ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو لاہور میں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ

فرخ منظور

لائبریرین
بشکریہ جنگ

لاہور… لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں احمدیوں کے جماعت خانے پر ہونے والے حملے میں 10افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے آپریشن کرکے پانچ حملہ آوروں کو ہلاک اور ایک کو گرفتار کرلیا ہے، گرفتار ملزم نے خود کش جیکٹ پہن رکھی ہے۔ دوسری جانب گڑھی شاہو میں کارروائی جار ی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ماڈل ٹاؤن میں سات کے قریب حملہ آوردھماکے اور فائرنگ کرتے ہوئے قادیانیوں کی عبادت گاہ میں د اخل ہوئے ،او لوگوں کو محصور کرلیا۔ پولیس اور ایلیٹ فورس کی بھاری پہنچ گئی اور دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پولیس کے مستعد جوانوں آپریشن کرتے ہوئے پانچ حملہ آور مارڈالے اور ایک کو زندہ گرفتار کرلیا ، اور اس کی خودکش جیکٹ کو ناکارہ بنادیا۔ ذرائع کے مطابق ماڈل ٹاؤن میں حملہ آور وں کی فائرنگ سے کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 10زخمی ہوگئے ہیں۔ پولیس حکام اور ریسکیو ٹیمیں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جارہے ہیں۔ دوسری جانب گڑھی شاہو میں بھی اسی طرح کا حملہ ہوا ، کچھ دیر قبل دو زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، پولیس کے جوانوں نے قریبی عمارتوں پر پوزیشنیں سنبھالی ہوئی ہیں، جبکہ بکتر بند گاڑی کے ذریعے عبادت خانے کے قریب جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ علاقوں میں خوف وہراس پھیل گیا ہے۔ تحریک طالبان پنجاب نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

منبع
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امريکہ کی جانب سے لاہور ميں دہشت گرد حملوں کی مذمت​

پاکستان ميں امريکی سفارت خانے نے آج گڑھی شاہو اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی شديد مذمت کی ہے۔ پاکستان ميں متعين سفير اين ڈبليو پيٹرسن نے کہا ہے کہ "عبادت ميں مصروف لوگوں پر بزدلانہ حملے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف حملے ہيں"۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں "اشتعال انگيز بيانات میں اضافہ ديکھنے ميں آيا ہے جس سے عدم برداشت فروغ پاتی ہے اور انتہا پسند تشدد کو ترغيب ملتی ہے۔ مذہبی اقليتوں پر انتہا پسندوں کے حملے پاکستان کے ايک روادار اور جمہوری معاشرہ بننے کے عمل کو نقصان پہنچاتے ہيں"۔

ہم جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں، ان کے دوست احباب اور پياروں کے ساتھ اظہار تعزيت کرتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

طالوت

محفلین
80 سے زیادہ ہلاکتوں کی خبر ہے ۔ ایک شیطان کو زندہ پکڑ لیا ہے ۔ تحقیقات کو تمام تر مصلحتوں سے بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے ۔ اور اس کے علاوہ اس سے پہلے بھی جتنے پکڑے گئے ہیں ان کو بھی سر عام کسی معروف شاہراہ پر پھانسی دیا جانا چاہیے ۔
ایک بھارتی سائیٹ کے مطابق اترپردیش کے طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ منصفانہ تحقیقات پر ہی اس حلیم کے اجزا الگ کئے جا سکتے ہیں ۔
وسلام
 

قمراحمد

محفلین
احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملے، 82سے زائد جان بحق​
بی بی سی اُردو​
100528195908_lahore_ahmadi_attack386.jpg

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مختلف مقامات پر احمدیوں کی دو عبادت گاہوں پر مسلح افراد کے منظم حملوں میں بیاسی افراد جان بحق ہوگئے ہیں اور ایک سو سے زائد زخمی ہیں۔ ادھر پنجاب کے وزیرِ قانون نے ان حملوں کو سکیورٹی اداروں کی کوتاہی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ آور وزیرستان سے دس دن قبل لاہور آئے تھے۔
ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات لاہور سے ایک سو کلومیٹر دور چناب نگر میں ادا کی جائیں گی ۔ جماعت احمدیہ کے ترجمان کے مطابق جیسے جیسے لواحقین اپنی میتوں کو لے کرآئیں گے ان کی آخری رسومات ادا کر دی جائیں گی۔

