پہلے قلم اٹھاؤں تو حمدِ خُدا لکھوں
پھر سجدہ کر کے نعتِ شہِ مُصطفٰے لکھوں
دل کو لگا کے منقبتِ مرتضٰے لکھوں
آنسو بہا کے حالِ شہ کربلا لکھوں
ہاتھوں پہ دسترس ہے کلیجہ کو تھام لوں
آنکھوں کا ہے جو کام وہ آنکھوں سے کام لوں
احوالِ اشک و سلسلہ چشمِ تر لکھوں
افسانہ جراحتِ قلب و جگر لکھوں
ٹپکے قلم سے خون جو غم کا اثر لکھوں
آئے جو کچھ نظر تو حدیثِ نظر لکھوں
ڈالوں نظر زمیں پہ جو تابِ نظر ملے
دیکھوں فلک کو، دیدہ بینا اگر ملے
آنسو بہا کے ذکر شہ بحر و بَر کروں
دُنیا کے ضبطِ درد کو زیر و زَبر کروں
خونِ جگر سے بزم میں پلکوں کو تَر کروں
اشکوں کی بوند بوند کو رشکِ گہر کروں
ہر اشک خوں میں لعل و گُہر کی سی شان ہو
آنکھوں پہ جَوہری کی دکاں کا گمان ہو
قُدسی لگا سکیں گے کچھ ان آنسوؤں کا بھاؤ
رضوانِ خُلد جانتا ہے ان کا رکھ رکھاؤ
حوروں کو اشتیاق ہے کہتی ہیں لاؤ لاؤ
ان موتیوں سے خُلد کے ایوان کو سجاؤ
ان کا کوئی جواب نہیں زیب و زین میں
آنکھوں تک آئے ہیں یہ عزائے حُسین میں
آنسو نہیں ہیں بحرِ عزا کے گہر، ہیں یہ
باغِ ولائے آلِ نبی کے ثمر، ہیں یہ
ہدیہ برائے سیدِ عالی نظر، ہیں یہ
قطرے نہیں ہیں پانی کے کحل البصر، ہیں یہ
دیتے ہیں یہ سکون ہر اک بیقرار کو
پل بھر میں صاف کرتے ہیں دل کے غبار کو
آنکھیں اسی لیے ہوئیں انسان کو عطا
روتے رہیں بہ یادِ شہنشاہِ کربلا
سینوں سے ہاتھ پلکوں سے آنسو نہ ہوں جُدا
مل جائے سلسبیل سے آنکھوں کا سلسلہ
ماتم میں اہلِ بیت کے یہ خوں چکاں رہیں
آنکھیں رہیں تو آنکھوں سے آنسو رواں رہیں
آنکھیں عطائے خاص ہیں پروردگار کی
تصویر دیکھتے ہیں خزاں کی بہار کی
کرتے ہیں سیر دشت کی اور لالہ زار کی
اُمید اُنھیں سے رکھتے ہیں دیدارِ یار کی
ساغر کے منتظر ہیں نہ جامِ سفال کے
پیتے ہیں ان سے گھونٹ شرابِ جمال کے
آنکھوں سے خیر و شر کی فضا دیکھتے رہیں
ہنگامہ ہائے امن و وِغا دیکھتے رہیں
کس رُخ پہ چل رہی ہے ہوا دیکھتے رہیں
ان کھڑکیوں سے ارض و سما دیکھتے رہیں
کرنے کو امتیاز صواب و گناہ کا
پھیلا ہے کائنات میں دامن نگاہ کا
آنکھیں ہی سیربین ہیں آنکھیں ہی جامِ جم
محتاج ان کے زیست میں ہیں ہر قدم پہ ہم
وہ راستہ ہو دیر کا، یا جادہ حرم
آنکھیں نہ ہوں تو ٹھوکریں کھائیں بہر قدم
صحرا میں پھر کشش ہے نہ کچھ بوستاں میں ہے
آنکھیں نہ ہوں تو ہیچ ہے جو کچھ جہاں میں ہے
کچھ حد نہیں ہے اس کرم بے حساب کی
آنکھوں میں وسعتیں ہیں جہانِ خراب کی
کرنے کو سیر ساحل سیل پُرآب کی
