لونڈی اور بیوی میں فرق!

لیکن لونڈیوں کے بارے میں صریح وضاحت کے ساتھ احکامات اور پرمیشنز موجود ہیں، تو پروموٹ نہ کرنے والی کونسی بات رہ گئی۔
اسی لڑی کی پہلی پوسٹ ہی دیکھ لیں، جس کے رد میں دو آیات یا دو احادیث پیش نہیں کی جا سکیں۔ ہاں کچھ لفاظی وغیرہ دیکھنے میں آئی ہے۔
دو الگ الگ موضوع ہیں۔
غلام بنانا الگ مسئلہ اور غلام بنائے جانے کے بعد کے احکام الگ۔ آپ پہلی بات کو تسلیم نہ کریں گے تو دوسری خود بخود حرف غلط ہوجائے گی۔ سو آپ اگر "غلام بنانا جائز تصور نہیں کرتے تو اس سوال کا محل ہی نہیں" اور اگر درست سمجھتے ہیں تو پھر میں یہ سوال کروں گا کہ اب جنہیں غلام بنایا جاچکا، ان کے معاشی اور معاشرتی معاملات کیسے مینیج کیے جائیں؟؟
یہ سب اس کے ساتھ ہے کہ یہ سب ماضی کا قصہ ہوچکا۔ جیساکہ اوپر کہہ چکا ہوں۔ موجودہ زمانے کی بات نہیں۔:)
 
"اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تا کہ تم فلاح پاؤ (۹۰) شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کر ا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ۔ (۹۱)اور تم اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو، اگر اعتراض کروگے تو یہ جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے ( ۹۲) ( سورۂ مائدہ )
ان آیات کے نازل ہونے کے بعد شراب اور جوئے کی قطعی حرمت کا اعلان ہوگیا، جب منادی حضرت ابو طلحہ ؓ کے مکان پر سے گزرا تو اس وقت ان کے مکان پر محفل ناؤ و نوش برپا تھی، انھوں نے حضرت انس ؓ بن مالک سے کہا، ذرا سننا‘ کیا اعلان ہے، معلوم ہوا کہ شراب کی حُرمت کا اعلان ہے، حکم دیا کہ شراب کے مٹکے اٹھا ؤ اور باہر لے جا کر توڑ دو، شراب کے رسیوں نے بے تامل شراب کے خُم توڑ ڈالے اور اس روز یہ حال تھا کہ مدینہ کی گلیوںمیں شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی۔

۔۔۔۔۔
کیا ایسا حکم اگر غلاموں اور لونڈیوں کے متعلق بھی آ جاتا تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین فی الفور تمام غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد نہ کر دیتے؟
ہائیں فاتح بھائی!
میں کیا کہوں۔ اس کا جواب اللہ میاں سے لیں۔ اوپر بھی یہی کہا ہے۔:)
 

زیک

مسافر
میرا پہلا سوال پڑھیں۔ یہی بات میں بھی کر چکا ہوں، لیکن دوسری بات کے ساتھ ملا کر۔
مصنف کا بھی یہی کہنا ہے کہ"منسوخ" نہیں کہہ سکتے۔ (میں نے بھی یہی کہا جس پر آپ کہتے ہیں کہ بات دور تک نکل جائے گی) سو اقتباس کی ضرورت ہی نہ تھی۔
ہاں یوں کہیں گے کہ "معروضی" طور پر ختم ہوچکی ہے، اور اس کے لیے اگر اس بات کے بعد والی عبارت کا اقتباس پیش فرما دیں تو قارئین کے سامنے دونوں پہلو آجائیں گے۔
:):)
یہ لیں دوسرا اقتباس:

