مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے۔ برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، یاسر شاہ

مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے

منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے

جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

لوٹ آتے ہیں پرندے شکم سیر شام کو
لیکن تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

جو لوٹ کر ہے آیا وہ جیسے ہو کوئی اور
حیرت سے تک رہے ہیں یوں دیوار و در مجھے

پہلے سفر کی بھی ابھی اتری نہ تھی تھکن
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے
 
مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے

یہ آپ کا عجز ونیاز ہے وگرنہ غزل تو مکمل ، بھرپور اور انتہائی توانا ہے کہ ہر شعر پر داد ہی داد اور تحسین ہی تحسین ہے ۔مطلعے میں ہمت و استقامت کا خوبصورت پیغام ہے ، جس کے ابلاغ میں دقت اور دشواری کا نام تک نہیں ، واہ۔

منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے

کیا خوبصورت ، توانا اور مردانہ وار خیال ہے ، واہ۔
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یااستاد

جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

شوقِ وصالِ یار اور عمروں کے فاصلے ، واہ کیا کہنے!

لوٹ آتے ہیں پرندے شکم سیر شام کو
لیکن تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

بھئی مجھ سے کوئی اِس شعر کی خوبی پوچھے تو میں کہوں گا اُردُو کے ضرب الامثال کے خزانے میں ایک اور نادر ضرب المثل کا اضافہ ہوگیا، واہ۔

جو لوٹ کر ہے آیا وہ جیسے ہو کوئی اور
حیرت سے تک رہے ہیں یوں دیوار و در مجھے

ساغر نظامی یاد آگئے : حیرت سے تک رہا ہے جہانِ وفا مجھے
مگر آپ یعنی محمد عبدالرؤف کی ذاتی آواز اِس شعر میں گم نہیں ہوگئی برابر موجود ہے اور پوری تابناکی کے ساتھ، واہ۔

پہلے سفر کی بھی ابھی اتری نہ تھی تھکن
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے

بھئی واہ ، ماشاء اللہ
پہلے سفر کی بھی ابھی اُتری نہ تھی تھکن
پھر اک ستارہ دے گیا اِذنِ سفر مجھے
یوں لگتا ہے مختار مسعود نے اپنی کتا ب کا عنوان یہیں سے لیا ہے ’’سفر نصیب‘‘
بہت خوب عبدالرؤف صاحب ، ماشاء اللہ ۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے

یہ آپ کا عجز ونیاز ہے وگرنہ غزل تو مکمل ، بھرپور اور انتہائی توانا ہے کہ ہر شعر پر داد ہی داد اور تحسین ہی تحسین ہے ۔مطلعے میں ہمت و استقامت کا خوبصورت پیغام ہے ، جس کے ابلاغ میں دقت اور دشواری کا نام تک نہیں ، واہ۔

منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے

کیا خوبصورت ، توانا اور مردانہ وار خیال ہے ، واہ۔
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یااستاد

جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

شوقِ وصالِ یار اور عمروں کے فاصلے ، واہ کیا کہنے!

لوٹ آتے ہیں پرندے شکم سیر شام کو
لیکن تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

بھئی مجھ سے کوئی اِس شعر کی خوبی پوچھے تو میں کہوں گا اُردُو کے ضرب الامثال کے خزانے میں ایک اور نادر ضرب المثل کا اضافہ ہوگیا، واہ۔

جو لوٹ کر ہے آیا وہ جیسے ہو کوئی اور
حیرت سے تک رہے ہیں یوں دیوار و در مجھے

ساغر نظامی یاد آگئے : حیرت سے تک رہا ہے جہانِ وفا مجھے
مگر آپ یعنی محمد عبدالرؤف کی ذاتی آواز اِس شعر میں گم نہیں ہوگئی برابر موجود ہے اور پوری تابناکی کے ساتھ، واہ۔

پہلے سفر کی بھی ابھی اتری نہ تھی تھکن
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے

