"مجھے عشق نہیں، مجھے پیار نہیں "برائے اصلاح

ماہی احمد

لائبریرین
ماہی آپی جی واہ کیا بات ہے(y)
یعنی آئیں اور چھا گئیں:applause: بلے بلے ہو گئی :)
بہت اچھا لکھا ہے، تنقید والا کام میں باقی سب کو سونپتی ہوں :chill:
اللہ کرے کے آپ کے قلم کا زور مزید بڑھے :) :) :)
گھبرائیں نہیں کمنٹ میں کرتی رہوں گی :) :) :)
حجاز بھائی :boxing:
شکریہ بہنا! لڑائی جاری رکھو :) :) :)
 
:( اس بحر کا یہ نام میری سمجھ میں ہی نہیں آیا :eek:
میں نے بھی شک کے عالم میں ہی لکھا ہے۔ درست کی نشاندہی فرما دیجیے براہ کرم!
اوہو۔ اب سمجھا میں! :ROFLMAO:
ایک تو مخبون مجنون لکھ دیا!! دوسرے یہ مخبون ہے بھی نہیں شاید۔ لیکن مقطوع میں کیا شکال ہے؟
 
اوہو۔ اب سمجھا میں! :ROFLMAO:
ایک تو مخبون مجنون لکھ دیا!! دوسرے یہ مخبون ہے بھی نہیں شاید۔ لیکن مقطوع میں کیا شکال ہے؟

:)
اس بحر کا نام بحرِ متدارک مثمن مضاعف مخبون مسکن ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
مثمن مضاعف یعنی مثمن دوگنی،
مخبون خبن سے ہے یعنی رکن کے پہلے سبب خفیف کے ساکن کو گرادینا۔ فاعلن سے الف گر گیا۔ فعِلُن بچا۔
مسکن تسکین اوسط سے ہے۔ یعنی فعلن کے تین مسلسل متحرک حروف سے درمیان والا یعنی عین ساکن ہوا۔
مقطوع قطع سے ہے۔ یعنی رکن کے آخر میں اگر وتدِ مجموع ہو تو اسکے ساکن کو گرا کر اس سے پچھلے متحرک کو ساکن کردینا۔ جیسے فاعلن کو فاعل بروزن فعلن (عین ساکن) اور مستفعلن کو مستفعل بر وزن مفعولن بنانا۔ مگر اس کے استعمال کی پہلے شرط یہ ہے کہ رکن مصرع کے درمیان نہ ہو آخری رکن یعنی عروض و ضرب میں اس کا استعمال جائز ہے۔ اس لئے اس بحر میں ہم تسکینِ اوسط کو تو استعمال کرسکے ہیں مگر بحر الفصاحت کے طریقے پر درمیان میں استعمال محققین کے یہاں جائز نہیں۔ :)
 
:)
اس بحر کا نام بحرِ متدارک مثمن مضاعف مخبون مسکن ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
مثمن مضاعف یعنی مثمن دوگنی،
مخبون خبن سے ہے یعنی رکن کے پہلے سبب خفیف کے ساکن کو گرادینا۔ فاعلن سے الف گر گیا۔ فعِلُن بچا۔
مسکن تسکین اوسط سے ہے۔ یعنی فعلن کے تین مسلسل متحرک حروف سے درمیان والا یعنی عین ساکن ہوا۔
مقطوع قطع سے ہے۔ یعنی رکن کے آخر میں اگر وتدِ مجموع ہو تو اسکے ساکن کو گرا کر اس سے پچھلے متحرک کو ساکن کردینا۔ جیسے فاعلن کو فاعل بروزن فعلن (عین ساکن) اور مستفعلن کو مستفعل بر وزن مفعولن بنانا۔ مگر اس کے استعمال کی پہلے شرط یہ ہے کہ رکن مصرع کے درمیان نہ ہو آخری رکن یعنی عروض و ضرب میں اس کا استعمال جائز ہے۔ اس لئے اس بحر میں ہم تسکینِ اوسط کو تو استعمال کرسکے ہیں مگر بحر الفصاحت کے طریقے پر درمیان میں استعمال محققین کے یہاں جائز نہیں۔ :)
جزاکم اللہ خیرا۔
مزمل بھائی اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں مزید اضافہ کرے، بڑی خوشی ہوتی ہے آپ کے ان تحقیقاتی مراسلات پڑھ کر اور محسوس ہوتا ہے محفل پر ہمارا کئی کئی گھنٹے صرف کرنا بے جا نہیں ہے۔ اللہ آپ کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔
 