“یہاں ایک اہم بات کی طرف تنبیہہ کرنا ضروری ہے، وہ یہ کہ دنیا کی اکثر اقوام نے آپس میں یہ معاہدہ کر لیا ہے اور یہ بات طے کر لی ہے کہ آئندہ کسی جنگی قیدی کو غلام نہیں بنایا جائے گا، اکثر اسلامی ممالک بھی اس معاہدے میں شریک ہیں۔ لہذا جب تک یہ معاہدہ باقی ہے اس وقت تک اسلامی ممالک کے لئے بھی کسی قیدی کو غلام بنانا جائز نہیں۔ البتہ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا معاہدہ کرنا جائز بھی ہے؟ متقدمین کے کلام میں تو مجھے اس کا حکم صراحتاً نہیں ملا۔ البتہ ظاہر یہ ہے کہ ایسا معاہدہ کرنا جائز ہے، اس لئے کہ غلام بنانا کوئی واجب اور ضروری تو نہیں، اور قیدی کے بارے میں چار مباح صورتوں میں سے ایک صورت ہے، اور اس بارے میں امام اور حاکم کو اختیار ہے، اور آزاد کرنے کی فضیلت اور دوسرے احکام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شریعت اسلامیہ کی نظر میں آزادی زیادہ پسندیدہ ہے، لہذا جب تک دوسری اقوام اس معاہدے کی پابندی کریں اور اس معاہدے کو نہ توڑیں اس وقت تک اس قسم کا معاہدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔”

آخر میں جو شرط ڈالی ہے اس پر بھی غور کریں
 

سین خے

محفلین
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ پریکٹیکل وجوہات کی بنیاد پر اسلام کے لئے ممکن نہ تھا کہ غلامی کو اس وقت ختم کیا جاتا۔ لہذا ایسے اصول وضع کئے گئے کہ غلاموں کی حالت بہتر ہو اور غلامی وقت کے ساتھ ختم ہو جائے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو پھر ہمیں یہ جانچنا ہو گا کہ مسلمانوں نے حقیقت میں کیا کیا۔ اگر 1300 سال تک مسلمان غلامی ختم کرنے میں ناکام رہے تو پھر یہ لاجک فیل ہو جاتا ہے۔

اسلام نے بہت سارے کام حرام قرار دئیے لیکن کیا وہ کبھی پوری طرح ختم ہو سکے جیسے شراب نوشی، قتل، ناچ گانا، سود وغیرہ؟ اسلام کی بحیثیت doctrine اہمیت ہے اور رہے گی۔ اور آنے والی نسلوں کو اس کی ضرورت رہے گی۔ آج بے شک حق کی بات کرنے والے کم ہوں لیکن امید ہے کہ کبھی نا کبھی زیادہ بھی ہوں گے۔

مناسب ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ غلامی کا نظام باقاعدہ طور پر کب ختم ہوا؟ اس طرح یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ مسلم دنیا اس حوالے سے کس قدر قصوروار ہے۔

مسلم دنیا قصوروار ہے۔ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ بہت جگہ سے راہیں ختم کر دی گئی ہیں تو انھوں نے اور راستے تلاش کر لئے۔
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
زیک کی خدمت میں یہ سوال ہے کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام کے آنے کے بعد یکلخت غلامی کرنا بوجوہ ممکن نہ تھا۔
کیوں؟ ایک انسان کی فطری آزادی سے بڑھ کر کیا مقدم ہو سکتا ہے؟ جہاں لوگوں کے غلط خداؤں کو مسترد کر دیا گیا وہاں غلام انسان کی فورا آزادی کیوں نہیں مہیا کر دی گئی؟
 

زیک

مسافر
ڈرتے ڈرتے ایک اور عرض بھی کرتا چلوں، جب بھی کوئی ناپسندیدہ کام یا بات سامنے آئے تو فوراً یہ موقف سامنے آتا ہے کہ ایسا اسلام میں نہیں ہے، ہاں مسلمان ایسا کر رہے ہیں تو ان کا اپنا فعل ہے۔ اسلام کا اس میں کیا قصور۔
لیکن آج تک میں نے یہ رعایت دوسرے مذاہب کو یا اس کے پیروکاروں کو دیئے جاتے نہیں دیکھی۔
یاد رہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں غلامی کے حامی اور مخالف دونوں ہی بائبل سے دلائل پیش کرتے تھے اور تین فرقے تو غلامی پر اختلاف کی وجہ سے دو دو حصوں میں بٹ گئے تھے
 

