مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ برائے اصلاح

اسد قریشی

محفلین
مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں
اور چاہوں تو محبت میں گزارا کر لوں
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں
ایک ہی فن میں ہوں برسوں سے میں یکتہ لوگو!
جب بھی چاہوں تو میں اشکوں کو ستارہ کرلوں
خونِ دل، زخمِ جگر، اشک فشانی، ماتم
کر چکا ہوں جو کہو تم تو دوبارہ کر لوں؟
میری منزل، مرا رستہ، یہ مرے خواب، یہ گھر
اب تلک میرا ہے جو اس کو ہمارا کر لوں
ہائے وہ جسم کہ پھول اپنی قبائیں کتریں
گر اجازت ہو اسد میں بھی نظارہ کر لوں
 

الف عین

لائبریرین
بہت عمدہ، لیکن میں تو یہاں سے گزر جانے والا تھا اگر یہ نہ دیکھتا کہ یہ اصلاحِ سخن کے تحت ہے، مجھے اسلحے سے کیا کام؟
 

الف عین

لائبریرین
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال​
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں​
پہلا مصرع وزن میں نہیں آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ پیار،عشق اور الفت میں کیا امتیاز ہے؟
سمجھ میں نہیں آیا۔​
چاہے وہ عشق ہو، یا ہجر ہو یا ہو وہ وصال​
کہو تو؟​
میری منزل، مرا رستہ، یہ مرے خواب، یہ گھر​
اب تلک میرا ہے جو اس کو ہمارا کر لوں​
اولیٰ مصرع میں یا تو ہر جگہ +یہ۔ یو، یا کہیں نہ ہو، تو بہتر ہے۔ دوسرا مصرع بھی بہتر ہو سکتا ہے۔​
ایک مثال​
میری منزل ہے ادھر، خواب ادھر، گھر ہے یہاں​
آج تک میرے ہیں، کہہ دو تو ہمارا کر لوں​
باقی اشعار درست ہی لگ رہے ہیں پہلی قرات میں۔​
 

اسد قریشی

محفلین
مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ برائے اسلحہ

یہ شعر و شاعری میں بھی اسلحہ؟؟ :)
بہت خوب کلام
داد قبول کیجیے اسد صاحب

شکریہ اظہر بھائی، در اصل گزشتہ غزل کی اصلاح سے متائثر ہوکر لفظ "اصلاح" کی بجائے "اسلحہ" لکھا تھا، اور میرے خیال سے اس کا خاطر خواہ اثر بھی پڑا ہے۔ ;)
 

اسد قریشی

محفلین
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال​
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں​
پہلا مصرع وزن میں نہیں آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ پیار،عشق اور الفت میں کیا امتیاز ہے؟​
سمجھ میں نہیں آیا۔​
چاہے وہ عشق ہو، یا ہجر ہو یا ہو وہ وصال​
کہو تو؟​
میری منزل، مرا رستہ، یہ مرے خواب، یہ گھر​
اب تلک میرا ہے جو اس کو ہمارا کر لوں​
اولیٰ مصرع میں یا تو ہر جگہ +یہ۔ یو، یا کہیں نہ ہو، تو بہتر ہے۔ دوسرا مصرع بھی بہتر ہو سکتا ہے۔​
ایک مثال​
میری منزل ہے ادھر، خواب ادھر، گھر ہے یہاں​
آج تک میرے ہیں، کہہ دو تو ہمارا کر لوں​
باقی اشعار درست ہی لگ رہے ہیں پہلی قرات میں۔​


جی اعجاز صاحب آپ کی بات درست ہے، پہلا مصرعہ وزن میں نہیں، تھوڑا سا شاعر بننے کی کوشش کی تھی کہ آخری رکن تبدیل کر کے بات پوری کی جائے۔ اگر آپ کوئی بہتر ی تجویز کر سکیں تو نوازش۔ نیز یہ کی پیار، عشق، محبت، اُلفت یہ سب ایک ہی معنی ہیں اس لیے چاہے نام مختلف ہیں لیکن میرے نزدیک اُن کی تعریف " بلاؤں " کی ہی ہے۔ کیا یہ درست نہیں ؟

آپ کی تجویز بہتر ہے لیکن یہ آخر میں "
ہو وہ وصال" کچھ حلق سے اُتر نہیں رہا۔​
میری منزل، مرا رستہ، یہ مرے خواب، یہ گھر
اب تلک میرا ہے جو اس کو ہمارا کر لوں