الف عین

لائبریرین
چھ صفحات پڑھ گیا تو معلوم ہوا کہ پہلے صفحے پر ہی اصل غزل ہے، اب واپس وہاں جاتا ہوں۔ ابن سعید کی بات درست ہے۔ گلے کا ہار والا استعمال مجھے بھی غلط ہی لگ رہا ہے، چاہے پریم روگ کی کہانی ہو یا بپتا۔ ویسے @ابن سعید، گلے کا ہار کسی بلا یا مصیبت کو بھی کہتے ہیں جو پیچھے پڑ گئی ہو، اور جس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو۔ ان معانی میں تو درست مانا جا سکتا ہے۔ سنجوگ کے درست معنی تو اتفاق ہی ہیں، اگرچہ ملن کے لئے بھی استعمل ہوتا ہے، لیکن کسی اتفاقی ملن کے لئے!!
 

الف عین

لائبریرین
مجھے عشق نہیں، مجھے پیار نہیں، میرا لفظوں کا بیوپار نہیں
یہ جو پریم کی روگ کہانی ہے، میرے گلے میں اس کا ہار نہیں
÷÷جیسا کہ لکھ چکا ہوں کہ گلے کا ہار مصیبت کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن یہاں اس کا استعمال عجیب سا ہے۔
مجھے عشق نہیں، مجھے پیار نہیں، مرا لفظوں کا بیوپار نہیں
یہ جو پریم کی۔۔۔۔۔۔۔دوسرا مصرع کچھ اور کہا جائے۔

پر لفظ تو لفظ ہی ہوتے ہیں، نہ ہنستے ہیں نہ روتےہیں
نہ سونا ہیں نہ چاندی ہیں، نہ دشمن ہیں نہ یار، نہیں
÷÷‘نہ‘ کو دو حرفی استعمال کرنے میں میرے تحفظات کا میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں۔ لیکن لگتا ہے کہ اب مجھے yield کرنا ہی پڑے گا!!! بہتر شکل شاید یوں ہو سکتی ہے۔
گوشبد تو شبد ہی ہوتے ہیں، جو نہ ہنستے ہیں جو نہ روتےہیں
نہ یہ سونا ہیں نہ یہ چاندی ہیں، دشمن بھی نہیں اور یار نہیں

کیوں آبلہ پا کو روتے ہو، کیوں ضبط اب اپنا کھوتے ہو؟
تم ہی نے کہا تھا اس رہ پر کوئی سنگ نہیں، کوئی خار نہیں
÷÷شعر بے ربط یا دو لخت لگ رہا ہے مجھے؟

یہ دنیا جھوٹ فریب بہت، یاں پیت سنجوگ کے ڈھونگ بہت
جو بازیِ الفت کھیلے گا اسے جیت نہیں اسے ہار نہیں
÷÷سنجوگ کی بات ہو چکی ہے، اگر اسے اتفاقیہ ملن بھی مانا جائے تو سنجوگ کے ڈھونگ سمجھ میں نہیں آتے۔
یہ شعر یوں کی جا سکتا ہے
یہ دنیا جھوٹ کی دنیا ہے( پُڑیا ہے)، یہاں پیت کے ، عشق کےڈھونگ بہت
جو پریم کی بازی کھیلے گا اسے جیت نہیں اسے ہار نہیں

اک پھول سجایا بالوں میں، اک نام ہے لکھا ہاتھوں میں
تیری چاہت کا میرے کاندھوں پر اب اور تو کوئی بار نہیں؟
÷÷
اک پھول سجا تھا بالوں میں، اک نام لکھا تھا ہاتھوں میں
اب شاید میرے کاندھوں پر تری چاہت کا کوئی بار نہیں؟

غلطی کی، دل بے مول دیا، اور دل نے عقدہ کھول دیا
یہ جھوٹی ہے جو کہتی ہے مجھے پیار نہیں مجھے پیار نہیں
÷÷یہ بحر ایسی ہے کہ غَلَطی (غ اور ل پر زبر) کی غلطی بھی چل سکتی ہے، لیکن بہتر ہے کہ اسے بھول کر دیا جائے۔ ’یہ جھوٹی‘ میں ’یہ‘ کون؟ ماہی لا کر مقطع بنا دو اگر اپنے بارے میں ہی کہنا چاہتی ہو تو۔۔۔!!
یہ بھول تھی، دل بن مول دیا ، اور بھید اسی نے کھول دیا
جھوٹی ہے ماہی، کہتی ہے ’۔۔۔۔۔۔
 