سین خے

محفلین
لیکن لونڈیوں کے بارے میں صریح وضاحت کے ساتھ احکامات اور پرمیشنز موجود ہیں، تو پروموٹ نہ کرنے والی کونسی بات رہ گئی۔
اسی لڑی کی پہلی پوسٹ ہی دیکھ لیں، جس کے رد میں دو آیات یا دو احادیث پیش نہیں کی جا سکیں۔ ہاں کچھ لفاظی وغیرہ دیکھنے میں آئی ہے۔

Narrated Abu Hurayra: The Prophet (SAW) said, “Allah says, ‘I will be against three persons on the Day of Resurrection: One who makes a covenant in My Name, but he proves treacherous. One who sells a free person (as a slave) and eats the price. And one who employs a labourer and gets the full work done by him but does not pay him his wages.’” [Bukhari]


قرآن میں جنگ کی صورت میں غلام بنانے کا آپشن ہے اور کسی اور صورت سے غلام بنانے کو جائز قرار نہیں دیا گیا ہے۔ سورۃ محمد کی چوتھی آیت میں تو غلام بنانے کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔

فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً

محمد، 47 : 4

’’پھر اس کے بعد یا تو (انہیں) (بلا معاوضہ) احسان کر کے (چھوڑ دو) یا فدیہ (یعنی معاوضہِ رہائی) لے کر (آزاد کر دو)۔‘‘


یعنی یہ بھی آپشنز موجود ہیں۔ دوسری بات احسان کر کے غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم ہے اور اس کا ثبوت سنت نبوی ﷺ میں بہت جگہ ملتا ہے۔

اگر کسی کو براہ راست احکام چاہئیں تو یہ آپ کو کہیں نہیں ملیں گے۔ قاری حنیف ڈار کے جو لنکس مہیا کئے ہیں وہ پڑھئے۔

اگر مثال کے طور پر احکام دے دئیے گئے ہوتے تو ایک سوال ابھرتا ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت غلام بنائے جاتے تھے؟ معیشت بھی غلامی پر ہی چلتی تھی۔ جنگ میں بھی غلام بنائے جاتے تھے۔ مسلمانوں کے لئے یہ حکم آگیا ہوتا تو مسلمانوں کو تو ہر حال میں جنگی قیدی چھوڑنا ہی پڑتے۔ باقی غیر مسلم ریاستیں کتنا فائدہ اٹھاتیں؟

سارا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام میں غلامی کو ریگولیٹ کیا گیا ہے۔ اگر ان احکامات پر عمل ٹھیک طرح ہوتا تو صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ اتنی پابندیاں آچکی ہیں تو انھوں نے نت نئے طریقے ایجاد کر لئے اور چور راہیں تلاش کر لیں۔ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اب جبکہ غلامی کا کوئی جواز نہیں ہے تو بھی اسے جائز قرار دینے کے لئے کوششیں کی جاتی رہتی ہیں۔

ڈرتے ڈرتے ایک اور عرض بھی کرتا چلوں، جب بھی کوئی ناپسندیدہ کام یا بات سامنے آئے تو فوراً یہ موقف سامنے آتا ہے کہ ایسا اسلام میں نہیں ہے، ہاں مسلمان ایسا کر رہے ہیں تو ان کا اپنا فعل ہے۔ اسلام کا اس میں کیا قصور۔
لیکن آج تک میں نے یہ رعایت دوسرے مذاہب کو یا اس کے پیروکاروں کو دیئے جاتے نہیں دیکھی۔

