں کے بجٹ پہ کٹ لگتا ہے حکومت 'کرپشن'، 'ملک' اور 'عوام دشمنی کی نذر ہو جاتی ہے اور سول اداروں کے ملازمین بھی لٹھ لے کر میدان میں اتر پڑتے ہیں۔ حکومت بھارت اور دیگر ملکوں کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھاتی ہے تاکہ دفاعی اخراجات کم سے کم ہو جائیں تو دفاعی اداروں کا اسلامی پروپیگنڈہ شروع ہو جاتا ہے اور مذہبی جماعتیں انقلاب کی کال لیے میدان میں اتر آتی ہیں۔ اب اس ساری صورت حال کو باہر کے سرمایہ دار بہت قریب سے مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ معیشت ملکی امن سے منسلک ہے اور سرمایہ داری اسی 'ایکسپیکٹیشن' پہ چل رہی ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں کوئی بھی سرمایہ دار یہ نہیں چاہتا کہ اس کا سرمایہ ڈوب جائے اس لیے یہاں سرمایہ داری بہت محدود ہوتی ہے۔ دوسرا ذریعہ ٹیکس کا ہے تو اس ملک میں کتنے فیصد افراد ملکی ہمدردی کے تحت ٹیکس دیتے ہیں؟ پاکستانی معاشرے کے تناظر میں کما کر کھانے کو شاید ایک قسم کی توہین سمجھا جاتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے جو کرنا ہے حکومت کرے۔ حکومت ایک حد تک تعاون کر سکتی ہے اگر معاشرے میں پہلے ہی اس طرح کی فضا قائم ہو۔ یہاں فضا اس کے بالکل بر عکس ہے۔

آپ کے تفصیلی کمنٹ کے لیے نہایت مشکور ہوں۔اس وقت مدارس اسلام کے مطابق کام نہیں کر رہے۔ اسلام میں دنیاوی اور دینی تعلیم اکٹھی دی جاتی ہے۔ ایک ہی ادارے میں۔ الگ الگ نہیں۔ انہیں الگ الگ انگریزوں نے آ کر کیا تھا جس وجہ سے دینی علم سے عاری دنیاوی لوگ اور دنیاوی علم سے عاری دینی لوگ بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ اسلام کے سنہری دور میں ایک شخص عالم بھی ہوتا تھا اور سائنسدان بھی۔

مذہب کی بنیاد (عقیدہ) بھی عقلی تشکیک و تنقید پر مبنی ہے۔ ایک مسلمان کو اپنے عقیدے پر غور و فکر کرنا چاہیئے کہ آیا اس کا عقیدہ درست ہے یا نہیں۔ اگر درست ہے تو اس کے کیا دلائل ہیں اور وہ دلائل درست ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں تو کیسے درست ہیں۔ اور اسی غور و فکر کی قرآن ترغیب دیتا ہے اور اپنے اباؤ اجداد کے عقیدے کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کے بعد درست عقیدے کو اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن جب ایک عقیدہ درست تسلیم کر لیا جاتا ہے اور اس پر ایمان لے آیا جاتا ہے تو اس سے آگے کا سفر ایمان کا ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ پھر یہ کہنا ایک شخض کے لیے نامعقول ہو گا کہ میں زکاۃ کو تو مانتا ہوں لیکن اڑھائی فیصد کو نہیں۔ بلکہ یہ پانچ فیصد یا ایک فیصد ہونی چاہییے۔ یا نماز میں تین سجدے ہونے چاہیئں۔ یا اسلام میں دولت کے ارتکاز کو جائز ہونا چاہیئے۔ یا زنا بالرضا جائز ہونا چاہئیے۔ یا ہم جنس پرستی جائز ہونی چاہیئے۔ یا ایکسٹرا میریٹل سیکس وغیرہ۔ یہ سب کہنا غیر معقول ہو گا۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے خدا کو خدا تسلیم کیا ہی نہیں۔ خدا کو تسلیم کرنے کا لازمی تقاضا یہ ہونا چاہیئے کہ وہ خدا کے احکامات کو بلا چون و چرا درست تسلیم کرے۔ اور پھر جہاں تک ممکن ہو ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے۔