:)
اس بحر کا نام بحرِ متدارک مثمن مضاعف مخبون مسکن ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
مثمن مضاعف یعنی مثمن دوگنی،
مخبون خبن سے ہے یعنی رکن کے پہلے سبب خفیف کے ساکن کو گرادینا۔ فاعلن سے الف گر گیا۔ فعِلُن بچا۔
مسکن تسکین اوسط سے ہے۔ یعنی فعلن کے تین مسلسل متحرک حروف سے درمیان والا یعنی عین ساکن ہوا۔
مقطوع قطع سے ہے۔ یعنی رکن کے آخر میں اگر وتدِ مجموع ہو تو اسکے ساکن کو گرا کر اس سے پچھلے متحرک کو ساکن کردینا۔ جیسے فاعلن کو فاعل بروزن فعلن (عین ساکن) اور مستفعلن کو مستفعل بر وزن مفعولن بنانا۔ مگر اس کے استعمال کی پہلے شرط یہ ہے کہ رکن مصرع کے درمیان نہ ہو آخری رکن یعنی عروض و ضرب میں اس کا استعمال جائز ہے۔ اس لئے اس بحر میں ہم تسکینِ اوسط کو تو استعمال کرسکے ہیں مگر بحر الفصاحت کے طریقے پر درمیان میں استعمال محققین کے یہاں جائز نہیں۔ :)
بہت شکریہ جناب وضاحت کے لیے۔
:laugh::laugh:
 

ماہی احمد

لائبریرین
آپ نے وقت نکالا بہت شکریہ، کچھ باتیں تھیں جن کی مزید وضاحت ہو جائے تو شکرگزار ہوں گی :)

مجھے عشق نہیں، مجھے پیار نہیں، میرا لفظوں کا بیوپار نہیں
یہ جو پریم کی روگ کہانی ہے، میرے گلے میں اس کا ہار نہیں
÷÷جیسا کہ لکھ چکا ہوں کہ گلے کا ہار مصیبت کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن یہاں اس کا استعمال عجیب سا ہے۔
مجھے عشق نہیں، مجھے پیار نہیں، مرا لفظوں کا بیوپار نہیں
یہ جو پریم کی۔۔۔ ۔۔۔ ۔دوسرا مصرع کچھ اور کہا جائے۔
مقصد یہ ہے کہنے کا پریم کی کہانیاں جیسی چلی آرہی ہیں اور ہر شخص کے پاس ہی ایسا کوئی نہ کوئی نہ قصہ ضرور ہے جسے وہ ہر نفس کو پکڑ پکڑ کر سُناتا ہے (مالا جپنا )اور اپنے درد کو الفاظ میں ڈھال کر بیتی پر روتا ہے تو میرے پاس ایسا کوئی قصہ کہانی نہیں سنانے کو۔

پر لفظ تو لفظ ہی ہوتے ہیں، نہ ہنستے ہیں نہ روتےہیں
نہ سونا ہیں نہ چاندی ہیں، نہ دشمن ہیں نہ یار، نہیں
÷÷‘نہ‘ کو دو حرفی استعمال کرنے میں میرے تحفظات کا میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں۔ لیکن لگتا ہے کہ اب مجھے yield کرنا ہی پڑے گا!!! بہتر شکل شاید یوں ہو سکتی ہے۔
گوشبد تو شبد ہی ہوتے ہیں، جو نہ ہنستے ہیں جو نہ روتےہیں
نہ یہ سونا ہیں نہ یہ چاندی ہیں، دشمن بھی نہیں اور یار نہیں
میں سمجھ نہیں پائی۔

یہ دنیا جھوٹ فریب بہت، یاں پیت سنجوگ کے ڈھونگ بہت
جو بازیِ الفت کھیلے گا اسے جیت نہیں اسے ہار نہیں
÷÷سنجوگ کی بات ہو چکی ہے، اگر اسے اتفاقیہ ملن بھی مانا جائے تو سنجوگ کے ڈھونگ سمجھ میں نہیں آتے۔
یہ شعر یوں کی جا سکتا ہے
یہ دنیا جھوٹ کی دنیا ہے( پُڑیا ہے)، یہاں پیت کے ، عشق کےڈھونگ بہت
جو پریم کی بازی کھیلے گا اسے جیت نہیں اسے ہار نہیں
سنجوگ یہاں کسی گہری دوستی، میل ملاپ، اتفاقات غرض اپنے تمام تر معنوں کے ساتھ یہاں استعمال ہو رہا ہے، اس نظر سے دیکھیں شعر کو۔
پریم لفظ کی تکرار کچھ جچے گی نہیں۔
اک پھول سجایا بالوں میں، اک نام ہے لکھا ہاتھوں میں
تیری چاہت کا میرے کاندھوں پر اب اور تو کوئی بار نہیں؟
÷÷
اک پھول سجا تھا بالوں میں، اک نام لکھا تھا ہاتھوں میں
اب شاید میرے کاندھوں پر تری چاہت کا کوئی بار نہیں؟

