محترمہ مریم افتخار صاحبہ کے ساتھ ایک مصاحبہ!

برادرم! ہم آپ کے الفاظ کی برجستگی، لہجے کی شستگی اور اندازِ بیان کی وارفتگی نیز اصطلاحات کی خستگی سے خوب متاثر و مرعوب وغیرہ ہوئے۔
من آنم کہ من دانم ۔ مرعوب و متاثرکرنا ہرگز مقصود نہ تھا بلکہ اردو زبان کے علاوہ کے الفاظ سے اجتناب کی سعی ہی ہے دیگرے ہمیں ویسے بھی بغیر ضرورت کے اجنبی زبان کا استعمال پسند نہیں ہے ۔ جہاں انگریزی استعمال کرنی ہو اچھےسے کر لیتا ہوں لیکن سچ تو یہ ہے کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر مزاج پر گراں ضرور ہوتا ہے ۔ مریم افتخار آپ کی جان نہیں چھوٹنے والی ان کمینوں کا ذکر تو کرنا پڑے گا
 

یاز

محفلین
کچھ سوالات اس میں ہنوز جوابات طلب ہیں۔ ان پہ بھی نگاہِ کرم، تا کہ مزید کچھ سوالات بھی ارسال کئے جا سکیں۔
 
سچ بتاوں تو کوئی تین شعر پسندیدہ ہیں نہ کوئی تین شاعر۔ کسی کا کچھ اچھا لگتا ہے کسی کا کچھ اور اشعار بھی بچپن میں سکول والوں نے علامہ اقبال کے ہی یاد کروائے تھے، چونکہ وہ بچپن میں یاد کرنے کی وجہ سے زیادہ تعداد میں یاد ہیں تو شاید زیادہ قوٹ کر دیتی ہوں لیکن اصل میں علامہ اقبال بھی پسندیدہ ترین شاعر نہیں۔مختلف ایام میں مختلف طرح کے شعر ذہن میں گونجتے رہتے ہیں ۔ ( میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہر انسان نے زندگی کا اور رخ دیکھا ہوتا ہے سو سب سے سیکھنا چاہئیے اور اکثر میں الگ الگ خاص بات ہوتی ہے وغیرہ۔) پھر بھی آپ نے رہنا بضد ہی ہے تو پچھلے دو چار دن میں ذہن میں گھومنے والے دو تین کلام سنا دیتی ہوں:

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے

ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے

رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی
پہلے دل درد آشنا کیجے

عرضِ شوخی، نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے

دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے

موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے

(غالب)

------------------------

سحرگہہ عید میں دورِ سبو تھا
پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا

غلط تھا آپ سے غافل گزرنا
نہ سمجھے ہم کہ اس قالب میں تو تھا

چمن کی وضع نے ہم کو کیا داغ
کہ ہر غنچہ دل پرآرزو تھا

گل و آئینہ کیا خورشید و مہ کیا
جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا

کروگے یاد باتیں تو کہو گے
کہ کوئی رفتۂ بسیار گو تھا

جہاں پُر ہے فسانے سے ہمارے
دماغِ عشق ہم کو بھی کبھو تھا

مگر دیوانہ تھا گل بھی کِسو کا
کہ پیراہن میں سو جاگہ رفو تھا

کہیں کیا بال تیرے کھل گئے تھے
کہ جھونکا باؤ کا کچھ مشک بو تھا

نہ دیکھا میر آوارہ کو لیکن
غبار اک ناتواں سا کوبکو تھا

(میر )

----------------------------

ساڈے ول مکھڑا موڑ وے پیاریآ
آپے پائیاں کنڈیاں تے آپے کھچنا ایں ڈور

عرشی کرسی تے بانگاں ملیاں ،مکے پے گیا شور
ڈولی پا کے لے چلے کھیڑے، ناں کجھ عذرنہ زور

جے مائے تینوں کھیڑے پیارے، ڈولی پا دیویں ہور
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں ، مر جاوےکوئی ہور

(بلھے شاہ)
 
آخری تدوین:
یہ دھاگہ انٹرٹینمنٹ کی طرف جا رہا ہے اور اسے بنانے والے اینکر پرسنز اسے لاوارث کر کے بالترتیب فیصل آباد اور کراچی اپنی علمی وراثت منتقل فرما رہے ہیں۔ کر لو بھائیو جو کرنا ہے، پڑھ لو جیہڑئیاں فلماں پڑھنیاں نیں تے جیہڑیاں پاکستانوں کڈھنیاں نیں! :D
اب ایسا بھی نہیں بجو
کہ بلکل لا تعلق ہو چکے اس دھاگہ سے
وارثت کے جملہ حقوق محفوظ رکھتے ہیں۔
 
Top