مقبول! ممنون ہوں۔

بس اب ایک ہی شعر رہ گیا ہے اس کی بھی کوئی ترکیب دیکھ لیں۔۔۔۔۔

بہت شکریہ آپ کا بھی اور تمام احباب کا۔۔۔۔۔۔۔
 

اسد قریشی

محفلین
خونِ دل، زخمِ جگر، اشک فشانی، ماتم​
کر چکا ہوں جو کہو تم تو دوبارہ کر لوں؟​
مجھے اس شعر پر شک تھا، لیکن کسی بھی دوست نے اور اعجاز صاحب آپ نے بھی اس پر گفتگو نہیں فرمائی، یہا لفظ "دوبارہ" کو قافیہ کیا گیا ہے اور یس کی "واو" گر رہی ہے، کیا اس کی اجازت ہے؟​
مزمل شیخ بسمل صاحب، آپ کا کیا خیال ہے۔​
 
بالکل اجازت ہے حضور. ورنہ استاد جی تو پہلے ہی نشاندہی فرما دیتے. میں تو اس معاملے میں استنباط کرکے زیادہ تر غیر مانوس چیزوں کو بھی استعمال کرنے کی اجازت دیا کرتا ہوں. استاد جی اس معاملے میں کافی حدود میں رہتے ہیں. تو جو چیز وہ جائز قرار دے دیں تو یقیناً جائز ہی ہے. ہاں نا جائز کے معاملے میں گنجائش کا امکان ہوتا ہے اکثر. :)
 
محترمی اسد قریشی صاحب ۔۔
ع: پھر وہی تلخ نوائی جو مرا حصہ ہے۔​
آپ کی یہ غزل مجموعی طور پر ایک اچھی کاوش ہے۔ مجھے آپ کے ادبی قد کاٹھ کا اندازہ نہیں، جو کچھ اس غزل کی وساطت سے دیکھتا ہوں عرض کئے دیتا ہوں۔ میری گزارشات کو رد کر دینا یا قبول کر لینا آپ کے اختیار میں ہے۔


مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں
اور چاہوں تو محبت میں گزارا کر لوں


مطلع میں عجیب مسئلہ آن پڑا ہے۔ بات بہت واضح اور مفہوم بہت کھلا کھلا ہے، کوئی ابہام نہیں، مضمون بھی مقبول ہے۔ تاہم اظہار کی سطح متاثر ہو رہی ہے۔ ’’محبت میں گزارہ کر لوں‘‘ اسے شاید ’’عجزِ بیان‘‘ کہتے ہیں؟ الف عین صاحب بہتر بتا سکتے ہیں۔ مصرع اولیٰ میں لفظی سطح پر ’’کنارہ کر لینا‘‘ کا تقاضا ہے۔ یا پھر اِس کے ساتھ ’’مَیں‘‘ ہوتا۔ توجہ فرمائیے گا۔​



پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں



پیار، الفت، عشق۔ مترادفات کا استعمال ممنوع نہیں، تاہم اس کو سیاق و سباق کے تابع ہونا چاہئے۔ شاعری میں کفایتِ لفظی کو خوبی سمجھا جاتا ہے اور یہ ہے بھی بہت کام کی چیز! کہ آپ اپنے مضمون کو پھیلا سکتے ہیں۔ ’’اتارا‘‘ بطور اسم اگرچہ اردو میں بہت مانوس نہیں تاہم یہاں بہت اچھا تاثر دیتا ہے۔ اس طرح کی کاوشیں زبان کی وسعت میں مدد گار ہوتی ہیں۔​



ایک ہی فن میں ہوں برسوں سے میں یکتہ لوگو!
جب بھی چاہوں تو میں اشکوں کو ستارہ کرلوں


یہ شعر بہت توجہ چاہتا ہے۔ ایک تو ’’یکتا‘‘ کی املاء درست فرما لیجئے، اس میں ہمزہ نہیں الف ہے۔ دوسرے ’’برسوں سے یکتا ہونا‘‘ اس میں مدت کا ذکر کچھ زائد نہیں کیا؟ یکتا ہونا تو ایک مستقل صفت ہے۔ ’’اشک ستارہ کرنا‘‘ بہت اچھی بلکہ خوبصورت ترکیب ہے، یہاں لفظ ’’تو‘‘ پاسنگ لگ رہا ہے۔ الفاظ کی نشست بدل کر اِس پاسنگ کو نکال سکیں تو بہتر ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ شاید ’’لوگو‘‘ کا ہے؟​


