نوید احمَد
محفلین
یہ آپ کی قابلِ قدر رائے ہو سکتی ہے لیکن حقیقت اس سے متصادم بھی ہو سکتی ہے۔اکثریت کے لئے درست لیکن ہر انسان کے لئے نہیں
یہ آپ کی قابلِ قدر رائے ہو سکتی ہے لیکن حقیقت اس سے متصادم بھی ہو سکتی ہے۔اکثریت کے لئے درست لیکن ہر انسان کے لئے نہیں
اپنی رائے نہیں دی تھی بلکہ ایوولیوشنری سائیکالوجی کی فیلڈ سے کہ خدا اور سپرنیچرل کا جو کانسیپٹ ہمارے اندر ہے ہر انسان کا مائنڈ اس طرح وائرڈ نہیں ہےیہ آپ کی قابلِ قدر رائے ہو سکتی ہے لیکن حقیقت اس سے متصادم بھی ہو سکتی ہے۔
شعوری بقا میں خدا کا سپر نیچرل ہونا لازم نہیں ہے، یہ انسانی نفسیات میں ہےکہ وہ کسے خدا کا درجہ دیتی ہے۔اپنی رائے نہیں دی تھی بلکہ ایوولیوشنری سائیکالوجی کی فیلڈ سے کہ خدا اور سپرنیچرل کا جو کانسیپٹ ہمارے اندر ہے ہر انسان کا مائنڈ اس طرح وائرڈ نہیں ہے
آپ کابلاگ پڑھا ۔ جو باتیں آپ نے کیں ان سے کسی بھی ذی شعور کو اختلاف نہٰیں ہو سکتا۔ ہر زندہ قوم ہر قسم کی غلامی سے نفرت کرتی ہے اور اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔آپ دونوں حضرات کے مراسلہ جات کے جوابات ذرا تسلی سے لکھوں گی۔ تاہم اگر ہماریaudienc e بور ہو رہی ہو تو Maslow اور Self-actualization کے بارے میں چند چھینٹیں ہم نے اپنے اس بلاگ میں بھی ڈالی تھیں۔ امید ہے کچھ ہماری( انٹرویو والی) سمجھ آئے گی۔![]()
مجھے اس طرح کی لڑی بہت پسند ہے۔ جانے دیں جس طرف ہے 😂 اگر کہتے ہیں تو لڑی کا عنوان بدلوا لیتے ہیں؟لڑی کسی اور جانب چل نکلی ہے، منتظمین سے اس ضمن میں درخواست ہے کہ یہ چند ایک آخری مراسلے ”جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی “والی لڑی میں اگر منتقل کر دیں تو نوازش ہو گی۔
نبیل
ایسے ہے تو پھر ایسے ہی سہی!مجھے اس طرح کی لڑی بہت پسند ہے۔ جانے دیں جس طرف ہے 😂 اگر کہتے ہیں تو لڑی کا عنوان بدلوا لیتے ہیں؟
ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ ارتقا کے لوازمات پہلے سے موجود ہوں یعنی کس چیز میں ارتقا کا عمل ہونا ہے۔انسانی ذہن میں ازل سے بقا کی خواہش موجود ہے۔ اسے کیسے ممکن بنانا ہے اس میں ارتقا ہو سکتا ہے۔تو آپ مذاہب کے آنے کی ترتیب کو بھی ارتقا کا عمل کہ سکتے ہیں اور سائنسی ترقی کو بھی۔ضروری نہیں ہے۔ یہ تمام تر ضروریات ارتقائی عوامل سے بھی وجود میں آ سکتی ہیں جن پہ بحث کا بندہ ناچیز فی الوقت متحمل نہیں ہو سکتا۔
خوب است۔شعوری بقا میں خدا کا سپر نیچرل ہونا لازم نہیں ہے، یہ انسانی نفسیات میں ہےکہ وہ کسے خدا کا درجہ دیتی ہے۔
ہم نے بھی یہی بات کہی تھی تقریباً نکال کے۔خوب است۔
اسی سے ہمیں اپنی کہی بات یاد آتی ہے کہ۔۔۔۔ محبوب بھی تقریباً خدا ہی ہوتا ہے ۔
گرے ایریا میں آپریٹ کرنے کے اپنے فضائل ہیں۔ہم نے بھی یہی بات کہی تھی تقریباً نکال کے۔
متفق علیہ!گرے ایریا میں آپریٹ کرنے کے اپنے فضائل ہیں۔
چند ایک آخری مراسلے ”جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی “والی لڑی میں اگر منتقل کر دیں
اگر کہتے ہیں تو لڑی کا عنوان بدلوا لیتے ہیں؟
اسی سے ہمیں اپنی کہی بات یاد آتی ہے کہ۔۔۔۔ محبوب بھی تقریباً خدا ہی ہوتا ہے ۔