جہاں تک ریاست کے لیئے محصولات اکٹھے کرنے کی بات ہے تو اسلام نے اس کے لیے واضح احکامات دیئے ہیں جن سے غریب پر ٹیکسوں کا بوجھ سرے سے پڑتا ہی نہیں ، موجودہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے بالکل برعکس، جس میں ایک بھوک سے مرنے والا شخص بھی تمام اشیاء اور خدمات پر جی ایس ٹی ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔اسلام میں حکومت کا بڑا ذریعہ معاش خود سرمایہ کاری کرنا اور منافع کمانا ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے پہلے نکتے میں لکھا۔ لیکن موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ریاست کے بڑے بڑے اور بھاری منافع والے اداروں کی نجکاری کروا کر انہیں چند غیر ملکی سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور کرتا ہے جو ریاست کو جانے والے تمام منافع کا خود حقدار بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ سرکاری ادارہ خسارے میں تھا۔ سوال یہ ہے کہ اب وہ ادارہ انہی کام کرنے والے افراد کے ساتھ نجکاری کے بعد کیسے منافع بخش ہو گیا؟ معلوم ہوا کہ سرکار کی پولیسیوں میں مسٔلہ ہے جو اداروں کو چلانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ تو کیا ریاست ان پالیسیوں کو درست کرنے کی ذمہ دار نہیں تا کہ اسے ان اداروں کی نجکاری نہ کرنی پڑے؟ کیا ریاست سرکاری اداروں کو ان پالیسیوں کے تحت نہیں چلا سکتی جن کے تحت نجی ادارے چلاتے ہیں؟

اسلامی ریاست میں دفاعی بجٹ زیادہ ہی ہوتاہے کیونکہ اسلامی ریاست ایک غیرت مند ریاست ہوتی ہے جو اپنے مقبوضہ علاقوں کا دفاع کرتی ہے اور استعمار کے ہاتھوں مس یوز نہیں ہوتی۔موجودہ پاکستانی ریاست سے بالکل برعکس جس میں دفاعی بجٹ تو بہت زیادہ ہے لیکن ریاست پھر بھی کشمیر کا سودا کر دیتی ہے اور اس کی بجائے مغربی طاقتوں کی جنگیں لڑتی ہے۔ دفاعی طور پر مضبوط ریاست پر سرمایہ کار وں کا ٹرسٹ بڑھتا ہے اور ریاست میں سرمایہ کاری کے مواقع بڑھتے ہیں۔ اور خوشحالی آتی ہے۔ اور برین ڈرین کم ہوتا ہے۔

ان سب پولیسیاں کو اختیار کرنا اور ان کا نفاذ ریاست کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ اس لیے ریاست کی ترقی ریاست کے حکمرانوں کی پالیسیوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اس کا دوش عوام کو دینا ظلم ہے جو پہلے ہی ریاست کی غلط پالیسیوں کی بدولت ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔
 
یہ اصول مذہبی آزادی و آزادی اظہار کے خلاف ہے۔

اسلام مطلق آزادیوں کے تصور کو نہیں مانتا۔ آزادی اظہار رائے کے مطابق تو انبیاء کی تضحیک و توہین بھی جائز ٹھہرتی ہے۔

