محبت۔۔۔ایک سطحی جائزہ

محترم قارئین، سلام۔ مندرجہ ذیل تحریر میں نے اپنے کچھ دوستوں کی فرمائش پہ، ان کے فیس بک کے گروپ کے لئے لکھی۔ تحاریر کا موضوع "محبت، امن اور آرٹ" کے دائرہ کار میں آنا تھا۔ تحریر کی وسعت کا علم نہیں تھا، اس لئے بہت سی باتیں مختصراً بیان کرنا پڑیں۔تحریر کا یہ ڈرافٹ ورژن ہے، اس میں کافی اغلاط بھی ہوں گی۔ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تا کہ آپ کی تنقید سے بہتری کے زیادہ مواقع سے مستفید ہو سکوں۔ شکریہ۔
محبت۔۔۔ایک سطحی جائزہ
"آئیے آج اس جذبے کی بات کریں، جو نا صرف اس گروپ کی اور اس کائنات کی اساس ہے، بلکہ بہت سے گروپ والوں کے لئے ایک معمہ بھی ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جس پہ خدا بھی ناز کرتا ہے اور جو انسانیت کی معراج بھی ہے۔ یہ جذبہ Ether کی طرح ہر جگہ، ہر دم کارگر دکھتا ہے۔ دیکھنے والی آنکھ ہو، تو کائنات کا ذرہ ذرہ اس جذبہ میں نہاں ہے۔ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق، عیسیٰ (علیہ السلام) کی معصومانہ ضد، ابراہیم (علیہ السلام) کی قربانی اور محمد (صلی اللہ وسلم) کی معراج، سب اسی کے تو کرشمے ہیں۔ جی ہاں، بات محبت ہی کی ہو رہی ہے۔
مھبت کسی ایسی ذات یا چیز کے تقرب کی آرزو کا نام ہے جس کے سامنے انسان اپنی انا کو سرنگوں کر چکا ہو۔ یہ جذبہ انسان کی گھٹی میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ، ہر چیز سے انسیت اور محبت کی بنیاد پر رشتہ قائم کرتا ہے۔ وہ نفع اور نقصان سے بے نیاز ہو کر ہر شے کو چاہتا ہے۔ تو یہ بات طے پائی کہ محبت ہر ہی انسان میں ہوتی ہے، اور وہ کسی نہ کسی شے سے کرتا بھی ضرور ہے۔ بات تو (خود) شناسائی کی ہے۔ کیا وہ اس بات کو جان بھی پاتا ہے؟ ہر محبت کا انت ایک سا نہیں ہوتا۔ کسی مادی شے کی محبت یا خود ہی سے محبت، انسان کی ذات کو دوام نہیں بخشتی بلکہ اس میں حرص اور بے سکونی کا باعث بنتی ہے۔ اس کے برعکس انسان سے محبت وہ واحد محبت ہے، جو اسے مادیت سے بے نیاز کرتی ہے اور خالقِ حقیقی کی راہ سُجاتی ہے۔ اسی لیئے سب محبتوں، انسیتوں میں سب سے افضل انسان سے محبت کو ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے، جو انسان کو خالق سے ملاتا ہے۔ اللہ اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کی حقیقی سنت ہے۔
محبت کا پہلا، سب سے اہم جزو اپنی ذات کو فنا کرنے کا ہے۔ خود کی انا کو غلام کرنا اور اسے کسی کا تابع کر دینا ہی محبت کی اصل ہے۔ عشقِ مجازی میں انسان کسی ایک شے کے سامنے خود کی انا کو سرنگوں کرتا ہے، جبکہ عشقِ حقیقی میں اس کی انا کُل کائنات کو سربسجود ہوتی ہے۔ محبت کا سفر بہت لمبا اور مرتبے والا سفر ہے۔ بہر صورت ذات ذرہء بےنشاں ہوتی ہی ہے۔ فضل ہو جائے، تو عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اپنی بے مائیگی اور کائنات کی ہر شہ کی کبریائی کا یقین نصیب ہوتا ہے۔ فقر کا ہدیہ ملتا ہے۔ عرفان نصیب ہوتا ہے۔ وہ سکون ملتا ہے، جسے زوال نہیں۔ مادیت سے بے نیازی نصیب ہوتی ہے۔ ہر ذرہ میں ربوبیت دِکھنے لگتی ہے۔ بندہ حسد سے، حرص سے اور فکرِ دنیا جیسے جذبات سے ماورا ہو جاتا ہے۔ چشمِ بینا نصیب ہو جاتی ہے جو اچھے برے، کھرے کھوٹے اور سیاہ سفید کا فرق مٹا ڈالتی ہے، ہر چیز میں ربوبیت دِکھنے لگتی ہے۔
ہاں! یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ عشقِ مجازی ہر کسی کا مقدر، لیکن عشقِ حقیقی صرف اسی کے لئے جس پہ خدا کا اور خدا والوں کا فضل ہو؛ اور جو اس فضل کا شکر ادا کرنا جانتا ہو۔ شکر، اپنے پہ ہوئے فضل اور انعام کو دوسروں تک پہنچانے کا نام ہے۔ یہ الحمدللہ، جزاک اللہ اور شکریہ جیسے الفاظ کی معراج ہے۔ تنگ دل، تنگ نظر اور کم حوصلہ کے لئے یہ سوغات نہیں ہے۔ رتبے والوں کا تاجِ خاکستری ہے یہ۔
تو کہنے کا مقصد یہ ہوا کہ سراپا محبت ہر کوئی ہی ہے، ہر کسی پہ ہی رب کا انعام ہے اور یہ انعام بندے پر ہر وقت، ہر جگہ، ہر حالت میں رہتا ہے۔ بات کی اصل تو اس انعام کو جان لینا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ فنا ہو کر، بقا پا لینے کا واحد ذریعہ یہی تو ہے۔ اللہ کے حبیب (صلی اللہ علیہ و سلم) نے بھی، اللہ کے فضل کو اوروں تک پہنچایا، یہی اس ذات (صلی اللہ علیہ و سلم) کی معراج تھی اور یہی بات خالقِ بر حق کو عزیز بھی ہے۔ تو دعا ہے کہ ربِ کائنات ہمیں ہم پر ہوئے انعامات کو جاننے، اور انھیں اوروں کے ساتھ شئیر کرنے کی تو فیق عطا فرمائے (آمین)۔"

