محفل کی ایک ڈراؤنی شخصیت

ایک بات تو بتائیے کیا کبھی کلکتے جانے کا اتفاق ہوا؟
کلکتے کی ٹرام اور ہاوڑے کا پل دیکھنے کا اشتیاق تو بہت ہے لیکن ابھی تک اتفاق نہیں ہوا ادھر جانے کا۔ اور ہم نے کب امالے کے استعمال سے انکار کیا ہے لیکن "بہت عام نہیں" کہا ہے۔ سبب یہ ہے کہ بہت کم اسم معرفہ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ امالے کی ے لگ سکے اور کسی اور لفظ سے متصادم بھی نہ ہو۔ :) :) :)

ابھی پچھلے ہفتے ہی کی تو بات ہے جب بھولا اور بھولے پر بات چھڑی تھی کہ اسم معرفہ کے ساتھ امالے استعمال بہت عام نہیں ہے۔ :) :) :)
 

فاتح

لائبریرین
کلکتے کی ٹرام اور ہاوڑے کا پل دیکھنے کا اشتیاق تو بہت ہے لیکن ابھی تک اتفاق نہیں ہوا ادھر جانے کا۔ اور ہم نے کب امالے کے استعمال سے انکار کیا ہے لیکن "بہت عام نہیں" کہا ہے۔ سبب یہ ہے کہ بہت کم اسم معرفہ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ امالے کی ے لگ سکے اور کسی اور لفظ سے متصادم بھی نہ ہو۔ :) :) :)
یہ عام خاص تو میں اور آپ جسے چاہے کہتے پھریں۔۔۔ لیکن آپ ہی کے بیان کردہ قاعدے کے مطابق اُبامے کی ے کس کے ساتھ متصادم ہو رہی ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
خصوصاً اُبامے مامے کی توہین کا تو تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ہم تو انھیں ہمیشہ ابامہ ماما کہہ کر نہایت عزت و احترام سے بلاتے ہیں کہ بزرگوں نے ہمیں بچپن سے ہی ہمیشہ بڑوں کو چاچا ماما کہہ کر بلانے کی ہی تلقین کی ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
محفل کی ایک ڈراؤنی شخصیت

ارے ارے کیا ہوا۔۔ آپ سمجھتے ہیں کہ محفل میں ایسی شخصیت کا کیا کام۔۔ محفل تو چلتی ہی ان کے سہارے ہے۔۔ زبان کے تھوڑے سے کڑوے ارے میرا مطلب وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں، بس میرا ماننا یہ ہے کہ موصوف کسی پوسٹ کا ریپلائی کرنے سے پہلے منہ میں ایک عدد کریلا رکھ لیتے ہیں، اور اس پوسٹ کا جواب دینے میں کریلے جب ان کے دانتوں تلے کچلے جاتے ہیں تو ان کی کڑواہٹ اوہو میرا مطلب ان کی مٹھاس ان کی پوسٹ سے ظاہر ہوئے جاتی ہے۔

تھوڑے اسے اکڑو اور خشک مزاج والے ہیں۔ ذرا ہنس کے بات کر لیں تو ایک دوسرے سے پوچھنا پڑتا ہے کہ یار! آج سورج کس طرف سے نکلا ہے۔

باتیں کم کرتے ہیں۔ زیاہ تر ان کے جوابات ایک دو لائنز پر ہی مشتمل ہوتے ہیں۔۔ لیکن دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اگر موضوع کوئی پھڈے آئی مین ان کی پسند کا ہو تو وہاں بلاتکان بھی بول لیتے ہیں۔

ویسے دیکھنے میں پکے انگریز لگتے ہیں۔ سر پر جیمز بانڈ کی ٹوپی پہنے شاید خود کو جیمز بانڈ ہی تصور کرتے ہیں، سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ محفل کے شروع کے دنوں میں وہ اپنی ڈراؤنی تصویریں لگا کر محفل کے بچوں کو ڈرایا کرتے تھے۔ جب ان سے فرمائش کی گی کہ ہمیں بھی تصویریں دیکھنی ہیں تو فرمائش کرنے والوں کو فیس بک کا راستہ دکھا دیا گیا۔ غالب گمان ہے کہ بچوں کو ڈرانے کے جرم میں یہ کوئی سزا پا چکے ہیں اس لیے محفل میں دوبارہ تصویریں لگانے سے اجتناب برتا جا رہا ہے۔

