اسکین دستیاب محیطِ ادب : کلامِ بیدل کی اردو تشریح از سید نصیر الدین نصیر

الف نظامی

لائبریرین
محیطِ ادب میرزا عبد القادر بیدل رحمۃ اللہ علیہ کے ان منتخب اشعار کی تشریحات کا مجموعہ ہے جو پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی نے اپنے رسالہ "طلوعِ مہر" میں جہانِ بیدل کے عنوان سے قسط وار شائع کی تھیں۔ نصیرِ ملت ہفت زبان شاعر ہونے کے علاوہ محقق ، ادیب اور بہترین نثار تھے۔ اس طرح نصیرِ ملت نے اپنی دیگر تصانیف میں بھی بیدل کے اشعار سے عبارات کو مزین کیا۔
آپ کے پہلے دو شعری مجموعے آغوشِ حیرت اور پیمانِ شب کے نام بیدل کے اشعار سے ماخوذ ہیں ، جو نصیرِ ملت کی بیدل شناسی کی دلیل اور اس عظیم روحانی و عرفانی شاعر سے ان کی عقیدت کا مظہر تھی۔ مذکورہ شعری مجموعوں کے نام مندرجہ ذیل اشعار سے ماخوذ ہیں:

خیالش بر نمی تابد شعور اے بے خودی جوشے
نمی گنجد بدیدن جلوہ اش اے حیرت آغوشے

بر نمی آید بیاضِ چشم آہو از سواد
صبحِ اقبال جنونم نشکند پیمانِ شب
نصیرِ ملت نے بیدل کے اشعار کی تشریحات کا نام محیطِ ادب 20 فروری 1987 کو قاضی بشیر الدین صاحب کی موجودگی میں تجویز کیا۔

اسیرِ زُلفِ نصیر
(فاران نظامی)

ڈاون لوڈ پی ڈی ایف فائل: محیطِ ادب از سید نصیر الدین نصیر (آرکائیو ڈاٹ آرگ)
 

الف نظامی

لائبریرین
فارسی اور عربی اشعار کی تشریح کو اس لیے ترجیح دی جاتی ہے کہ ہماری عالی قدر اسلاف نے ان زبانوں میں افکارِ عالیہ کا ایک بیش بہا خزانہ چھوڑا ہے اور پھر اس لیے بھی کہ آج کا دور اِن دو زبانوں سے بڑی حد تک نا آشنا ہو چکا ہے۔ اپنی تہذیب سے ذہنی رشتہ استوار رکھنے اور جدید نسل کو ماضی کی اقدار سے باخبر کرتے رہنے کے جذبے کے تحت فارسی اور عربی کو سرِ فہرست رکھنے کا ارادہ ہے تا کہ ہمیں اپنے اسلافِ ذی وقار کی علمی اور فطری عظمتوں کا صحیح اندازہ ہو سکے۔ میرے جد امجد حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عہد میں اس ضرورت کو محسوس کرلیا تھا۔
چناچہ آپ کے ملفوظات اور تصانیف میں بزرگانِ دین اور اساتذہ فن کے اشعار کی تشریحات کاثبوت ملتا ہے ۔ علاوہ ازیں اگر صوفیائے سلف کی تصانیف اور ان کے ملفوظات کا مطالعہ کیا جائے تو یہی بات کھل کر سامنے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صوفیا کے کلام کو قرآن و حدیث کا خلاصہ کہا جاتا ہے ان میں حضرت سلطان ابوسعید ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ ، خاقانی رحمۃ اللہ علیہ ، نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت سعدی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت جامی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت میرزا عبد القادر بیدل رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ میردرد رحمۃ اللہ علیہ جیسے اکابر شامل ہیں۔
(سید نصیر الدین نصیر)
 

الف نظامی

لائبریرین
نزاکت ہاست در آغوشِ مینا خانہ ء حیرت
مژہ برہم مزن تا نشکنی رنگِ تماشا را

ترجمہ
کائنات کا یہ شیشہ خانہ ء حیرت اپنے پہلو میں بے شمار نزاکتیں لیے ہوئے ہے۔ لہذا اے مشتاقِ تماشا! اگر تو ان مناظر سے کماحقہ محظوظ ہونا چاہتا ہے ، تو پھر اپنے پلکیں بھی نہ جھپک اور مسلسل دیکھتا رہ ، تاکہ پلکوں کے جھپک جانے سے تیری نگاہیں کسی منظرِ حسیں کا کوئی لمحہء حسین مس(miss) نہ کر بیٹھیں
علامہ اقبال کے متعلق سنا ہے کہ وہ آخری ایام میں میرزا بیدل کا یہ شعر بہت پڑھا کرتے تھے اور اس شعر نے ان کے دل پر اتنا اثر چھوڑا تھا کہ جب بھی وہ یہ شعر پڑھتے ، اُن پر وجد و مستی کا عالم طاری ہو جاتا۔ اگر بہ چشم حقیقت دیکھا جائے تو یہ ساری کائنات مختلف کمالات کے ظہور کا آئینہ ہے ، مگر وہ چشم بینا جو قدرت کے ان مناظرِ مال کی اور مظاہر کمال کی مشتاقِ زیارت ہو ، میرزا عبد القادر بیدل چشم بینا کے لیے اُن کی اہمیت اور اُن کے نظارے کے لیے آداب بیان فرماتے ہیں۔
حضرتِ بیدل کے مذکورہ بالا شعر سے ملتا جلتا مضمون، ناخدائے سخن میر تقی میر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے

لے سانس بھی آہستہ کے نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

(محیطِ ادب ، صفحہ206)
 

الف نظامی

لائبریرین
ادب نہ کسبِ عبادت ، نہ سعیِ حق طلبی ست
بغیر خاک شُدن ہر چہ ہست بے ادبی ست