(نعمان رفیق مرزا۔ میونخ)​
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
محترم قارئین، سلام۔ مندرجہ ذیل تحریر میں نے اپنے کچھ دوستوں کی فرمائش پہ، ان کے فیس بک کے گروپ کے لئے لکھی۔ تحاریر کا موضوع "محبت، امن اور آرٹ" کے دائرہ کار میں آنا تھا۔ تحریر کی وسعت کا علم نہیں تھا، اس لئے بہت سی باتیں مختصراً بیان کرنا پڑیں۔تحریر کا یہ ڈرافٹ ورژن ہے، اس میں کافی اغلاط بھی ہوں گی۔ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تا کہ آپ کی تنقید سے بہتری کے زیادہ مواقع سے مستفید ہو سکوں۔ شکریہ۔
محبت۔۔۔ ایک سطحی جائزہ
"آئیے آج اس جذبے کی بات کریں، جو نا صرف اس گروپ کی اور اس کائنات کی اساس ہے، بلکہ بہت سے گروپ والوں کے لئے لیے ایک معمہ بھی ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جس پہ خدا بھی ناز کرتا ہے اور جو انسانیت کی معراج بھی ہے۔ یہ جذبہ Ether کی طرح ہر جگہ، ہر دم کارگر دکھتا نظر آتا ہے۔ دیکھنے والی آنکھ ہو، تو کائنات کا ذرّہ ذرّہ اِس جذبہ میں نہاں ہے۔ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق، عیسیٰ (علیہ السلام) کی معصومانہ ضد، ابراہیم (علیہ السلام) کی قربانی اور محمد (صلی اللہ وسلم) کی معراج، سب اسی کے تو کرشمے ہیں۔ جی ہاں، بات محبت ہی کی ہو رہی ہے۔
مھبت محبت کسی ایسی ذات یا چیز کے تقرب کی آرزو کا نام ہے جس کے سامنے انسان اپنی انا کو سرنگوں کر چکا ہو۔ یہ جذبہ انسان کی گھٹی میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ، ہر چیز سے اُنسیت اور محبت کی بنیاد پر رشتہ قائم کرتا ہے۔ وہ نفع اور نقصان سے بے نیاز ہو کر ہر شے کو چاہتا ہے۔ تو یہ بات طے پائی کہ محبت ہر ہی انسان میں ہوتی ہی ہے، اور وہ کسی نہ کسی شے سے کرتا بھی ضرور ہے۔ بات تو (خود) شناسائی کی ہے۔ کیا وہ اس بات کو جان بھی پاتا ہے؟ ہر محبت کا انت ایک سا نہیں ہوتا۔ کسی مادی شے کی محبت یا خود ہی سے محبت، انسان کی ذات کو دوام نہیں بخشتی بلکہ اس میں حرص اور بے سکونی کا باعث بنتی ہے۔ اس کے برعکس انسان سے محبت وہ واحد محبت ہے، جو اسے مادیت سے بے نیاز کرتی ہے اور خالقِ حقیقی کی راہ سُجاتی سُجھاتی ہے۔ اسی لیئے لیے سب محبتوں، انسیتوں میں سب سے افضل انسان سے محبت کو ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے، جو انسان کو خالق سے ملاتا ہے۔ اللہ اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کی حقیقی سنت ہے۔
محبت کا پہلا، سب سے اہم جزو اپنی ذات کو فنا کرنے کا ہے۔ خود کی انا کو غلام کرنا اور اسے کسی کا تابع کر دینا ہی محبت کی اصل ہے۔ عشقِ مجازی میں انسان کسی ایک شے کے سامنے خود کی انا کو سرنگوں کرتا ہے، جبکہ عشقِ حقیقی میں اس کی انا کُل کائنات کو سربسجود ہوتی ہے۔ محبت کا سفر بہت لمبا اور مرتبے والا سفر ہے۔ بہر صورت ذات ذرہء بےنشاں ہوتی ہی ہے۔ فضل ہو جائے، تو عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اپنی بے مائیگی اور کائنات کی ہر شہ کی کبریائی کا یقین نصیب ہوتا ہے۔ فقر کا ہدیہ ملتا ہے۔ عرفان نصیب ہوتا ہے۔ وہ سکون ملتا ہے، جسے زوال نہیں۔ مادیت سے بے نیازی نصیب ہوتی ہے۔ ہر ذرہ میں ربوبیت دِکھنے لگتی ہے۔ بندہ حسد سے، حرص سے اور فکرِ دنیا جیسے جذبات سے ماورا ہو جاتا ہے۔ چشمِ بینا نصیب ہو جاتی ہے جو اچھے برے، کھرے کھوٹے اور سیاہ سفید کا فرق مٹا ڈالتی ہے، ہر چیز میں ربوبیت دِکھنے نظر آنے لگتی ہے۔
ہاں! یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ عشقِ مجازی ہر کسی کا مقدر، لیکن عشقِ حقیقی صرف اسی کے لئے لیےجس پہ خدا کا اور خدا والوں کا فضل ہو؛ اور جو اس فضل کا شکر ادا کرنا جانتا ہو۔ شکر، اپنے پہ ہوئے فضل اور انعام کو دوسروں تک پہنچانے کا نام ہے۔ یہ الحمدللہ، جزاک اللہ اور شکریہ جیسے الفاظ کی معراج ہے۔ تنگ دل، تنگ نظر اور کم حوصلہ کے لئے لیے یہ سوغات نہیں ہے۔ رتبے والوں کا تاجِ خاکستری ہے یہ۔
تو کہنے کا مقصد یہ ہوا کہ سراپا محبت ہر کوئی ہی ہے، ہر کسی پہ ہی رب کا انعام ہے اور یہ انعام بندے پر ہر وقت، ہر جگہ، ہر حالت میں رہتا ہے۔ بات کی اصل تو اس انعام کو جان لینا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ فنا ہو کر، بقا پا لینے کا واحد ذریعہ یہی تو ہے۔ اللہ کے حبیب (صلی اللہ علیہ و سلم) نے بھی، اللہ کے فضل کو اوروں تک پہنچایا، یہی اس ذات (صلی اللہ علیہ و سلم) کی معراج تھی اور یہی بات خالقِ بر حق کو عزیز بھی ہے۔ تو دعا ہے کہ ربِ کائنات ہمیں ہم پر ہوئے انعامات کو جاننے، اور انھیں اوروں کے ساتھ شئیر کرنے کی تو فیق عطا فرمائے (آمین)۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(نعمان رفیق مرزا۔ میونخ)​
 