جو لوگ نہیں دیتے وہ غلط کرتے ہیں۔ عیسائیت اور یہودیت میں بھی برائیوں کے بارے میں واضح احکام ہیں اس کے باوجود کہ خدا کے کلام میں بہت بری طرح سے تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ایک عام عیسائی یا یہودی کی حرکات کو کسی صورت ان کے مذہب سے منسلک نہیں کیا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
اسلام نے بہت سارے کام حرام قرار دئیے لیکن کیا وہ کبھی پوری طرح ختم ہو سکے جیسے شراب نوشی، قتل، ناچ گانا، سود وغیرہ؟ اسلام کی بحیثیت doctrine اہمیت ہے اور رہے گی۔ اور آنے والی نسلوں کو اس کی ضرورت رہے گی۔ آج بے شک حق کی بات کرنے والے کم ہوں لیکن امید ہے کہ کبھی نا کبھی زیادہ بھی ہوں گے
جی یہی تو دکھ ہے کہ غلامی کے لئے تو یہ بھی نہ کیا
 

زیک

مسافر
ایسا حکم اگر غلاموں اور لونڈیوں کے متعلق بھی آ جاتا تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین فی الفور تمام غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد نہ کر دیتے؟
کیا آپ آزاد صحابہ کرام میں سے کسی کا نام لے سکتے ہیں جو کسی لونڈی یا غلام کے کبھی مالک نہیں رہے؟
 
چلیں اب بات چل ہی پڑی ہے تو ایک گذارش!!

اسلام نے غلامی ختم کی یا نہیں، غلامی کی کیا تاریخ رہی، غلاموں کے ساتھ کیسے سلوک روا رکھے گئے۔ ان سب سوالات پر بات ہوچکی ہے۔

اب آتے ہیں اس طرف کہ مغرب کو ہوش آیا اور ان کے اقدامی عمل سے یہ سسٹم ختم ہوا۔ چلیں شکریہ مغرب!!

یہ بات سبھی کو نوٹ کرنی چاہیے کہ ہم جب موازنہ کر رہے ہیں تو "اسلام کے نظریہ غلامی" اور "مغرب کے نظریہ آزادی" کے درمیان نہیں بلکہ "اسلام کے نظریہ غلامی اور مغرب کے نظریہ قید اور گرفتاری" کے درمیان کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اب اگر دشمن کے لوگ پکڑے جاتے ہیں تو کیا کیا جاتا ہے؟ چھوڑ دیا جاتا ہے؟ شاید نہیں۔
یا قید کرکے جیل میں ڈالا جاتا ہے؟ ایسا ہی دیکھا گیا ہے۔ یہ قید "غلامی" سے کس قدر بہتر ہے؟
دنیا میں اس وقت کتنے جنگی قیدی ہیں؟ کن حالات سے گذر رہے ہیں؟ کون اس بارے میں جانتا ہوگا اور کس کو درون خانہ کی خبر ہوگی۔
صرف مغربی ممالک میں کل کتنے قیدی ہیں؟ ان کے ساتھ برتاؤ میں کون سے رولز اینڈ ریگولیشنز کا پاس رکھا جا رہا ہے؟ ان قید خانوں کی "برکت" سے کس رفتار سے جنگی جرائم میں کمی آرہی ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کی روشنی میں اسلام کے تصور غلامی اور مغرب کے پرائزن سسٹم میں فرق معلوم کیا جا سکتا ہے۔

ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلام کے لفظ "غلامی" کے لفظ کو چاہے کتنا ہی بھیانک بنا کر پیش جائے، بہرحال یہ مغرب کے پرائزن سسٹم سے ہزارہا درجہ بہتر ہے۔ بلامبالغہ اسلام میں سینکڑوں غلاموں کی مثال دی جا سکتی ہے جو اپنی زندگی سے لے کر آج تک مسلمانوں کے سر کا تاج ہیں۔ بیسیوں ایسے ہیں جو حکمرانی اور سپہ سالاری کے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اس کے برخلاف مغرب کے قید خانہ سسٹم کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس قید سے نکلنے والوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، سوائے اس کے کہ وہ زندگی کا ایک اہم حصہ جیل میں"گلا سڑا" کر باہر آگئے۔

