محمد یعقوب آسی کی شعری اور نثری کاوشیں

ابن رضا

لائبریرین
در و دیوار بھی ہیں، لوگ بھی ہیں
بھری بستی میں گھر باقی نہیں ہے
بہت اعلیٰ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
 
آخری تدوین:
در و دیوار بھی ہیں، لوگ بھی ہیں
بھری بستی میں گھر باقی نہیں ہیں
بہت اعلیٰ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
درستی فرما لیجئے۔ ’’ ۔۔۔۔ گھر باقی نہیں ہے‘‘

اس کا مطلع ہے :
ہمیں اپنی خبر باقی نہیں ہے
کسی کے تن پہ سر باقی نہیں ہے
 
1452449_379616665515131_160187626_n.jpg
 
ابھی کچھ دیر پہلے اپنی
اردو نظموں کا مجموعہ
’’مجھے اک نظم کہنی تھی‘‘


میڈیا فائر پر رکھ دیا ہے۔
http://www.mediafire.com/view/3e7cejq4gpj6e65/Mujhay_ik_Nazm_Kehni_thee_-_final.pdf
اہلِ ذوق احباب وہاں براہِ راست پڑھ بھی سکتے ہیں اور ڈاؤن لوڈ بھی کر سکتے ہیں۔
آپ کی دعاؤں کا منتظر تو رہتا ہی ہوں۔ اب کی بار آپ کی آراء کا بھی منتظر ہوں۔

خصوصی توجہ کے لئے ۔۔ جناب
الف نظامی ، الف عین ، محمد وارث ، سید شہزاد ناصر ، سید ذیشان ، فارقلیط رحمانی ، محمد خلیل الرحمٰن ، ۔۔۔ اور جملہ اہلِ ذوق اہلِ محفل (خواتین اور حضرات)۔
 

ابن رضا

لائبریرین
آباد سرزمینِ وطن جاوداں رہے
میری دعا ہے اس پہ خدا مہرباں رہے

کیا ہی کہنے، نہایت ہی دلگداز ملی نغمہ ہے، پڑھ کے بہت تسکین ہوئی ماشاءاللہ، بہت سی داد قبول ہو استادِ محترم۔

یہا ں ایک استفسار بھی ہے کہ اس میں مطلع اور قافیہ ردیف اور بحر کی پابندی کی گئی ہے گویا کہ غزل کا پیرہن ہے؟ تو کیا اس کو نظم میں ہی شمار کیا جائے گا؟
 
آباد سرزمینِ وطن جاوداں رہے
میری دعا ہے اس پہ خدا مہرباں رہے

کیا ہی کہنے، نہایت ہی دلگداز ملی نغمہ ہے، پڑھ کے بہت تسکین ہوئی ماشاءاللہ، بہت سی داد قبول ہو استادِ محترم۔

یہا ں ایک استفسار بھی ہے کہ اس میں مطلع اور قافیہ ردیف اور بحر کی پابندی کی گئی ہے گویا کہ غزل کا پیرہن ہے؟ تو کیا اس کو نظم میں ہی شمار کیا جائے گا؟

جی ابنِ رضا صاحب۔ پہلے تو نظم کی پسند آوری پر ممنون ہوں۔
غزلیہ پیرہن میں بہت لوگوں نے نظم کہی ہے اور میں اس کو بالکل درست مانتا ہوں۔ آسان انداز میں یوں دیکھ لیجئے، کہ ۔
ایک تو ہے غزل، اور ایک ہے مسلسل غزل ۔۔۔ اس کو اور مسلسل کر دیجئے تو اس کا حق بن جاتا ہے کہ اس کا کوئی عنوان بھی ہو۔

فنی اعتبار سے اس کو غالباً ’’قطعہ‘‘ کی ذیل میں رکھتے ہیں۔ ویسے یہ جائز ہے بالکل جائز ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کی وہ نظم دیکھ لیجئے: ’’ہمدردی‘‘؟ ۔ وہی بلبل اور جگنو والی۔
 