خونِ دل، زخمِ جگر، اشک فشانی، ماتم
کر چکا ہوں جو کہو تم تو دوبارہ کر لوں؟


’’دوبارہ‘‘ اور ’’دُبارہ‘‘ لفظاً بھی دونوں طرح رائج ہے اور درست ہے۔ دوسرے مصرعے کے آخر سے سوالیہ نشان ہٹا دیں تو میرا خیال ہے معانی میں وسعت آئے گی۔ اس کو استفہام تک محدود نہ کیجئے۔ خونِ دِل اور زخمِ جگر یہ دونوں کیفیات ہیں اور اشک فشانی اور ماتم یہ دونوں عمل ہیں۔ ’’کر لینا‘‘ کا تعلق عمل سے ہے کیفیات سے نہیں۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ چلئے ’’دل کا خون کرنا‘‘ یا ’’دل کو خون کرنا‘‘ محاورۃً عمل ٹھہرا، مگر یہ ’’خونِ دل کرنا‘‘ کا جواز فراہم نہیں کرتا۔​



میری منزل، مرا رستہ، یہ مرے خواب، یہ گھر
اب تلک میرا ہے جو اس کو ہمارا کر لوں



اس شعر پر اعجاز عبید صاحب کی رائے بہت مبسوط ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا۔​



ہائے وہ جسم کہ پھول اپنی قبائیں کتریں
گر اجازت ہو اسد میں بھی نظارہ کر لوں



مقطع اچھا اظہار ہے، خاص طور پر ’’اپنی قبائیں کترنا‘‘ بہت عمدہ! اس میں اگر ’’وہ جسم‘‘ کی جگہ وسیع تر معانی لائے جا سکیں کہ جسم صرف جسم نہ رہے، پھول کے حوالے سے کسی صفت کا استعارہ بن جائے!۔ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں۔​



میرا کہا جزوی یا کلی طور پر گراں گزرا ہو تو اِسے نظر انداز کر دیجئے گا۔​



سطور کی ساخت میں بہت کچھ ادھر ادھر ہو گیا۔ مجھے نہیں پتہ اس کو کیسے درست کریں گے۔​





برائے توجہ مزید: جناب الف عین۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت عمدہ، لیکن میں تو یہاں سے گزر جانے والا تھا اگر یہ نہ دیکھتا کہ یہ اصلاحِ سخن کے تحت ہے، مجھے اسلحے سے کیا کام؟

واہ کیا خوب مزاح ہے۔
آج ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ استادِ محترم مزاح میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
 

اسد قریشی

محفلین
محترمی اسد قریشی صاحب ۔۔
ع: پھر وہی تلخ نوائی جو مرا حصہ ہے۔
آپ کی یہ غزل مجموعی طور پر ایک اچھی کاوش ہے۔ مجھے آپ کے ادبی قد کاٹھ کا اندازہ نہیں، جو کچھ اس غزل کی وساطت سے دیکھتا ہوں عرض کئے دیتا ہوں۔ میری گزارشات کو رد کر دینا یا قبول کر لینا آپ کے اختیار میں ہے۔


مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں

اور چاہوں تو محبت میں گزارا کر لوں

مطلع میں عجیب مسئلہ آن پڑا ہے۔ بات بہت واضح اور مفہوم بہت کھلا کھلا ہے، کوئی ابہام نہیں، مضمون بھی مقبول ہے۔ تاہم اظہار کی سطح متاثر ہو رہی ہے۔ ’’محبت میں گزارہ کر لوں‘‘ اسے شاید ’’عجزِ بیان‘‘ کہتے ہیں؟ الف عین صاحب بہتر بتا سکتے ہیں۔ مصرع اولیٰ میں لفظی سطح پر ’’کنارہ کر لینا‘‘ کا تقاضا ہے۔ یا پھر اِس کے ساتھ ’’مَیں‘‘ ہوتا۔ توجہ فرمائیے گا۔​



پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال

سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں
پیار، الفت، عشق۔ مترادفات کا استعمال ممنوع نہیں، تاہم اس کو سیاق و سباق کے تابع ہونا چاہئے۔ شاعری میں کفایتِ لفظی کو خوبی سمجھا جاتا ہے اور یہ ہے بھی بہت کام کی چیز! کہ آپ اپنے مضمون کو پھیلا سکتے ہیں۔ ’’اتارا‘‘ بطور اسم اگرچہ اردو میں بہت مانوس نہیں تاہم یہاں بہت اچھا تاثر دیتا ہے۔ اس طرح کی کاوشیں زبان کی وسعت میں مدد گار ہوتی ہیں۔​

ایک ہی فن میں ہوں برسوں سے میں یکتہ لوگو!