اس پر مستزاد یہ کہ قیدی کو جیل کے اندر ایک بند کوٹھری میں بند کر دینا ایک کھلی فضا میں "دوستانہ تعلق" کی نسبت کیسے بہتر ہوسکتا ہے؟؟
ببیں تفاوتِ رہ از کجا است تا بکجا!!

یہاں میں اس رویے کا ذکر نہ کروں گا جو جنگی قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے اور جس کی خبریں بسا اوقات ان کال کوٹھریوں سے باہر آتی ہیں تو عقل وہوش ششدر رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک المناک داستان ہے۔

پھر جنگ میں گرفتار ملزمان کے ساتھ کیا سلوک جائے؟
کیا تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے؟
کیا یہ ممکن ہے؟ کیا انسانیت کے ہمدرد ایسا کر پائیں گے؟ اور کیا ایسا کیا جانا قرین مصلحت ہوگا؟
ہماری رائے میں ان حقائق کے پیش نظر اسلام نظریہ غلامی آج کے قید کے تصور سے بہرحال بہتر اور بہت بہتر ہے۔ چاہے الفاظ کو کتنا ہی بھیانک بنا کر پیش کیا جائے۔

آخر میں یہ کہ مجھے تو اب ہنسی آرہی ہے جبکہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ امریکی جیلوں میں کل کتنے قیدی "ٹھسے" ہوئے ہیں۔ (چاہے کسی بھی جرم کی بنا پر ہوں۔) پتہ نہیں جیلوں میں ان کے ساتھ کیا حسن سلوک ہو رہا ہوگا۔
 
عبید بھائی قید وقتی ہوتی ہے اور غلامی دائمی اور نسل در نسل۔

غلامی کے اختتام میں صنعتی ترقی کا بہت بڑا دخل ہے، اگر یہ نہ ہوتی تو غلامی اب بھی جاری رہتی۔

باقی آپ تمام حضرات سے گزارش ہے کہ مزید اس موضوع پہ بحث کر کے میرے ایمان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔

شکریہ
 

زیک

مسافر
یہ بات سبھی کو نوٹ کرنی چاہیے کہ ہم جب موازنہ کر رہے ہیں تو "اسلام کے نظریہ غلامی" اور "مغرب کے نظریہ آزادی" کے درمیان نہیں بلکہ "اسلام کے نظریہ غلامی اور مغرب کے نظریہ قید اور گرفتاری" کے درمیان کر رہے ہیں۔
ذکر آپ مغرب کا کر رہے ہیں اور اعداد و شمار امریکہ کے شرمناک والے۔ ہم مانتے ہیں کہ جیلوں کے سلسلے میں امریکی کردار بہت برا ہے اور فی لاکھ آبادی کے لحاظ سے امریکہ میں سب سے زیادہ قیدی ہیں۔ یہاں آہستہ آہستہ اس بارے میں شعور بڑھ رہا ہے اور امید ہے کہ آئندہ سالوں میں صورتحال بہتر ہو گی۔
 

یاز

محفلین
کیا عارضی طور پر بھی تحفے میں دی جا سکتی ہے؟
کیا کرائے پر بھی دی جا سکتی ہے؟
نوٹ: میرے یہ سوالات سو فیصد فقہی حوالے سے ہیں اور احسان صاحب ہی ان کے شافی جوابات عنایت فرمائیں۔
انتہائی اہم سوالات ہیں۔
نیز یہ کہ لونڈی کے مستعمل ہونے کے سلسلے میں کچھ اصول و ضوابط بھی ہوں گے یا فقط مالک کی مرضی و منشا پہ منحصر؟
 

