مستقبل کے علماء (کالم از حبیب اکرم)

عاطف بٹ

محفلین
2395_63111335.jpg
ربط
 

متلاشی

محفلین
اچھا آرٹیکل ہے ۔۔۔!
اصل میں ہمارے میڈیا نے ہماری عوام کو ایک خاص سازش کے تحت علماء و مدارس سے برگشتہ کرنا شروع کیا ہوا ہے ۔۔۔؟ کہیں مدرسہ سے ریلیٹڈ کوئی ناشائستہ خبر ملے سہی ۔۔۔ اس کو ایسے مرچ مصالحے لگا کر بیان کیاجاتا ہے کہہ ۔۔۔ خدا کی پناہ۔۔۔! ایسے واقعات آپ بارہا دیکھ چکے ہوں گے ۔۔۔!
 

تلمیذ

لائبریرین
علمی تحقیق اور موجود ہ حقائق پر مبنی ایک نہایت دلچسپ کالم ہے۔ اگرچہ آجکل زیادہ تر مدارس میں وہی گھسا پٹا ماحول ہے جو صرف روایتی 'مولوی ' پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے ہیں لیکن ملک بھر میں بعض ایسے دینی مدارس کے بارے میں بھی سننے میں آتا ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ تعلیم و تربیت سے مستفیذ بھی کر رہے ہیں۔ " فرق صاف ظاہر ہے" کے مصداق ان اداروں سے فارغ التحصیل طلباءدوسروں سے الگ ہی نظر آتے ہیں اور معاشرے میں اپنا کردار بھی بطریق احسن نبھا رہے ہیں۔

بہت عمدہ انتخاب بٹ جی۔ جزاک اللہ!!
 

متلاشی

محفلین
علمی تحقیق اور موجود ہ حقائق پر مبنی ایک نہایت دلچسپ کالم ہے۔ اگرچہ آجکل زیادہ تر مدارس میں وہی گھسا پٹا ماحول ہے جو صرف روایتی 'مولوی ' پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے ہیں لیکن ملک بھر میں بعض ایسے دینی مدارس کے بارے میں بھی سننے میں آتا ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ تعلیم و تربیت سے مستفیذ بھی کر رہے ہیں۔ " فرق صاف ظاہر ہے" کے مصداق ان اداروں سے فارغ التحصیل طلباءدوسروں سے الگ ہی نظر آتے ہیں اور معاشرے میں اپنا کردار بھی بطریق احسن نبھا رہے ہیں۔

بہت عمدہ انتخاب بٹ جی۔ جزاک اللہ!!
جی تلمیذ آپ کی بات درست ہے ۔۔۔! ایسے کئی مدارس موجود ہیں ۔۔۔!
اور ویسے بھی آج کل کے جدید علماء چاہے وہ جس مدرسہ سے بھی فارغ التحصیل ہوں کی سوچ میں میں نے نمایاں فرق محسوس کیا ہے ۔۔۔! میرے کئی علماء سے ذاتی روابط ہیں ۔۔۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے ۔۔۔!
 