جب بھی چاہوں تو میں اشکوں کو ستارہ کرلوں

یہ شعر بہت توجہ چاہتا ہے۔ ایک تو ’’یکتا‘‘ کی املاء درست فرما لیجئے، اس میں ہمزہ نہیں الف ہے۔ دوسرے ’’برسوں سے یکتا ہونا‘‘ اس میں مدت کا ذکر کچھ زائد نہیں کیا؟ یکتا ہونا تو ایک مستقل صفت ہے۔ ’’اشک ستارہ کرنا‘‘ بہت اچھی بلکہ خوبصورت ترکیب ہے، یہاں لفظ ’’تو‘‘ پاسنگ لگ رہا ہے۔ الفاظ کی نشست بدل کر اِس پاسنگ کو نکال سکیں تو بہتر ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ شاید ’’لوگو‘‘ کا ہے؟​

خونِ دل، زخمِ جگر، اشک فشانی، ماتم

کر چکا ہوں جو کہو تم تو دوبارہ کر لوں؟

’’دوبارہ‘‘ اور ’’دُبارہ‘‘ لفظاً بھی دونوں طرح رائج ہے اور درست ہے۔ دوسرے مصرعے کے آخر سے سوالیہ نشان ہٹا دیں تو میرا خیال ہے معانی میں وسعت آئے گی۔ اس کو استفہام تک محدود نہ کیجئے۔ خونِ دِل اور زخمِ جگر یہ دونوں کیفیات ہیں اور اشک فشانی اور ماتم یہ دونوں عمل ہیں۔ ’’کر لینا‘‘ کا تعلق عمل سے ہے کیفیات سے نہیں۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ چلئے ’’دل کا خون کرنا‘‘ یا ’’دل کو خون کرنا‘‘ محاورۃً عمل ٹھہرا، مگر یہ ’’خونِ دل کرنا‘‘ کا جواز فراہم نہیں کرتا۔​

میری منزل، مرا رستہ، یہ مرے خواب، یہ گھر

اب تلک میرا ہے جو اس کو ہمارا کر لوں

اس شعر پر اعجاز عبید صاحب کی رائے بہت مبسوط ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا۔​

ہائے وہ جسم کہ پھول اپنی قبائیں کتریں

گر اجازت ہو اسد میں بھی نظارہ کر لوں

مقطع اچھا اظہار ہے، خاص طور پر ’’اپنی قبائیں کترنا‘‘ بہت عمدہ! اس میں اگر ’’وہ جسم‘‘ کی جگہ وسیع تر معانی لائے جا سکیں کہ جسم صرف جسم نہ رہے، پھول کے حوالے سے کسی صفت کا استعارہ بن جائے!۔ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں۔​

میرا کہا جزوی یا کلی طور پر گراں گزرا ہو تو اِسے نظر انداز کر دیجئے گا۔​





سطور کی ساخت میں بہت کچھ ادھر ادھر ہو گیا۔ مجھے نہیں پتہ اس کو کیسے درست کریں گے۔​




برائے توجہ مزید: جناب الف عین۔​

قبلہ آسی صاحب آپ کا کہا نہ صرف کلٌی طور پر گراں گزرا بلکہ افسوس بھی بہت ہوا۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے یہ تکلٌف پہلے کیوں نہیں فرمایا؟ :) بہت شکریہ آپ کی تجاویز نے دل میں جگہ پائی ہے، کچھ باتیں سمجھ گیا ہوں جن کی اصلاح کر کے دوبارہ پیش کروں گا، لیکن کچھ باتوں میں آپ نے ابہام رکھا ہے، یعنی نہ تو کلٌی طور پر رد کیا ہے اور نہ ہو قبول کیا ہے، جیسے مطلع کی بابت آپ نے نہیں فرمایا کہ موجودہ صورت میں قابلِ قبول ہے یا نہیں۔ ایسے ہی دوسرے شعر اور آخری یعنی مقطع کی بابت بھی بیان نہیں فرمایا۔
 