بھئی واہ ، ماشاء اللہ
پہلے سفر کی بھی ابھی اُتری نہ تھی تھکن
پھر اک ستارہ دے گیا اِذنِ سفر مجھے
یوں لگتا ہے مختار مسعود نے اپنی کتا ب کا عنوان یہیں سے لیا ہے ’’سفر نصیب‘‘
بہت خوب عبدالرؤف صاحب ، ماشاء اللہ ۔
شکیل بھائی، میں آپ کی اس داد سے پھول کے کپا ہوا جا رہا ہوں۔ 🙂
مذاق برطرف، آپ کی داد نے سیروں خون بڑھا دیا۔ بہت شکریہ، سلامت رہیں۔
 

مقبول

محفلین
الف عین ، یاسر شاہ

مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے

منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے

جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

لوٹ آتے ہیں پرندے شکم سیر شام کو
لیکن تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

جو لوٹ کر ہے آیا وہ جیسے ہو کوئی اور
حیرت سے تک رہے ہیں یوں دیوار و در مجھے

پہلے سفر کی بھی ابھی اتری نہ تھی تھکن
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے
بہت خووووووب
 
آپ کی داد نے سیروں خون بڑھا دیا
اور جناب ایک اچھی غزل پڑھ کر مجھے جو توانائی ملی ہے اُسے لفظوں میں بیان کرنا محال ہے ۔واقعی آپ کی یہ غزل دھلی دھلائی ،منجھی منجھائی ، چمکتی دمکتی لشکارے مارتی یوں لگتا ہے کہ آپ نے خود اِسے بہت اچھی طرح پالش کرکے ، خوب محنت سے چمکا کر یہاں پیش کیا ہے ۔
مجھے ایک بات اور عرض کرلینے دیجیے وہ یہ کہ آج کل پڑھنے پڑھانے کا رجحان مفقود ہے ۔اب تو نثر نگاری اور شاعری کا جو اُسلوب ہونا چاہیے وہ یہی ہے کہ اسے جتنا آسان رکھ سکیں رکھ کر بات کہیں تو بات پہنچتی ہے وگرنہ بات آئی گئی ہوجاتی ہے تو اِس لحاظ سے بھی یہ غزل خوب ہے یعنی سہلِ ممتنع کے قریب تر ہے، واہ۔
باتوں میں میں یہ کہنا بھول گیا تھا کہ آپ کی پچھلی غزل:
اب اِدھر کو جو آ نکلتا ہے
کوئی بھٹکا ہوا نکلتا ہے
تو واقعی اصلاح طلب تھی ، جسے اساتذہ نے دُرست کیا تووہ چمک ہی گئی ۔ اور یہ غزل بھئی میرے خیال میں تو اصلاح طلب نہیں بلکہ داد طلب اور ستائش کے لائق ہے ، ڈھیروں داد پیش ہے ، ماشاء اللہ ۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اور جناب ایک اچھی غزل پڑھ کر مجھے جو توانائی ملی ہے اُسے لفظوں میں بیان کرنا محال ہے ۔واقعی آپ کی یہ غزل دھلی دھلائی ،منجھی منجھائی ، چمکتی دمکتی لشکارے مارتی یوں لگتا ہے کہ آپ نے خود اِسے بہت اچھی طرح پالش کرکے ، خوب محنت سے چمکا کر یہاں پیش کیا ہے ۔
مجھے ایک بات اور عرض کرلینے دیجیے وہ یہ کہ آج کل پڑھنے پڑھانے کا رجحان مفقود ہے ۔اب تو نثر نگاری اور شاعری کا جو اُسلوب ہونا چاہیے وہ یہی ہے کہ اسے جتنا آسان رکھ سکیں رکھ کر بات کہیں تو بات پہنچتی ہے وگرنہ بات آئی گئی ہوجاتی ہے تو اِس لحاظ سے بھی یہ غزل خوب ہے یعنی سہلِ ممتنع کے قریب تر ہے، واہ۔
باتوں میں میں یہ کہنا بھول گیا تھا کہ آپ کی پچھلی غزل:
اب اِدھر کو جو آ نکلتا ہے
کوئی بھٹکا ہوا نکلتا ہے
تو واقعی اصلاح طلب تھی ، جسے اساتذہ نے دُرست کیا تووہ چمک ہی گئی ۔ اور یہ غزل بھئی میرے خیال میں تو اصلاح طلب نہیں بلکہ داد طلب اور ستائش کے لائق ہے ، ڈھیروں داد پیش ہے ، ماشاء اللہ ۔
اپنی طرف سے کوشش کرتا ہوں کہ اساتذہ کو تکلیف کم سے کم تکلیف دوں۔ یعنی خود حتی الامکان عرق ریزی کر کے ہی اصلاح کے لیے پیش کروں۔ کچھ چیزیں میرے مطالعے کی کمی کے باعث گرفت میں نہیں آتی جو اساتذہ کے وسیع مطالعہ اور مشقِ سخن کے سبب فوراً پکڑی جاتی ہیں۔
آپ کی توجہ، حوصلہ افزائی اور داد پر ایک مرتبہ پھر آپ کا شکریہ، سلامت رہیں
 