شاکرالقادری

لائبریرین
عاطف بٹ جیسے مہربان نے مجھے ٹیک کیاتو کچے دھاگے سے بندھے چلےآنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا :)
کالم نگار نے سارا ملبہ "اکبر" پر پھینک دیا کاش وہ اور ان کے ممدوحہ مدرسہ کے طلبا یہ بھی جان لیتے قرون اولی میں ہی مسلمان اس قسم کی اختلافی باتوں میں الجچ چکے تھے اور ان کا اختلاف "اختلاف رحمت" نہ رہا تھا بلکہ "اختلاف زحمت" بن گیا تھا۔ جس کی وجہ سے امت مسلمہ انتشار اور افتراق کا شکار ہوئی اور پھر "فتنة الکبری" نے ایسا سر ابھارا کہ آج تک افراد امت باہم دست و گریباں ہیں۔ کاش کالم نگار اور مدرسہ معہد العلوم کے لوگ ان وجوہات اور سازشوں سے بھی آگاہ ہو جائیں جن کی وجہ سے مدینے سے سفر کرنے والی بالشت بھر کی حدیث کوفہ پہنچ کر دو گز لمبی ہو جایا کرتی تھی۔ کاش ہم ان سازشوں کا بھی ادراک کر لیں جنہوں نے "خلافت" کو "ملوکیت" میں بدل دیا۔ کاش ہم ان اسباب پر بھی غور کر لیں کہ ہجرت کے صرف ۶۱ برس بعد خاندان رسول کو کیوں نیست و نابود کرنے کی کوششیں کی گئیں، کاش ہمیں معلوم ہو جائے کہ خانہ کعبہ پر منجنیقوں سے حملہ کیوں کیا گیا تھا۔ اور مدینة النبی میں قتل عام، خواتین کی عصمت دری اور دہشت گردی کو کیوں روا رکھا گیا۔ کیا اس دور کے علمأ مصلحتوں کا شکار نہیں ہو گئے تھے۔ کیا آج کے علما بھی ان تمام اقدامات (جو تاریخ اسلام کے ورق پر بدنامی کے داغ ہیں) کا جواز نہیں پیش کر رہے اور ان تمام لوگوں کا دفاع نہیں کر رہے۔ کیا اس دور کے علما بکاؤ مال نہیں تھے جنگ صفین میں دونوں جوانب کے مشیر اور وزیر علما ہی تو تھے۔ جو حقو باطل کا امتیاز رکھنے کے باوجود اپنے اپنے مفادات کے لیے دونوں جوانب کو لڑانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے تھے۔ انہی علما کا تسلسل چلتا رہا امویوں ، عباسیوں اور ان کے بعد میں آنے والے تمام ادوار میں علما نے خوب فائدے حاصل کیے اور بادشاہوں کو خوش کرنے کے لیے احادیث تک وضع کرتے رہے۔الا ماشأ اللہ کچھ لوگ ہر دور میں موجود رہے ہیں جو ہر حال میں حق کی ترجمانی کرتے رہے۔ لیکن ایسے علمأ کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا اگر تاریخ اٹھا کر پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ اسلام کے پہلے بادشاہ نے حضرت عدی بن حجر کو کس طرح قتل کرایا۔ انہی نے جب زیاد ابن ابیہ کو اپنا نسب فراہم کرنے کے لیے اپنے فوت شدہ باپ کے خلاف زیاد ابن ابیہ کی ماں سمیہ کے ساتھ زنا کی گواہی دلوائی اور زیاد کو اپنا بھائی تسلیم کیاتو حصرت ابوبکرہ نے کس طرح کلمہ حق بلند کیا۔ امام نسائی کو کلمہ حق بلند کرنے پر کس طرح زد و کوب کر کے ہلاک کیا گیا دیگر آئمہ کو کس طرح مصائب سے دوچار کیا گیا اور کیوں کیا گیا۔ کاش ہم سب کو اس کا ادراک ہو جائے
صدیوں سے علمأ کی مصلحت آمیزیوں کے باعث جو دین الہی وجود میں آیا اس کا الزام آپ کس کو دیں گے۔ کاش ہمارے علما کو اس بات کا ادراک ہو جائے۔

پس نوشت: میں نے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ سب کچھ لکھ تو دیا لیکن اب دیکھیئے گا لوگ یہاں پر میرے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور میرے خلاف کتنے فتاوی جاری ہوتے ہیں :)
 

تلمیذ

لائبریرین
:cautious:
پس نوشت: میں نے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ سب کچھ لکھ تو دیا لیکن اب دیکھیئے گا لوگ یہاں پر میرے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور میرے خلاف کتنے فتاوی جاری ہوتے ہیں :)

