مجلسِ ادب اکتوبر 2007ء...غزل : نسیمِ سحر

نوید صادق

محفلین
غزل : نسیم سحر

غزل

مِرا رِزقِ مسافت میری خاکستر سے آگے تھا
سو میرا حوصلہ بھی میرے بال و پر سے آگے تھا

مری آنکھوںمیں منظر کی کوئی وقعت نہ تھی یوں بھی
کہ جو کچھ دید کے قابل تھا وہ منظر سے آگے تھا

جنوں طاری تھا مُجھ پر سوچنے، بے خواب رہنے کا!
اور اُس میں کرب سہنا راحتِ بستر سے آگے تھا

دریچہ خواب کا مجھ پر کھُلا تو میں نے یہ دیکھا
کہ میرا اپنا سایا ہی مرے پیکر سے آگے تھا !

مجھے ڈالا ہؤا تھا میری بے تابی نے مشکل میں
مَیں اُس در سے کبھی پیچھے ، کبھی اُس در سے آگے تھا

مجھی پر تیر چلنا تھے، مجھی کو زخم لگناتھے
کہ مَیں اپنے نہایت سُست رَو لشکر سے آگے تھا !

بھلا تاریخ کو یکسر اُلٹ دینا کہاں ممکن؟
مگر یوں ہے کہ پس منظر یہاں منظر سے آگے تھا

نسیم اتنے سفر لکھے ہوئے تھے میری قسمت میں
کہ میراجو قدم تھااپنے بام و در سے آگے تھا

(نسیمِ سحر)
 

نوید صادق

محفلین
ناصر علی سید غزل پر گفتگو کاآغاز کرتے ہیں

Dear naseem Jee......AOA will u plz check ur 5th shair,s 2nd misraa ....main us dar se kabhee peechey....kindly replace KABHEE WITH MAIN....Kabhee us dar se main peechey......Main as pronoun cant be used like other MAIN (IN) this main should be BER WAZN E FA of faelatun AND NOT MA.of MFAELUN I MEAN u cant use it like MEEM(KE NEECHEY ZAIR) IT WILL B E meem ye .u can omit only one harf noongunna but in main(in...ander)u can avoid ye and noongunna BOTH.... I hope u wont mind it.......Plz confirm it from asatiza. I may be wrong.......
Nasir Ali Syed
Secy,Halqa arbab e zouq Peshawar
Chairman urdu deptt,G.C Peshawar
0300-5821433,0912573292
 

نوید صادق

محفلین
فرحت پروین لکھتی ہیں

یہ کیا ہو رہا ہے۔اتنی خاموشی کیوں ہے۔پوری مجلس ادب ہائبرنیشن میں کیوں چلی گئی ہے۔غالبا رمضان مبارک کی وجہ سے سب کی روٹین بدل گئی ہے۔
تو چلئے میں ہی آغاز کرتی ہوں۔ یہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں اور جس کا میں کئی بار اعتراف کر چکی ہوں کہ بس سخن فہم ہوں۔ اچھی شاعری سے لطف لیتی ہوں اور بس۔تبصرے تو شاعروں کے ہوتے ہیں اور جو مزہ بھی دیتے ہیں۔
مگر سنا ہے کہ شاعروں کے پاس عام لوگوں کی نسبت زیادہ حساس دل ہوتا ہے اور لفظوں کے تو وہ بادشاہ ہوتے ہیں۔مگر معلوم نہیں کیا ہوا ہے۔زمانے کا چلن یہ کیسا بدلا ہے کہ اچھے نرم الفاظ میں سلیقے سے بات کرنے کا رواج نہیں رہا۔ محمعد شاہد کی غزل پر گلبن کا تبصرہ پڑھ کر بہت دکھ بلکہ صدمہ ہوا۔کہا تو میں نے بھی تھا اور جناب مسعود منور نے بھی، مگر دوستانہ رنگ میں۔ بات ہی تو پہنچانی ہوتی ہے۔کسی کی اتنی دل شکنی کر کے کیا حاصل؟ اور وہ بھی برسرِ عام۔خیر یہ عالموں کی باتیں ہیں۔ہم جیسے عام قاری اس کے رموزو اسرار کیا جانیں؟
جناب نسیم سحر ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ان کے کئی مجموعہ ہائے کلام منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔وہ روایت سے جڑی ہوئی شاعری کے پیروکار ہیں۔ان کی شاعری بھی ان کی باغ وبہار شخصیت کی طرح تروتازہ ہے۔پوری غزل اچھی ہے مگر مجھے ان کا یہ شعر خصوصا پسند آیا۔

