محمد یعقوب آسی کی شعری اور نثری کاوشیں

اپنی اردو غزلیں، متذکرہ بالا لنک پر اپ لوڈ کر چکا ہوں۔

اس مجموعے پر میری اپنی گزارشات کے پہلے دو تین پیراگراف؛ دوستوں کے حسنِ نظر کی نذر ہیں:۔


خواب سے سانجھ تک
کچی اینٹوں اور گارے سے بنی چوڑی چوڑی دیواروں والے بغیر پھاٹک کے کھلے کھلے بڑے بڑے احاطے کے اندر چار چار پانچ پانچ گھروں کے کچے کوٹھے اور کچے صحن؛ گرد سے اٹی کھلی کھلی گلیاں اور سڑکیں، دور تک بکھرے درخت اور کھیت؛ اور ان سب کے اوپر لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتے آسمان کی چھت!! فضا پر بالعموم خاموشی کا راج ہوتا۔ یہ خاموشی منہ اندھیرے مرغے کی بانگ اور اللہ اکبر کے سرمدی نغمے سے ٹوٹتی تو کئی مکالموں کا آغاز ہو جاتا؛ بھینسوں، گائیوں اور بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی کھنکھناہٹ اور بیل گاڑیوں کی کھڑکھڑاہٹ تو گلیوں سے نکل کر کھیتوں میں گم ہو جاتی۔ لیکن چڑیوں کی چہچہاہٹ اور ننھے بچوں کا شور صبح دم زندگی سے آشنائی کا اعلان کر دیتا۔ کچھ ہی دیر بعد سرمئی اور سفید دھوئیں کی لکیریں کچے گھروں کے صحنوں سے اٹھ کر فضا میں لہرئیے بناتیں اور تحلیل ہو جاتیں۔ سورج ذرا اوپر اٹھتا تو کتنی ہی الھڑ مٹیاریں ناشتے کی اشیاء سروں پر رکھے اپنے دوپٹوں کے لہرئیے بناتی اورسراپاؤں سے بجلیاں جگاتی مختلف پگڈنڈیوں سے ہوتی ہوئی کھیتوں میں گم ہو جاتیں۔ بڑے بوڑھوں کا تو پتہ نہیں، لڑکے بالے بجلی کی صرف ایک ہی صورت سے واقف تھے، جو بادلوں میں چمک جایا کرتی اور پھر کبھی کڑکڑاہٹ اور کبھی گڑگڑاہٹ سنائی دے جاتی۔ بارش سے گلی کوچوں کی دھول کیچڑ اور گاد میں بدل جاتی اورفضا شفاف ہو جاتی۔
مگھر پوہ کی ایسی ہی صبح تھی، صاف شفاف، بارش سے دھلی ہوئی! پہر بھر دن گزرنے پر بھی خنکی غالب تھی۔ ساٹھ پینسٹھ برس کا ایک دمکتے چہرے والا بوڑھا کھلے احاطے میں بچھی چارپائی پر نیم دراز تھا۔ سفید ململ کے صافے ڈھکے سر میں اس کے بالوں، ہلکی پھلکی داڑھی اور باریک تراشی ہوئی مونچھوں کی سفیدی بھی شامل ہو رہی تھی۔ پائنتی کی طرف بیٹھا بارہ تیرہ برس کا لڑکا آنکھوں میں صدیوں کے خواب سجائے بوڑھے باپ کے پاؤں داب رہا تھا۔ بوڑھے کا مہینوں کا بیمار جسم یک دم یوں لرز اٹھا جیسے بھونچال آ گیا ہو۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ بھی نہ پایا تھا کہ اس کے منہ سے اوغ کی آواز نکلی اور کوئی سیر بھر لہو قے کی صورت میں کچھ اس کے سفید لباس پر، کچھ چارپائی پر اور کچھ زمین پر بکھر گیا۔ بچہ پریشان ہو کر اندر کو بھاگ گیا۔ ایک نحیف بڑھیااپنے کانپتے وجود کو سنبھالتی ہوئی آئی۔