لہروں پہ کوئی خواب روانہ تو نہیں ہے.... بحر ہزج ..... غزل اصلاح کے لئے۔

ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
استاد محترم جناب الف عین اور احباب سے گزارش ہے کہ اصلاح اور مشورؤں سے سرفراز فرمائیں۔
بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

دنیا ہے، ہمیشہ کا ٹھکانہ تو نہیں ہے
کنکر ہے یہ اک ،قند کا دانہ تو نہیں ہے

ناکام محبت کا فسانہ تو نہیں ہے
یادوں کا ذخیرہ ہے خزانہ تو نہیں ہے

کچھ چبھتے ہوئے جملے ہیں مخصوص مرے نام
ہر بار وہی شخص نشانہ تو نہیں ہے

کچھ غزلیں توجہ کو بٹانے کے لئے ہیں
ہر شعر مرے غم کا ٹھکانہ تو نہیں ہے

دنیا کی طلب سچی محبت پہ ہو حاوی
معقول وجہ ہے یہ بہانہ تو نہیں ہے

اک یاد صفِ ضبط سے آگے چلی آئی
کہتی تھی کہ وہ "شغلِ شبانہ" تو نہیں ہے

چلتے ہوئے جب آپ کو دیکھا تو لگا یوں
لہروں پہ کوئی خواب روانہ تو نہیں ہے

خوشبو سی کوئی نرم، دبے پاؤں ہے کاشف
تکیہ یہ، کہیں آپ کا شانہ تو نہیں ہے ؟!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھی غزل ہے کاشف بھائی! زمین پسند آئی !
مطلع دو لخت لگ رہا ہے ۔ دیکھ لیجئے


چلتے ہوئے جب آپ کو دیکھا تو لگا یوں​
لہروں پہ کوئی خواب روانہ تو نہیں ہے​

یہ شعر بھی توجہ طلب ہے ۔ ۔۔۔۔ لگا یوں کہنے کہ بعد اس طرح کا سوالیہ بیان نہیں آئے گا ۔ درست بیانیہ یوں ہونا چاہئے: جب آپ کو چلتے ہوئے دیکھا تو یوں لگا کہ لہروں پہ کوئی خواب روانہ ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ ظہیر احمد ظہیر کا خیال مطلع کے بارے میں درست ہے۔ مطلع واقعی مجھے بھی دو لخت لگا۔ لیکن خواب روانہ والے شعر میں ان کی بات سے متفق نہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ بیابیہ مجھے قافیے کی وجہ سے پسند نہیں۔ خواب رواں تو ہو سکتا ہے، تم نے تو اسے کسی سفر پر روانہ کر دیا!!!
اس کے علاوہ
معقول وجہ ہے یہ۔۔۔۔۔
وجہ کا غلط تلفظ باندھا گیا ہے۔ یہں سبب کر دو۔
باقی درست ہے۔
 
بہت خوب! اچھی غزل ہے کاشف بھائی! زمین پسند آئی !
مطلع دو لخت لگ رہا ہے ۔ دیکھ لیجئے



چلتے ہوئے جب آپ کو دیکھا تو لگا یوں

لہروں پہ کوئی خواب روانہ تو نہیں ہے​

یہ شعر بھی توجہ طلب ہے ۔ ۔۔۔۔ لگا یوں کہنے کہ بعد اس طرح کا سوالیہ بیان نہیں آئے گا ۔ درست بیانیہ یوں ہونا چاہئے: جب آپ کو چلتے ہوئے دیکھا تو یوں لگا کہ لہروں پہ کوئی خواب روانہ ہے ۔
بہت بہت شکریہ ظہیر بھائی۔
مطلع سے متعلق میں بھی مطمئن نہیں تھا۔ حسن مطلع اصل میں اسی دو لختی کو نظر انداز کرنے کی ایک کوشش تھی۔ :)
روانہ والے شعر پر آپ سے متفق ہوں لیکن ردیف آڑے آتی ہے۔ سوچتا ہوں ۔ شاید کوئی بہتر متبادل مل سکے !
جزاک اللہ۔
 