ویسے اپنے آپ کو فٹ بھی رکھنے میں انہی کا کمال ہے کبھی تو جہازوں سے چھلانگیں لگا کر اسکائی ڈائیونگ کرتے نظر آئیں گے اور کبھی ہائیکنگ کا پروگرام اور کبھی کیمپنگ لیکن اس سب کے پیچھے جو راز ہے وہ یہی ہے کہ موصوف کو کسی نے کہہ دیا کہ اب آپ بوڑھے ہوتے جا رہے ہو، اس لیے خود کو جوان ثابت کرنے کے لیے آج کل موصوف بچوں والی حرکتیں کرتے پائے جا رہے ہیں۔۔ ان کو کسی نے کہہ دیا کہ واک کرنا بھی ایکسرسائز ہوتی ہے اور اس سے بھی بندہ جلدی بوڑھا نہیں ہوتا تب سے ایکسرسائز کے طور پر محفل میں اکثر واک کرتے بھی پائے جاتے ہیں۔

یوں تو ان کا قصور نہیں لیکن عادت سے مجبور ہو کر اکثر سیاسی اور اسلامک سیکشن میں کچھ ایسا پوسٹ کر کے آتے ہیں جو باقیوں کو خاصے دن مصروف رکھتا ہے۔ کبھی کبھی ان کو ایسا کرتے دیکھ کر میرے اندر بھی یہ خواہش ابھرتی ہے کہ ارے واہ اگر یہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ویسے بھی آج کل محفل میں یہ خبر گرم ہے کہ مرد اور عورت ہر لحاظ سے برابر ہیں۔۔

ویسے اس محترم اور معزز ہستی کو آپ پہچان تو گئے ہوں گے اب میں نام لے کر کیوں خود کو مصیبت میں ڈالوں۔ اس لیے، اس سے پہلے کہ میری کلاس لی جائے ، مجھے یہاں سے بھاگ جانا چاہیے کہ موصوف ہاتھ میں لاٹھی لیے میری خبر لینے نہ پہنچ جائیں
بہت اعلیٰ مقدس بہنا!
کیا کہنے۔ آپ میں تو ایک ادیبہ بننے کے تمام گُر موجود ہیں۔ مدیرہ بننے کے بعد تو یہ ہنر مزید نکھر تا نظر آرہا ہے۔ :D آپ کی یہ تحریر خاکہ نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ قبل ازیں محفلیں کی تصویری خاکہ نگاری کے ذریعہ بھی آپ اپنی مردم و خانم شناسی :D کا لوہا منوا چکی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ یہ سلسلہ جاری رکھیں گی اور دیگر محفلین پر بھی اسی طرح بھرپور قلم اٹھائیں گی۔ اگر لکھنے لکھانے کا اسی طرح کا سلسلہ جاری رہا تو آپ کو ایک معروف ادیبہ بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا، ’وہ‘ بھی نہیں :D
 

محمد وارث

لائبریرین
یا اگر آپ کو برا نہ لگے تو اس تھریڈ کی مناسبت سے یہی پوسٹ کر دیتا ہوں۔

ماما (انگریزی والا)۔۔۔۔۔


پہلے واضح کر دوں کہ یہ 'ماما' پنجابی والا نہیں ہے بلکہ انگریزی والا لفظ ہے اور اس وضاحت کی یوں ضرورت محسوس ہوئی کہ پنجابی والا 'ماما' جو کہ اب ایک گالی بن چکا ہے (نہ جانے کیوں) اور چونکہ ڈر ہے کہ گالیوں کے عنوان والے بلاگز کی رسم ہی نہ چل نکلے، آغاز تو الا ماشاءاللہ ہو ہی چکا، تو واضح کر دوں، اور یہ بھی کہ میں گالی پر نہیں گل پر لکھنا چاہ رہا ہوں۔ گُل جو چمن میں کھلتا ہے تو بہار آ جاتی ہے، ہر طرف نغمۂ ہزار گونجتا ہے، اور پژمُردہ دلوں میں جان پڑ جاتی ہے۔