رحمانی صاحب، آپ کی اصلاح کا بہت شکریہ۔ میری اردو میں اصلاح کی بہت گنجائش ہے اور میں اپنی اس کمی کو بےحد محسوس بھی کرتا ہوں۔
شمشاد صاحب، سچ کہا آپ نے۔ لیکن شائد یہ سب سے پہلا قدم نہیں ہے۔
مجھے ٹیگ کرنا نہیں آتا۔ جن دوستوں نے تحریر کو پڑھا ہے، اگر وہ اس کے مضمون پہ کچھ تنقید کر دیں، تو بہتری کے زیادہ امکان ہوں گے۔
بہر کیف، میں آپ سب لوگوں کی محبت کے لئے بےحد مشکور ہوں۔:notworthy:
 

شمشاد

لائبریرین
ٹیگ کرنے کے لیے @ کا نشان ڈالکر بغیر کوئی وقفہ دیئے رکن کی اردو محفل پر جو پہچان ہے وہ لکھ دیں۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم مرزا بھائی ۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ مختصر مختصر پراثر خوب لکھا ہے محبت بارے ۔۔۔
مگر یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ۔۔ محبت نام ہے جس جذبے کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جذبے کے بیان کے لیئے شجر قلم اور بحر سیاہی بن جائیں تو بھی لفظ " محبت " کی " میم " کو کماحقہ بیان نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔ یہ راز محبت ان پر ہی کھلتا ہے جو کہ " محب سے محبوب " تک کے درجے پہ پہنچیں ۔۔۔۔ محبت کا سفر " من " سے شروع " مودت " سے گزر حقیقت ہستی کو مٹا دینے پر استوار ہوتا ہے ۔۔۔۔ محبت زندگی ہے ۔ محبت بندگی ہے ۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب
آپا تلمیذ صاحب، @سیدزبیر، نیرنگ خیال صاحب، عائشہ عزیز، عینی شاہ