باقی ہر ریاست کے اپنے معاشرتی قوانین ہوتے ہیں جن کے پابند اس کے شہری ہوتے ہیں خواہ ان کا عقیدہ کوئی بھی ہو ۔ اگر کسی مذہب ، نظریے یا عقیدے کے مطابق برہنہ پھرنا جائز ہو، تو اسلامی ریاست میں ایسا عقیدہ رکھنا تو جائز ہو گا لیکن عوامی سطح پر برہنہ پھرنا جائز نہیں ہو گا کیونکہ یہ ریاستی قوانین کے خلاف ہو گا۔اسلامی ریاست میں معاشرہ حیا پر مبنی ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ حیا کا وہ تصور جو اسلام دیتا ہے۔ عوامی سطح پر ریاستی قوانین کی پابندی ہو گی۔ اس لیے اسلامی ریاست میں کسی بھی عقیدے کا شخص رہے، اپنی عبادت گاہوں میں اپنے عقیدے کی تبلیغ بھی کرے۔ لیکن کھلے عام یہ جائز نہیں۔کھلے عام تو ریاست کے قانون کی ہی پابندی ہو گی ۔اور ظاہر ہے وہ قانون اس ریاست کے عقیدے پر مبنی ہو گا نہ کہ کسی اور کے عقیدے پر۔ کیونکہ اسلامی ریاست ایک سیکولر ریاست نہیں۔ لیکن اس میں تمام لوگوں کو اپنا اپنا عقیدہ رکھنے اورریاست کے معاشرتی(اجتماعی) قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنے عقیدے کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کا اختیار ہے۔
 
آخری تدوین:
دفاعی جنگوں میں رقبے بڑھتے نہیں ہیں جبکہ اسلامی جنگوں میں جو فتوحات ہوئی ان سے اسلامی ریاست کے رقبے بڑھ گئے۔ خود فیصلہ کر لیں وہ کیسی جنگیں تھی۔

جی وہ دفاعی جنگیں نہیں تھیں۔ اقدامی جنگیں تھیں۔ لیکن کفر کے استحصال پر مبنی نظام کو ہٹا کر اسلام کے عدل پر مبنی نظام کو نافذ کرنے پر مبنی تھیں۔ اس لیے بر حق تھیں۔ آپ بیسک قبضہ کہہ لیں لیکن اللہ تعالیٰ کے مطابق یہ قبضہ عین حق پر مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے عین مطابق ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس لیے اسلامی ریاست میں کسی بھی عقیدے کا شخص رہے، اپنی عبادت گاہوں میں اپنے عقیدے کی تبلیغ بھی کرے۔ لیکن کھلے عام یہ جائز نہیں۔کھلے عام تو ریاست کے قانون کی ہی پابندی ہو گی ۔
یعنی اسلامی ریاست میں کھلے عام تبلیغ کی اجازت صرف مسلمانوں کو ہوگی؟ باقی غیر مسلموں کیلئے دہرا معیار؟ کیا یہ انصاف ہے؟
 

عرفان سعید

محفلین
جی وہ دفاعی جنگیں نہیں تھیں۔ اقدامی جنگیں تھیں۔ لیکن کفر کے استحصال پر مبنی نظام کو ہٹا کر اسلام کے عدل پر مبنی نظام کو نافذ کرنے پر مبنی تھیں۔
اگر مسلمان آج خاطر خواہ جنگی استعداد حاصل کر لیں تو انہیں پھر سےکیا غیر مسلموں کے خلاف اقدامی جنگیں کرنا ہوں گی؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر مسلمان آج خاطر خواہ جنگی استعداد حاصل کر لیں تو انہیں پھر سےکیا غیر مسلموں کے خلاف اقدامی جنگیں کرنا ہوں گی؟
دلچسپ !!!
اور یہ بھی دیکھا جائے کہ ماضی قریب و بعید میں جن جن غیر مسلموں کو یہ استعداد حاصل ہوئی وہ کیا کرتے رہے ۔ مثلا پرتگالی ہسپانوی جرمن ولندیزی فانسیسی اور ہاں آخر میں برطانوی وغیرہم آپس میں کشور کشائیوں کے کن میدانوں میں دوڑ لگاتے رہے ۔
 
یعنی اسلامی ریاست میں کھلے عام تبلیغ کی اجازت صرف مسلمانوں کو ہوگی؟ باقی غیر مسلموں کیلئے دہرا معیار؟ کیا یہ انصاف ہے؟

جاسم بھائی اس کی وجہ میں نے عرض کر دی ہے۔ اسلامی ریاست معاشرے میں معروف کی دعوت دیتی ہے اور منکر کو روکتی ہے۔ لیکن باطل عقائد و مذاہب کی معاشرے میں کھلے عام دعوت دراصل منکر کی دعوت ہے جو منکر کو روکنے کے فریضے کے عین منافی ہے۔ دو متضاد چیزیں تو اکٹھی نہیں ہو سکتی نہ؟