اور اب شاید یہ واضح کرنا بھی ضروری ہو کہ یہ وہ گُل نہیں ہیں جن کے بارے میں علامہ فرماتے ہیں کہ تصویرِ کائنات میں رنگ انہی 'گلوں' کے وجود سے ہے بلکہ یہ تو وہ گل ہیں جو ان سنگلاخ چٹانوں کے سینوں پر کھلتے ہیں جن کی آبیاری تیشۂ فرہاد سے ہوتی ہے، وہ نرم و نازک گل جو سخت بلکہ کرخت سینوں میں دھڑکتے ہیں۔ خونِ جگر سے سینچ کر غنچہ امید وا کرنا حاشا و کلا آسان کام نہیں ہے۔

نہ جانے کیوں زکریا اجمل المعروف بہ 'زیک' کی طرف میرا دھیان جب بھی جاتا ہے تو ذہن میں ایک ماں کا تصور ہی ابھرتا ہے، اس بات کی کوئی وجہ میرے ذہن میں نہیں آتی بجز اسکے کہ اردو، اردو ویب، اور اردو محفل کیلیے اللہ نے انہیں ایک ماں کا دل ہی عطا کیا ہے، اپنے بچے کی ذرا سی پریشانی پر بے اختیار ہو ہو جانا اور اس کی نگہداشت و پرداخت ہمیشہ نگاہ میں رکھنا اور اسکی ترقی و کامیابی کو ہمیشہ دل میں رکھنا اور اس کے مستقبل کی طرف سے ہمیشہ پریشان رہنا، میں نے تو زیک کو جب بھی دیکھا انہی حالتوں میں دیکھا۔ اب اگر انہیں اردو ویب کی 'ماما' نہ لکھوں تو کیا لکھوں اور کیا کہوں۔

دل اگر ماں کا ہے تو دماغ اللہ نے انہیں ایسا حکیمانہ عطا کیا ہے کہ انکی خاموشی بہت ساروں کے لیے سند ہے، مطلب ہے آپ کسی ایسے خشک موضوع پر لکھیئے جس میں حقائق ہیں یا اعداد و شمار ہیں (نہ کہ ایسے گل و بلبل کی باتوں مگر صرف باتوں والے موضوعات جن پر ہم بزعمِ خود طبع آزمائی کرتے ہیں) اور اگر کوئی غلطی ہے تو زیک ضرور اس کو درست کریں گے، گویا زیک انہی اساتذہ کی لڑی میں سے ہیں جن کی خاموشی سند سمجھی جاتی تھی۔ علامہ اقبال کسی مشاعرے کی صدارت فرما رہے تھے اور مبتدی پڑھ رہے تھے، علامہ اپنے مشہورِ زمانہ اسٹائل میں ہتھیلی پر سر ٹکائے بیزار سے بیٹھے تھے اور انکی خاموشی ہی اس بات کی سند تھی کہ اشعار ٹھیک ہی ہیں کہ دفعتہً ایک شعر پر علامہ بے اختیار 'ہُوں' پکار اٹھے، اور وہ شاعر یہ بات اپنی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ سمجھتا رہا کہ علامہ انکے اشعار پر نہ صرف خاموش رہے تھے بلکہ ایک شعر پر 'ہُوں' بھی کہا تھا، اور میں نے نہیں دیکھا زیک کو کبھی 'ہُوں' بھی کہتے ہوئے۔

زیک اور اپنے آپ میں کوئی مماثلت ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا بجز ایک دُور کی کوڑی کے، کہ بقولِ زیک انہیں اردو بلاگ لکھنے کا خیال ایک فارسی بلاگ کو دیکھ کر آیا تھا اور میں شاید اردو بلاگ لکھتا ہی اس لیے ہوں کہ اپنی پسند کے فارسی اشعار کسی طرح محفوظ کر سکوں۔ زیک کو اللہ تعالیٰ نے بہت بردبار اور ٹھنڈے دل و دماغ کا مالک بھی بنایا ہے اور فی زمانہ یہ ایک اتنی بڑی خوبی ہے کہ انسان ہونے کی نشانی ہے اور شاید یہی اوصاف رکھنے والے کسی انسان کے بارے میں مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا تھا، (دیکھیے فارسی کا ذکر زبان پر آیا نہیں اور میں ہر پھر کر فارسی اشعار پر اتر آیا)۔

دی شیخ با چراغ ھمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دَد ملولَم و انسانَم آرزوست

کل رات ایک بزرگ ہاتھ میں چراغ لیے سارے شہر میں گھوما کیا اور کہتا رہا کہ میں شیطانوں اور درندوں سے تنگ آ گیا ہوں اور کسی انسان کو دیکھنے کا آرزومند ہوں۔

