مجاہد اردو ممتاز ٹریڈ یونین قائد ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کا انتقال پر ملال

الف عین

لائبریرین
’’حیدرآباد۔7؍اکتوبر (پریس نوٹ) اردو حلقوں میں یہ خبر نہایت افسوس اور رنج وملال کے ساتھ سنی جائے گی کہ ممتاز ٹریڈ یونین قائد، بزرگ سینئر کمیونسٹ قائد اور ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار ڈاکٹر راج بہادر گوڑ 7؍اکتوبر بروز جمعہ کی صبح انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8؍اکتوبر کو صبح ساڑھے نو بجے ان کی جسد خاکی کو آخری دیدار کے لئے مخدوم بھون میں رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ 21 جولائی 1918ء کو شہر حیدرآباد کے محلہ گولی پورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم مفید الانام، دھرماونت اور رفاہ عام اسکول میں ہوئی۔ چادر گھاٹ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان درجہ اول میں کامیاب کیا اسی سال عثمانیہ یونیورسٹی سے انٹرمیڈیٹ میں داخل لیا۔ انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کے بعد عثمانیہ میڈیکل کالج میں 1943ء میں ایم بی بی ایس کی تکمیل کی۔ 1952 ء میں ریاستی اسمبلی کی جانب سے راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے اور مدت کی تکمیل کے بعد پھر ایک بار 1958ء میں راجیہ سبھا کی دوسری میعاد کے لئے ان کا انتخاب عمل میں آیا۔ 1962ء میں کمیونسٹ پارٹی کی سٹی پارٹی کے سکریٹری مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ اردو آرٹس کالج کے بانی اراکین میں تھے۔ انتقال سے ایک ہفتہ قبل انہوں نے اردو تعلیمی ٹرسٹ کو تین لاکھ روپے کا گراں قدر عطیہ دیا۔ اردو ہال، انجمن ترقی اردو اور اس سے وابستہ اداروں کی تاحیات خدمت کی۔ ان کی تصانیف ادبی مطالعے اور ادبی تناظر انجمن ترقی اردو (ہند ) نے شائع کیں۔ انہوں نے ادبی تحریروں پر تبصرے لکھے۔ فیض احمد فیض ، فراق گورکھپوری، مجروح سلطانپوری، کیفی اعظمی، پریم چند وغیرہ پر مختلف ادبی رسالوں میں ان کے مضامین شائع ہوئے۔ دہلی کے علاوہ ہندوستان کے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والے ادبی، سیاسی و سماجی اجلاسوں میں شرکت کیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اردو والوں کو کسی خوش گمانی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اردو کو اس کا حق ملنے تک جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو ہندوستان کی زبان ہے اور یہ مختلف تہذیبوں کی ترجمان ہے اور خاص کر جنگ آزادی کی زبان ہے۔‘‘
اوپر کی خبر کے الفاظ محترم حسن فرخ کے ہیں، اور بہت ممکن ہے کہ روزنامہ ’رہنمائے دکن‘، حیدر آباد کے بھی ہوں۔
افسوس کہ اس موت پر ان للہ و انا الیہ راجعون بھی نہیں کہہ سکتے۔ مرحوم غالباًانجمن ترقی اردو کے صدر بھی تھے۔
 

حیدرآبادی

محفلین
گذشتہ اتوار کے روزنامہ سیاست میں ڈاکٹر گوڑ پر ایک بہترین خاکہ موجود ہے جسے مجتبیٰ حسین نے شاید کوئی 18 سال قبل تحریر کیا تھا۔
 
Top