خوب کہا جناب اسد قریشی صاحب!۔
ابہام تو اس میں بھی ہے!!
آپ کا کہا نہ صرف کلٌی طور پر گراں گزرا بلکہ افسوس بھی بہت ہوا۔۔۔ آپ نے یہ تکلٌف پہلے کیوں نہیں فرمایا؟​

آپ کی غزل جب دیکھی، جسارت کر ڈالی۔ رہی بات کسی فن پارے یا کسی ایک شعر کو کلی طور پر رد کرنے یا قبول کرنے کی! تو صاحب، میں خود کو اِس کا مجاز نہیں سمجھتا۔ کلام آپ کا ہے، خیال، مضمون، اظہار، الفاظ، سب کچھ آپ کا ہے۔ اگر آپ نے اس پر گفتگو کی دعوت نہ دی ہوتی تو یقین جانئے میں دیکھ کر بھی خاموش رہتا، کہ قاعدہ یہی ہے۔ کوئی فردِ واحد کسی فن پارے کو رد کر دینے کا کلی حق نہیں رکھتا، ہاں دو چار دس لوگوں کی آراء ملتی جلتی ہوں تو صاحبِ فن کو چاہئے کہ اُن پر غور کرے۔

وہ استادی شاگری والا سلسلہ تو سمجھئے، ویسے باقی نہ رہا۔ میں نے خود اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے اور عین ممکن ہے اس سیکھنے میں بھی غلطیاں ہوں۔ قبول فرمائیے گا، یا پھر نظر انداز کر دیجئے گا۔ بہت نوازش!۔
 

الف عین

لائبریرین
آسی بھائی نے شاید بغور اور متعدد بار قرات کی ہے، اور کئی نکات لے کر آئے ہیں، جن پر میں محدود قرات میں غور نہیں کر سکا تھا۔ ویسے بھی میں اصلاح کی کوشش میں اکثر اظہار کے سللسے میں درست ہونے پر کچھ نہیں کہتا، یہ سوچ کر کہ یہ شاعر کا اپنا اظہار ہے، جب تک کہ فاش غلطی نہ ہو، اور اگر بہتری کی کوئی صورت فوراً نظر آ جائے تب ضرور کہہ دیتا ہوں، ورنہ چھوڑ دیتا ہوں۔ جیسا یہاں اسد کا مطلع ہے۔ ایک صورت یہ ممکن ہے، غور کروم آسی بھائی سے بھی درخواست ہے۔
مجھ کو مشکل نہیں، جب چاہوں، کنارا کر لوں
یا محبت میں اسی طرح گزارا کر لوں
’برسوں سے یکتا ہونا‘ واقعی غلط لگتا ہے، آسی بھائی سے متفق ہوں۔
 