فاخر رضا

محفلین
اسلام نے غلاموں کے ساتھ اچھے سلوک کا کہا اس میں کوئی شک نہیں۔ غلامی ختم کرنا ساتویں صدی میں ممکن نہ تھا اس میں مجھے شک ہے لیکن پھر بھی مان لیتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اسلام یا مسلمانوں نے غلامی ختم کی۔ آج بھی چند علما کو چھوڑ کر کوئی یہ کہنے کو راضی نہیں کہ آج سے لے کر قیامت تک غلامی حرام ہے
سلام
سر بات یہ ہے کہ اسلام صرف چودہ سو سال پہلے آیا، جنگیں اور قیدی وغیرہ پہلے سے چل رہے ہیں. اس حوالے سے اگر اسلام شروع میں ہی غلامی ختم کردیتا اور غلام چھڑانے کے اصول وضع نہ ہوتے تو مسلمانوں کو نقصان ہوتا. یعنی یہ کہ مسلمان اگر کسی کو قیدی بنائے تو قانون نہ ہونے کے باعث فوراً چھوڑ دے جبکہ دشمن مسلمانوں کو قید کرکے رکھے. ایسے میں جنگی قیدیوں کو چھڑانے کے لئے تبادلے کا اصول بھی نہ ہوپاتا.
اسلام کا مزاج یہ کہتا ہے کہ غلامی ختم کی جائے لہٰذا آپ دیکھیں گے کہ روزے کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے. اسی طرح اگر کوئی غلام یا کنیز مسلمان ہوجائے تو وہ آزاد ہوجاتی ہے. اسی طرح غلام خرید کر آزاد کرنے کا ثواب بیان ہوا ہے. غلام بنانے کا اور مثلاً افریقہ سے انسانوں کو پکڑ کر لانے کا کہیں نہیں کہا گیا.
اب بات یہ رہ گئی کہ کیا آج اسلام میں غلامی جائز ہے یا نہیں تو اسکا جواب یہ ہے کہ نہیں. یعنی یہ کہ قانون تو موجود ہے کہ اگر کبھی ضرورت پڑے تو کام آجائے مگر غلامی معاشرے سے ختم ہوگئی ہے چاہے اسلامی ممالک کا معاملہ ہو یا امریکی معاشرہ. امریکہ میں (بعض اسٹیٹس میں) غلامی شاید چالیس سال پہلے تک جائز تھی مگر اب نہیں ہے.
میں ایک اور مثال دے دوں کہ کچھ لوگوں کو پوری زندگی میں ایک دفعہ بھی تیمم کی ضرورت نہیں پڑتی تو کیا تیمم کا قانون ختم کردیا جائے. (مثال صرف مثال کے لئے ہے)
ہمیں کبھی بھی کسی بوکو حرام اور دیگر آئی ایس وغیرہ کو اسلام کا نمائندہ نہیں کہنا چاہیے. ان سے بہتر نمائندگی تو شاید ہمارے کھلاڑی اور ایکٹرز اور گانا گانے والے مداری کرلیتے ہیں.
کسی بھی مذہب کا پیمانہ اس مذہب کو پیش کرنے والے اور ان کی تعلیمات اور کتاب خدا ہوسکتی ہے اور ان کے بعد ان کی تعلیمات کو اچھی طرح سمجھنے والے
 
عبید بھائی قید وقتی ہوتی ہے اور غلامی دائمی اور نسل در نسل۔

غلامی کے اختتام میں صنعتی ترقی کا بہت بڑا دخل ہے، اگر یہ نہ ہوتی تو غلامی اب بھی جاری رہتی۔

باقی آپ تمام حضرات سے گزارش ہے کہ مزید اس موضوع پہ بحث کر کے میرے ایمان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔

شکریہ
جی ٹھیک ہے۔ اب بالکل بات نہیں کروں گا۔
 
Top