مستقبل کے علماء (کالم از حبیب اکرم)

عاطف بٹ

محفلین
کبھی کوئی مدرسہ اندر سے جا کر دیکھا ہے عبداللہ آپ نے ؟ مجھے فخر ہے کہ میں نے دینی ادارے سے پڑھ رکھا ہے اور زندگی کے جتنا بہترین وقت وہاں گزرا ہے کہیں نہیں گزرا ۔
آپ اس دھاگے میں یا کسی الگ دھاگے میں مدارس کے نظامِ تعلیم یا جس مدرسے سے آپ نے تعلیم حاصل کی ہے اس کے حوالے سے اگر تفصیل سے کچھ لکھیں تو بہت مناسب رہے گا اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوجائے گا۔
 
آپ اس دھاگے میں یا کسی الگ دھاگے میں مدارس کے نظامِ تعلیم یا جس مدرسے سے آپ نے تعلیم حاصل کی ہے اس کے حوالے سے اگر تفصیل سے کچھ لکھیں تو بہت مناسب رہے گا اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوجائے گا۔
دینی مدارس و جامعات کو لفظی تحسین کی ضرورت نہیں ہے ، وہ معاشرے کو خاموشی سے حسن عمل اور مضبوط ایمان کی زندہ مثالیں فراہم کر رہے ہیں ۔ مسلم کردار ڈھونڈنا ہے تو یہیں ملے گا ۔ آپ لوگوں کی زندگی کے تجربات میری اس بات کو ثابت کریں گے ۔
اکبر ہو یا پرویز مشرف دینی مدارس و جامعات کی لائف لائن کاٹ کر ان کو مارنے کی پوری کوشش ہمیشہ کی گئی ، لیکن
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے !​
ان لوگوں کی قول وعمل کی سچائی ان کی طاقت ہے ۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ حالات نے مجھے دینی مدارس و جامعات سے دور کر دیا ، لیکن میرا دل اب بھی تڑپتا ہے ان پاکیزہ روز و شب کے لیے، ان معصوم لوگوں کی صحبت کے لیے ۔​
اس قوم نے ان کو دیا کیا ہے کہ ان کا محاسبہ کرے ؟ انہوں نے ہمیشہ اس قوم کو دیا ہے اور ثمردار درخت کی طرح دھوپ سہہ کر سایہ، پتھر کھا کرثمر دیا ہے !​
 

