مرثیہ از اختر عثمان

فرخ منظور

لائبریرین
ایک طویل مرثیے سے چند بند از اختر عثمان

اے وارثِ قرطاس و قلم فہمِ ہنر دے
اے باصرِجواد مجھے چشمِ بصر دے
اے نورِ ابد نور سے کشکول کو بھر دے
آلودۂ ظلمات ہوں خیراتِ سحر دے

اے کوزہ گر، دہر گلِ حرف کو نم دے
دریوزہ گر ِخاص ہوں شبّیر کا غم دے

اس ذکر کی توفیق نہیں، تاب نہیں ہے
کمزور ہے دل، طاقتِ اعصاب نہیں ہے
یہ بحرِ بلا خیز ہے پایاب نہیں ہے
ہر ناکس و کس واقفِ آداب نہیں ہے

لازم ہے زباں چشمہءفردوس میں دھل جائے
شفّاف رہے مغزِ قلم اوس میں دھل جائے

مدحِ شہِ دلگیر کے لائق تو نہیں ہوں
میں سوختہء جلوہء یک مہرِ مبیں ہوں
میں ذرہء ناچیز تو بس کفش نشیں ہوں
یہ ان کی توجہ ہے کہ اسوار بہ زیں ہوں

ہر چند کہ آدابِ فنِ ذکر ندارم
صد شکر بہ پیرایہء کج فکر ندارم

چلنے کے لئے ایک ہی مہمیز بہت ہے
تنکے کو نمِ سیلِ بلا خیز بہت ہے
فرہاد ہوں میں ، طاقت پرویز بہت ہے
مولا، جو مقابل ہے ہَوا، تیز بہت ہے

چو سمت مرے غاشیہ بردار کھڑے ہیں
اسوار ہوں میں ، حاشیہ بردار کھڑے ہیں

مشہور ہوں دریوزہ گرِ شہرِ معانی
ہر بار کھلا مجھ پہ درِ شہر معانی
درپیش ہوا پھر سفر۔ شہرِ معانی
معلوم پڑے کچھ خبرِ شہرِ معانی

کچھ زعم نہیں بحر کا، نے دعوی ء برتر
مہمل سے نکلتا ہے کہاں معنیء برتر

لو ہوتے ہیں قرطاس و قلم مدح میں مصروف
آتے ہیں نظر پردہء توصیف پہ موصوف
کھلنے کو ہے کچھ دیر میں اک نافہ ء ملفوف
اک نکہتِ بے نام کہ ہونے کو ہے معروف

آ پہنچا گلستان میں رہوار صبا کا
اب صدر نشیں ہوتا ہے رہبر فصحا کا

اے خالقِ نوروز مرے شعر کو ضو دے
اے مہرِجہانتاب مرے لفظ کو لَو دے
اے موجد_فن، ذکر کو پیرایہء نو دے
سر سبز رہیں حشر تلک فکر کے پودے

اے مالکِ ہر دَور، نیا دور عطا کر
دامانِ طلب وا ہے، مجھے اور عطا کر

آنکھیں ہوں مری ،چہرہء اکبر کا ورق ہو
خواہش ہے شب و روز یہی میرا سبق ہو
اس دل میں قلق ہو تو فقط ان کا قلق ہو
وہ بین لکھوں ، سینہء فولاد بھی شق ہو

صحراوں سے بھی جوئے معانی نکل آئے
ہر سنگ صفت چشم سے پانی نکل آئے

مولا درِ تاثیر کی زنجیر نہ چھوڑوں
تشنہ کوئی پہلو دمِ تحریر نہ چھوڑوں
تربت میں بھی ذکرِ شہِ دلگیر نہ چھوڑوں
مر جاوں مگر دامنِ شبیر نہ چھوڑوں

یہ طبعِ رواں قلزمِ افکار میں تَیرے
میں راج کروں فن پہ بلا شرکت غیرے

منظور نہیں مجھکو سفر ایک زمیں پر
حسرت ہےمجھے سیر کی ہر ایک زمیں پر
کیوں خوار پھروں زندگی بھر، ایک زمیں پر
اک پاوں پڑے بادلوں پر ، ایک زمیں پر

ہر سیپ کا منہ گوہرِ تخئیل سے بھر دوں
جب آنکھ اٹھے ، سوئے زمیں کھینچ لوں گَردوں

یا فخرِ حرم ، بحرِ کرم ، یا شۂ عالم
شد عہدِحشم ، دورِ درمِ یا شۂ عالم
بی ترکشم و بی سپرم ، یا شۂ عالم
دریوزہ گرم ، رفت گرم ، یا شۂ عالم

ممتاز کر اے ثانئ کاریگرِ اول
مفلس پہ عنایات ہوں اے دیگرِ اول

اک عمر سے ہوں قریہء ظلمات میں محبوس
خادم کو عطا کیجئے الفاظ کے فانوس
اس قصر سے سائل کبھی لوٹا نہیں مایوس
رہ جائے فنِ شعر میں درویش کا ناموس

ادرکنی رسولا پدرِ غیرتِ مریم
انظرنا اماما پسرِ غیرتِ مریم

مفلس ہوں ، تہی دست ہوں ، کچھ بھی تو نہیں پاس
بس ایک اثاثہ ہے مرا ، کاسۂ احساس
غم خوار ہیں ایسے میں فقط خامہ و قرطاس
میں بندۂ بے دام ہوں یا حضرت عباس

دربار میں آیا ہوں دلِ سوختہ لے کر
جاؤں تو کہاں جاؤں یہ اندوختہ لے کر

از اختر عثمان
 

فاتح

لائبریرین
اے وارثِ قرطاس و قلم فہمِ ہنر دے
اے باصرِجواد مجھے چشمِ بصر دے
اے نورِ ابد نور سے کشکول کو بھر دے
آلودۂ ظلمات ہوں خیراتِ سحر دے
سبحان اللہ! سبحان اللہ! بہت شکریہ قبلہ
 
Top