پھر زندگی ہے موردِ بیداد آج کل
اک اک قدم پہ ہے نئی افتاد آج کل
بس میں نہیں رہا دلِ ناشاد آج کل
کچھ تھک چلا ہے ذہنِ خداداد آج کل
محروم بادہ جو ہو وہ بادہ پرست ہوں
محسوس ہو رہا ہے زمیں سے بھی پست ہوں
ساقی مری بلند خیالی کو کیا ہوا
فکرِ رسا و جذبہ عالی کو کیا ہوا
میرے سرور و کیف مثالی کو کیا ہوا
رنگینیوں کے دورِ جمالی کو کیا ہوا
کیف و سرور کا نہیں کوئی نظام بھی
تیری نظر کے ساتھ تھا شیشہ بھی جام بھی
اک مستقل خمار کا عالم ہے ساقیا
محفل تصورات کی برہم ہے ساقیا
لَو شمعِ نور بار کی مدہم ہے ساقیا
اب تابِ فکر دل میں بہت کم ہے ساقیا
جس دن سے راہِ میکدہ راز رُک گئی
وہ شہپرِ خیال کی پرواز رُک گئی
اب اپنی انگلیوں میں مچلتا نہیں قلم
پہلے کی طرح لعل اُگلتا نہیں قلم
تھرّا رہے ہیں ہاتھ سنبھلتا نہیں قلم
رُکنے لگا خیال تو چلتا نہیں قلم
بے کیفیوں کا سامنے اعمال نامہ ہے
مجھ کو نہیں سرور تو لغزش میں خامہ ہے
پہلے بھی کر چکا ہوں مرقع نگاریاں
کیا کیا نہ رنگ لائیں تصور شعاریاں
الفاظ سے بنائی تھیں جنت کی کیاریاں
تصویر میں دکھائی تھیں پھولوں کی دھاریاں
کس نقش میں جمالِ حدوثِ قدم نہ تھا
مانی کا موقلم تھا وہ میرا قلم نہ تھا
تسلیم سب کو تھی مری فن کاری عظیم
اب ہنس رہے ہیں دیکھ کے مجھ کو مرے ندیم
تصویر کیا کھنچے کہ مرا حال ہے سقیم
نے دائرہ درست نہ خط کوئی مُستقیم
لفظوں سے صورتیں جو بنائیں بگڑ گئیں
قرطاس پر تمام، لکیریں سی پڑ گئیں
بے جام و بادہ نقش و نگارِ خیال کیا
بے رنگیوں میں آئے ادائے جمال کیا
ساقی جو مہرباں نہیں پھر لطفِ حال کیا
پاؤں نہ بے طلب تو کسی سے سوال کیا
لب تشنہ ہوں تو سینکڑوں مضمون رہ گئے
جو ولولے تھے ہو کے وہ سب خون رہ گئے
سارے جہاں کو فکرِ بلندی ہے ساقیا
ہر ذہن میں عروج پسندی ہے ساقیا
کیوں پست میری حوصلہ مندی ہے ساقیا
آخر خُدا نے تابِ سُخن دی ہے ساقیا
ہاں طائرِ خیال کو پَر تولنے بھی دے
کب تک رہوں خموش مجھے بولنے بھی دے
اک جرعہ دے تو خشک زباں اپنی تر کروں
مل جائیں چند گھونٹ تو عرضِ ہنر کروں
تاریکی خیال میں پیدا سحر کروں
دیکھوں ذرا زمانے کو خود پر نظر کروں
حالانکہ خودنما نہیں خودبیں نہیں ہوں میں
پھر بھی غمِ زمانہ میں خلوت نشیں ہوں میں
سُنتا ہوں کر رہا ہے زمانہ ترقیاں
انساں بنا رہا ہے ستاروں کی نردباں
نزدیک ہو رہا ہے زمیں سے اب آسماں
لہرا رہا ہے دورِ ترقی کا پھر نشاں
یہ خاک جلوہ گر ہو ستاروں کے روپ میں
انساں لگا ہوا ہے اسی دوڑ دھوپ میں
پھر سعی ہو رہی ہے کہ یہ آدمی نژاد
رکھے نہ اپنا قدرتِ خالق پہ اعتقاد
زیرِ نگیں ہوں آتش و آب اور خاک و باد
آئے کسی طرح نہ کسی کو خُدا کی یاد
قابو رہے زمیں پہ فلک پر اثر رہے
لیکن حقیقتوں سے ہر اک بے خبر رہے
کوشش یہ ہے زمیں کے دفینے نکال لیں
ہیں جو چُھپے ہوئے وہ خزینے نکال لیں
محفوظ ہیں ابھی جو نگینے نکال لیں
جو غرق ہو گئے وہ سفینے نکال لیں
محکوم کر لیں قوّتِ موج و حباب کو
رکھیں تصّرفات میں برق و سحاب کو
برگ و شجر کی نشوونما پر ہو دسترس
رنگِ گل و ثمر ہو بہ اندازہ ہوس
پُھولوں سے آگ نکلے پتھروں سے رس
آلاتِ برق سے ملے سرِ رشتہ نفس
کوئی رہے نہ عقدہ مشکل رُکا ہوا
جب چاہیں جب دھڑکنے لگے دل رُکا ہوا
ہر فاصلہ سمیٹ لیا جائے دام میں
ہر خشک و تر کو لینے لگیں اپنے کام میں
ترتیب کچھ رہے نہ جہاں کے نظام میں
نورِ سحر کو صرف کیا جائے شام میں
قطرہ گرے تو سینکڑوں طوفاں اُبل پڑیں
ذرّہ پھٹے تو لاکھ جہنم نکل پڑیں
کارِ زمیں تو ہو ہی رہا ہے بہ این و آں
خواہش یہ ہے کہ جا کے کریں سیرِ آسماں
اُٹھ کر اڑائیں دامنِ گردوں کی دھجیاں
ٹھوکر میں چاند تارے ہوں قدموں میں کہکشاں
دل مادہ پرستوں کے ہیں اضطراب میں
اک گھر زمین پر ہو تو اک ماہتاب میں
اُڑ کر ہوا کے دام سے آگے نکل چلیں
پابندی مقام سے آگے نکل چلیں
دُنیا کے صبح و شام سے آگے نکل چلیں
اس قدرتی نظام سے آگے نکل چلیں
حیرت ہو سب کو ولولہ کامیاب پر
اُٹھے قدم زمیں سے رُکے ماہتاب پر
یہ ماہتاب نور فشاں قُرصِ تابدار
آتا ہے کائنات پہ اس کے سبب نکھار
قندیلِ چرخ، شمع فلک، جلوہ نگار
اس کے طلوع سے ہے مہ و سال کا شمار
ویرانہ ہے کہ اس میں کوئی ذی حیات ہے
کچھ بھی سہی فروغ دہِ کائنات ہے
تسخیر ماہتاب و فضا کا یہ ولولہ
اس دور میں ہے حکمت حاضر کا مشعلہ
کہتے ہیں رفتہ رفتہ گھٹا دیں گے فاصلہ
لیکن کسے یقیں کہ طے ہو یہ مرحلہ
اللہ کا نظام بدلنا محال ہے
اس خاک کی کشش سے نکلنا محال ہے
وہمِ فلک رسی میں گرفتار آدمی
کیا اپنے دل میں غور یہ کرتا بھی ہے کبھی
کیوں سر نگوں ہے آج بھی یہ زعمِ خود سری
تدبیر جا کے حدِّ معین پہ کیوں رُکی
زندانِ علم میں کہیں محبوس ہو نہ جائے
یہ ارتقا ترقی معکوس ہو نہ جائے