یوسف-2

محفلین
تو کیا میں اس کالم کو اک نئی لاحاصل بحث کا پیش خیمہ سمجھوں :unsure:
مکالمہ اور بحث مباحثہ کبھی بھی ”لاحاصل“ نہیں ہوتا میرے بھائی۔ (ویسے بھی ہم آن لائن فورمز میں عموماً صرف باتیں ہی تو کرتے ہیں۔ ہم باتوں کے علاوہ اور کیا کرتے ہیں :D) یہ ٹھیک ہے کہ بحث مباحثہ کے دوران گرما گرمی اور تلخ کلامی بھی ہوجاتی ہے جو ”شرکاء کی خامی“ ہے نہ کہ بحث مباحثہ اور مکالمہ کی۔ بحث مباحثہ اور مکالمہ سے کسی بھی ایشو کے مختلف پہلو سامنے آجاتے ہیں اور اکثر ایسے پہلو بھی جو ہمارے سامنے اس سے پہلے کبھی نہیں آئے یا ہم نے اس طرح کبھی نہیں سوچا۔ اگر دینی معاملات پر مکالمہ کیا جائے اور مختلف لوگ مختلف اینگل سے اپنی اپنی بات پیش کریں، ایک دوسرے کا ”رد“ کریں تب بھی بھی بحث کے اختتام پر نہ صرف ہر شریک بحث کے ”علم میں اضافہ“ ہوتا ہے (خواہ وہ اس کا اقرار کرے یا نہ کرے:) ) بلکہ سائیلینٹ ریڈرز بھی بہت کچھ سیکھتا ہے بلکہ سب سے زیادہ وہی سیکھتا ہے۔ اور اگر وہ قبل ازیں زیر بحث موضوع سے لاعلم تھا اور وہ مسلکوں اور فرقوں کے معاملہ مین ”غیر جانبدار “ ہو تو اسے ”حق“ تک پہنچنے میں ان مکالموں سے بڑی سہولت ملتی ہے۔ صرف نیک نیتی اور حق کی تلاش اولین شرط ہے۔ :) البتہ بحث برائے بحث، ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تُل جانا،ہمیشہ اپنی بات کو ہی درست اور مستند ماننا، تلخ کلامی اور طنز وطعنہ جب مکالموں میں شامل ہوجائے تو آپ جیسے ”سمجھدار“ احباب ایسی بحثوں سے کنارہ کشی کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور بجائے اس کے کہ بحث کو معنی خیز انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں، بحث مباحثہ کو ہی ”لاحا صل“ سمجھنے لگتے ہیں۔:p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مکالمہ اور بحث مباحثہ کبھی بھی ”لاحاصل“ نہیں ہوتا میرے بھائی۔ (ویسے بھی ہم آن لائن فورمز میں عموماً صرف باتیں ہی تو کرتے ہیں۔ ہم باتوں کے علاوہ اور کیا کرتے ہیں :D) یہ ٹھیک ہے کہ بحث مباحثہ کے دوران گرما گرمی اور تلخ کلامی بھی ہوجاتی ہے جو ”شرکاء کی خامی“ ہے نہ کہ بحث مباحثہ اور مکالمہ کی۔ بحث مباحثہ اور مکالمہ سے کسی بھی ایشو کے مختلف پہلو سامنے آجاتے ہیں اور اکثر ایسے پہلو بھی جو ہمارے سامنے اس سے پہلے کبھی نہیں آئے یا ہم نے اس طرح کبھی نہیں سوچا۔ اگر دینی معاملات پر مکالمہ کیا جائے اور مختلف لوگ مختلف اینگل سے اپنی اپنی بات پیش کریں، ایک دوسرے کا ”رد“ کریں تب بھی بھی بحث کے اختتام پر نہ صرف ہر شریک بحث کے ”علم میں اضافہ“ ہوتا ہے (خواہ وہ اس کا اقرار کرے یا نہ کرے:) ) بلکہ سائیلینٹ ریڈرز بھی بہت کچھ سیکھتا ہے بلکہ سب سے زیادہ وہی سیکھتا ہے۔ اور اگر وہ قبل ازیں زیر بحث موضوع سے لاعلم تھا اور وہ مسلکوں اور فرقوں کے معاملہ مین ”غیر جانبدار “ ہو تو اسے ”حق“ تک پہنچنے میں ان مکالموں سے بڑی سہولت ملتی ہے۔ صرف نیک نیتی اور حق کی تلاش اولین شرط ہے۔ :) البتہ بحث برائے بحث، ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تُل جانا،ہمیشہ اپنی بات کو ہی درست اور مستند ماننا، تلخ کلامی اور طنز وطعنہ جب مکالموں میں شامل ہوجائے تو آپ جیسے ”سمجھدار“ احباب ایسی بحثوں سے کنارہ کشی کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور بجائے اس کے کہ بحث کو معنی خیز انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں، بحث مباحثہ کو ہی ”لاحا صل“ سمجھنے لگتے ہیں۔:p
یوسف بھائی بہت خوبصورت تبصرہ ہے آپکا۔ بلاشبہ یہ اک حقیقت ہے کہ میں اکثر ان کالموں سے گھبراتا ہوں کہ یہاں پر بحث زیادہ تر اک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے کہ اس بحث سے سیکھنے کو ملتا ہے۔ مگر جس چیز کی بنیاد ہی منفیت ہو اس کا سود مند ہونا بھی بعید از قیاس ہی ہے۔
مجھے جو چیز دکھ دیتی ہے۔ وہ اک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، انکی نیت پر شک کرنا اور عمومی گفتگو کے دوران طنز و استہزاء سے کام لینا ہے۔ اگر مجھے کوئی ٹیگ نہ کرے تو شائد میں یہ چیزیں کبھی پڑھنے بھی نہ آؤں۔ :)
ہر کسی کو حق ہے کہ وہ اپنا نقطہ نظر بیان کرے۔ اور اگر یہ نقطہ نظر مخاطب کی ذات سے بالاتر ہو کر لکھا جائے تو یقیناً ان مباحث کا حسن بڑھ جائے گا۔ :)
دوسرا میرے دور رہنے کی سب سے بڑی وجہ میری کم علمی ہے۔ اور میں یہاں دو بول بول کر اپنا تماشہ نہیں بنوانا چاہتا۔ :p
 