ہم نے بھی یہی بات کہی تھی تقریباً نکال کے۔
آپ لوگوں کے تبصرہ جات پڑھ کر اسی لڑی کا نیا عنوان سوجھ رہا ہے: سوال آئے نہ آئے جواب بتا کے جیگرے ایریا میں آپریٹ کرنے کے اپنے فضائل ہیں۔
بہت خوبصورت لکھا ہے جو آپ کی فکری گہرائی کی عکاسی کرتا ہے۔اچھائی اور برائی کی کوئی ابجیکٹیو ویلیو نہیں ہے، اس کا براہ راست تعلق بقا سے ہے۔ہر وہ چیز جو انفرادی و معاشرتی سطح پہ جسمانی و شعوری بقا میں مثبت کردار ادا کرتی ہے ہم اسے اچھائی سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے متضاد برائی سے۔ ایک شخص کے فنا ہو جانے سے ہمارے اندر کی اپنی بقائی انسیکیورٹی کو ہوا ملتی ہے جس کو ہم کلی طور پر اوائیڈ کرنے کی سعی میں ہیں۔
کائنات بہت وسیع ہے اور ہم خود اس کائنات کا حصہ ہیں لیکن ذی شعور ہونے کے سبب کائنات کی بے حسی اور اپنے فنا ہو جانے کے پیشگی خبر سے نالاں ہیں۔ ایسے میں اگر ابجیکٹیولی دیکھا جائے تو مذہب ایک طفل تسلی کے سواکچھ بھی نہیں ۔ اگر انسانی نفسیات پہ غور کیا جائےتو یہ اپنے اندر موجود کم علمی یا غیر یقینیت کے مادے کو یقین سے بھرنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ یقین آپ کو ایک سٹیبل فٹنگ پرووائیڈ کرتا ہے۔ایسے میں مذہب کا کردار بہت اہم ہے جو آپ کی غیر یقینیت کو جذب کر لیتا ہے اور آپ کو دنیا میں کھیلنے کی ہمت و جواز مہیا کرتا ہے۔
یعنی جو آسمانی کتب ، صحائف، اور احکامات آئے ان کا ماخذ بھی انسان ہی ہے؟ یا کچھ اور کہہ رہے ہیں جو اس نکتے پر میں نہیں سمجھی؟میری دانست میں مذہب کا ماخذ خود انسان ہے، اس کا خارج سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان نے اپنے آپ کو قائم و دائم رکھنے کی سعی میں بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں جن میں سے ایک مذہب ہے، اور یہ وقوعہ ایک دن میں نہیں ہوا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ بہت خوش آئند بات ہے اگر آپ مذہب کی بدولت آسمان کی بلندیوں کو چھونے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور آپ کے مذہبی عقائد سے کسی دوسرے شخص کی شعوری و جسمانی بقا پہ کوئی حرف نہیں آتا
آپ کا یہ تبصرہ مجھے آئنہ دکھاتا ہوا لگا، مگر خوشی ہوئی کہ یوں ہے تو یوں ہی سہی۔ میں واقعی پریکٹیکل فلسفی ٹائپ ہوں اس معاملے میں۔ یعنی جو چیزیں ایپلیکیبل ہیں وہیں تک جا کے بھرپور زندگی جینے کی کوشش اور اپنی اور اردگرد کے لوگوں کی زندگی کا سامان کرنا وغیرہ۔ ہوش و خرد سے بیگانہ کرنے والےسو کالڈ حقیقت کے لیولز کبھی خود آ بھی جائیں تو کوشش ہوتی ہے کہ واپس چلے جائیں، دیٹ ڈزنٹ ورک فور می۔حقیقت بہت کربناک بھی ہو سکتی ہے اس سے منہ موڑ کے بھرپور زندگی جینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔اس لیے ہر انسان کی اپنی چوائس ہے کہ اس کی زندگی کا سامان حقیقت کی کھوج میں ہے یا پھر ایمان بالغیب سے آگے بڑھ کر اپنی زندگی کو وہ رنگ دینا ہے جس میں اسے اپنی زندگی کا سامان نظر آتا ہے۔