ترجمہ
ادب ، زیادہ عبادت کرنے اور حق طلبی کی کوشش کا نام نہیں ، کیونکہ صوفیائے کرام کے نزدیک مٹی ہوجانے کے سوا جو کچھ بھی ہے ، وہ دائرہ بے ادبی میں داخل ہے
(محیطِ ادب صفحہ 102)
 

الف نظامی

لائبریرین
خاصانِ خدا کا شیوہ

طبعِ روشن فارغ است از فکرِ غفلت ہائے خلق
نیست ظاہر ، معنیٰ گوشِ کرّ ، اندر آئینہ

ترجمہ و مفہوم:
روشن طبع لوگ کسی کے عیب کو ظاہر نہیں کرتے ، نہ اس پر جس میں عیب ہوتا ہے اور نہ مخلوق پر۔ ان کی مثال آئینے کی سی ہوتی ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی گراں گوش (بہرے) کو بٹھا دیا جائے تو آئینہ اس کے اس حقیقی عیب کو نہ تو اس پر ظاہر کرتا ہے اور نہ کسی دوسرے پر۔

روشن دلی کا بہ ظاہر تقاضا تو یہی ہے کہ وہ مخفی سے مخفی عیب کو بھی سامنے لے آئے ، مگر یہ نظام قدرت ہے کہ آئینہ جو ایک بے جان اور مادی چیز ہے ، وہ بھی کسی کے مخفی عیب کو ظاہر نہیں کرتا اور اس کے باوجود روشن دل ہوتا اور کہلاتا ہے۔ لہذا یہ غلط ہے کہ روشن ضمیر خلق خدا کے عیوب کو ضرور ظاہر کریں ، بلکہ میرزا بیدل نے تو آئینے کی مثال سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ خاصان خدا جن کے قلون انوارِ الہیہ سے آئینے کی طرح صاف و شفاف ہوتے ہیں وہ روشن دلی اور تزکیہ باطن کے باوجود آئینے کی طرح مخلوق خدا کے عیوب کو چھپاتے ہیں ، اس لیے کہ وہ ربِ کائنات کی صفت ستاری کے مظہر ہوتے ہیں۔ شعر کا سادہ الفاظ میں مفہوم یہ ہوا کہ روشن طبع لوگ ، مخلوق خدا کے گناہ و ثواب کی ٹوہ لگانے سے فارغ اور بے نیاز ہوتے ہیں ، جس طرح آئینہ باوجود اپنی قلبی صفائی کے ایک گراں گوش کے بہرے پن کی حقیقت کو ظاہر نہیں کرتا ، یعنی دیکھنے والے کو یہ معلوم نہیں ہونے دیتا کہ جو شخص آئینے کے سامنے بیٹھا ہوا ہے وہ ثقل سماعت کا شکار ہے۔

محیطِ ادب ، صفحہ 7
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
روشن طبع لوگ کسی کے عیب کو ظاہر نہیں کرتے ، نہ اس پر جس میں عیب ہوتا ہے اور نہ مخلوق پر۔ ان کی مثال آئینے کی سی ہوتی ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی گراں گوش (بہرے) کو بٹھا دیا جائے تو آئینہ اس کے اس حقیقی عیب کو نہ تو اس پر ظاہر کرتا ہے اور نہ کسی دوسرے پر۔
کیا بہترین خوبی ہے ۔۔۔پروردگار اس خوبی کو ہمارے اندر بھی پیدا کردے ۔۔آمین ! بس کم از کم کوشش ضرور کریں ۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ذوقِ طلب اور اجابت دُعا

ذوقِ طلبِ عالمیست ، وقف حضورِ دوام
پر بہ اجابت مکوش ، ختم دعا می شود

ترجمہ و مفہوم :
حصولِ مدعا اور طلب کا ذوق ایک ایسی دنیا ہے جو انسان کو بارگاہِ رب العزت میں ذہنی طور پر ہمیشہ حاضر اور متوجہ رکھتی ہے۔ لہذا اے وہ شخص ! جو اپنی دعاوں کے مقبول ہونے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ، تو دعاوں کے مقبول ہونے کی اتنی آرزو نہ کر ، اس لیے کہ اگر تیرے تمام مقاصد پورے کر دئیے جائیں ، تو اُس کی بارگاہ میں تیری دعاوں کا یہ سارا سلسلہ ہی ختم ہو کر رہ جائے گا۔ گویا مقاصد کا عدمِ حصول ہی انسان کو اللہ تعالی کی طرف متوجہ رکھتا ہے ، بلکہ کوشش یہ کر کہ تجھ میں ذوقِ طلب ختم نہ ہونے پائے ، تا کہ تو اپنے مقاصد کے حوالے سے ہر وقت بارگاہِ ایزدی میں قلبی اور ذہنی طور پر حاضر اور ملتمس رہنے کی سعادت سے بہرہ مند ہوتا رہے۔
قارئین ! کسی فلسفی کا قول ہے کہ اگر انسان کی ساری آرزوئیں اور تمنائیں پوری ہو جائیں ، تو یہ ایک بہت بڑا حادثہ ہو ، اس لیے کہ پھر اس کی زندگی بے کیف ہو کر رہ جائے۔ بلاشبہ لذتِ طلب کی سرشاریاں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ کسکِ آرزو کی سرمستی وہی جانتا ہے ، جو اس سے دو چار ہو۔ حصول آرزو تو دراصل مرگِ آرزو کا دوسرا نام ہے۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو اس طرح بیان کیا ہے :

عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل میں مرگِ آرزو ، ہجر میں لذتِ طلب

محیطِ ادب ، صفحہ 8
 
Top