باباجی

محفلین
بھائی سب لوگ اپنا بوجھ خود اٹھانے کے پابند ہیں ہر معاملے میں علما پر تمام ذمہ داری ڈال دینا درست نہیں ۔ ایک عالم کا تعلق معاشرے سے ہی ہوتا ہے جب معاشرے کیچڑ پر مبنی ہو تو اس میں گلاب نہیں اگیں گے۔اللہ اور اس کے رسول نے گروہ علما کو کہیں معصوم یا محفوظ نہیں کہا ہے۔ تاریخ میں جب دو نمبر ب حکمران ، سیاستدان، بیوروکریٹس و پیشہ ور مل سکتے ہیں تو علما کا ملنا کون سی انوکھی بات ہے؟ مجدد وقت شاہ ولی اللہ نے معاشرے کے دیگر کرپٹ طبقات کے ساتھ اس لیے دو نمبر علما کا ذکر بھی کیا ہے۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھیئے کہ ان ہی علما میں ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے جنھوں نے ہمیشہ آگے بڑھ کر حق کا ساتھ دیا اور جب بڑے بڑے جھک گئے تو یہ نہ جھکے جنانگیری دور مجدد الف ثانی اس کی ایک مثال ہیں عباسی دور میں احمد بن حنبل ایک مثال ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیئے کہ ہر شخص اپنا ذمہ دار خودہے، اگر علما دو نمبر ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ دینے والے کیا ہوتے ہیں۔کل جب خداوند کریم کے روبرو حاضری ہو گی تو تمام علما سے وابستگی اور اور تمام بندھن دھرے کے دھرے رہ جائیں گئے۔ ہر وہ بات جو اللہ کے حکم اور اس کے رسول کی سنت کے خلاف ہو گی تو وہ منہ پر مار دی جائے گی۔اس وقت یہ دلیل کام نہیں آئے گی کہ میں فلاں عالم کا معتقد یا فلانے ائمہ کے سلسلۃ الذہب کا مانے والا ہوں۔اللہ نے اپنی کتاب میں اپنا اور اپنے رسول کی پیروی کا حکم دیا اور اللہ کے رسول نے اپنے اصحاب کی پیروی کا، یقنا اصحاب کے مقدس گروہ میں اہلبیت بھی شامل ہیں۔اور اسلام میں کچھ چھپا نہیں سب عیاں ہے اللہ کے رسول کی آمد کے بعد حق ، جدا ہو گیا ہے باطل سے۔اور سب چھوڑئیے اگر صرف قرآن کی تلاوت صحیح نیت سے کی جائے تو انسان بھٹک نہیں سکتا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ بھٹکے۔مگر اپنےمطلب و غرض وغایت سے قرآن کی صرف ورق گردانی لاحاصل ہے۔ حسن نیت، توجہ و اخلاص درکار قرینے ہیں تلاوت قرآن کے قرینوں میں۔
دوسری بات صحابہ کرام سے عقیدت رکھی جائے اور ان کا معاملہ قرآن و سنت کے مطابق دیکھا جائے نہ کہ طبری کی جمع کی ہوئی تاریخ کے مطابق جس کوصدیوں بعد مرتب کیا گیا وہ ضعیف روایات کا شاہ کارہے۔یعنی للہ ثم للتاریخ۔ کیونکہ دین تمام کا تمام اسی گروہ کے طفیل ہم تک پہنچا ہے۔ ہاں اگر کوئی قرآن کو ہی محرف سمجھے اور سنت رسول کو ایرانی شاہکار تو پھر الگ ہے۔
تیسری بات اگر صحابہ کرام کو تنقید و جراح کی کسوٹی سے گزارنا کسی ایک طبقے کے لیے ضروری ہے تو پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا انجام صرف یہی نکلے گا کہ آپ کے ائمہ کو، جو آپ کو پیارے ہیں اور محبوب ہیں کسی اور گروہ کی جانب سے تاریخ کے ان ہی خارزاروں سے گزرا جائے گا اور صاف صاف کہوں تو اس سے حضرت علی و حضرت حسن و حسین کا کچھ بگڑے گا اور نہ ہی حضرت معاویہ کا بلکہ ہر دو پارٹیاں جو ان پر تنقید کریں گی وہ ضرور اپنا ایمان برباد کریں گی اور ذرا تیاری کر لیجئے جب اللہ اور اس کے رسول سے قیامت کو واسطہ پڑے تو کیا جواب دیں گئے اس وقت کسی سید کا یہ کہنا کہ میں تو معاویہ کے خلاف اپنے جد امجد اور آپﷺ کے داماد کا ساتھ دے رہا تھا اور کسی ناصبی کا یہ کہنا کہ میں سارے صحابہ کے اوپر چھیٹے اٹھتے دیکھ کر حضرت علی اور آل علی پر حملے کر رہا تھا کسی کام نہیں آئے گا۔ کیونکہ ہر دو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہیں اور ان کے معاملے کا جج صرف اللہ یا اس کا رسول ہی ہو سکتےہیں اور کوئی دوسرا نہیں ۔ کہاں راج بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔
بہت خوب ، بے لاگ اور غیر جانبدارانہ بات کی
حق بات کی آپ نے
بہت شکریہ جناب
 

