فراز مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے

طارق شاہ

محفلین
قبلہ بھی آپ بھی !!! تعارف والے دھاگہ غالباً ابھی تک آپکا منتظر ہے۔ بلکہ فرش دیدہ راہ ہے۔ ذرا اک نظر ادھر بھی :)
احباب کی غزلوں و دیگر تخلیقات پر داد اور رائے دینے کی مشق میں ہوں
دیگرامور و لوازمات پر بھی آپکی توسط سے عبور حاصل کرلونگا ، انشااللہ :)
 

طارق شاہ

محفلین
فاتح صاحب کیوں کر لیں کتاب سے موازنہ؟ :laughing:
ارے فاتح صاحب !آپ سے یوں، کہ آپ نے کتاب کا ذکر کیا تھا، اور میں نے ایک مصرع پر اپنا قیاس ظاہر کیا تھا
اور غلطی کا احتمال پیش نظرتھا، آپ سے باعلم ہونا چاہا تھا بس ;)
جواب کے لئے متشکّر ہوں
 

فاتح

لائبریرین
ارے فاتح صاحب !آپ سے یوں، کہ آپ نے کتاب کا ذکر کیا تھا، اور میں نے ایک مصرع پر اپنا قیاس ظاہر کیا تھا
اور غلطی کا احتمال پیش نظرتھا، آپ سے باعلم ہونا چاہا تھا بس ;)
جواب کے لئے متشکّر ہوں
حضور! ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر با قائمی ہوش و حواس بلا جبر و اکراہ اعلانیہ و بالصراحت و بالفصاحت یہ وضاحتی بیان داغنا چاہتے ہیں کہ ہم سے مراسلۂ ہٰذا میں کسی کتاب نامی شے کے تذکرے کا گناہِ عظیم سرزد نہیں ہوا لہٰذا اس الزام کو فی الفور واپس لے کر خاکسار کو متشکر و ممنون ہونے کا موقع عطا فرمائیں۔ عین غین نوازش ہو گی۔ ;)
 

فاتح

لائبریرین
ارے فاتح صاحب !آپ سے یوں، کہ آپ نے کتاب کا ذکر کیا تھا، اور میں نے ایک مصرع پر اپنا قیاس ظاہر کیا تھا
اور غلطی کا احتمال پیش نظرتھا، آپ سے باعلم ہونا چاہا تھا بس ;)
جواب کے لئے متشکّر ہوں
حضور! ایک اور شے کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ تاریک اور سیاہ تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں۔۔۔ آپ نے دونوں کو ایک ترکیب بنا کر وہ بھی غلط ہجوں کے ساتھ (تاریق سھاھ) کیسے اپنا رکنیت کا نام منتخب کر لیا؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اب بھی، چسپاں تخلیق غلطیوں سے مبرّا نہیں ہے

شاید اب بھی تیرا غم دل سے لگا رکھا ہو

شاید اب بھی تِرا غم دل سے لگا رکھا ہو
۔۔۔ ۔۔
"شاید اب لوٹ کے نہ آئے تیری محفل میں" وزن میں نہیں
میرے خیال میں یوں ہوگا کہ:
شاید اب لوٹ کے آئے نہ تیری محفل میں
۔۔۔ ۔۔
اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں
اس ہی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں

بہت شکریہ جناب نیرنگ خیال و جناب بلال اعظم صاحب
فاتح صاحب اگرکتاب سے موازنہ کرلیں تو ممنون ہوں گا

تاریق صاحب صرف ترا والی غلطی درست ہے، باقی تو ایسے ہی ہے۔ یہ میں نے کتاب سے چیک کی ہے، آپ بھی موازنہ کر لیجیے:


مجھ سے پہلے
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے​
شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو​
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید​
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو​
میں نے مانا کہ وہ بیگانۂ پیمانِ وفا​
کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں​
شاید اب کے لوٹ کے نہ آئے تری محفل میں​
اور کوئی دکھ نہ رلائے تجھے تنہائی میں​
میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں​
وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ​
چاہے امید کی شمعیں ہوں کہ یادوں کے چراغ​
مستقل بُعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ​
پھر بھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے​
مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں​
زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتے ہیں​
دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں​
یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر​
تیرے پاس آئے زمانے سے کنارا کر لے​
تو کہ معصوم بھی ہے زور فراموش بھی ہے​
اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارا کر لے​
اور میں، جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا​
ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہہ جاؤں​
جس پہ پہلے بھی کئی عہدِ وفا ٹوٹے ہیں​
اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
حضور! ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر با قائمی ہوش و حواس بلا جبر و اکراہ اعلانیہ و بالصراحت و بالفصاحت یہ وضاحتی بیان داغنا چاہتے ہیں کہ ہم سے مراسلۂ ہٰذا میں کسی کتاب نامی شے کے تذکرے کا گناہِ عظیم سرزد نہیں ہوا لہٰذا اس الزام کو فی الفور واپس لے کر خاکسار کو متشکر و ممنون ہونے کا موقع عطا فرمائیں۔ عین غین نوازش ہو گی۔ ;)