دریا کو بھی عطا ہوئیں آنکھیں حباب کی
کلیوں کی صورتیں نظر آئیں دُھلی ہوئی
نرگس کی آنکھ بھی ہے چمن میں کھلی ہوئی
رہتے ہیں حال سامنے دن اور رات کے
دو پُتلیوں میں رنگ ہیں کُل کائنات کے
آثار قہر کے ہیں کبھی التفات کے
آنکھیں نہیں دریچے ہیں قصرِ حیات کے
جلووں کا سلسلہ بھی ہے تارِ نگاہ سے
دل میں بھی کوئی آئے تو آنکھوں کی راہ سے
زُلفوں کے بل جبیں کی گرہ ابروؤں مے خم
مژگاں کے تیر، چشم حسیناں کا کیف و کم
عارض کے رنگ چاہ زنخداں لبوں کا نم
جو کچھ ہمیں دکھائیں یہ سب دیکھتے ہیں ہم
نفرت پہ اختیار نہ کچھ دخل میل میں
دل تو فقط کھلونا ہے آنکھوں کے کھیل میں
آنکھیں نہ ہوں تو جلوہ حُسن بتاں فضول
ناز و ادا و عشوہ غلط، شوخیاں فضول
رنگِ نہاں فضول، جمالِ عیاں فضول
آنکھیں نہ پڑھ سکیں تو ہر اک داستاں فضول
آنکھیں ہی زشت و خوب کے پردے اٹھاتی ہیں
آنکھیں ہی بزم دوست کا رستہ بتاتی ہیں
آنکھیں کُھلیں تو رنگ زمانہ ہو آشکار
آنکھیں اُٹھیں تو اٹھنے لگے خود حجابِ یار
آنکھیں کہیں جو قصہ دل، آئے اعتبار
آنکھیں ملیں تو دل کے تعلق ہوں استوار
آنکھیں صلاح کار ہیں جوشِ شباب کی
دو کٹنیاں ہیں یہ دل خانہ خراب کی
آنکھیں خدا نے دی تھیں ہمیں بھی حسین و مست
کہتے تھے بے پئے ہوئے سب ہم کو مے پرست
ہر جنبش مژہ تھی طلسم کشاد و بست
نظروں میں اپنی ایک تھے سارے بلند و پست
آئینہ دیکھ دیکھ کے مسرور رہتے تھے
بے بادہ نشہ رہتا تھا مخمور رہتے تھے
آنکھوں میں تھا جو کیفِ جوانی بھرا ہوا
تھا نشہ شباب مسلسل جما ہوا
لیکن تھا گھات میں یہ بڑھاپا لگا ہوا
آیا جو ہوش سوچ رہے ہیں یہ کیا ہوا
رُخصت ہوا شباب تو آنکھوں کا رس گیا
مدّت سے چھا رہا تھا جو بادل برس گیا
بزم جہاں سیاہ ہے آنکھوں کے واسطے
دشوار ہر نگاہ ہے آنکھوں کے واسطے
مشکل ہر ایک راہ ہے آنکھوں کے واسطے
تابِ نظر گناہ ہے آنکھوں کے واسطے
اُٹھیں اگر تو رنج اُٹھانے کے واسطے
رستہ چلیں تو ٹھوکریں کھانے کے واسطے
انساں کی اس بصارتِ ظاہر کا یہ کمال
روشن رُخِ حیات کے جس سے ہوں خدّ و خال
لیکن ہر اِک عروج کو دُنیا میں ہے زوال
پیشِ نگاہ آج ہے اپنی ہی خود مثال
پہلے تھا کتنا نور اندھیری فضاؤں میں
پڑھتے تھے خط شوق ستاروں کی چھاؤں میں
گزرا شباب آ گیا ضعف بصر کا دَور
ایک ایک نقشِ صاف پہ کرنا پڑا ہے غور
دنیا بدل گئی ہے جو بدلا نظر کا طور
اب دیکھنا ہے کیا ہمیں آنکھیں دکھائیں اور
کیا غم جو سیر و دید کے قابل نہیں رہے
لیکن دعا یہ ہے کہ بصیرت یونہی رہے