یوسف-2

محفلین
یوسف بھائی بہت خوبصورت تبصرہ ہے آپکا۔ بلاشبہ یہ اک حقیقت ہے کہ میں اکثر ان کالموں سے گھبراتا ہوں کہ یہاں پر بحث زیادہ تر اک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے کہ اس بحث سے سیکھنے کو ملتا ہے۔ مگر جس چیز کی بنیاد ہی منفیت ہو اس کا سود مند ہونا بھی بعید از قیاس ہی ہے۔
مجھے جو چیز دکھ دیتی ہے۔ وہ اک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، انکی نیت پر شک کرنا اور عمومی گفتگو کے دوران طنز و استہزاء سے کام لینا ہے۔ اگر مجھے کوئی ٹیگ نہ کرے تو شائد میں یہ چیزیں کبھی پڑھنے بھی نہ آؤں۔ :)
ہر کسی کو حق ہے کہ وہ اپنا نقطہ نظر بیان کرے۔ اور اگر یہ نقطہ نظر مخاطب کی ذات سے بالاتر ہو کر لکھا جائے تو یقیناً ان مباحث کا حسن بڑھ جائے گا۔ :)
دوسرا میرے دور رہنے کی سب سے بڑی وجہ میری کم علمی ہے۔ اور میں یہاں دو بول بول کر اپنا تماشہ نہیں بنوانا چاہتا۔ :p
متفق :)
غیر متفق :p
کم علمی کا ”اعتراف“ کبھی ”کوئی کم“ علم نہیں کیا کرتا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ جگن ناتھ آزاد جیسے دانشور شاعر کے شعر کا ”بین السطور مفہوم“ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ:
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ کہ اس دعویٰ پہ میں شرمایا بہت
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
متفق :)
غیر متفق :p
کم علمی کا ”اعتراف“ کبھی ”کوئی کم“ علم نہیں کیا کرتا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ جگن ناتھ آزاد جیسے دانشور شاعر کے شعر کا ”بین السطور مفہوم“ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ:
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ کہ اس دعویٰ پہ میں شرمایا بہت
بہت عمدہ شعر ہے۔ میں اسے اپنے دستخط میں لگانے لگا ہوں :p
اور یہ آپکا حسن ظن ہے یوسف بھائی مگر یہ سچ ہے کہ سیاست کے موضوع پر میری زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ :)
 