باقی دہرا معیار آپ اسے بھی کہہ سکتے ہیں کہاسلامی ریاست میں کوئی غیر مسلم شخص حاکم نہیں بن سکتا۔ حاکم کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ لیکن اللہ کا حکم ایسا ہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ روشنی اور اندھیرا ، اور ہدایت اور گمراہی ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا بعض معاملات میں دونوں کے ساتھ برتاؤ یکساں نہیں بلکہ مختلف بھی ہو جاتا ہے۔

باقی یہ میری اس معاملہ میں فہم ہے۔ غلط ہو سکتی ہے۔آپ کسی مستند عالم سے اس بارے میں بیشک مزید دریافت فرما لیں۔
 
اور ظاہر ہے ایسی ریاست کا قانون اسلامی ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو دیگر پر فوقیت دے گا۔

اسلام کا قانون مسلمان اور غیر مسلم شہری کے لیے برابر ہے ۔ سوائے چند ایک استثنائی معاملات کے۔ اور ان کا تعین بھی شرع نے کر دیا ہے۔ کوئی شخص ان میں رد و بدل نہیں کر سکتا۔ اگر کالم کے موضوع پر بات کی جائے تو سائنس کے میدان میں کسی مسلم اور غیر مسلم شہری کے درمیان فرق نہیں برتا جاتا۔ ایک غیر مسلم سائنسدان کو اپنے علم اور قابلیت کی بنیاد پر ریاست کے تمام مسلم سائنسدانوں پر برتری اور فوقیت حاصل ہو گی اور وہ اپنے شعبے سے متعلق بہتر سے بہتر پوزیشن پر کام بھی کر سکے گا۔
 
اگر مسلمان آج خاطر خواہ جنگی استعداد حاصل کر لیں تو انہیں پھر سےکیا غیر مسلموں کے خلاف اقدامی جنگیں کرنا ہوں گی؟
نیز مسلمان فاتحین کے ہاتھوں گرفتار خواتین و حضرات پر مغربیوں کا جنیوا کنونشن لاگو ہوگا یا۔۔۔؟
 
غیرمسلموں کے نزدیک پھر یہ ایک قبضہ ہی تصور ہوگا۔ آپ بیشک اسے فتح کہہ لیں۔

ایسا ہی ہے۔ لیکن غیر مسلم توخدا، قرآن اور رسول ﷺ کا انکار بھی کرتے ہیں۔ کیا ہم بھی ان کا انکار کر دیں کیونکہ وہ بھی انکار کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو ان کے کہنے پر ہم ناجائز قبضہ کیوں کہیں اسےجبکہ ہمارے مطابق یہ جائز ہے؟

انہوں نے اپنے عقیدے کے مطابق فیصلہ کرنا ہے ہم نے اپنے۔ دو فریقوں کے لیے صحیح وہ ہے جس کو اس کا عقیدہ درست کہتا ہے۔ اور اس میں عقیدے کے اختلاف کاے باعث دونوں میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
اور یہ بھی دیکھا جائے کہ ماضی قریب و بعید میں جن جن غیر مسلموں کو یہ استعداد حاصل ہوئی وہ کیا کرتے رہے ۔ مثلا پرتگالی ہسپانوی جرمن ولندیزی فانسیسی اور ہاں آخر میں برطانوی وغیرہم آپس میں کشور کشائیوں کے کن میدانوں میں دوڑ لگاتے رہے ۔
اس کا مطلب ہے کہ مذہب کوئی بھی ہو، جب کسی قوم کو طاقت اور استعداد حاصل ہوئی، اس نے اقدامی کاروائیاں کیں۔
 
اگر مسلمان آج خاطر خواہ جنگی استعداد حاصل کر لیں تو انہیں پھر سےکیا غیر مسلموں کے خلاف اقدامی جنگیں کرنا ہوں گی؟