نظم اور غزل کی تخصیص میں ایک تو ہیئت کی بات ہے۔
غزل کے لئے ’’زمین‘‘ کا ہونا ضروری ہے: بحر اور قافیہ (ردیف اختیاری چیز ہے ۔ تاہم جب اختیار کر لی تو پھر اس کو نبھانا لازم ہو گیا)۔ پھر اس میں مطلع اور مقطع کا اہتمام بھی راجح ہے۔ نظم کے لئے اس ہیئت کے علاوہ بہت سی ہیئتیں ہیں۔ مثنوی، مخمس، مسدس، قطعہ بند، ترجیع بند، ترکیب بند اور بہت ساری۔
دوسرا فرق ہے معنوی یا موضوعاتی ۔ یہ اہم تر ہے! ۔۔ غزل کا ہر شعر اپنی جگہ ایک مکمل معنوی اکائی ہوتا ہے، چاہے وہ اپنے آگے پیچھے والے اشعار سے مربوط ہو یا نہ ہو۔ نظم میں پوری نظم کا ایک موضوع ہوتا ہے (بڑا چھوٹا، وسیع خفیف ۔۔ یہ الگ بحث ہے) اور نظم کا ہر شعر یا ہر بند اس موضوع کو آگے بڑھاتا ہے۔
 
ہیئت اس میں کوئی منع نہیں، تاہم اس کو کسی نہ کسی ’’نظم‘‘ کے ماتحت ہونا چاہئے، نہ کہ مادر پدر آزاد۔
بات آ جاتی ہے ’’آزاد نظم‘‘ تک۔ اس میں بھی ایک ’’نظم‘‘ ہوتا ہے، کوئی رکن ہوتا ہے جو سطروں میں رواں ہوتا ہے۔
ایک اور شے بھی ہے جسے خواہ مخواہ شاعری قرار دیا جا رہا ہے، میں اس کو شاعری نہیں مانتا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ہیئت اس میں کوئی منع نہیں، تاہم اس کو کسی نہ کسی ’’نظم‘‘ کے ماتحت ہونا چاہئے، نہ کہ مادر پدر آزاد۔
بات آ جاتی ہے ’’آزاد نظم‘‘ تک۔ اس میں بھی ایک ’’نظم‘‘ ہوتا ہے، کوئی رکن ہوتا ہے جو سطروں میں رواں ہوتا ہے۔
ایک اور شے بھی ہے جسے خواہ مخواہ شاعری قرار دیا جا رہا ہے، میں اس کو شاعری نہیں مانتا۔
اس مفصل رہنمائی کے لیے نہایت مشکور ہوں. جزاک الله
 
آخری تدوین:
نظم اور غزل کی تخصیص میں ایک تو ہیئت کی بات ہے۔
غزل کے لئے ’’زمین‘‘ کا ہونا ضروری ہے: بحر اور قافیہ (ردیف اختیاری چیز ہے ۔ تاہم جب اختیار کر لی تو پھر اس کو نبھانا لازم ہو گیا)۔ پھر اس میں مطلع اور مقطع کا اہتمام بھی راجح ہے۔ نظم کے لئے اس ہیئت کے علاوہ بہت سی ہیئتیں ہیں۔ مثنوی، مخمس، مسدس، قطعہ بند، ترجیع بند، ترکیب بند اور بہت ساری۔
دوسرا فرق ہے معنوی یا موضوعاتی ۔ یہ اہم تر ہے! ۔۔ غزل کا ہر شعر اپنی جگہ ایک مکمل معنوی اکائی ہوتا ہے، چاہے وہ اپنے آگے پیچھے والے اشعار سے مربوط ہو یا نہ ہو۔ نظم میں پوری نظم کا ایک موضوع ہوتا ہے (بڑا چھوٹا، وسیع خفیف ۔۔ یہ الگ بحث ہے) اور نظم کا ہر شعر یا ہر بند اس موضوع کو آگے بڑھاتا ہے۔
میں اسے اپنے خزانے میں جمع کر رہا ہوں۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
کہیں کی اینٹ کہیں کا ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ :sneaky:
سمندر کوزے میں ڈال دیا اس ایک برمحل جملے نے۔ بہت خوب۔:p

ویسے استادِ محترم زیادہ پیاس بھی بہت بری چیز ہے کب کہاں لگ جائے اور دل بے تاب ہو کر ہمہ وقت سیرابی چاہے کچھ کہا تھوڑی جا سکتا ہے۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
ویسے ہمارے ہاں پنجاب میں متنجن (رنگ برنگے میٹھے چاول) بھی بہت شوق سے کھایا جاتا ہے۔:)
اور میں تو ان کے اوپر دہی بھی ڈالتا ہوں:p

کوئی بات نہیں رفتہ رفتہ سیکھ جائیں گے۔
 
Top