بوڑھے نے ہاتھ سے ’سب ٹھیک ہے‘ کا اشارہ دیا۔ بڑھیا نے لڑکے کے کان میں کچھ کہا اور وہ تیزی سے احاطے سے باہر نکل گیا۔ کچھ ہی دیر میں بڑھیا نے اپنے رفیقِ حیات کا منہ ہاتھ دھلا کر کپڑے تبدیل کرا دئے اوراندر چلی گئی۔ وہ دودھ سے بھرا پیالہ لے کر آئی تو بوڑھا اپنے زردی کھنڈے چہرے پر دنیا جہان کی آسائشیں سجائے آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا۔ ’یہ دودھ پی لے یعقوب کے ابا!‘ ... کوئی جواب نہ پا کر اُس نے بوڑھے کے بازو کو پکڑ کر ہلایا تو جیسے زمین ہل گئی۔ پہلے تو اس کے ہاتھ سے پیالہ گرا اور پھر وہ خود بھی چارپائی کے پاس ڈھے گئی ۔ کوئی ایک پہر دن باقی ہو گا جب بوڑھا منوں مٹی تلے جاچکا تھا، یعقوب کے سارے خوابوں سمیت!
یہ کہانی کی ابتدا ہے، صاحبو! کون جانے؟ یہی ناآسودہ خواب ہوں اور اظہار کو ترس رہے ہوں اور لفظ سے میرے تعلق کا سبب بنے ہوں۔ ایک تھا بادشاہ، اس کے سات بیٹے تھے ... ایک تھا بادشاہ، اس کی سات ملکائیں تھیں، ہر ایک سے ایک ایک لڑکی تھی ... ایسے جملوں سے شروع ہونے والی داستانیں بڑے بوڑھوں میں بہت مقبول تھیں۔ ہر داستان میں کبھی ایک اور کبھی زیادہ اخلاقی درس ہوتے۔ سردیوں کی طویل اورگرمیوں کی مختصر راتوں میں کسی زمیندار کے ڈیرے پر محفل جمتی۔ ایک شخص داستان شروع کرتا: ایک تھا فقیر، وہ بستی سے دور جنگل میں ایک کٹیا میں رہتا تھا ..... اور پھر رات گزر جاتی داستان جاری ہوتی۔ اگلی رات جہاں پر بات رکی تھی، وہاں سے آگے چلتی اور یوں کئی ہفتوں بعد اپنے اختتام کو پہنچ جاتی۔ میں کہانی کی ایسی محفلوں میں بڑے شوق سے بیٹھا کرتا اور ہر کہانی کو اس قدر توجہ سے سنتا جیسے وہ میرا سکول کا سبق رہا ہو۔
والدہ مرحومہ رسمی تعلیم کے لحاظ سے تو اَن پڑھ تھیں تاہم قرآن مجیدکے علاوہ چیدہ چیدہ دینی کتابیں جو عموماً پنجابی شاعری تھی خواتین کی محفلوں میں پڑھا کرتی تھیں۔ میں پہلے پہل تو والدہ کے پاس بیٹھ کر انہیں سنا کرتا اور کرتے کرتے ان کتابوں کو روانی سے پڑھنے لگا۔ لفظ کے ساتھ میرا تعلق شاید اُن داستانوں کی بدولت قائم ہوا اور شعر کا چسکا اُن دینی کتابوں کی برکت سے پڑا۔ مجھے شعر کو درست پڑھناآ گیا تھا۔ سو میرے مہربان استاد نے مجھے سکول کی بزم ادب میں شامل کر لیا۔ پھر تو ہر جمعے کو بزمِ ادب کے اجلاس کی نظامت مجھے کرنا پڑتی اور ہیڈماسٹر صاحب صدرِ بزم ہوتے۔ یہ سلسلہ ہائی سکول سے میری فراغت تک جاری رہا۔ ۱۹۶۷ء میں جب میں دسویں جماعت میں تھا، لفظ اور مصرعے سیدھے کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ مگر غم روزگار غالب آ گیا اور میری تخلیقی صلاحیتیں کم عمری کی ملازمت میں پسنے لگیں۔