یہاں بھی اظہار خیال کر دیں، تو ممنون ہوں گا۔ کوشش کیجیے گا کہ بات تنقیدی ہی ہو۔ آپ لوگوں کی محبت کا بیحدشکریہ۔​


محترم تلمیذ بھائی ۔ یہ آپا " مہ جبین " بہنا کے لیئے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نیلم

محفلین
بہت زبردست تحریر ہے بھائی بہت شکریہ آپ نے محبت کی بہت اچھی تعریف بیان کی ۔



ایک آدمی بڑا خوب صورت ہے اور اگر اپنے صاحب کو پسند ہی نہیں تو پھر کیا خوب صورت ہے۔ بات تو کوئی نہ بنی۔ جس کی تعریف یہ ہے کہ اسے قبول کرنے والا عشق موجو ہو۔ وہ

حسن کہ جسے عشق نہیں ملا، اس حسن کو ہم کیا کہیں، سوائے محرومی کے۔ اور اگر حسن نہیں ہے اور اسے عشق مل گیا تو عشق کا ملنا ہی حسن ہے ورنہ وہ حسن محرومی ہے۔ اگر

محبوب کو طالب مل جائے تو وہ محبوب کہلاتا ہے، ورنہ محبوب کی اور کوئی صفت نہیں، سوائے اس کے کہ کوئی چاہنے والا ہو۔ اگر کوئی چاہنے والا نہیں ہے تو کوئی کتنا ہی حسین ہو،

بیکار ہے۔ اگر آپ کے اندر طلب کی تمنا نہ ہو تو آپ کتنے ہی اچھے ہو جائیں، بیکار ہے۔گویا آپ کے اندر تضاد پیدا ہو گیا، تضاد کا پیدا ہونا دراصل محبت کی محرومی ہے۔

واصف علی واصف، گفتگو 3 صفحہ: 143
 
بہت زبردست تحریر ہے بھائی بہت شکریہ آپ نے محبت کی بہت اچھی تعریف بیان کی ۔



ایک آدمی بڑا خوب صورت ہے اور اگر اپنے صاحب کو پسند ہی نہیں تو پھر کیا خوب صورت ہے۔ بات تو کوئی نہ بنی۔ جس کی تعریف یہ ہے کہ اسے قبول کرنے والا عشق موجو ہو۔ وہ

حسن کہ جسے عشق نہیں ملا، اس حسن کو ہم کیا کہیں، سوائے محرومی کے۔ اور اگر حسن نہیں ہے اور اسے عشق مل گیا تو عشق کا ملنا ہی حسن ہے ورنہ وہ حسن محرومی ہے۔ اگر

محبوب کو طالب مل جائے تو وہ محبوب کہلاتا ہے، ورنہ محبوب کی اور کوئی صفت نہیں، سوائے اس کے کہ کوئی چاہنے والا ہو۔ اگر کوئی چاہنے والا نہیں ہے تو کوئی کتنا ہی حسین ہو،

بیکار ہے۔ اگر آپ کے اندر طلب کی تمنا نہ ہو تو آپ کتنے ہی اچھے ہو جائیں، بیکار ہے۔گویا آپ کے اندر تضاد پیدا ہو گیا، تضاد کا پیدا ہونا دراصل محبت کی محرومی ہے۔

واصف علی واصف، گفتگو 3 صفحہ: 143
بہت خوب!
 
محترم مرزا بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ بلا شبہ مختصر مختصر پراثر خوب لکھا ہے محبت بارے ۔۔۔
مگر یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ۔۔ محبت نام ہے جس جذبے کا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اس جذبے کے بیان کے لیئے شجر قلم اور بحر سیاہی بن جائیں تو بھی لفظ " محبت " کی " میم " کو کماحقہ بیان نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔ یہ راز محبت ان پر ہی کھلتا ہے جو کہ " محب سے محبوب " تک کے درجے پہ پہنچیں ۔۔۔ ۔ محبت کا سفر " من " سے شروع " مودت " سے گزر حقیقت ہستی کو مٹا دینے پر استوار ہوتا ہے ۔۔۔ ۔ محبت زندگی ہے ۔ محبت بندگی ہے ۔۔۔ ۔
بہت پتے کی باتیں کی آپ نے۔ بہت شکریہ۔
 
Top