حضور آپ بھی اس بات کا خیال رکھا کیجیے کہ اس محفل میں مجھ سے معصوم، حلیم طبیعت والے لوگ بھی موجود ہیں، جو اس طرح کے ہوش و ہواس اڑانے والے الفاظ اپنی ننھی اور نازک سی عقل پہ برداشت نہیں کر سکتے۔ لہٰذا دامن کشادہ کیجیے ورنہ کہنا پڑے گا کہ
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
 

طارق شاہ

محفلین
حضور! ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر با قائمی ہوش و حواس بلا جبر و اکراہ اعلانیہ و بالصراحت و بالفصاحت یہ وضاحتی بیان داغنا چاہتے ہیں کہ ہم سے مراسلۂ ہٰذا میں کسی کتاب نامی شے کے تذکرے کا گناہِ عظیم سرزد نہیں ہوا لہٰذا اس الزام کو فی الفور واپس لے کر خاکسار کو متشکر و ممنون ہونے کا موقع عطا فرمائیں۔ عین غین نوازش ہو گی۔ ;)
جناب فاتح صاحب
میری نظر کا قصور رہا، آپ نے محض فراز صاحب کی غزل ہے، لکھا تھا ۔
جبکہ بلال اعظم صاحب نے جس کتاب سے لی گئی ہے کا ذکر کیا تھا، انہوں نے تشفی کردی ہے
میرا یوں لکھا سہونظر کی وجہ سے تھا
جواب کے لئے تشکّر
 

طارق شاہ

محفلین
تاریق صاحب صرف ترا والی غلطی درست ہے، باقی تو ایسے ہی ہے۔ یہ میں نے کتاب سے چیک کی ہے، آپ بھی موازنہ کر لیجیے:


مجھ سے پہلے
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے​
شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو​
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید​
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو​
میں نے مانا کہ وہ بیگانۂ پیمانِ وفا​
کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں​
شاید اب کے لوٹ کے نہ آئے تری محفل میں​
اور کوئی دکھ نہ رلائے تجھے تنہائی میں​
میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں​
وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ​
چاہے امید کی شمعیں ہوں کہ یادوں کے چراغ​
مستقل بُعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ​
پھر بھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے​
مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں​
زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتے ہیں​
دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں​
یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر​
تیرے پاس آئے زمانے سے کنارا کر لے​
تو کہ معصوم بھی ہے زور فراموش بھی ہے​
اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارا کر لے​
اور میں، جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا​
ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہہ جاؤں​
جس پہ پہلے بھی کئی عہدِ وفا ٹوٹے ہیں​
اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں​
جناب بلال اعظم صاحب
اب صحیح ہے، زحمت کے لئے معذرت خواہ ہوں
دراصل آپ کی تصحیح کے بعد بھی غزل کا مصرع شاید
غلطی سے یوں ہی رہ گیا تھا، کہ:
شاید اب لوٹ کے نہ آئے تیری محفل میں

اور اس ' تیری' کی وجہ سے الجھن رہی
اب آپ نے تری لکھ دیا ہے تو صحیح ہے
بہت نوازش ایک بار پھر سے ، جواب کے لئے بہت ممنون ہوں

دراصل طارق شاہ ہے جو رکن بنتے وقت تاریق سھاھ بن گیا:sad:
درستگی کا اگر کوئی طریقہ ہے تو بتا دیجئے گا

 

طارق شاہ

محفلین
جناب نبیل صاحب
اس فوری کروائی اور میرے مسئلہ شناخت کے حل و درستگی کے دلی تشکّر
۔۔۔۔
فاتح صاحب
اس امر میں آپ کی معاونت کے لئے بھی ممنون ہوں

بہت خوش رہیں
 
کہیں ٹائپنگ کی غلطیاں تھیں تو کہیں نسخ فونٹ کی وجہ سے پڑھنا مشکل تھا۔سو نستعلیق میں پوسٹ کررہا ہوں

مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے
شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو

میں نے مانا کہ وہ بیگانۂ پیمانِ وفا
کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں
شاید اب کے لوٹ کے نہ آئے تری محفل میں
اور کوئی دکھ نہ رلائے تجھے تنہائی میں

میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں
وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ
چاہے امید کی شمعیں ہوں کہ یادوں کے چراغ
مستقل بُعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ

پھر بھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے
مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں
زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتے ہیں
دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں

یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے زمانے سے کنارا کر لے
تو کہ معصوم بھی ہے زور فراموش بھی ہے
اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارا کر لے

اور میں، جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا
ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہہ جاؤں
جس پہ پہلے بھی کئی عہدِ وفا ٹوٹے ہیں
اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں
 
Top