اسد قریشی

محفلین
محترمی اسد قریشی صاحب ۔۔
ع: پھر وہی تلخ نوائی جو مرا حصہ ہے۔
آپ کی یہ غزل مجموعی طور پر ایک اچھی کاوش ہے۔ مجھے آپ کے ادبی قد کاٹھ کا اندازہ نہیں، جو کچھ اس غزل کی وساطت سے دیکھتا ہوں عرض کئے دیتا ہوں۔ میری گزارشات کو رد کر دینا یا قبول کر لینا آپ کے اختیار میں ہے۔
مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں
اور چاہوں تو محبت میں گزارا کر لوں
مطلع میں عجیب مسئلہ آن پڑا ہے۔ بات بہت واضح اور مفہوم بہت کھلا کھلا ہے، کوئی ابہام نہیں، مضمون بھی مقبول ہے۔ تاہم اظہار کی سطح متاثر ہو رہی ہے۔ ’’محبت میں گزارہ کر لوں‘‘ اسے شاید ’’عجزِ بیان‘‘ کہتے ہیں؟ الف عین صاحب بہتر بتا سکتے ہیں۔ مصرع اولیٰ میں لفظی سطح پر ’’کنارہ کر لینا‘‘ کا تقاضا ہے۔ یا پھر اِس کے ساتھ ’’مَیں‘‘ ہوتا۔ توجہ فرمائیے گا۔​
آسی صاحب آپ کی تجاویز کا دوبارہ مطالع کیا، اور جیسے کہ پہلے میں نے عرض کیا تھا کہ کچھ باتیں واضح ہیں اور کچھ وضاحت درکار ہے۔آپ نے مطلع کی بابت جو فرمایا کسی حد تک سمجھ پایا ہوں لیکن یہ لفظ "مَیں" کی نشست سے قطعا" واقف نہیں اس لیے رہنمائی فرمائیں
کیا ہے مشکل کہ مَیں اک پل میں کنارہ کرلوں
اور چاہوں تو محبت میں گُزارا کر لوں
محترمی اسد قریشی صاحب ۔۔
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں
پیار، الفت، عشق۔ مترادفات کا استعمال ممنوع نہیں، تاہم اس کو سیاق و سباق کے تابع ہونا چاہئے۔ شاعری میں کفایتِ لفظی کو خوبی سمجھا جاتا ہے اور یہ ہے بھی بہت کام کی چیز! کہ آپ اپنے مضمون کو پھیلا سکتے ہیں۔ ’’اتارا‘‘ بطور اسم اگرچہ اردو میں بہت مانوس نہیں تاہم یہاں بہت اچھا تاثر دیتا ہے۔ اس طرح کی کاوشیں زبان کی وسعت میں مدد گار ہوتی ہیں۔​
اس شعر کو دُرست یا قابلِ قبول تصور کر کے بلا ترمیم شامل کر لیتے ہیں۔
محترمی اسد قریشی صاحب ۔۔
ایک ہی فن میں ہوں برسوں سے میں یکتہ لوگو!
جب بھی چاہوں تو میں اشکوں کو ستارہ کرلوں
یہ شعر بہت توجہ چاہتا ہے۔ ایک تو ’’یکتا‘‘ کی املاء درست فرما لیجئے، اس میں ہمزہ نہیں الف ہے۔ دوسرے ’’برسوں سے یکتا ہونا‘‘ اس میں مدت کا ذکر کچھ زائد نہیں کیا؟ یکتا ہونا تو ایک مستقل صفت ہے۔ ’’اشک ستارہ کرنا‘‘ بہت اچھی بلکہ خوبصورت ترکیب ہے، یہاں لفظ ’’تو‘‘ پاسنگ لگ رہا ہے۔ الفاظ کی نشست بدل کر اِس پاسنگ کو نکال سکیں تو بہتر ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ شاید ’’لوگو‘‘ کا ہے؟​
دونوں مصرعوں کی بابت آپ سے متفق ہوں، ترمیم کے بعد ملاحظہ فرمائیں:

مشقِ گریہ کی ریاضت کا ثمر پایا ہے
آنکھ سے بہتے ہوئے اشک سِتارہ کرلوں

محترمی اسد قریشی صاحب ۔۔

خونِ دل، زخمِ جگر، اشک فشانی، ماتم
کر چکا ہوں جو کہو تم تو دوبارہ کر لوں

’’دوبارہ‘‘ اور ’’دُبارہ‘‘ لفظاً بھی دونوں طرح رائج ہے اور درست ہے۔ دوسرے مصرعے کے آخر سے سوالیہ نشان ہٹا دیں تو میرا خیال ہے معانی میں وسعت آئے گی۔ اس کو استفہام تک محدود نہ کیجئے۔ خونِ دِل اور زخمِ جگر یہ دونوں کیفیات ہیں اور اشک فشانی اور ماتم یہ دونوں عمل ہیں۔ ’’کر لینا‘‘ کا تعلق عمل سے ہے کیفیات سے نہیں۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ چلئے ’’دل کا خون کرنا‘‘ یا ’’دل کو خون کرنا‘‘ محاورۃً عمل ٹھہرا، مگر یہ ’’خونِ دل کرنا‘‘ کا جواز فراہم نہیں کرتا۔​


سوالیہ نشان ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن جو آپ نے "خونِ دل" کے بارے فرمایا اس پر بہت کوشش کی پر بے سود۔ اگر کچھ تجویز کریں یا موجودہ صورت کو قابلِ قبول تصور کریں تو نوازش ہوگی۔:)