بات انسان تک پہنچی ہے تو خدا تک بھی ضرور پہنچے گی کہ زیک کی زندگی کے اس رخ کے بارے میں کوئی بات کرنا میں معیوب سمجھتا ہوں مگر یہ کہ زیک میں اگر کہیں میری رُوح ہوتی تو رات کی کیا تخصیص، وہ ہر وقت شہر کی گلیوں میں غالب کا یہ نعرۂ مستانہ لگا کر مجنونانہ گھومتے۔


ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں


اور چلتے چلتے یہ بھی عرض کردوں کہ بات ایک وضاحت سے شروع ہوئی تھی اور ایک وضاحت پر ہی ختم ہو رہی ہے کہ یہ خاکہ، یا اگر بلاگ کے حوالے سے مجھے ایک بدعت کی اجازت دیں تو کہوں کہ یہ 'بلاخاکہ' میں نے زیک کی اجازت لیے بغیر لکھ مارا اور وہ یہ سوچ کر کہ اگر اجازت لیکر ہی خاکے لکھے جاتے تو "گنجے فرشتے" کبھی تخلیق نہ ہو پاتی۔
 

یوسف-2

محفلین
یا اگر آپ کو برا نہ لگے تو اس تھریڈ کی مناسبت سے یہی پوسٹ کر دیتا ہوں۔

ماما (انگریزی والا)۔۔۔ ۔۔


پہلے واضح کر دوں کہ یہ 'ماما' پنجابی والا نہیں ہے بلکہ انگریزی والا لفظ ہے اور اس وضاحت کی یوں ضرورت محسوس ہوئی کہ پنجابی والا 'ماما' جو کہ اب ایک گالی بن چکا ہے (نہ جانے کیوں) اور چونکہ ڈر ہے کہ گالیوں کے عنوان والے بلاگز کی رسم ہی نہ چل نکلے، آغاز تو الا ماشاءاللہ ہو ہی چکا، تو واضح کر دوں، اور یہ بھی کہ میں گالی پر نہیں گل پر لکھنا چاہ رہا ہوں۔ گُل جو چمن میں کھلتا ہے تو بہار آ جاتی ہے، ہر طرف نغمۂ ہزار گونجتا ہے، اور پژمُردہ دلوں میں جان پڑ جاتی ہے۔

اور اب شاید یہ واضح کرنا بھی ضروری ہو کہ یہ وہ گُل نہیں ہیں جن کے بارے میں علامہ فرماتے ہیں کہ تصویرِ کائنات میں رنگ انہی 'گلوں' کے وجود سے ہے بلکہ یہ تو وہ گل ہیں جو ان سنگلاخ چٹانوں کے سینوں پر کھلتے ہیں جن کی آبیاری تیشۂ فرہاد سے ہوتی ہے، وہ نرم و نازک گل جو سخت بلکہ کرخت سینوں میں دھڑکتے ہیں۔ خونِ جگر سے سینچ کر غنچہ امید وا کرنا حاشا و کلا آسان کام نہیں ہے۔

نہ جانے کیوں زکریا اجمل المعروف بہ 'زیک' کی طرف میرا دھیان جب بھی جاتا ہے تو ذہن میں ایک ماں کا تصور ہی ابھرتا ہے، اس بات کی کوئی وجہ میرے ذہن میں نہیں آتی بجز اسکے کہ اردو، اردو ویب، اور اردو محفل کیلیے اللہ نے انہیں ایک ماں کا دل ہی عطا کیا ہے، اپنے بچے کی ذرا سی پریشانی پر بے اختیار ہو ہو جانا اور اس کی نگہداشت و پرداخت ہمیشہ نگاہ میں رکھنا اور اسکی ترقی و کامیابی کو ہمیشہ دل میں رکھنا اور اس کے مستقبل کی طرف سے ہمیشہ پریشان رہنا، میں نے تو زیک کو جب بھی دیکھا انہی حالتوں میں دیکھا۔ اب اگر انہیں اردو ویب کی 'ماما' نہ لکھوں تو کیا لکھوں اور کیا کہوں۔

