سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پہلے بھی ہو چکے ہیں بہت ایسے خود پسند
جو پھینکنے چلے تھے مہ و مہر پر کمند
عرفان و اعتقاد کے دَر ہو گئے تھے بند
قدرت سے سرکشی میں انھیں کو ہوا گزند
ترتیب کیا نظامِ جہاں کی بدل گئی
ہر آسماں شکار کو مٹّی نگل گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بالفرض ہو بھی جائے جو یہ سعی کامیاب
انسان جا کے چوم لے رُخسارِ ماہتاب
کیا اٹھ سکے گا جلوہ معبود کا نقاب
کچھ اور جہل و کبر کے پڑ جائیں گے حجاب
دل جب خدا کا ماننے والا نہ پائے گا
انسان زندگی میں اجالا پائے گا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ چاند یہ قریب تریں جرمِ کائنات
طفلی میں شیر خوار اٹھاتے ہیں اس پہ ہات
پیدا کیا گیا ہے پئے قوّتِ حیات
اس پر پہنچ گئے تو کوئی فخر کی ہے بات
کیا چاند تک پہنچنے میں عزّ و وقار ہے
پہلے سے یہ بنائی ہوئی رہگذار ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہاں ولولے جو ہوں یہ پئے خدمتِ جہاں
ان کوششوں سے دہر کو مل جائے کچھ اماں
الفت فروغ پائے محبت ہو ضوفشاں
دیں روح کو عرج یہ ذہنی ترقیاں
پھر خود ضیا فلک کے ستاروں کی ماند ہو
جو ذرّہ اس زمین پہ ہو ایک چاند ہو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پہنچا ہے اس طرف جو نئے دور کا خیال
کیا کیا طلسم خواب دکھانے لگا خیال
یہ فکر کچھ نئی ہے نہ کوئی نیا خیال
اک امرِ واقعی سے یہ تازہ ہوا خیال
سمجھا دیا بشر کی رسائی ہے اس طرف
خیر البشر نے راہ بتائی ہے اس طرف
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چودہ سو سال گذرے کہ مکّہ میں اک بشر
اُمّی مگر علومِ الٰہی سے باخبر
بندوں کے درمیان خدا کا پیامبر
صادق امین صابر و ساجد بہر نظر
بندوں کو وہ خدا کی عطائے عظیم تھا
آغوشِ کائنات مین دُرِّ یتیم تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
باتوں میں لطف، خُلق میں عظمت، جبیں پہ نُور
ایک اک عمل تلطف و اخلاص کا ظہور
آئینہ انکسار کا کبر و انا سے دور
داتا، سخی، شریف، مزکی، غنی، غیور
اس نے حیاتِ تازہ کا سامان کر دیا
انسان کو جھنجھوڑ کے انسان کر دیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خونخوار بھیڑیوں کو دیا حلمِ بیکراں
صحرا کے بدؤوں کو بنایا فلک نشاں
جہّال، فیض پا کے ہوئے عالمِ زماں
بت خانہ قدیم میں ہونے لگی اذاں
توحید کے پیام سے سب آشنا ہوئے
بُھولے جو تھے خدا کو وہ پھر باخدا ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تفریقِ نسل و قوم مٹا دی بہ یک نگاہ
ذی رُتبہ تھا سپید نہ کم مرتبہ سیاہ
آقا میں اور غلام میں ہونے لگا نباہ
جورِ قوی سے مل گئی کمزور کو پناہ
فیضِ توجہاتِ رسالت مآب سے
ذرّے نظر ملانے لگے آفتاب سے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قائم ہوا زمانے کا آپس میں اعتبار
ایفائے عہد بن گیا ایمان کا شعار
سوکھے ہوئے چمن میں پلٹ آئی پھر بہار
ہر نخل بار ور ہوا ہر دشت لالہ زار
سوئے ہوئے ضمیر جو بیدار ہو گئے
انگڑائی لے کے دشت چمن زار ہو گئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر دل کو اعتبار حقیقت کا آ گیا
انداز سرکشی میں عبادت کا آ گیا
بیگانگی میں رنگ محبّت کا آ گیا
انسان کو یقین قیامت کا آ گیا
لو لگ گئی جو قدرت پروردگار سے
الفت رہی نہ زندگئ مُستعار سے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر ایک دل میں لگ گئی بس ایک ہی لگن
پُھولا پھلا اخوّت و اخلاق کا چمن
اربابِ اتقا سے سجی حق کی انجمن
کفر و نفاق ہو گئے افسانہ کُہن
ویران، سرکشی کے صنم خانے ہو گئے
سب جلوہ رسول کے پروانے ہو گئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ آخری رسول، خدا کا پیامبر
دنیا میں پہلا محسنِ انسانیت بشر
فخرِ حیات، نازشِ تخلیق معتبر
بحرِ کرم، جہانِ عطا، صاحبِ نظر
مقصُودِ کُن، حبیبِ خدا، راز دارِ حق
اُس صادقِ ازل نے دیا اعتبارِ حق
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ رحمتِ تمام زمانے کے واسطے
آیا تھا بزمِ نُور سجانے کے واسطے
ذرّوں کو آفتاب بنانے کے واسطے
عالم سے ظلم و جور مٹانے کے واسطے
ہر قلب کو خزینہ ایمان دے دیا
اُس کی زبانِ پاک نے قرآن دے دیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قرآن گفتگوئے خداوندِ ذوالجلال
دستورِ حق، صحیفہ بے مثل و بے مثال
گنجینہ معارف و قانونِ لازوال
اللہ کا کلام محمد کی بول چال
ایک ایک حرف ناز سے ہے جھومتا ہوا
آیا ہوں میں رسول کے لب چومتا ہوا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پوری طرح حیات و اجل پر احاطہ گیر
ہر سورہ بے عدیل ہر آیت ہے بےنظیر
آئینِ روزگار، قوانینِ دلپذیر
سب کچھ ہے اس میں خشک و تر و قلت و کثیر
تغیّرِ دہر وجہِ خلل ہو نہیں سکی
اک حرف کی بھی ردّ و بدل ہو نہیں سکی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قرآن جس کے دل پہ اُترتا تھا وہ نبی
آلائشِ حیات سے مطلق رہا بری
اس کے عروجِ ذات کو سمجھے گا کیا کوئی
اُس نے زمیں سے جا کے سرِ عرش سیر کی
ہوتی ہے یہ جو چاند میں دنیا کی جستجو
ہے یہ اُسی کے نقشِ کفِ پا کی جستجو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آرام گاہِ خاصِ رسالت حریم نور
ہر ذرّے میں تجلئ حق کا جہاں ظہور
جبریل آئے جس میں پئے خدمتِ حضور
وہ فرشِ خاک عرش سے ظاہر میں تھا جو دُور
سجدے ملائکہ کریں جس میں نگاہ سے
حضرت گئے فلک پہ اُسی خوابگاہ سے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ رات، جس پہ سینکڑوں دن کی ضیا نثار
وہ رات، جس کے نور سے روشن ہے روزگار
وہ رات، جس کی عظمت و شوکت ہے یادگار
وہ رات، جس کی وجہ سے دن کو ہے افتخار
دولت تجلیّاتِ الٰہی کی پائی ہے
اب تک جہاں میں صرف وہی رات آئی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کعبے سے سوئے عرش چلے سرورِ انام
جبریل ہم رکاب شہِ آسماں مقام
مرکب برائے سیر براقِ سبک خرام
اُٹھے زمیں سے عرش جھکا بہر احترام
سیارے دیکھنے لگے اور جُھومنے لگے
خورشید و ماہتاب قدم چومنے لگے
 
Top