میں تو اپنے ٹئیں خوش اور مطمئن تھا کہ کوئی اختلافی بات نہیں ہے اور اور امید واثق تھی کہ اس موضوع پرکوئی بحث شروع نہیں ہوگی۔ لیکن جناب کی پوسٹ کے بعدتو اس کا کافی احتمال پیدا ہوگیا ہے۔:cautious:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نہیں نین جی، اب تک کی پوسٹوں سے تو مجھے ایسے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے:)
سر کس دنیا میں گم بیٹھے ہیں :)

:cautious:

میں تو اپنے ٹئیں خوش اور مطمئن تھا کہ کوئی اختلافی بات نہیں ہے اور اور امید واثق تھی کہ اس موضوع پرکوئی بحث شروع نہیں ہوگی۔ لیکن جناب کی پوسٹ کے بعدتو اس کا کافی احتمال پیدا ہوگیا ہے۔:cautious:
دیکھا نیرنگ کی دوراندیشی پر شک کرنے کا انجام :laugh:
 

طالوت

محفلین
میں بھی یہی کچھ کہنے آیا تھا جو شاکر القادری کہہ گئے ہیں کہ "کالم نگار نے سارا ملبہ "''اکبر"''' پر پھینک دیا" ۔۔ اگر کچھ صاحبان علم تحقیق فرماویں تو مجھے یقین ہے کہ اکبر کے وہ لالچی ملا ایک دوسرے کی پگڑی سے باآسانی نکالے جا سکتے ہیں۔ تن آسان اس دھاگے کے مراسلہ نمبر 97 سے بھی مدد لے سکتے ہیں ۔
میری رائے میں تو جب اسلام میں پاپائیت در آئی اور اسلام دین سے مذہب کی شکل اختیار کرتا گیا تو خرابی دراصل وہیں سے شروع ہوئی۔ اور یہ اکبر کے زمانے سے کافی قبل کی باتیں ہیں ، اور اس زمانے پہ بحث پہلے ہی کافی ہو چکی۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
طالوت بھائی!
آپ کے دستخط میں موجود لنک پر کلک کرنے سے کچھ اور ہی کھل جاتا ہے۔ میری رسائی کیسے ہوگی مطلوبہ لنک تک
 

نایاب

لائبریرین
محترم بٹ بھائی ۔ بہت اچھی معلوماتی شراکت پر بہت شکریہ
مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے ماضی سے بجائے سبق حاصل کرنے کے ماضی کو ہی حال کے جھگڑوں میں اپنا ہتھیار بنا لیا ۔ اور مستقبل کی تعمیر شروع کر دی ۔ ماضی سے سبق حاصل کیا ہوتا تو آج ہمارا حال ایسا نہ ہوتا جیسا کہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید جو کچھ لکھنا تھا اس تحریر کے بارے وہ محترم شاکر القادری بھائی تحریر کر چکے ہیں ۔
محترم شاکر بھائی کی تحریر اک دل درد مند کا نوحہ ہے ۔ جو ہمیں ماضی میں ہوئی غلطیاں سدھارنے کی جانب توجہ دلاتا ہے ۔
بہت شکریہ محترم شاکر القادری بھائی