اچھی غزل ہے۔ ظہیر احمد ظہیر کا خیال مطلع کے بارے میں درست ہے۔ مطلع واقعی مجھے بھی دو لخت لگا۔ لیکن خواب روانہ والے شعر میں ان کی بات سے متفق نہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ بیابیہ مجھے قافیے کی وجہ سے پسند نہیں۔ خواب رواں تو ہو سکتا ہے، تم نے تو اسے کسی سفر پر روانہ کر دیا!!!
اس کے علاوہ
معقول وجہ ہے یہ۔۔۔۔۔
وجہ کا غلط تلفظ باندھا گیا ہے۔ یہں سبب کر دو۔
باقی درست ہے۔
شکریہ استاد محترم
مطلع پر دوبارہ کام کرتا ہوں۔ اصل میں شروع میں سوچا کہ مطلع غزل میں نہ رکھوں لیکن پھر صحیح معنوں میں "بھیڑ" ہی دیا۔:p
خواب سے زیادہ "محبوب" کی چال پر تبصرہ تھا استاد محترم۔ لیکن دیکھتا ہوں کہ اسے شاید اور بہتر کر سکوں۔
جزاک اللہ ۔
 
بہت خوب کاشف بھائی۔۔۔۔۔۔ کافی عرصے بعد محفل میں آنے پر آپکی حوبصورت غزل پڑھنے کو ملی۔۔۔۔
مجھے مطلع میں ایک تبدیلی تجویز کرنی ہے۔۔۔۔۔۔ کنکر ہے۔۔۔۔ کوئی قند کا دانہ تو نہیں ہے
 
غزل اصلاح کے بعد پیش ہے۔
استاد محترم جناب الف عین اور احباب سے گزارش ہے کہ اصلاح اور مشورؤں سے سرفراز فرمائیں۔

کنکر ہے کوئی،قند کا دانہ تو نہیں ہے
جینے کی سزا، فرضِ دو گانہ تو نہیں ہے

ناکام محبت کا فسانہ تو نہیں ہے
یادوں کا ذخیرہ ہے خزانہ تو نہیں ہے

کچھ چبھتے ہوئے جملے ہیں مخصوص مرے نام
ہر بار وہی شخص نشانہ تو نہیں ہے
استاد محترم ایک نیا شعر بھی شامل کر رہا ہوں:
جس طرح میں اپنے پہ جراحت کا ہوں مجرم
یوں درپہءِ آزار زمانہ تو نہیں ہے

کچھ غزلیں توجہ کو بٹانے کے لئے ہیں
ہر شعر مرے غم کا ٹھکانہ تو نہیں ہے

دنیا کی طلب سچی محبت پہ ہو حاوی
معقول سبب ہے یہ بہانہ تو نہیں ہے


اک یاد صفِ ضبط سے آگے چلی آئی
کہتی تھی کہ وہ "شغلِ شبانہ" تو نہیں ہے

چلتے ہوئے جب آپ کو دیکھا تو لگا یوں
لہروں پہ کوئی خواب روانہ تو نہیں ہے

خوشبو سی کوئی نرم، دبے پاؤں ہے کاشف
تکیہ یہ، کہیں آپ کا شانہ تو نہیں ہے ؟!
 
آخری تدوین:
بہت خوب کاشف بھائی۔۔۔۔۔۔ کافی عرصے بعد محفل میں آنے پر آپکی حوبصورت غزل پڑھنے کو ملی۔۔۔۔
مجھے مطلع میں ایک تبدیلی تجویز کرنی ہے۔۔۔۔۔۔ کنکر ہے۔۔۔۔ کوئی قند کا دانہ تو نہیں ہے
شکریہ
آپ کی تجویز کے بعد ہی نیا مطلع سامنے آ پایا۔
جزاک اللہ
 
Top