مجھے جس سمت سے بھی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ (اصلاح کرے پلیز)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم آج پھر آپ کی خدمت میں ایک غزل پیش کر رہا ہوں امید ہے کے آپ سب دوست اس پر نظر ثانی کرے گے اور اصلاح کرئے گے ہمشہ کی طرح۔ تو پھر میں غزل کی طرف آتا ہوں اجازات ہے۔

مجھے جس سمت سے بھی تشنگی محسوس ہوتی ہے
تمہاری ہی فقط مجھکو کمی محسوس ہوتی ہے

جہاں بھی زرد موسم میں ہوا کا شور ہوتا ہے
نجانے کیوں مجھے وہ زندگی محسوس ہوتی ہے

اندھیرا جس کو کہتے ہیں زمانے والے جانے کیون
مجھے اُس رات میں بھی روشنی محسوس ہوتی ہے

گزرتی رات میں اکثر بہت محتاظ رہتا ہوں
مگر پھر بھی یہ آنکھوں میں نمی محسوس ہوتی ہے

یہ موسم تو بدلتے ہیں مگر یہ بھی سنو خرم
تمہاری یاد ہی دل میں جمی محسوس ہوتی ہے

خرم شہزاد خرم

امید ہے ہمشہ کی طرح اس کی بھی اصلاح کی جائے گی شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے خرم صاحب، مطلع اور دوسرا شعر لا جواب ہیں۔ سبحان اللہ۔

چوتھے شعر کے دوسرے مصرعے میں "یہ" کا لفظ آپکی ایک اور عنایت کا امیدوار نظر آتا ہے۔

پانچویں شعر میں 'یہ' کا دو بار استعمال تھوڑی سی ثقاہت پیدا کر رہا ہے کیا خیال ہے

یوں تو موسم بدلتے ہیں مگر یہ بھی سنو خرم

یقین مانیئے آپ کے ہاتھ لیلٰیٔ سخن کے محمل سے بہت دور نہیں ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
لو بھئی خرم۔ پوسٹ مارٹم کر دیا ہے۔ اصلاح کے نام پر۔۔
مجھے جس سمت سے بھی تشنگی محسوس ہوتی ہے
تمہاری ہی فقط مجھکو کمی محسوس ہوتی ہے

تشنگی کا سمت سے تعلق سمجھ میں نہیں آیا۔ پھر ’تمہاری ہی‘ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ باقی سب ٹھیک ٹھاک ہے، تو پہلا مصرعہ اس مطلب کا ہی ہونا چاہئے نا۔

جہاں بھی زرد موسم میں ہوا کا شور ہوتا ہے
نجانے کیوں مجھے وہ زندگی محسوس ہوتی ہے

اس شعر کا خیال بہت خوب ہے، لیکن ’وہ‘ کھٹکتا ہے۔ اگر وہ کا اشارہ ہوا کا شور ہے تو تذکیر و تانیث کی گڑبڑ ہو رہی ہے۔ اگر یوں کہیں۔۔ ’مجھے کچھ زنگی کی سی رمق محسوس ہوتی ہے‘ تو کیسا رہے؟ وارث اور فاتح تمہارا خیال کیا ہے؟

اندھیرا جس کو کہتے ہیں زمانے والے جانے کیون
مجھے اُس رات میں بھی روشنی محسوس ہوتی ہے

’جانے کیوں‘ کا تعلق اگرچہ دوسرے مصرعے سے ہے، لیکن پہلے مصرعے کو روانی سے پڑھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ جانے کیوں زمانے والے اندھیرا کہتے ہیں۔ ۔ مزید یہ کہ رات کو اندھیرا نہیں، اندھیری کہا جاتا ہے۔ واضح اس صورت میں ہوگا:
جسے تاریک سب کہتے ہیں لیکن مجھ کو جانے کیوں
اندھیری رات میں بھی روشنی محسوس ہوتی ہے۔
تو کیسا رہے گا؟؟

گزرتی رات میں اکثر بہت محتاط رہتا ہوں
مگر پھر بھی یہ آنکھوں میں نمی محسوس ہوتی ہے

یہ کی جگہ ’ان آنکھوں‘ کر دیں۔ اگرچہ اس کا گزرتی رات سے تعلق سوالیہ نشان پیدا کر رہا ہے۔

یہ موسم تو بدلتے ہیں مگر یہ بھی سنو خرم
تمہاری یاد ہی دل میں جمی محسوس ہوتی ہے
جب تخاطب خرم سے ہی ہے تو ’تمہاری کمی‘ سے کس کی کمی مراد ہے؟
بہتر ہے کہ یوں کر دیں جس سے تاثر بھی بڑھ جاتا ہے۔

