غالب مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے

عاطف بٹ

محفلین
مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے​
بھَوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے​
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر​
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے​
دے داد اے فلک! دلِ حسرت پرست کی​
ہاں کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے​
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوّری​
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے​
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو​
اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے​
ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا​
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے​
سر پائے خم پہ چاہیے ہنگامِ بیخودی​
رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے​
یعنی بہ حسبِ گردشِ پیمانۂ صفات​
عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہیے​
نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو​
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے​
 

الشفاء

لائبریرین
واہ۔ بہت خوب انتخاب بٹ صاحب۔۔۔

غالب کا یہ شعر تو ضرب المثل بن چکا ہے۔

سیکھے ہیں مہ رخوں کے لئے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیئے۔۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
سر پائے خم پہ چاہیے ہنگامِ بیخودی
رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے​
یعنی بہ حسبِ گردشِ پیمانۂ صفات​
عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہیے​
واہ میری انتہائی پسندیدہ غزل۔ شکریہ بٹ صاحب!
 

عاطف بٹ

محفلین
سر پائے خم پہ چاہیے ہنگامِ بیخودی
رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے​
یعنی بہ حسبِ گردشِ پیمانۂ صفات​
عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہیے​
واہ میری انتہائی پسندیدہ غزل۔ شکریہ بٹ صاحب!
سر، بہت شکریہ کہ آپ کو انتخاب پسند آیا!
 
بہت خوب جی
ویسے اقبال خطا کا انداز دیکھ کر میرا دل کرتا ہے کہ ہم سب گنہگار مل کر غالب کو امام عاصیاں کا خطاب دے کر ان کی کے پیرو کار بن جائیں۔
 
Top