جناب​
محمد وارث​
، جناب​
الف عین​
، جناب​
مزمل شیخ بسمل​
، جناب​
شاہد شاہنواز​
، جناب​
محب علوی​
، عزیزہ​
مدیحہ گیلانی​
!​
۔۔۔ ۔۔ کہانی کی ابتدا ہو گئی۔ مجھے اہلِ محفل کے بے لاگ تبصروں اور تاثرات کا انتظار رہے گا۔​
 
جناب عزیزامین کے شروع کردہ تاگے ’’گھوڑے‘‘ سے تحریک پا کر ایک فکاہیہ لکھا تھا۔
اپنے ریکارڈ اور اہلِ نظر کے مطالعہ کے لئے یہاں نقل کر رہا ہوں۔

’’اصلی تے کھرے‘‘ گھوڑے جو قدرت نے بنائے اُن کے علاوہ کی بابت بہت کچھ سنا بھی دیکھا بھی اور پڑھا بھی۔ ایک تو وہ کاٹھ کا گھوڑا تھا، جو ہیلن آف ٹرائے سے منسوب ہے۔ اس منسوب ہونے کی نوعیت اس ’’نسبت‘‘ سے قطعی مختلف ہے جو ہما شما کے ہاں ’’طے‘‘ ہوا کرتی ہے۔ ویسے یہ نسبت ہے بہت کمال کی چیز! اچھا بھلا آدمی ’’کاٹھ کا ۔۔۔ ‘‘ ہو جاتا ہے۔ کاٹھ کا گھوڑا تو ہم نے وہی ایک سنا۔ اب لے دے کے وہ ایک شب زندہ دار پرندہ رہ جاتا ہے جو اہلِ مغرب کے ہاں عقل، فہم، فراست اور نہ جانے کیا کچھ کی علامت ہے اور یہاں اپنے مشرق میں بے چارہ، نرا الو!۔ وہ کاٹھ کا ہو، تب کیا اور نہ ہو تب کیا!۔​

گھوڑوں کے ذکر پر ہمیں آنجہانی جوناتھن سوِفٹ یاد آ جاتا ہے۔ کیا عالی دماغ شخص تھا! مگر بے چارہ خیالی دنیاؤں میں ایسا کھویا کہ بس، کھو ہی گیا۔ اہلِ نقد و نظر کے ہاں جوناتھن سوِفٹ کی وہ دنیائیں خیالی نہیں علامتی تھیں اور اس نے اپنے عہد کے اسی نوع کے گھوڑوں کو سامنے رکھ کر لکھی تھیں، جو تاحال اسی تب و تاب سے کرتب دکھا رہے ہیں۔ اِن گھوڑوں کی خرید و فروخت ہمارے یہاں کوئی چالیس برس پہلے شروع ہوئی اور پھر ایسی گھڑدوڑ جمی کہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ اِن گھوڑوں کی خاص صلاحیت یہ ہے کہ جب چاہیں کسی کے دولتی جھاڑ کر کرسی سے گرا دیں اور کسی کو دولتی مار کر کرسی پر بٹھا دیں، اور ’’کُبڑے کو لات راس آ جائے‘‘۔ جوناتھن کے گھوڑے ہمارے اِن گھوڑوں کے اب و جد رہے ہوں گے۔​