کسی کی یاد ہے، دل میں جمی محسوس ہوتی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
اعجاز صاحب جیسے کہنہ مشق استاد کی پر مغز اصلاح کے بعد مزید کچھ کہنے کی کثر تو باقی نہیں رہتی لیکن ایک دو جگہوں‌ پر اپنی رائے دینا چاہتا ہوں:


جہاں بھی زرد موسم میں ہوا کا شور ہوتا ہے
نجانے کیوں مجھے وہ زندگی محسوس ہوتی ہے

اس شعر کا خیال بہت خوب ہے، لیکن ’وہ‘ کھٹکتا ہے۔ اگر وہ کا اشارہ ہوا کا شور ہے تو تذکیر و تانیث کی گڑبڑ ہو رہی ہے۔ اگر یوں کہیں۔۔ ’مجھے کچھ زندگی کی سی رمق محسوس ہوتی ہے‘ تو کیسا رہے؟ وارث اور فاتح تمہارا خیال کیا ہے؟

اعجاز صاحب! بلا مبالغہ انتہائی خوبصورت مصرع دیا ہے آپ نے۔ شکریہ!


اندھیرا جس کو کہتے ہیں زمانے والے جانے کیون
مجھے اُس رات میں بھی روشنی محسوس ہوتی ہے

’جانے کیوں‘ کا تعلق اگرچہ دوسرے مصرعے سے ہے، لیکن پہلے مصرعے کو روانی سے پڑھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ جانے کیوں زمانے والے اندھیرا کہتے ہیں۔ ۔ مزید یہ کہ رات کو اندھیرا نہیں، اندھیری کہا جاتا ہے۔ واضح اس صورت میں ہوگا:
جسے تاریک سب کہتے ہیں لیکن مجھ کو جانے کیوں
اندھیری رات میں بھی روشنی محسوس ہوتی ہے۔
تو کیسا رہے گا؟؟

یہاں میری ناچیز رائے میں مصرع اولیٰ میں 'جسے' کی مناسبت سے اگر کسی طور مصرع ثانی میں 'اُسے' یا 'اُس اندھیری رات' کا اضافہ کیا جا سکے تو خوبصورتی دونی ہو جائے گی۔ یا مصرع اولیٰ سے 'جسے' کا لفظ خارج کر کے براہ راست 'اِسے' کر دیا جائے جو بعد ازاں 'لیکن' کی رعایت سے اپنے اندر 'گو اِسے' کا مفہوم رکھتا ہے تو کیسا رہے گا؟
اِسے تاریک سب کہتے ہیں لیکن مجھ کو جانے کیوں
اندھیری رات میں بھی روشنی محسوس ہوتی ہے​


گزرتی رات میں اکثر بہت محتاط رہتا ہوں
مگر پھر بھی یہ آنکھوں میں نمی محسوس ہوتی ہے

یہ کی جگہ ’ان آنکھوں‘ کر دیں۔ اگرچہ اس کا گزرتی رات سے تعلق سوالیہ نشان پیدا کر رہا ہے۔

بجا فرمایا اعجاز صاحب کہ آنکھوں میں نمی آنے کا گزرتی رات سے تعلق سوالیہ نشان پیدا کر رہا ہے۔ میرے خیال میں اگر 'گزرتی رات' کی بجائے 'شام ڈھلتے ہی' کہا جائے تو مفہوم واضح ہو جاتا ہے کہ دن بھر کام کاج کی مصروفیت ہوتی ہے لیکن رات ہوتے ہی کسی کی یادیں آن گھیرتی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اور اس مضمون کو اساتذہ سمیت کئی شعرا نے باندھا بھی ہے۔
یوں کہا جائے تو کیسا ہے کہ:
میں اکثر شام ڈھلتے ہی بہت محتاط رہتا ہوں​
لیکن اس میں ایک اور مسئلہ بھی آڑے آتا ہے کہ 'شام ڈھلتے ہی محتاط رہنا' کا محاورہ زبان پر نہیں چڑھ رہا۔ بجائے 'شام ڈھلتے ہی محتاط ہو جانا' بہتر دکھتا ہے لہٰذا اسے یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ:
میں گو محتاط ہو جاتا ہوں اکثر شام ڈھلتے ہی
مگر پھر بھی ان آنکھوں میں نمی محسوس ہوتی ہے​
 