یہ حملے جمعہ کی دوپہر لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو میں اس وقت ہوئے جب احمدیوں کی ایک بڑی تعداد مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ان مراکز میں جمع تھی۔ مقامی پولیس حکام کے مطابق تین مسلح افراد نے ماڈل ٹاؤن کے سی بلاک میں واقع احمدی مرکز میں داخل ہو کر فائرنگ کی جبکہ اسی دوران پانچ سے چھ مسلح افراد گڑھی شاہو میں واقع عبادت گاہ میں گھس گئے اور وہاں موجود افراد پر فائرنگ کی اور انہیں یرغمال بنا لیا۔ یہ دونوں عبادت گاہیں ایک دوسرے سے قریباً پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں ۔

لاہور میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار عباد الحق کے مطابق ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے حملے میں تیئیس افراد موقع پر ہی ہلاک اور انتالیس زخمی ہوئے۔ اس حملے کی اطلاع ملنے پر پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور مقابلے کے بعد عمارت میں موجود افراد کو باہر نکالا جبکہ ایک حملہ آور کو ہلاک جبکہ دو کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتار کیے جانے والے افراد میں سے ایک نے خودکش جیکٹ پہن رکھی تھی تاہم وہ دھماکہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ لاہور کے کشمنر خسرو پرویز خان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ماڈل ٹاؤن حملے کے بعد دو افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان ابتدائی طور پر جو شواہد ملے ہیں ان میں اسلحہ اور خودکش جیکٹس شامل ہیں۔
لاہور کے ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر سجاد بھٹہ کے مطابق گڑھی شاہو میں دو خودکش حملہ آوروں نے عبادت گاہ میں داخل ہو کر دھماکے کیے جبکہ ان کے دیگر ساتھی عمارت کی چھت اور مینار پر چڑھ گئے اور وقفے وقفے سے پولیس پر فائرنگ کرتے رہے۔ تاہم پولیس نے دوگھنٹے تک جاری رہنے والی کارروائی کے بعد ان حملہ آوروں کو ہلاک کر کے عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا۔

ریسکیو ذرائع کے مطابق گڑھی شاہو میں خودکش دھماکوں اور حملہ آوروں کی فائرنگ سے چونتیس افراد موقع پر ہی مارے گئے جبکہ چوہتر کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا جبکہ صوبہ پنجاب کے ڈائریکٹر ہیلتھ فیاض رانجھا نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان دونوں حملوں میں زخمی ہونے والے کئی افراد نے ہسپتال میں دم توڑ دیا ہے اور اب ہلاکتوں کی کل تعداد بیاسی تک پہنچ گئی ہے۔ جان بحق ہونے والوں میں جماعتِ احمدیہ لاہور کے امیر اور احتساب عدالت کے سابق جج منیر اے شیخ بھی شامل ہیں۔
وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے جمعہ کی رات ہسپتال جا کر ان حملوں میں زخمی ہونے والے افراد کی عیادت کی۔ اس موقع پر انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ متعلقہ حکام کو اس واقعے کی رپورٹ سنیچر کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ادھر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہا ہے کہ لاہور حملے سکیورٹی اداروں کی کوتاہی کی نتیجہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد چھ کے قریب تھی اور وہ جنوبی اور شمالی وزیرستان سے دس زور قبل لاہور آئے تھے۔ رانا ثناء اللہ خان کے بقول ’حملہ آور لاہور میں اس جگہ پر رہے جہاں سے لوگ تبلیغ کے لیے جاتے ہیں اور جہاں سے لوگ پورے ملک میں اللہ کا پیغام پھیلاتے ہیں اور وہیں سے ان کے ہینڈلر نے نہیں لیا اور حملوں کی جگہ پر پہنچایا‘۔