مقبول

محفلین
بہت شکریہ مقبول بھائی، سلامت رہیں
مجھے اندازہ تھا کہ کچھ شعر بے چارے پردیسیوں کے دلوں پر اثر ضرور کریں گے۔ 🙂
میرا خیال ہے پچھلی دو غزلوں سے پیچیدہ سے سادہ اندازِ بیاں کی طرف سفر کی وجہ سے آپ کا کلام میرے جیسے کم پڑھ کے لیے سمجھنا آسان ہو گیا ہے 😊
بھائی ہم باہر والے ہرگز بے چارے نہیں ہیں ۔ پاکستان میں رہنے والے بے چارے ہیں بلکہ چارے ہیں 😄
 

الف عین

لائبریرین
واقعی، اصلاح کی ضرورت نہیں، البتہ بہتری تو جیسا میں کہتا ہوں کہ غالب کے کلام میں بھی گنجائش ہے۔ اس کے لئے مشورے دے سکتا ہوں کہ اگر بہتری )محسوس ہو تو قبول کر لو، ورنہ ضرورت تو نہیں ہے، ذیل میں متبادلات کی فہرست بنانے کی کوشش ہے
مطلع:
مت وسوسوں میں ڈال
آخری دو اشعار :
آیا ہے لوٹ کر جو،..
پچھلے سفر کی.....
اور یہ بھی کہ اگر اس کی ترتیب کو الٹ دیں الفاظ بدل کر
اتری نہ تھی ابھی....
 

ارشد رشید

محفلین
مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے

منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے

جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

لوٹ آتے ہیں پرندے شکم سیر شام کو
لیکن تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

جو لوٹ کر ہے آیا وہ جیسے ہو کوئی اور
حیرت سے تک رہے ہیں یوں دیوار و در مجھے

پہلے سفر کی بھی ابھی اتری نہ تھی تھکن
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے
عبدالرؤف صاحب بہت ہی خوبصورت غزل ہے - واہ واہ - سبحان اللہ

جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے
== بس اس میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عمروں کے فاصلہ کی ترکیب شائد حسبِ حال نہ ہو (یعنی ایک جوان ایک بوڑھا) آپ شائد کہنا چاہ رہے ہیں صدیوں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

پہلے سفر کی بھی ابھی اتری نہ تھی تھکن
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے
اس خوبصورت شعر میں اگر تھکن کو تھکان کر دیں تو میرے نزدیک اور زیادہ خوبصورت ہو جاے گا-