الف عین

لائبریرین
فاتح کی اصلاح واقعی عمدہ ہے، مجھ سے بہتر۔۔۔
اور میں نے زندگی کی رمق نہ جانے کیسے لکھ دیا۔ یہاں تو قوافی ہی روشنی، زندگی ہیں!! میرا خیال در اصل محض خیال کو مصرعے کا روپ دینا تھا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب آپ سب میری اس طرح اصلاح کرتے ہیں آپ سب کے جواب بعد میں دوں گا پہلے یہ بتائے کے میں بہتری کی طرف جا رہا ہوں کہ نہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
مجھے جس سمت سے بھی تشنگی محسوس ہوتی ہے
تمہاری ہی فقط مجھکو کمی محسوس ہوتی ہے

جہاں بھی زرد موسم میں ہوا کا شور ہوتا ہے
نجانے کیوں مجھے وہ زندگی محسوس ہوتی ہے

اِسے تاریک سب کہتے ہین لیکن مجھ کو جانے کیوں
اندھیری رات میں بھی روشنی محسوس ہوتی ہے

گزرتی رات میں اکثر بہت محتاظ رہتا ہوں
مگر پھر بھی ان آنکھوں میں نمی محسوس ہوتی ہے

یوں موسم تو بدلتے ہیں مگر یہ بھی سنو خرم
تمہاری یاد ہی دل میں جمی محسوس ہوتی ہے

خرم شہزاد خرم


اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
آخری شعر میں میرا مشورہ دیکھو۔ اور چوتھے شعر میں فاتح کی بات ہر غور کریں۔



معافی چاہتا ہوں اس طرف تو میری نظر ہی نہیں گی میں ابھی ٹھیک کرتا ہوں شکریہ الف عین صاحب



مجھے جس سمت سے بھی تشنگی محسوس ہوتی ہے
تمہاری ہی فقط مجھکو کمی محسوس ہوتی ہے

جہاں بھی زرد موسم میں ہوا کا شور ہوتا ہے
نجانے کیوں مجھے وہ زندگی محسوس ہوتی ہے

اِسے تاریک سب کہتے ہین لیکن مجھ کو جانے کیوں
اندھیری رات میں بھی روشنی محسوس ہوتی ہے

میں گو محتاط ہو جاتا ہوں اکثر شام ڈھلتے ہی
مگر پھر بھی ان آنکھوں میں نمی محسوس ہوتی ہے

(ویسے میں نے رات اس لےلکھا تھا کے رات کو انسان تنہا ہوتا ہے تو پھر بہت ساری یادیں تنگ کرتی ہیں اس لے لکھا تھا خیر آپ اور فاتح صاحب بہتر جانتے ہیں بہت شکریہ)

یوں موسم تو بدلتے ہیں مگر یہ بھی سنو خرم
کسی کی یاد ہے، دل میں جمی محسوس ہوتی ہے

خرم شہزاد خرم
 

فاتح

لائبریرین
میں گو محتاط ہو جاتا ہوں اکثر شام ڈھلتے ہی
مگر پھر بھی ان آنکھوں میں نمی محسوس ہوتی ہے

(ویسے میں نے رات اس لےلکھا تھا کے رات کو انسان تنہا ہوتا ہے تو پھر بہت ساری یادیں تنگ کرتی ہیں اس لے لکھا تھا خیر آپ اور فاتح صاحب بہتر جانتے ہیں بہت شکریہ)

خرم صاحب! سب سے پہلے تو بہت شکریہ ترامیم قبول کرنے پر۔

جناب بات بہتر جاننے کی نہیں‌بلکہ محض‌ ایک رائے دی تھی کہ میرے خیال میں "گزرتی رات" کا مطلب ہے جب رات گزر رہی ہو یعنی پو پھٹے یا اس سے معآ قبل کا وقت۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اعجاز صاحب نے بھی اس پر حیرت کا اظہار فرمایا تھا کہ محض رات گزرتے وقت کیوں احتیاط برتی جائے؟
اور آپ نے یہ لکھ کر ہماری آرا پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ "رات اس لےلکھا تھا کے رات کو انسان تنہا ہوتا ہے تو پھر بہت ساری یادیں تنگ کرتی ہیں"۔ میں نے آپ کے اسی مفہوم کو 'شام ڈھلتے' کی ترمیم کر کے واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ 'شام ڈھلتے ہی' کا محاورہ اردو میں 'رات ہوتے ہی' کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
 
Top