سماج تک تو بات سمجھ آتی ہے۔ مگر مذہب بھی سماج سے متصادم نہیں ہوا کرتے۔ اصلاحات ضرور لاتے ہیں جہاں چیزیں حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔ پھر مذہب بھی تو اچھائی اور برائی کی طاقتوں پر قائم ہے۔ کیا جہاں سے آپ دیکھتے ہیں یہ خدا کی جانب سے بھی غیر منطقی لگتا ہے؟لیکن ایسا انفرادی سطح پہ تو شاید ممکن ہو لیکن سماجی سطح پہ تقریباً نا ممکن ہے اور اسی وجہ سے آپ کو اچھائی و برائی کی طاقتیں نظر آ رہی ہیں حالانکہ ہر فرد و سماج اپنے بقا کی جنگ میں ہے اور تھا لیکن فرد جب سماج کا حصہ بنتا ہے تو پھر سماجی نفسیات پاگل پن کی حد تک غیر منطقی ہو جاتی ہے
میں اس سے متفق ہوں لیکن اس کی وجہ بھی شعوری بقا ہے۔
شعوری بقا کسے کہتے ہیں؟ اور جیسا کہ اگلے مراسلہ جات میں ذکر کیا، کیا واقعی انسان کو یہ درجہ دیا جا سکتا ہے جب کہ اس کی ساری کجیاں آپ کے سامنے ہوتی ہیں؟شعوری بقا میں خدا کا سپر نیچرل ہونا لازم نہیں ہے، یہ انسانی نفسیات میں ہےکہ وہ کسے خدا کا درجہ دیتی ہے۔
بہت خوبصورت اور جامع انداز میں آپ نے میسلوز ہائیریرکی آف نیڈز بیان کی ہے۔حقیقت کی کھوج
ماسلو ایک امریکی ماہرِ نفسیات تھا۔ اس نے انسانی ضروریات کی درجہ بندی کرتے ہوئےایک پیرامڈ بنائی۔ اس میں اس نے بتایا کہ انسان کی سب سے پہلی ترجیح اس کی جسمانی ضروریات ہوتی ہیں جیسا کہ
پانی، خوراک، لباس، گھر، سواری وغیرہ
شروع میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کی یہ ضروریات پوری ہوجائیں تو وہ اطمینان سے زندگی بسر کرے گا۔ زیادہ تر لوگ زندگی کے خاتمے تک اسی درجے پر رہتے ہوئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں
جو لوگ ان ضروریات کو حاصل کرلیتے ہیں تو پھر ان کی اگلے درجے کی ضروریات بیدار ہوجاتی ہیں اور وہ ہیں محفوظ زندگی گذارنا۔انہیں لگتا ہے کہ دل ابھی مطمئن نہیں کیونکہ جدوجہد کرتے ہوئے میں نے اپنی صحت پر توجہ نہیں دی تو اب مجھے اپنی صحت پر دھیان دینا چاہیے۔ گھر تو بنالیا لیکن یہ محفوظ نہیں ہے اب اسے محفوظ بنانا چاہیے۔ مجھے اپنی حفاظت کے لیے گارڈ رکھنے چاہیں وغیرہ۔ ان لوگوں میں سے زیادہ تر پوری زندگی اسی جدوجہد میں گذاردیتے ہیں۔
جو لوگ ان ضروریات کو پورا کرلیتے ہیں تو وہ پھر بھی مطمئن نہیں ہوتے اور ان کی اس سے اگلے درجے کی ضروریات بیدار ہو جاتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بھلا پیار محبت، دوست احباب اور سماجی زندگی میں مقام بنائے بغیر بھی بندہ مطمئن ہوسکتا ہے۔ اور پھر وہ اس جدوجہد میں لگ جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اسی جدوجہد میں اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔
جو خوش نصیب یہ بھی حاصل کرلیتے ہیں تو دلی اطمینان ان کو بھی نہیں ہوتا اور وہ اگلے درجے کی ضروریات سے متعارف ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہم تو بہت باصلاحیت ہیں ہم کوشش کریں تو سماج میں اعلیٰ مقام بنا سکتے ہیں۔ زندگی ہوتو ایسی کہ دنیا ہمیں یاد رکھے۔ اور ہمارا نام عزت سے لیا جائے۔ پھر وہ نام بنانے کی اس جدوجہد میں لگ جاتے ہیں اور اسی میں اپنی زندگی تمام کردیتے ہیں۔