گھوڑوں کے اب و جد تو کیا اس کی ابجد کے بارے میں بھی ہمارا مطالعہ اور مشاہدہ نہ ہونے سے بھی کسی قدر کم ہے، مگر سنا ہے کہ اِن کا بھانجا بھی ہوتا ہے جو اپنی تمام تر معصومیت کے باوجود ’’خچر‘‘ کہلاتا ہے۔ ہم حلفاً عرض کرتے ہیں کہ جینیات سے ہمارا کبھی دور کا واسطہ بھی نہیں رہا، خچر اور گھوڑے کی اس رشتہ داری کا پتہ ہمیں تو حضرتِ اقبال سے ملا ہے۔ جنگل کے بادشاہ نے خچر سے پوچھا کہ ’’کون ہیں تیرے اب و جد، کس قبیلے سے ہے تو‘‘۔ ہمارے زمانے کا گھوڑا ہوتا تو ڈھکے چھپے لفظوں میں ہی سہی یہ دھمکی ضرور دیتا کہ بادشاہ سلامت! آپ کی بادشاہت کی سلامتی میرے قبیلے کے دم سے ہے! ایسے سوالوں سے گریز! ورنہ ہمیں دولتی جھاڑنے کی بھی نہیں، صرف دُم ہلانے کی زحمت کرنی ہو گی اور پھر یہ بادشاہی کسی گیدڑ کے حرم میں بھی جا سکتی ہے۔ وہ انیسویں صدی کا معصوم خچر بہ صد عجز ونیاز یوں عرض گزار ہوا۔​
میرے ماموں کو نہیں پہچانتے شاید حضور
وہ سبا رفتار، شاہی اصطبل کی آبرو

عین ممکن ہے تب وہ جوناتھن کی سی سفید چمڑیوں سے خائف رہا ہو۔ ہم تو اب تک خائف ہیں۔​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
 
’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ ۔۔۔۔ اردو غزلیات ۔۔۔۔۔۔ اس ضمن میں ایک ضروری وضاحت۔

یہی غزلیں اس سے قبل ’’حرفِ الف‘‘ کے نام سے انٹرنیٹ پر پیش کی تھیں، وہ بات پرانی ہو گئی۔ ’’خواب سے سانجھ تک‘‘ حرفِ الف کے لئے لکھا تھا، اس بات بھی کوئی دو سال ہونے کو ہیں۔ تاہم یہ مضمون من و عن شاملِ کتاب ہے، کبھی کتابی صورت میں شائع ہونے کی نوبت آئی تو اس میں کانٹ چھانٹ کرتے کون سی دیر لگے گی۔
 
العطش۔ العطش
اس قدر خوبصورت تحریر اور اتنی مختصر!
بہت شکریہ جناب آسی صاحب۔ ابتداء اتنی پیاری ہے تو مکمل کہانی کتنی دلکش اور خوبصورت ہوگی۔ باقی کہانی بھی تو شیئر کیجیے۔
 
اپنے تمام ادب دوست احباب سے درخواست ہے کہ میری جملہ شعری اور نثری کاوشیں آپ کے لئے ہیں۔ آپ ان کا بالاستعیاب مطالعہ کیجئے اور بے لاگ تبصرہ کیجئے۔ کوئی بات اچھی لگ جائے تو اس کو سراہئے بھی اور کہیں مجھ سے کوتاہی ہو گئی ہے اور آپ کے ذوق کی تسکین نہیں ہو پا رہی تو اس کی نشان دہی بھی کیجئے اور میری راہنمائی بھی۔

محترمین: محمد وارث، محب علوی، مزمل شیخ بسمل، مدیحہ گیلانی، شاہد شاہنواز، محمد اظہر نذیر، الف عین، الف نظامی ۔۔۔
بشمول جملہ دوستانِ محفل۔
 
آپکی کئی تحریروں سے ہم پہلے ہی مستفید ہو چکے ہیں بہت کمال نثر ہوتی ہے آپکی اور کئی تحاریر اپنے اندر معنی و مطالب کا گویا دریا لیئے ایک خاص سمت رواں ہوتی ہیں ۔ اسےایسے ہی جاری رہنا چاہیئے ۔ بہت زبردست سلسلہ ہے انکل ۔ اللہ خوش رکھے آپکو۔
 
بہت نوازش آسی صاحب،
آپ کی نثر سے کچھ عرصہ سے لطف اندوز ہو رہا ہوں اور امید ہے کہ یہ کاوش پڑھ کر بھی بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو میسر آئے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جی قبلہ آسی صاحب، آپ کے تو ہم ایک عرصے سے قتیل ہیں، آپ نے بہت خوب کام کیا ہے کئی حوالوں سے۔ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائیں۔

والسلام مع الاکرام
 

الف عین

لائبریرین
الف تو برقی کتابوں میں شامل ہی ہے، کیا اسی کا نام بدل کر لفظ کھو جائیں گے‘ کر دیا جائے@محمد یعقوب آسی بھائی؟
سورج کو چراغ ابھی دیکھتا ہوں لیکن اس کے لئے تو رجسٹر ہونا پڑے گا۔ 4 shared ایسے ہی شئر کرنے پر آمادہ نہیں!!
 
