الف عین
ڈاکٹر عظیم سہارنپوری
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے دل کی دنیا تجھی سے سجی ہے
اندھیرے میں دل کے تری روشنی ہے
--------------
مقدّر میں لکھا تھا جو مل گیا ہے
مگر میری دنیا میں تیری کمی ہے
--------------
سدا فکر محشر کی رہتی ہے دل میں
جہاں سے تعلّق مرا ثانوی ہے
---------------
کروں میں سخاوت مگر کس طرح سے
نہیں پاس پیسہ مگر دل سخی ہے
-------
گناہوں نے میرے کیا مجھ کو رسوا
کروں کیا کہ عادت مری دائمی ہے
-----------
کیا رب سے وعدہ تھا جو بندگی کا
نبھانا نہ اس کو یہی سرکشی ہے
---------------
مرے دل میں خوفِ خدا جب سے جاگا
ندامت سے طاری ہوئی کپکپی ہے
------------
گناہوں سے توبہ کرو اب تو ارشد
کہ بخشش کی خاطر یہی لازمی ہے
--------------
 

الف عین

لائبریرین
عظیم میاں تو غائب ہیں، نہ جانے کیوں؟
مرے دل کی دنیا تجھی سے سجی ہے
اندھیرے میں دل کے تری روشنی ہے
-------------- ٹھیک ہی ہے اگرچہ دل کے اندھیرے کی بجائے صرف اندھیرا یا تاریک دل کہنا بہتر ہوتا

مقدّر میں لکھا تھا جو مل گیا ہے
مگر میری دنیا میں تیری کمی ہے
-------------- تقابل ردیفین ہے، اول مصرع کی ترتیب یا الفاظ بدلیں

سدا فکر محشر کی رہتی ہے دل میں
جہاں سے تعلّق مرا ثانوی ہے
--------------- دو لخت لگتا ہے، پہلے مصرع میں پہلی ترجیح کا کچھ ذکر ہو، اور محشر کی جگہ آخرت ہی استعمال کیا جائے تو بہتر ہے

کروں میں سخاوت مگر کس طرح سے
نہیں پاس پیسہ مگر دل سخی ہے
------- پیسہ کی جگہ دولت!

گناہوں نے میرے کیا مجھ کو رسوا
کروں کیا کہ عادت مری دائمی ہے
----------- درست

کیا رب سے وعدہ تھا جو بندگی کا
نبھانا نہ اس کو یہی سرکشی ہے
--------------- دوسرے مصرعے کے الفاط بدل دیں، مصدر کی بجائے امر کا صیغہ لگ رہا ہے کہ اس کو مت نبھاؤ!

مرے دل میں خوفِ خدا جب سے جاگا
ندامت سے طاری ہوئی کپکپی ہے
------------ دوسرا مصرع رواں نہیں، 'طاری ہوئی ہے ' آخر میں رکھ کر کوشش کریں

گناہوں سے توبہ کرو اب تو ارشد
کہ بخشش کی خاطر یہی لازمی ہے
------------- اب تو بھرتی لگتا ہے، درست ہوتا اگر دوسرے مصرعے میں دمِ آخر قریب ہے قسم کا مضمون ہوتا
 
الف عین
(اصلاح کے بعد دوبارا )
----------
مرے دل کی دنیا تجھی سے سجی ہے
تھا دل میرا تاریک اب روشنی ہے
--------------
ملا ہے مقدّر میں جو کچھ لکھا تھا
مگر میری دنیا میں تیری کمی ہے
------------
مجھے آخرت کی ہوئی فکر لاحق
جہاں کی محبّت کہیں کھو گئی ہے
-------------
کروں میں سخاوت مگر کس طرح سے
نہیں پاس دولت مگر دل سخی ہے
-------
گناہوں نے میرے کیا مجھ کو رسوا
کروں کیا کہ عادت مری دائمی ہے
-----------
کیا رب سے وعدہ تھا جو بندگی کا
اسے بھول بیٹھے یہی سرکشی ہے
---------------
مرے دل میں خوفِ خدا اب ہے جاگا
تبھی کپکپی مجھ پہ طاری ہوئی ہے
------------
گناہوں سے توبہ کرو آج ارشد
تمہارا جہاں میں یہ دن آخری ہے
------------- یا
کہ مہلت تمہاری ختم ہو گئی ہے
---------
 

الف عین

لائبریرین
مجھے آخرت کی ہوئی فکر لاحق
جہاں کی محبّت کہیں کھو گئی ہے
------------- لگتا ہے کہ اس وقوعے کا بہت غم ہے۔ کھو گئی الفاظ سے تاسف محسوس ہوتا ہے

مرے دل میں خوفِ خدا اب ہے جاگا
تبھی کپکپی مجھ پہ طاری ہوئی ہے
------------ 'اب ہے جاگا' روانی متاثر کر رہا ہے

گناہوں سے توبہ کرو آج ارشد
تمہارا جہاں میں یہ دن آخری ہے
------------- یا
کہ مہلت تمہاری ختم ہو گئی ہے
--------- دوسرے مصرعے دونوں رواں نہیں 'ختم' جا تلفظ غلط نظم ہوا ہے
 
Top