محترمی اسد قریشی صاحب ۔۔

میری منزل، مرا رستہ، یہ مرے خواب، یہ گھر
اب تلک میرا ہے جو اس کو ہمارا کر لوں
اس شعر پر اعجاز عبید صاحب کی رائے بہت مبسوط ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا۔​
ہائے وہ جسم کہ پھول اپنی قبائیں کتریں
گر اجازت ہو اسد میں بھی نظارہ کر لوں

مقطع اچھا اظہار ہے، خاص طور پر ’’اپنی قبائیں کترنا‘‘ بہت عمدہ! اس میں اگر ’’وہ جسم‘‘ کی جگہ وسیع تر معانی لائے جا سکیں کہ جسم صرف جسم نہ رہے، پھول کے حوالے سے کسی صفت کا استعارہ بن جائے!۔ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں۔​



لُعبتِ حُسن کہ پھول اپنی قبائیں کتریں
گر اجازت ہو اسد میں بھی نظارہ کر لوں

اُمید ہے آپ کی بات کو صحیح طور سے سمجھ پایا ہوں۔


میرے خیال میں اب آسی صاحب آپ کا ابہام تو کلی طور پر دور ہوگیا ہوگا کہ اسد قریشی کو آپ کی کوئی بھی بات گراں نہیں گُزری بلکہ وہ تحہِ دل سے ممنون ہے کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت اُس کی تُکبندی پر صرف فرمایا، اور اس شفقت و رہنمائی کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب دل میں ایک اُمید سی بندھ گئی ہے کہ یہ سایہِ مہربان آئندہ بھی شاملِ سفر رہے گا۔

بے حد شکرگزار

"طفلِ مکتب"
اسد قریشی
 

اسد قریشی

محفلین
آسی بھائی نے شاید بغور اور متعدد بار قرات کی ہے، اور کئی نکات لے کر آئے ہیں، جن پر میں محدود قرات میں غور نہیں کر سکا تھا۔ ویسے بھی میں اصلاح کی کوشش میں اکثر اظہار کے سللسے میں درست ہونے پر کچھ نہیں کہتا، یہ سوچ کر کہ یہ شاعر کا اپنا اظہار ہے، جب تک کہ فاش غلطی نہ ہو، اور اگر بہتری کی کوئی صورت فوراً نظر آ جائے تب ضرور کہہ دیتا ہوں، ورنہ چھوڑ دیتا ہوں۔ جیسا یہاں اسد کا مطلع ہے۔ ایک صورت یہ ممکن ہے، غور کروم آسی بھائی سے بھی درخواست ہے۔
مجھ کو مشکل نہیں، جب چاہوں، کنارا کر لوں
یا محبت میں اسی طرح گزارا کر لوں
’برسوں سے یکتا ہونا‘ واقعی غلط لگتا ہے، آسی بھائی سے متفق ہوں۔


بہت شکریہ اعجاز صاحب میں نے آسی صاحب کے مراسلہ کا بغور مطالع کیا ہے اور اُن کی تجاویز کے مطابق کچھ ترامیم بھی کی ہیں، اب کس حد تک کامیاب رہا ہے آپ بتا سکتے ہیں یا پھر خود آسی صاحب۔

آپ کا تجویز کردہ مطلع بھی بہت خوب ہے، مجھے پسند ہے اوراب یہ مشکل ہو گئی ہے کہ کس کو منتخب کیا جائے؟
 

الف عین

لائبریرین
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں
یہ شعر تقطیع کر کے دیکھو! مطلب پہلا مصرع
باقی ترمیمات خوب ہیں، میں متفق ہوں،
 

اسد قریشی

محفلین
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں
یہ شعر تقطیع کر کے دیکھو! مطلب پہلا مصرع
باقی ترمیمات خوب ہیں، میں متفق ہوں،

اعجاز صاحب، میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ تقطیع پر پورا نہیں اُترتا، اگر کوئی تجویز ہو تو مرحمت فرمائیں۔۔۔۔۔
 
مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں
اور چاہوں تو محبت میں گزارا کر لوں
میں شاید ٹھیک سے بیان نہیں کر پایا۔ اس کو یوں دیکھئے:
الف: میرے لئے مشکل نہیں کہ میں ایک پل میں کنارہ کر لوں۔
ب: میرے لئے ایک پل میں کنارہ کر لینا مشکل نہیں۔
میرا خیال ہے اب بات واضح ہو گئی۔
 
Top