مزاح برائے تاوان

سیما علی

لائبریرین
پنڈت اخترؔصاحب کا ایک لطیفہ کچھ یوں ہے کہ انھوں نے کسی مشاعرے میں ایک شاعر کو، ہر شعر کی پیشکش پر یہ کہتے ہوئے سنا،''دیکھیے کس پائے کا شعر ہے''، تنگ آکر اپنی جگہ سے اٹھے اور بولے : ''چارپائے کا''۔
 
پنڈت اخترؔصاحب کا ایک لطیفہ کچھ یوں ہے کہ انھوں نے کسی مشاعرے میں ایک شاعر کو، ہر شعر کی پیشکش پر یہ کہتے ہوئے سنا،''دیکھیے کس پائے کا شعر ہے''، تنگ آکر اپنی جگہ سے اٹھے اور بولے : ''چارپائے کا''۔
جو پایہ ہم نے پایا ہے وہ پایہ کسی نے نہ پایا وغیرہ؟
 

سیما علی

لائبریرین
وہ تو عدو کے کئے جاتے۔
ایک مشاعرے میں کسی نوجوان گستاخ نے احمد ندیم قاسمی جیسے معروف شاعر کا کلام، اُن کے روبرو پڑھ دیا اور بعداَزِیں اُن کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بولا،''ہم آپ کے بچے ہیں، اور بچوں کا حق، اپنے بڑوں کے مال پر تو ہوتا ہی ہے
 
بیل کی سواری ۔۔۔ واہ واہ یاز کے مزے۔
ہیں؟ کبھی بیل پر سواری کی ہے؟ مجھے تو اٹھا اٹھا کے مارا تھا اس نے بھوت بنگلے کے ساتھ، وہ تو شکر ہے نیچے گدا بچھا ہوا تھا۔۔۔لیکن جو لوگوں نے بتیسیاں نکالی تھیں!!!
ایڈونچرز کے ثمرات وغیرہ۔۔۔!
 
Top