مجید امجد ::::: اب کے تمھارے دیس کا یہ روپ نیارا تھا ::::: Majeed Amjad

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
مجید امجد

اب کے تمھارے دیس کا یہ روپ نیارا تھا
بِکھرا ہُوا ہَواؤں میں سایا تمھارا تھا

گُم سُم کھڑے ہیں اُونچی فصِیلوں کے کنکرے
کوئی صدا نہیں! مجھے کِس نے پُکارا تھا

رات آسماں پہ چاند کی منڈلی میں کون تھا
تم تھے کہ اِک سِتار بجاتا سِتارہ تھا

اُن دُورِیوں میں قُرب کا جادُو عذاب تھا
ورنہ تمھارے ہجر کا غم بھی گوارا تھا

دِل سے جو ٹیس اُٹھی، میں یہ سمجھا پُجاریو
پتّھر کے دیوتا کا تڑپتا اِشارہ تھا

تالی بجی تو سامنے ناٹک کی رات تھی
آنکھیں کھُلیں، تو بُجھتے دِلوں کا نظارہ تھا

پھر لوٹ کر نہ آیا، زمانے گزُر گئے
وہ لمحہ جس میں ایک زمانہ گزُارا تھا

بہتی ندی کے پاٹ سے اوجھل رہے وہ گاؤں
ساحِل کی اوٹ جن کا دُھواں آشکارا تھا

دُنیا کے اِس بھنور سے جب اُبھرے دُکھوں کے بَھید
اِک اِک اتھاہ بَھید خود اپنا کِنارہ تھا

مجید امجد
 
Top