آپ اس سوال کے بارے میں اپنی خواہش پر مبنی فیصلے کو ترجیح دیں گے یا قرآن و سنت کے فیصلے کو؟ اگر آپ کی خواہش اور قرآن و سنت کے کسی حکم کے درمیان اختلاف ہو جائے تو آپ کس کو ترجیح دیں گے؟

پہلے تو یہ معیار واضح کریں نہ۔ یہ سوالات تو اس سب کے بعد کے ہیں۔
 

زیک

مسافر
آپ اس سوال کے بارے میں اپنی خواہش پر مبنی فیصلے کو ترجیح دیں گے یا قرآن و سنت کے فیصلے کو؟ اگر آپ کی خواہش اور قرآن و سنت کے کسی حکم کے درمیان اختلاف ہو جائے تو آپ کس کو ترجیح دیں گے؟

پہلے تو یہ معیار واضح کریں نہ۔ یہ سوالات تو اس سب کے بعد کے ہیں۔
برین ڈرین کی وجوہات واضح کرنے کے لئے یہ ایک مراسلہ ہی کافی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس کا مطلب ہے کہ مذہب کوئی بھی ہو، جب کسی قوم کو طاقت اور استعداد حاصل ہوئی، اس نے اقدامی کاروائیاں کیں۔
یہ رخ تو ان تاریخی حقائق کا ہو گا جو سلطنتوں کے عروج و زوال اور بڑی تبدیلیوں پر محیط ہوں گے ۔ اصل میں کسی نظام (مشرق یا مغرب ، مسلم یا غیر مسلم) کے محاسن اور معائب سے متعلق اہم نتائج ان حقائق سے اخذ کیے جائنے چاہیئں جو ان تبدیلیوں کے بعد عوام کے تمدن اور ثقافتی تبدیلیوں میں رونما ہوں گے ۔ یعنی مختلف علاقوں اور آبادیوں پر اثر انداز ہونے والی بڑی سیاسی تبدیلیوں کو اینتھروپولوجیکل اقدار میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر سمجھا اور متعین کیا جانا چاہیئے ۔
یعنی سادہ الفاظ میں کسی غالب قوم نے مغلوب قوم کے نبرد آزما ہونے والی فوجوں کے ساتھ کیا کیا اور علاقے کے عوام کے لیے کیا نظام پیش کیا ۔
 

عرفان سعید

محفلین
آپ اس سوال کے بارے میں اپنی خواہش پر مبنی فیصلے کو ترجیح دیں گے یا قرآن و سنت کے فیصلے کو؟ اگر آپ کی خواہش اور قرآن و سنت کے کسی حکم کے درمیان اختلاف ہو جائے تو آپ کس کو ترجیح دیں گے؟

پہلے تو یہ معیار واضح کریں نہ۔ یہ سوالات تو اس سب کے بعد کے ہیں۔
ایک طالب علمانہ سوال ہے اس کا علمی طریقے سے جواب درکار ہے۔ جو بات ہماری عقل کو اپیل کرے گی اسے کون کافر نہیں مانے گا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہجرۃ العقول (یعنی عقلوں کی ہجرت جسے یہاں برین ڈرین کہا گیا ہے ) ہر زمانے میں کسی نہ کسی سطح مختلف طریقوں سے ہوتی رہی ہے ۔
اس کی ایک مثال تاتاریوں کی یلغار سے پہلے کے بغداد (عروس البلاد) میں جہاں دوردراز کے علماء اور سائنسدانوں کا جمع ہونا ہے ۔
امریکی سائنسدان مچیو کاکو اسی ہجرت العقول کو آج کے امریکا سے منسوب کرتا ہے۔
 

علی وقار

محفلین
دنیا بھر میں جہاں بھی جائیں، انسان ہی بستے ہیں لہذا طبعی میلان، مناسب مواقع اور بہتر مستقبل کی خواہش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بہتر ہے کہ عالی مغز لوگ اپنے ملک میں آباد رہیں، اگر ملکی آبادی کو ان کی ضرورت ہے؛ مگر وہ جہاں بھی جائیں، باعث خیر کثیر بنے رہیں تو اس میں پریشانی کی بات ہونی نہیں چاہیے۔
 
Top