بہت آداب، جناب الف عین صاحب۔
حرفِ الف جو آپ کے پاس ہے، اُس کو وہاں سے ہٹا دیجئے۔ اُس کی جگہ یہ رکھ دیجئے۔ میں نے فیس بک میں آپ کے ان باکس میں ان پیج فائل لگا دی ہے۔
پروگرام یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
اردو نظم ’’مجھے اک نظم کہنی تھی‘‘ کے عنوان سے جمع کی ہے۔ اردو غزل یہ ہو گئی ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘۔اردو کی کلیات کی نوبت آتی ہے تو اسے ’’حرفِ الف‘‘ کا نام دینے کا سوچا ہے۔ پنجابی شاعری ’’گوہلاں‘‘ کے نام سے اور پنجابی نثری کاوشیں ’’اُچیاں لمیاں ٹاہلیاں‘‘ کے زیرِ عنوان جمع کر رہا ہوں۔ رہ گئے مضامین (اردو اور پنجابی)، ان کا ابھی کچھ حتمی پروگرام نہیں بن رہا، ان میں مختلف کتابوں کی تقریظات بھی شامل ہیں اور کچھ ادبی شخصیات کے حوالے سے مضامین بھی۔ ’’گھوڑے‘‘، ’’بلے باز‘‘ اور دیگر ہلکی پھلکی تحریریں الگ سے جمع کرنے کا ارادہ ہے بہ عنوان ’’مری آنکھیں مجھے دے دو‘‘۔
ایک سلسلہ اور تھا وہ مکمل ہو چکا ’’اسباقِ فارسی‘‘ اور ’’زبانِ یارِ من‘‘ کو یک جا کر دیا ہے۔ وہ بھی ان شاء اللہ جلدی یہاں پیش کر دوں گا۔ اور آپ سمیت کچھ منتخب دوستوں کو اس کی سافٹ کاپیاں مہیا کر دوں گا۔ سلسلہ ’’پنجابی دی املاء دے رَولے‘‘ محفل میں جاری ہے، اور کچھ مضامین جو براہِ راست یا بالواسطہ طور پر لسانیات سے تعلق رکھتے ہیں ان کو الگ جمع کرنے کا ارادہ ہے۔ خود نوشت کا ایک سلسلہ اردو میں شروع کیا تھا ’’داستاں میری‘‘ اور ایک پنجابی میں ’’اِک سی مُنڈا‘‘، وہ ابھی تو رُکے پڑے ہیں۔
’’آسان عروض کے دس سبق‘‘ یہاں پیش کر چکا ہوں۔ ’’فاعلات‘‘ میں خاصی ترمیم کر دی ہے، وہ بھی پیش کرنی ہے۔ ایک اور کتابچہ شروع کیا تھا ’’عروض اور کمپیوٹر‘‘ اس میں فی الحال تو غیر یقینی صورت ہے (محسن شفیق حجازی صاحب شاید بہت مصروف ہیں)۔

اب دیکھئے اتنی ساری سمتوں میں اُڑان کی ہمت بھی ہوتی ہے کہ نہیں۔ وقت کا پتہ نہیں کتنا رہ گیا!!!۔
تمام احباب کی پرخلوص دعاؤں کی ہمہ وقت ضرورت ہے، اللہ قبول کرنے والا ہے۔

جناب محمد وارث، جناب @فاتح، اِن دونوں صاحبان کی خصوصی توجہ کا طالب ہوں۔
 
Top