سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عالم کی رفعتوں کو جلو میں لیے ہوئے
گلہائے خلد راہ میں پیہم بچھے ہوئے
پیشِ نظر تمام مناظر سجے ہوئے
حُسنِ ازل سے رنگِ ابد دیکھتے ہوئے
لیتے ہوئے سلام یمین و یسار سے
دل کو لگائے رحمت پروردگار سے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بڑھتے رہے مقام طلب تک رسولِ پاک
ہوتا گیا تقربِ خالق میں انہماک
سمٹے تمام پردے ہوا ہر حجاب چاک
جلووں نے مرحبا کی صدا دی بہ صد تپاک
ہر سمت بحرِ نور کی موجیں رواں ہوئیں
ارواحِ انبیائے سلف شادماں ہوئیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پہلے فلک سے تا فلکِ ہفتمیں گئے
بن کر دیارِ نور کے مسند نشیں گئے
تا عرشِ پاک تا رشِ فرشِ زمیں گئے
خالق نے جن حدوں پہ بلایا وہیں گئے
تھی عین ذات اس کششِ درمیاں کے بعد
کیا رہ گیا تھا فاصلہ دو کماں کے بعد
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کس کو ہوئے ہیں ایسے مدارج بھلا نصیب
اس ارتقا کے بعد یہ منزل بھی تھی عجیب
آوازِ غیب آنے لگی اے میرے حبیب
آ اور بھی قریب ذرا اور بھی قریب
عنوانِ خلقت و سببِ دو جہاں ہے تُو
کوئی وہاں پہنچ نہیں سکتا جہاں ہے تُو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لے آج تُجھ کو بخش دیا تحفہ نماز
اس پنجگانہ سے تری امت ہے سرفراز
تو عرش کا وقار ہے اے گوہر حجاز
اس تحفہ نماز میں ہے شانِ امتیاز
وہ اُمّتی نماز میں جو سَر جھکائے گا
رہ کر زمین پہ بھی وہ معراج پائے گا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لہجہ تھا کس کا، کس کی زباں، کس کی گفتگو
ہر وقت کی سُنی ہوئی آواز ہو بہو
گویا وہاں بھی نفسِ پیمبر ہے رُوبرو
جیسے یہی ہے قلبِ پیمبر کی آرزو
ہے رمزِ خاص اب کوئی کیا جستجو کرے
جلوہ جب اپنے جلوے سے خود گفتگو کرے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میں کس طرح علی کے فضائل بیاں کروں
ذرّہ ہوں کیسے حوصلہ آسماں کروں
یہ نامِ پاک وہ ہے جسے حرزِ جاں کروں
جبریل ساتھ دیں تو انھیں ہم زباں کروں
دیکھا جو اپنا حسنِ رقم وجد کر گیا
لکھا علی کا نام قلم وجد کر گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نفس رسول نازشِ ارض و سما علی
بازو رسولِ پاک کے، دستِ خدا علی
مولائے کائنات، خدا آشنا علی
ہر قلب کی مراد علی مدعا علی
جس کے قدم پہنچ گئے باب قبول پر
معراج ہو گئی جسے دوشِ رسول پر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مولودِ کعبہ شاہِ نجف اوّلیں امام
خیبر کشا زعیم عرب حامئ عوام
جبریل کے پروں پہ لکھا ہے انہیں کا نام
اُن پر سلام اُن کے کمالات پر سلام
جوہر اس آئینے کے بہت منجلی ہوئے
معراج کے گواہ خدا و علی ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
حاصل ہے ان کے نام کو اعلیٰ سے اشتقاق
اُن کے ورود کا تھا محمد کو اشتیاق
اُن کے ہر اک عمل سے رسالت کو اتفاق
دُلدُل انہیں زمیں پہ ملا ثانی بُراق
رکھ کر لحاظِ طبعِ جلالت شعار کا
تحفہ ملا خدا سے انہیں ذوالفقار کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ ذوالفقار جس کی برش مرگِ دشمناں
وہ ذوالفقار جس نے دیے لاکھ امتحاں
بدر و اُحد میں خیبر و خندق میں ضوفشاں
وہ ذوالفقار جس سے اجل مانگتی اماں
نکلی فروغِ جلوہ وحدت کے واسطے
چمکی نمازِ حق کی حمایت کے واسطے
 
Top