عاطف بٹ جیسے مہربان نے مجھے ٹیک کیاتو کچے دھاگے سے بندھے چلےآنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا :)
کالم نگار نے سارا ملبہ "اکبر" پر پھینک دیا کاش وہ اور ان کے ممدوحہ مدرسہ کے طلبا یہ بھی جان لیتے قرون اولی میں ہی مسلمان اس قسم کی اختلافی باتوں میں الجچ چکے تھے اور ان کا اختلاف "اختلاف رحمت" نہ رہا تھا بلکہ "اختلاف زحمت" بن گیا تھا۔ جس کی وجہ سے امت مسلمہ انتشار اور افتراق کا شکار ہوئی اور پھر "فتنة الکبری" نے ایسا سر ابھارا کہ آج تک افراد امت باہم دست و گریباں ہیں۔ کاش کالم نگار اور مدرسہ معہد العلوم کے لوگ ان وجوہات اور سازشوں سے بھی آگاہ ہو جائیں جن کی وجہ سے مدینے سے سفر کرنے والی بالشت بھر کی حدیث کوفہ پہنچ کر دو گز لمبی ہو جایا کرتی تھی۔ کاش ہم ان سازشوں کا بھی ادراک کر لیں جنہوں نے "خلافت" کو "ملوکیت" میں بدل دیا۔ کاش ہم ان اسباب پر بھی غور کر لیں کہ ہجرت کے صرف ۶۱ برس بعد خاندان رسول کو کیوں نیست و نابود کرنے کی کوششیں کی گئیں، کاش ہمیں معلوم ہو جائے کہ خانہ کعبہ پر منجنیقوں سے حملہ کیوں کیا گیا تھا۔ اور مدینة النبی میں قتل عام، خواتین کی عصمت دری اور دہشت گردی کو کیوں روا رکھا گیا۔ کیا اس دور کے علمأ مصلحتوں کا شکار نہیں ہو گئے تھے۔ کیا آج کے علما بھی ان تمام اقدامات (جو تاریخ اسلام کے ورق پر بدنامی کے داغ ہیں) کا جواز نہیں پیش کر رہے اور ان تمام لوگوں کا دفاع نہیں کر رہے۔ کیا اس دور کے علما بکاؤ مال نہیں تھے جنگ صفین میں دونوں جوانب کے مشیر اور وزیر علما ہی تو تھے۔ جو حقو باطل کا امتیاز رکھنے کے باوجود اپنے اپنے مفادات کے لیے دونوں جوانب کو لڑانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے تھے۔ انہی علما کا تسلسل چلتا رہا امویوں ، عباسیوں اور ان کے بعد میں آنے والے تمام ادوار میں علما نے خوب فائدے حاصل کیے اور بادشاہوں کو خوش کرنے کے لیے احادیث تک وضع کرتے رہے۔الا ماشأ اللہ کچھ لوگ ہر دور میں موجود رہے ہیں جو ہر حال میں حق کی ترجمانی کرتے رہے۔ لیکن ایسے علمأ کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا اگر تاریخ اٹھا کر پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ اسلام کے پہلے بادشاہ نے حضرت عدی بن حجر کو کس طرح قتل کرایا۔ انہی نے جب زیاد ابن ابیہ کو اپنا نسب فراہم کرنے کے لیے اپنے فوت شدہ باپ کے خلاف زیاد ابن ابیہ کی ماں سمیہ کے ساتھ زنا کی گواہی دلوائی اور زیاد کو اپنا بھائی تسلیم کیاتو حصرت ابوبکرہ نے کس طرح کلمہ حق بلند کیا۔ امام نسائی کو کلمہ حق بلند کرنے پر کس طرح زد و کوب کر کے ہلاک کیا گیا دیگر آئمہ کو کس طرح مصائب سے دوچار کیا گیا اور کیوں کیا گیا۔ کاش ہم سب کو اس کا ادراک ہو جائے
صدیوں سے علمأ کی مصلحت آمیزیوں کے باعث جو دین الہی وجود میں آیا اس کا الزام آپ کس کو دیں گے۔ کاش ہمارے علما کو اس بات کا ادراک ہو جائے۔

پس نوشت: میں نے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ سب کچھ لکھ تو دیا لیکن اب دیکھیئے گا لوگ یہاں پر میرے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور میرے خلاف کتنے فتاوی جاری ہوتے ہیں :)
 

طالوت

محفلین
طالوت بھائی!
آپ کے دستخط میں موجود لنک پر کلک کرنے سے کچھ اور ہی کھل جاتا ہے۔ میری رسائی کیسے ہوگی مطلوبہ لنک تک
مجھے حیرت ہے کہ یہ ربط یہاں سعودی عرب میں "بلاک" کر دیا گیا ہے ۔ خیر یہ ربط الف عین (اعجاز عبید) کی برقی کتب کی سائٹ کا ہے ، آپ اُن کی اس سائٹ سے یقینا واقف ہوں گے ۔
 