متلاشی

محفلین
بہت عمدہ شعر ہے۔ میں اسے اپنے دستخط میں لگانے لگا ہوں :p
اور یہ آپکا حسن ظن ہے یوسف بھائی مگر یہ سچ ہے کہ سیاست کے موضوع پر میری زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ :)

بقول غالب مرحوم
بات پر واں زباں کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
 

یوسف-2

محفلین
شعر عمدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے وزن بھی ہے شائد۔۔۔ :)
سر جی فوراً تصحیح فرما دیں، قبل اس کے نین بھیا ”بے وزن شعر“ ہی اپنے دستخط میں شامل کرلیں۔ شعروں کے انتخاب نے مجھے اکثر و بیشتر رسوا ہی کیا ہے کیونکہ من نہ دانم فاعلاتن فاعلات۔ ;) کچھ ”اسی قسم کا“ شعر تھا جو انہوں نے نشتر پارک کراچی کے پہلے پاک بھارت عالمی مشاعرہ میں 84-1983 میں سنایا تھا۔ :)
 
سر جی فوراً تصحیح فرما دیں، قبل اس کے نین بھیا ”بے وزن شعر“ ہی اپنے دستخط میں شامل کرلیں۔ شعروں کے انتخاب نے مجھے اکثر و بیشتر رسوا ہی کیا ہے کیونکہ من نہ دانم فاعلاتن فاعلات۔ ;) کچھ ”اسی قسم کا“ شعر تھا جو انہوں نے نشتر پارک کراچی کے پہلے پاک بھارت عالمی مشاعرہ میں 84-1983 میں سنایا تھا۔ :)
اس وقت اسکا وزن پورا ہوگا۔۔۔1984 میں تو آپ بھی گلِ نوخیز ہونگے۔۔اتنے عرصے کے بعد انسان ثقیل ہوجاتا ہے یا پھر خفیف۔۔۔وزن برقرار رکھ پانا بہت مشکل ہے۔:p:D
 

یوسف-2

محفلین
اس وقت اسکا وزن پورا ہوگا۔۔۔ 1984 میں تو آپ بھی گلِ نوخیز ہونگے۔۔اتنے عرصے کے بعد انسان ثقیل ہوجاتا ہے یا پھر خفیف۔۔۔ وزن برقرار رکھ پانا بہت مشکل ہے۔:p:D
آپ ایز یوزیول :D اَدھر اُدھر کی بات کرنے کی بجائے پہلے ”پورے وزن والا“ اصل شعر فوراً سے پیشتر لکھ دیں۔ پھر جو مرضی فرماتے رہیں، سر تسلیم خم ہوگا، لیکن اُس سے پہلے نہیں :p
 

متلاشی

محفلین
درست شعر یوں ہے
فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن ، فاعلن
ابتدایہ، تھی کہ میں تھا، اور دعوی، علم کا
انتہا یہ ، کہ میں اس دع ، وی پہ شرما، یا بہت

ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ کہ میں اس دعویٰ پہ شرمایا بہت
 
مجھے کچھ یوں زیادہ موزوں اور رواں لگ رہا ہے۔۔۔(تقطیع سے قطعِ نظر)
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت
 
Top