لاہور پولیس نے قتل ، اقدام قتل اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے علاوہ دیگر فوجداری دفعات کے تحت ان حملوں کے الگ الگ مقدمات درج کرلیے ہیں۔ ایک مقدمہ تھانہ ماڈل ٹاؤن میں درج کیا گیا ہے اور اس کے مدعی کرنل ریٹائر انور ہیں۔ اس مقدمہ میں دو افراد یعنی عبداللہ عرف محمد اور امیر معاویہ کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ دیگر ملزم نامعلوم ہیں۔ ایس پی سول لائنز حیدر اشرف کے مطابق گڑھی شاہو حملے کے بارے میں مقدمہ چودھری منور نے چھ نامعلوم افراد کے خلاف درج کروایا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کو سنہ انیس سو چوہّتر میں پارلیمان نے غیر مسلم قرار دیدیا تھا اور بعد میں جنرل ضیاءالحق کےدور میں آنے والے ایک نئے قانون امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت ان پر مزید پابندیاں عائد کی گئیں۔جماعت احمدیہ کا ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے اراکین کو پاکستان میں شدید مذہبی تعصب کا سامنا ہے اور متعدد بار ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہوچکے ہیں اور ہر سال ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں احمدیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔
 

قمراحمد

محفلین
ہم احتجاج نہیں کرتےمعاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں‘
بی بی سی اُردو
پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے ربوہ سے بی بی سی کے ساتھ ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ’آج کے حملے میں واضح طور احمدی ہی ہدف تھے‘۔

انھوں نے کہا کہ ’حملہ آوروں نے ان کی دوعبادت گاہوں پر اس وقت حملہ کیا جب ہزاروں لوگ عبادت میں مصروف تھے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’حملہ آوروں کو اتنا موقع ملا کہ وہ آرام سے ان عبادت گاہوں کے بڑے ہالوں میں داخل ہوئے اور وہاں لوگوں کو نشانہ بنایا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ابھی نقصان کی مکمل تفصیلات نہیں ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق ان حملوں میں ساٹھ سے ستر افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔‘
جماعت احمدیہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہا ان کو نہیں معلوم اس حملے میں کون لوگ ملوث ہیں البتہ ان کے مطابق اس کا مقصد ’احمدیوں کو نقصان پہنچانا اور ان کو ڈرانا اور دھمکانا ہے‘۔

سلیم الدین نے کہا کہ’ پاکستان میں کئی برسوں سے پاکستان میں احمدیوں پر حملوں کے واقعات پیش آرہے ہیں اور ہم نے حکومت سے بارہا کہا کہ ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے لیکن حکومت نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔‘

ان کو یہ بھی شکایت ہے کہ آج کے حملوں کے بعد بھی حکومت کے کسی اہلکار نے ان کے ساتھ کوئی رابط نہیں کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ آج کے حملوں کے بعد یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم محفوظ ہیں یا نہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ہم پرامن لوگ ہیں ہم سڑکوں پر آکر احتجاج نہیں کرتے ہیں اور ہم اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑا ہے اور وہیں ہمارا بدلہ لیں گے۔
 

فخرنوید

محفلین
میں اس چیز کے بالکل بر خلاف ہوں کہ اس واقعہ کو مذہبی رنگ یا کوئی مذہبی چپقلش قرار دیا جائے۔ پورا ملک ہی اس آگ میں جل رہا ہے۔ اب اگر احمدی اس کا حصہ بن گئے ہیں ۔ تو انہیں اسے مذہبی رنگ نہیں دینا چاہیے کہ وہ اقلیت ہیں اس لئے ہوا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مسلم عبادت گاہوں میں بھی ایسی وارداتیں ہوئی ہیں۔
دہشت گرد کا نا تو کوئی مذہب ہے اور نہ ہی ان میں انسانیت۔۔۔ کوئی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اور وہ پر امن ہو۔ اس کی جان قیمتی ہے۔ اور قانون اور مذہب اسلام کی نظر میں اس کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت وقت پر لازم ہے۔
 

mfdarvesh

محفلین
ایک انسان اور پاکستانی اس خونریز واردات میں جان سے گئے ہیں قطعہ نظر مذہب اس کو صرف دہشت گردی کی نظر سے دیکھنا ہوگا، سب کی جان و مال اہم ہیں اور اسلام اس قسم کی دہشت گردی کی اجازت تو قطعا نہیں دیتا
 
Top