دل اگر ماں کا ہے تو دماغ اللہ نے انہیں ایسا حکیمانہ عطا کیا ہے کہ انکی خاموشی بہت ساروں کے لیے سند ہے، مطلب ہے آپ کسی ایسے خشک موضوع پر لکھیئے جس میں حقائق ہیں یا اعداد و شمار ہیں (نہ کہ ایسے گل و بلبل کی باتوں مگر صرف باتوں والے موضوعات جن پر ہم بزعمِ خود طبع آزمائی کرتے ہیں) اور اگر کوئی غلطی ہے تو زیک ضرور اس کو درست کریں گے، گویا زیک انہی اساتذہ کی لڑی میں سے ہیں جن کی خاموشی سند سمجھی جاتی تھی۔ علامہ اقبال کسی مشاعرے کی صدارت فرما رہے تھے اور مبتدی پڑھ رہے تھے، علامہ اپنے مشہورِ زمانہ اسٹائل میں ہتھیلی پر سر ٹکائے بیزار سے بیٹھے تھے اور انکی خاموشی ہی اس بات کی سند تھی کہ اشعار ٹھیک ہی ہیں کہ دفعتہً ایک شعر پر علامہ بے اختیار 'ہُوں' پکار اٹھے، اور وہ شاعر یہ بات اپنی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ سمجھتا رہا کہ علامہ انکے اشعار پر نہ صرف خاموش رہے تھے بلکہ ایک شعر پر 'ہُوں' بھی کہا تھا، اور میں نے نہیں دیکھا زیک کو کبھی 'ہُوں' بھی کہتے ہوئے۔

زیک اور اپنے آپ میں کوئی مماثلت ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا بجز ایک دُور کی کوڑی کے، کہ بقولِ زیک انہیں اردو بلاگ لکھنے کا خیال ایک فارسی بلاگ کو دیکھ کر آیا تھا اور میں شاید اردو بلاگ لکھتا ہی اس لیے ہوں کہ اپنی پسند کے فارسی اشعار کسی طرح محفوظ کر سکوں۔ زیک کو اللہ تعالیٰ نے بہت بردبار اور ٹھنڈے دل و دماغ کا مالک بھی بنایا ہے اور فی زمانہ یہ ایک اتنی بڑی خوبی ہے کہ انسان ہونے کی نشانی ہے اور شاید یہی اوصاف رکھنے والے کسی انسان کے بارے میں مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا تھا، (دیکھیے فارسی کا ذکر زبان پر آیا نہیں اور میں ہر پھر کر فارسی اشعار پر اتر آیا)۔

دی شیخ با چراغ ھمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دَد ملولَم و انسانَم آرزوست

کل رات ایک بزرگ ہاتھ میں چراغ لیے سارے شہر میں گھوما کیا اور کہتا رہا کہ میں شیطانوں اور درندوں سے تنگ آ گیا ہوں اور کسی انسان کو دیکھنے کا آرزومند ہوں۔

بات انسان تک پہنچی ہے تو خدا تک بھی ضرور پہنچے گی کہ زیک کی زندگی کے اس رخ کے بارے میں کوئی بات کرنا میں معیوب سمجھتا ہوں مگر یہ کہ زیک میں اگر کہیں میری رُوح ہوتی تو رات کی کیا تخصیص، وہ ہر وقت شہر کی گلیوں میں غالب کا یہ نعرۂ مستانہ لگا کر مجنونانہ گھومتے۔


ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں


اور چلتے چلتے یہ بھی عرض کردوں کہ بات ایک وضاحت سے شروع ہوئی تھی اور ایک وضاحت پر ہی ختم ہو رہی ہے کہ یہ خاکہ، یا اگر بلاگ کے حوالے سے مجھے ایک بدعت کی اجازت دیں تو کہوں کہ یہ 'بلاخاکہ' میں نے زیک کی اجازت لیے بغیر لکھ مارا اور وہ یہ سوچ کر کہ اگر اجازت لیکر ہی خاکے لکھے جاتے تو "گنجے فرشتے" کبھی تخلیق نہ ہو پاتی۔
وارث بھائی! بہت اعلیٰ
تو گویا یہاں بہت پہلے سے محفلین کی خاکہ نگاری جاری ہے۔ یہ میری بد قسمتی ہے کہ وقت کی کمی کے باعث محفل کی بہت سی ایسی شاندار تحریروں کے مطالعہ سے محروم ہوں۔ چلیں اسی طرح مراسلے ریفریش ہوتے رہے تو ہم بھی محظوظ ہوتے رہیں گے۔
 
Top