مری آنکھوںمیں منظر کی کوئی وقعت نہ تھی یوں بھی
کہ جو کچھ دید کے قابل تھا وہ منظر سے آگے تھا

میری طرف سے تمام اہلِ محفل کو رمضان مبارک ہو۔
(فرحت پروین)
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت غزل شیئر کرنے پر بہت شکریہ!

جہاں تک ناصر علی سید صاحب کے اعتراض کا تعلق ہے تو انہیں غالب کے یہ دو اشعار ارسال کر دیجیے:
یک الف بیش نہیں صیقلِ آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا
شرحِ اسبابِ گرفتاریِ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا​

ان دونوں اشعار میں غالب نے "مَیں" کو "مَ" باندھا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
اور کچھ تلاش بسیار کے بعد میر کا بھی ایک شعر مل گیا ہے جس میں میر تقی میر نے بھی "مَیں" کو "مَ" باندھا ہے:

شکوہ کروں مَیں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصّہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا​
 

نوید صادق

محفلین
باقی احمد پوری لکھتے ہیں:

نسیم سحر ایک منجھے ہوئے غزل گو ہیں۔اور وہ ہر شعر التزام کے ساتھ کہتے ہیں۔
ان کی مذکورہ غزل بھی ان کی مشاقی کا ثبوت ہے۔
در سے آٓگے پیچھے والا شعر اس غزل کا بھرتی کا شعر ہے۔اور بے تابی کا ایک عام سا اظہار ہے۔
ہر شاعر کی ساری غزل ہی کمال نہیں ہوتی ۔ کچھ شعر بھرتی کے بھی ہوتے ہیں۔شاعر کو خود بھی اس کا احساس ہوتا ہے۔بہرحال نسیمِ سحر جیسے شاعر اس دور میں غنیمت ہیں۔
اللہ ان کو سلامت رکھے۔ وہ خاصی احتیاط سے اور درد مندی سے شعر کہتے ہیں۔
ان کی شاعری بے تاثیر نہیں۔
(باقی احمد پوری)
 

نوید صادق

محفلین
کمال اظہر کی رائے:

Naseeme Sahar A Remarkable Personality And Most Trustworthty Friend/brother
میں نسیمَ سحر کو برسوں سے جانتا ہوں۔ وہ ایک اچھے شاعر ہی نہیں،بہت اچھی انسان بھی ہیں۔ان کی دوستی پر فخر کیا جا سکتا ہے۔

کبھی میں نے شکوک میں پڑا تھا

نسیم نے مجھے آ آ کے گدگدایا ہے
اسی سے میرے لبوں پہ تبسم آیا ہے

اور پھر یہ بھی پڑھا

نسیم سحر لے اڑی کچھ ادائیں
یہ جی میں نعتِ نبی گنگنائیں

دو عالم کا آقا کرے گلہ بانی
سلاطینِ عالم ذرا سر جھکائیں

I Really Appreciate The Remarks Of Janab Baqi Ahmed Puri Relating To Naseem
E Sahars Personality And His Way Of Writing. I Fully Agree With That

Mohammad Kamal Azhar
 

نوید صادق

محفلین
مسعود منور کی رائے

نسمِ سحر کی غزل

نسیمِ سحر کی ہرغزل نسیمِ سحر کا ایک خنک اور منزہ جھونکا ہوا کرتی ہے۔وہ اس عہد کے ایک منفرد اور طرح دار شاعر ہیں۔ مجھے اُن کی زیرِ بحث غزل سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے۔لسانی زوال کے اس عہد میں قادرالکلامی کے ایسے نادر نمونے کم کم دکھائی دیتے ہیں۔نسیمِ سحر کے رنگِ تغزل میں ایک عجیب بے نیازی اور اندازِ دلربائی ہے۔اُن کا اسلوب اُستادانہ ہنر وری کا بھرپور نمونہ ہوا کرتا ہے۔ایک ایک شعر نہایت اہتمام، احتیاط اور فنکارانہ مہارت سے پیراستہ ہوتا ہے۔لیکن شعر گوئی کے باب میں مجھے انور شعور کا ایک شعر اکثر یاد آتا ہے:

اُترا خُمارِ فکر تو کیا دیکھتا ہوں میں
اب تک اُسی جگہ پہ اکیلا کھڑا ہوں میں

خُمارِ فکر اُترنے کے بعد جب شعر کی ہیئت کو دیکھا جائے تو ایک دوسرا منظر نامہ سجھائی دیتا ہے لیکن اُس کا ذکر پھر کبھی سہی۔
عصری تناظر کے آئینے میں زیرِ نظر غزل کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ جدید انسان اُس المیے سے دوچار ہے جسے نیند میں چلنا کہتے ہیں۔ چنانچہ نیند میں دیکھے گئے مناظر اور نیند کا طلسم ٹوٹنے کے بعد کے مناظر میں جو فاصلہ ہے وہ اس غزل میں پوری طرح واضح نظر آتا ہے۔ لہٰذا، رزقِ مسافت کا ذات کے خاکستر سے آگے ہونا،حوصلے کا بال و پر سے آگے ہونا سے لے کر قدم کے بام و در سے آگے ہونے تک وہ افسانوی دنیا نظر آتی ہے جو آدمی کے ٹکڑوں میں بٹے ہونے کی داستان بیان کرتی ہے۔یہ وہ مناظر ہیں جو ناموجود ہیں مگر نظر آرہے ہیں۔یہ کیفیت نظریہ اور عمل کے درمیان معلق رہنے اور کرنے اور سوچنے کے درمیان کا وہ تضاد ہے جو ہماری قومی سرشت بن کر رہ گیا ہے۔
نسیمِ سحر کہتے ہیں:

دریچہ خواب کا مجھ پر کھلا تو میں نے یہ دیکھا
کہ میرا اپنا سایہ ہی مرے پیکر سے آگے تھا

واقعیت میں سایہ اور پیکر کا کھیل خواب کا دریچہ کھلنے سے نہیں دھوپ یا روشنی کا دریچہ کھلنے سے آغاز ہوا کرتا ہے لیکن غزل میں خواب کا تلازمہ باندھا گیاہے۔یہ عصری صورتِ حال کی مبہم ، غیر یقینی اور مصنوعی طور پر تراشیدہ رواروی کا کنایہ ہے۔یہ غزل اپنے متن کے اعتبار سے Fragmentation کی غزل ہے جو ہمارے عہد کے انسان کے کئی خانوں میں بٹے ہونے کے المیے کا بیان ہے ، جس میں یہ طے کرنا مشکل ہے کہ آج کا انسان کس فکری اور ذہنی مخمصے میں گرفتار ہے اور کہاں کھڑا ہے۔
تاہم اس غزل کی شاہراہ سے گزرتے یہ احساس بھی ہوا کہ یہ ایک صوفی کا الہام ہے جس میں وہ اپنے طبعی اور اثیری وجود کے درمیان خود کو منضبط کرنے کی ریاضت میں مگن ہے۔ممکن ہے بعض بعید اشاروں میں یہ غزل تمنا کے دوسرے قدم کی تلاش اور جستجو بھی ہو لیکن ایسا تاثر موہوم ہے۔ غزل کے مطلع میں رزقِ مسافت کی ترکیب نے لطف دیا ہے لیکن ساتھ ہی میری خاکستر سے اقبال کی نظم "فاطمہ بنت عبداللہ" یاد آئی جس میں خاکستر کو مذکر باندھاگیا ہے:

ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔

ممکن ہے دونوں میں سے کسی ایک جگہ کیلی گرافی کی غلطی ہوئی ہو۔
مجموعی طور پر یہ غزل میرے نزدیک بہت خوبصورت، معنی آفریں اورجامع الصفات ہے اور میرے دل کو لگی ہے۔
نسیم! غزل آرائی مبارک ہو۔
 
Top