:) اگر آپ کی بات مانوں تو دوسرا مصرع پوچھنے کی بجائے بتانے کی طرز پر چلا جائے گا، جو کہ مقصد نہیں۔


غلطی کی، دل بے مول دیا، اور دل نے عقدہ کھول دیا
یہ جھوٹی ہے جو کہتی ہے مجھے پیار نہیں مجھے پیار نہیں
÷÷یہ بحر ایسی ہے کہ غَلَطی (غ اور ل پر زبر) کی غلطی بھی چل سکتی ہے، لیکن بہتر ہے کہ اسے بھول کر دیا جائے۔ ’یہ جھوٹی‘ میں ’یہ‘ کون؟ ماہی لا کر مقطع بنا دو اگر اپنے بارے میں ہی کہنا چاہتی ہو تو۔۔۔ !!
یہ بھول تھی، دل بن مول دیا ، اور بھید اسی نے کھول دیا
جھوٹی ہے ماہی، کہتی ہے ’۔۔۔ ۔۔۔
"یہ" لکھنے والی کو ہی کہا ہے، لیکن اگر "دل" بن کر دیکھا جائے تو "یہ" ہی ہو گا کیونکہ جہاں تک میرا خیا ل ہے دل اپنے ہی مالک کا نام لیتا نہیں سنا گیا کبھی :)
 

الف عین

لائبریرین
آپ نے وقت نکالا بہت شکریہ، کچھ باتیں تھیں جن کی مزید وضاحت ہو جائے تو شکرگزار ہوں گی :)


مقصد یہ ہے کہنے کا پریم کی کہانیاں جیسی چلی آرہی ہیں اور ہر شخص کے پاس ہی ایسا کوئی نہ کوئی نہ قصہ ضرور ہے جسے وہ ہر نفس کو پکڑ پکڑ کر سُناتا ہے (مالا جپنا )اور اپنے درد کو الفاظ میں ڈھال کر بیتی پر روتا ہے تو میرے پاس ایسا کوئی قصہ کہانی نہیں سنانے کو۔

÷÷مالا جپنا اور گلے کا ہار دو الگ الگ محاورے ہیں۔ ان کو خلط ملط مت کرو۔ جو مفہوم تم نے لکھا ہے، وہ شعر سے برامد نہیں ہو تا۔ اسی لئے دوسرے ٹکڑے کو دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے

میں سمجھ نہیں پائی۔
÷÷’نا‘ بر وزن فع، دوحرفی ، غلط سمجھتا ہوں۔ درست طریقہ محض ’ن‘ کی طرح باندگنا ہے، یعنی’ہ‘ کا اسقاط

سنجوگ یہاں کسی گہری دوستی، میل ملاپ، اتفاقات غرض اپنے تمام تر معنوں کے ساتھ یہاں استعمال ہو رہا ہے، اس نظر سے دیکھیں شعر کو۔
پریم لفظ کی تکرار کچھ جچے گی نہیں۔
:) اگر آپ کی بات مانوں تو دوسرا مصرع پوچھنے کی بجائے بتانے کی طرز پر چلا جائے گا، جو کہ مقصد نہیں۔
÷÷پریم لفظ کہاں استعمال ہو رہا ہے اس مصرع میں؟ ویسے ’دل کی بازی‘ بھی لا سکتی ہو۔



"یہ" لکھنے والی کو ہی کہا ہے، لیکن اگر "دل" بن کر دیکھا جائے تو "یہ" ہی ہو گا کیونکہ جہاں تک میرا خیا ل ہے دل اپنے ہی مالک کا نام لیتا نہیں سنا گیا کبھی :)
÷÷یہ دل کی زبانی کہا ں کہا گیا ہے؟
 
چھ صفحات پڑھ گیا تو معلوم ہوا کہ پہلے صفحے پر ہی اصل غزل ہے، اب واپس وہاں جاتا ہوں۔ ابن سعید کی بات درست ہے۔ گلے کا ہار والا استعمال مجھے بھی غلط ہی لگ رہا ہے، چاہے پریم روگ کی کہانی ہو یا بپتا۔ ویسے ابن سعید ، گلے کا ہار کسی بلا یا مصیبت کو بھی کہتے ہیں جو پیچھے پڑ گئی ہو، اور جس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو۔ ان معانی میں تو درست مانا جا سکتا ہے۔ سنجوگ کے درست معنی تو اتفاق ہی ہیں، اگرچہ ملن کے لئے بھی استعمل ہوتا ہے، لیکن کسی اتفاقی ملن کے لئے!!
جی چاچو آپ کی بات بالکل درست ہے۔ گلے پڑنا یا گلے کا ہار ہونا ان معنوں میں مستعمل ہے۔ :) :) :)
 
Top