بہت عمدہ تجزیہ ہے اور حقیقت سے قریب تر بھی ہے ، میرے خیال میں ”تبلیغی جماعت “ کی ”تبلیغی محنت“ کا ”دائرہ کار“ بھی یھی ہے ، اور ان 50 سالوں میں اس طریقہ کار کے بے شمار فائدے سامنے آئے ہیں ، واضح رہے کہ مسلمانوں کے عمومی طبقہ کا مزاج دینی اعتبار سے آج اس قدر ”بگڑ“ چکا ہے ، کہ اس کی ”اصلاح “ کے بغیر صرف ”نفاذ شریعت“ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا مشکل ہے ، ویسے بھی ”نفاذ شریعت“ سے معاشرہ سے ”اجتماعی برائیاں “ تو ختم ہوسکتی ہیں ، لیکن ”انفرادی برائیاں “ ختم نھیں ہوسکتیں ، ”انفرادی برائیوں“ کو معاشرہ سے مٹانے کے لئے ”اصلاح و تزکیہ “ کی محنت ہی واحد راستہ ہے ، اس لئے کہ جب تک کسی مسلمان کے دل میں اللہ کا ڈر اور آخرت کا یقین پیدا نھیں ہوگا ، وہ محض ”حکمران“ یا ”حکومت“ سے ڈر کر اپنے ”گناہ“ نھیں چھوڑ سکتا ، خصوصا تنھائیوں میں گناھوں سے بچنا اللہ کی ذات پر کامل یقین کے بغیر ممکن نھیں ہے ، اور جب ایسے ”صالح مزاج“ والے افراد کی اکثریت ہوگی تو خود بخود ایسا اجتماعی ماحول قائم ہوگا ، جس میں نیکیوں پر عمل آسان اور برائیوں پر عمل دشوار ہوجائے گا ، اور اگر الللہ چاہے گا تو اقتدار اور حکومت بھی انھی کے حوالے کرے گا ،
یہ بات اگرچیکہ صحیح ہے اور اسوۃ نبوی سے قریب تر بھی ، لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ہے کہ جو جماعتیں مسلح جدوجھد کے ذریعہ ؛ جائز حدود میں رہ کر اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوششیں کررہی ہیں (جیسے کہ طالبان ، افغانستان میں جھاد کررہے ہیں ) وہ غلط ہیں ، بلکہ ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہنا چاھئے ، نیز اپنی ہمت ، وسعت اور استعداد کے مطابق ان کے کام آنے کی کوشش کرنی چاہئے ، بجائے تنقید کے ، اسی طرح جو جماعتیں موجودہ سیاسی نظام میں سیاسی جدوجھد کے ذریعہ اسلامی نظام کے قیام کی کوششیں کررہی ہیں ، ان کی ان کوششوں کو بھی قدر دانی کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے ، اور جھاں تک ہوسکے ساتھ دینے کی بھی ،
خلاصہ یہ ہے جتنے افراد اور جماعتیں ، اس بے دینی کے ماحول میں دین کو غالب کرنے کے لئے، اپنے اپنے طریقہ کار اور اصول کے تحت قربانیاں دے رہی ہیں ، ان کو آپس میں ایک داسرے کو اپنا ”معاون“ سمجھنا چاہئے ، اور ایک دوسرے کے ساتھ ”خیر خواہی “ کا ثبوت دینا چاہئے ، اس لئے کہ مقاصد ”اصل “ ہوتے ہیں، نہ کہ طریقہ کار ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ ”طریقہ کار“ اسلامی اور شرعی “ اعتبار سے ”جائز حدود“ کے اندر ہو ،