بھائی سب لوگ اپنا بوجھ خود اٹھانے کے پابند ہیں ہر معاملے میں علما پر تمام ذمہ داری ڈال دینا درست نہیں ۔ ایک عالم کا تعلق معاشرے سے ہی ہوتا ہے جب معاشرے کیچڑ پر مبنی ہو تو اس میں گلاب نہیں اگیں گے۔اللہ اور اس کے رسول نے گروہ علما کو کہیں معصوم یا محفوظ نہیں کہا ہے۔ تاریخ میں جب دو نمبر ب حکمران ، سیاستدان، بیوروکریٹس و پیشہ ور مل سکتے ہیں تو علما کا ملنا کون سی انوکھی بات ہے؟ مجدد وقت شاہ ولی اللہ نے معاشرے کے دیگر کرپٹ طبقات کے ساتھ اس لیے دو نمبر علما کا ذکر بھی کیا ہے۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھیئے کہ ان ہی علما میں ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے جنھوں نے ہمیشہ آگے بڑھ کر حق کا ساتھ دیا اور جب بڑے بڑے جھک گئے تو یہ نہ جھکے جنانگیری دور مجدد الف ثانی اس کی ایک مثال ہیں عباسی دور میں احمد بن حنبل ایک مثال ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیئے کہ ہر شخص اپنا ذمہ دار خودہے، اگر علما دو نمبر ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ دینے والے کیا ہوتے ہیں۔کل جب خداوند کریم کے روبرو حاضری ہو گی تو تمام علما سے وابستگی اور اور تمام بندھن دھرے کے دھرے رہ جائیں گئے۔ ہر وہ بات جو اللہ کے حکم اور اس کے رسول کی سنت کے خلاف ہو گی تو وہ منہ پر مار دی جائے گی۔اس وقت یہ دلیل کام نہیں آئے گی کہ میں فلاں عالم کا معتقد یا فلانے ائمہ کے سلسلۃ الذہب کا مانے والا ہوں۔اللہ نے اپنی کتاب میں اپنا اور اپنے رسول کی پیروی کا حکم دیا اور اللہ کے رسول نے اپنے اصحاب کی پیروی کا، یقنا اصحاب کے مقدس گروہ میں اہلبیت بھی شامل ہیں۔اور اسلام میں کچھ چھپا نہیں سب عیاں ہے اللہ کے رسول کی آمد کے بعد حق ، جدا ہو گیا ہے باطل سے۔اور سب چھوڑئیے اگر صرف قرآن کی تلاوت صحیح نیت سے کی جائے تو انسان بھٹک نہیں سکتا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ بھٹکے۔مگر اپنےمطلب و غرض وغایت سے قرآن کی صرف ورق گردانی لاحاصل ہے۔ حسن نیت، توجہ و اخلاص درکار قرینے ہیں تلاوت قرآن کے قرینوں میں۔
دوسری بات صحابہ کرام سے عقیدت رکھی جائے اور ان کا معاملہ قرآن و سنت کے مطابق دیکھا جائے نہ کہ طبری کی جمع کی ہوئی تاریخ کے مطابق جس کوصدیوں بعد مرتب کیا گیا وہ ضعیف روایات کا شاہ کارہے۔یعنی للہ ثم للتاریخ۔ کیونکہ دین تمام کا تمام اسی گروہ کے طفیل ہم تک پہنچا ہے۔ ہاں اگر کوئی قرآن کو ہی محرف سمجھے اور سنت رسول کو ایرانی شاہکار تو پھر الگ ہے۔
تیسری بات اگر صحابہ کرام کو تنقید و جراح کی کسوٹی سے گزارنا کسی ایک طبقے کے لیے ضروری ہے تو پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا انجام صرف یہی نکلے گا کہ آپ کے ائمہ کو، جو آپ کو پیارے ہیں اور محبوب ہیں کسی اور گروہ کی جانب سے تاریخ کے ان ہی خارزاروں سے گزرا جائے گا اور صاف صاف کہوں تو اس سے حضرت علی و حضرت حسن و حسین کا کچھ بگڑے گا اور نہ ہی حضرت معاویہ کا بلکہ ہر دو پارٹیاں جو ان پر تنقید کریں گی وہ ضرور اپنا ایمان برباد کریں گی اور ذرا تیاری کر لیجئے جب اللہ اور اس کے رسول سے قیامت کو واسطہ پڑے تو کیا جواب دیں گئے اس وقت کسی سید کا یہ کہنا کہ میں تو معاویہ کے خلاف اپنے جد امجد اور آپﷺ کے داماد کا ساتھ دے رہا تھا اور کسی ناصبی کا یہ کہنا کہ میں سارے صحابہ کے اوپر چھیٹے اٹھتے دیکھ کر حضرت علی اور آل علی پر حملے کر رہا تھا کسی کام نہیں آئے گا۔ کیونکہ ہر دو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہیں اور ان کے معاملے کا جج صرف اللہ یا اس کا رسول ہی ہو سکتےہیں اور کوئی دوسرا نہیں ۔ کہاں راج بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔
 