لیکن اگر آپ کسی کا بھی کوئ مشورہ نہ لیں، پھر بھی یہ غزل بہت عمدہ ہی رہے گی
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
واقعی، اصلاح کی ضرورت نہیں، البتہ بہتری تو جیسا میں کہتا ہوں کہ غالب کے کلام میں بھی گنجائش ہے۔ اس کے لئے مشورے دے سکتا ہوں کہ اگر بہتری )محسوس ہو تو قبول کر لو، ورنہ ضرورت تو نہیں ہے، ذیل میں متبادلات کی فہرست بنانے کی کوشش ہے
مطلع:
مت وسوسوں میں ڈال
آخری دو اشعار :
آیا ہے لوٹ کر جو،..
پچھلے سفر کی.....
اور یہ بھی کہ اگر اس کی ترتیب کو الٹ دیں الفاظ بدل کر
اتری نہ تھی ابھی....
بہت بہتر استاد صاحب، اب ذرا دیکھیے گا۔

مت وسوسوں میں ڈال مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے

منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے

جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

لوٹ آتے ہیں پرندے شکم سیر شام کو
لیکن تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

آیا ہے لوٹ کر جو وہ جیسے ہو کوئی اور
حیرت سے تک رہے ہیں یوں دیوار و در مجھے

اتری نہیں تھی پچھلے سفر کی ابھی تھکن
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عبدالرؤف صاحب بہت ہی خوبصورت غزل ہے - واہ واہ - سبحان اللہ

جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے
== بس اس میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عمروں کے فاصلہ کی ترکیب شائد حسبِ حال نہ ہو (یعنی ایک جوان ایک بوڑھا) آپ شائد کہنا چاہ رہے ہیں صدیوں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

پہلے سفر کی بھی ابھی اتری نہ تھی تھکن
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے
اس خوبصورت شعر میں اگر تھکن کو تھکان کر دیں تو میرے نزدیک اور زیادہ خوبصورت ہو جاے گا-

لیکن اگر آپ کسی کا بھی کوئ مشورہ نہ لیں، پھر بھی یہ غزل بہت عمدہ ہی رہے گی
آپ کی توجہ اور شفقت کا بے حد شکریہ ارشد بھائی، سلامت رہیں
 

الف عین

لائبریرین
میری مجوزہ ترمیمات کو فوری طور پر قبول مت کرو میاں، ذرا غور کرو، اسی طرح ارشد رشید کی "صدیوں" والی تجویز بھی اچھی لگی ہے۔ ارشد اور شکیل صاحبان بھی دیکھیں کہ کیا مجوزہ ترمیمات سے واقعی بہتری محسوس ہوتی ہے؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میری مجوزہ ترمیمات کو فوری طور پر قبول مت کرو میاں، ذرا غور کرو، اسی طرح ارشد رشید کی "صدیوں" والی تجویز بھی اچھی لگی ہے۔ ارشد اور شکیل صاحبان بھی دیکھیں کہ کیا مجوزہ ترمیمات سے واقعی بہتری محسوس ہوتی ہے؟
آپ کی تجویز میری فہم سے ہر لحاظ سے اعلیٰ ہے اسی لیے فوراً قبول کر لیا۔ ارشد بھائی کا مشورہ مجھے اچھا لگا لیکن ان کا جب نوٹیفکیشن آیا میں مراسلہ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا اس لیے فوراً نہیں دیکھ سکا۔ جواب ارسال کرنے کے بعد دیکھا تو سوچا پہلے آپ دیکھ لیں پھر رد و بدل کرتا ہوں۔
 
مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے
استادِ محترم کی مجوزہ ترمیم کے بعد شعر روزمرہ اور بات چیت کے اور قریب آگیا ہے روانی اور ترنم میں بھی اضافہ ہوا ہے ، سرخ روشنائی سے اجاگر کی ہوئی باقی مجوزہ ترمیمات سے بھی اشعار کی روانی اور ترنم میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ارشد صاحب نے تھکن کی بجائے تھکا ن کا مشورہ دیا ہے وہ بھی صائب ہے اور میرے خیال میں تکان پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
رؤف صاحب! عبید صاحب بالکل صحیح کہہ رہے ہیں - کسی کی بھی تجاویز کو من و عن ماننے سے پہلے آپ کا اپنا اس کو سمجھنا اور اتفاق کرنا ضروری ہے
آپ اپنے مطلع کو ہی لیجیئے - آپ نے کہا

مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
عبید صاحب نے مشورہ دیا
مت وسوسوں میں ڈال مرے چارہ گر مجھ

ان پہ غور کیجیئے - جب آپ کہتے ہیں مت ڈال وسوسوں میں تو یہ ایک تیز و تُند بات ہے - زجر (ڈانٹنے) کی سی کیفیت ہے - اردو میں اس طرح ہم بات کو قطعی اور سخت بنانے کے لیے کہتے ہیں - جیسے خبردار ! مت آنا میرے پاس-
اس کے برعکس جب آپ کہتے ہیں مت وسوسوں میں ڈال تو یہ ایک نرمی کا، ایک گزارش کا عنصر لیے ہوئے ہوتا ہے - دونوں ہی صحیح ہیں اب یہ تو شاعر پر ہے نہ کہ وہ بات کو کس طرح سے کہنا چاہ رہا ہے - ہو سکتا ہے عبید صاحب کا انداز ایسا نرمی کا ہی ہو مگر آپ کا نہ ہو - جو بات آُپ کے دل میں ہو وہ آپ سختی سے کہنا چاہ رہے ہوں تو جناب یہ فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہوتا ہے کسی ا ور کو نہیں -
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
رؤف صاحب! عبید صاحب بالکل صحیح کہہ رہے ہیں - کسی کی بھی تجاویز کو من و عن ماننے سے پہلے آپ کا اپنا اس کو سمجھنا اور اتفاق کرنا ضروری ہے
آپ اپنے مطلع کو ہی لیجیئے - آپ نے کہا

مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
عبید صاحب نے مشورہ دیا
مت وسوسوں میں ڈال مرے چارہ گر مجھ

ان پہ غور کیجیئے - جب آپ کہتے ہیں مت ڈال وسوسوں میں تو یہ ایک تیز و تُند بات ہے - زجر (ڈانٹنے) کی سی کیفیت ہے - اردو میں اس طرح ہم بات کو قطعی اور سخت بنانے کے لیے کہتے ہیں - جیسے خبردار ! مت آنا میرے پاس-
اس کے برعکس جب آپ کہتے ہیں مت وسوسوں میں ڈال تو یہ ایک نرمی کا، ایک گزارش کا عنصر لیے ہوئے ہوتا ہے - دونوں ہی صحیح ہیں اب یہ تو شاعر پر ہے نہ کہ وہ بات کو کس طرح سے کہنا چاہ رہا ہے - ہو سکتا ہے عبید صاحب کا انداز ایسا نرمی کا ہی ہو مگر آپ کا نہ ہو - جو بات آُپ کے دل میں ہو وہ آپ سختی سے کہنا چاہ رہے ہوں تو جناب یہ فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہوتا ہے کسی ا ور کو نہیں -
ماشاءاللّہ ، اس بات نے چودہ طبق روشن کر دیئے ۔میں نے واقعی ایک قطعیت کے انداز میں بات کی تھی۔ جو کہ مجوزہ مصرع سے کافی نرم پڑتا ہوا محسوس ہو رہاہے۔
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
الف عین ، یاسر شاہ

مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے

منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے

جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

لوٹ آتے ہیں پرندے شکم سیر شام کو
لیکن تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

جو لوٹ کر ہے آیا وہ جیسے ہو کوئی اور
حیرت سے تک رہے ہیں یوں دیوار و در مجھے

پہلے سفر کی بھی ابھی اتری نہ تھی تھکن
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے
بہت خوب۔۔ واہ واہ
غزل اور تمام تعریفی کلمات نے خوب مزا دیا ۔ ۔ڈھیروں داد
 
Top