ان میں سے چند خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جو یہ مقام بھی حاصل کرلیتے ہیں لیکن افسوس کہ دلی اطمینان اب بھی نہیں ملتا۔ پھر اپنے دل کے اطمینان کے لیے یہ لوگ روحانیت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ذات سے ہٹ کر انسانیت کے بارے میں سوچتے ہیں اور انسانی فلاح و بہبود کے کام کرنے لگتے ہیں۔ اور اب شاید انہیں اطمینان حاصل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
مجھے اس نکتے کی سمجھ نہیں آ سکی کہ میسلو کی تھیوری سیلف ایکچوئلائزیشن پہ ختم ہوتی ہے اور آپ نے کہا کہ مذہب وہاں سے شروع کرنے کا گیان دیتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ شاید آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ سب کچھ جو اس تھیوری سے چھوٹ گیا ہے وہ مذہب میں ہے؟ یعنی بے یقینی کے خلا کو بھرنے والا تیقن اور سٹیبیلیٹی وغیرہ جس سے انسان نفسیاتی طور پر بہتر محسوس کرے؟جہاں پر ماسلو کی تھیوری کے مطابق آسمانی مذاہب کے بغیر انسان اپنی کامیاب زندگی کا اختتام کرتا ہے آسمانی مذاہب اپنے پیرو کاروں کو وہاں سے ابتدا کرنے کا گیان دیتے ہیں۔
عقل اور ذہن کو کھلا رکھ کے دنیا کو تسخیر کرنے کی دعوت تو بالکل دیتا ہے مگر ایسا بھی تو ہے نا کہ ہمیں کئی مقامات پر آمنا و صدقنا کرنا ہی ہے !!!؟مذہب جو کچھ بھی ہے یہ انسانی نفسیات کی اہم ضرورت ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے عقل اور ذہن کو کھلا رکھیں اور اندھے اور بہرے بن کر نہ رہیں۔اور الہامی مذہب بھی یہی کہتا ہے۔
میں نے اگر کوئی بہت بڑا فیصلہ کرنا ہو اپنی سمت کے تعین کا تو دل کی سنوں گی۔ مثال کے طور پر (اور یہ صرف ایک مثال ہے کہ) مجھے آرٹ بہت ہی زیادہ پسند ہے لیکن دماغ کہتا ہے کہ اس کا سکوپ نہیں، سٹیبلٹی نہیں وغیرہ وغیرہ لیکن میں پھر بھی دل کی ہی سنوں گی اور اسی کو منتخب کروں گی جہاں دل یا دوسرے لفظوں میں فطری جھکاؤ اور میلان وغیرہ ہے۔ پھر اس کے بعد اس معاملے کے اندر اور باقی اس طرح کے معاملات میں ساری دماغ کی سنتی ہوں روز مرہ کے فیصلوں میں اور دل کی صرف می ٹائم میں سنتی ہوں اس سے باہر تقریبا نہیں۔مریم افتخار فیصلے کس طرح کرتی ہیں؟ اے اور بی میں سے ایک چوز کرنا ہو تو آپ کا پراسس کیا ہو گا؟ دل یا دماغ کو فوقیت دیں گی؟ لاجک؟ گٹ فیلنگ؟ ریسرچ اور معلومات کا ڈھیر اور اس کا تقابل؟ بڑے اور چھوٹے عام روزانہ کے فیصلوں کے پراسس میں زیادہ فرق ہے یا ملتے جلتے ہیں؟
سٹیفن ہاکنگ1) کوئی ایسی شخصیت یا شخصیات جن کی بابت آپ خود پہ فخر کر سکتے ہیں کہ آپ نے ان کو زندہ (بالمشافہ ضروری نہیں) دیکھا ہے یا یوں کہہ لیں کہ u feel proud to live in their era؟
میں نہیں دیکھ سکتی کچھ بھی دوبارہ چاہے کتنا ہی اچھا ہو۔ ماضی میں نہ خود جینا چاہتی ہوں نہ کسی کو تلقین کبھی کی ہے۔ چاہے تاریخی واقعات ہوں یا ذاتی، کوشش یہی ہے کہ مستقبل بہتر ہو اور جو چیزیں ماضی میں اچھی تھیں وہ ایک اچھے مستقبل میں نئی جدت کے ساتھ آئیں۔2) کچھ ایسے لمحات و واقعات (ضروری نہیں کہ ذاتی ہی ہوں) جن کے بارے میں خواہش ہو کہ کاش وقت واپس جائے اور آپ ان کو دوبارہ ہوتا دیکھیں؟