عاطف بٹ

محفلین
سید شاکرالقادری صاحب اور طالوت بھائی نے کالم نگار کی جانب سے فرقہ واریت کے ضمن میں محض اکبر کو قصوروار ٹھہرانے کے حوالے سے جو بات کہی ہے، میں اس سے متفق ہوں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں بالعموم پورے معاشرے میں اور بالخصوص میڈیا میں مدارس کے حوالے سے اچھا خاصا تعصب پایا جاتا ہے۔ میں خود ایک بڑے ٹیلیویژن چینل سے وابستہ ہوں اور اس سے پہلے بھی ٹیلیویژن، ریڈیو، اخبارات اور رسائل میں مختلف حیثیتوں میں خدمات انجام دے چکا ہوں تو مجھے اندازہ ہے کہ میڈیا میں کیا رویہ رکھا جاتا ہے مدارس اور ان سے وابستہ لوگوں کے ساتھ!
میں کبھی بھی کسی مدرسے کا طالبعلم نہیں رہا کہ میری تعلیم اسکول، کالج اور یونیورسٹی جیسے عصری تعلیمی اداروں میں ہوئی ہے مگر مجھے تقریباً تمام مسالک کے مدارس میں آنے جانے اور وہاں علمائے کرام سے گھنٹوں بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مدارس خرابیوں سے پاک ہیں مگر یقین مانیں کہ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا حال ان سے زیادہ برا ہے اور اخلاقی بدحالی کن انتہاؤں کو چھورہی ہے اس کے بارے میں سوچ کر ہی سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ میں پرسوں اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں بیٹھا سید زبیر صاحب سے اسی موضوع پر بات کررہا تھا۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سی ایس ایس اور پی ایم ایس کے امتحانات کے لئے محض انگریزی زبان کو ذریعہ بنانا سراسر زیادتی ہے اور دستورِ پاکستان کے منافی ہے مگر چونکہ بیوروکریسی ایک ناسور کی طرح اس معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، لہٰذا ایسی زیادتیوں کے سدِباب کے لئے کوئی عملی اقدام آج تک نہیں کیا گیا۔
افسوس صد افسوس کہ ہم آج بھی اختلافِ رائے کو ایک نعمت اور رحمت سمجھنے کی بجائے اس کی بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے اور آواز دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماضی میں جو غلطیاں اور گناہ ہونا تھے وہ تو ہوچکے مگر اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم اپنے حال پر نظر رکھ کر اپنے مستقبل کو کیسے سنوار سکتے ہیں۔
 
Top