لند ن اور ماہ رمضان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریحانہ روحی

ابو کاشان

محفلین
اب کی بار لندن میں رمضان گذارنے کی وجہ سے میں بہت فکر مند تھی کیونکہ رمضان میں ہمارے روزمرہ کے معمولات یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں پھر روزہ رکھنے کے اوقات کا توازن اور دیگر مذہبی فرائض کی ادائیگی میں تسلسل کا ایک خاص نظام قائم ہوجاتا ہے جس کا انتظام و انصرام کسی فرد واحد کے بس کی بات نہیں۔ پھر وہ فضاء بھی نہیں ہوتی جس میں سب مل جل کر باآسانی اپنی مشکل حل کرلیتے ہیں۔ تراویح کیلئے بھی دور دراز مساجد میں جانا پڑتا ہے اور روزے کا دورانیہ بھی نسبتاً طویل ہوتا ہے۔ دفتری اوقات بھی وہی معمول کے مطابق چلتے رہتے ہیں غرضیکہ روزے رکھنا مغربی ممالک میں انتہائی مشکل ترین عبادت تصوّر کی جاتی ہے لیکن لندن آکر معلوم ہوا کہ واقعی دنیا بہت بدل چکی ہے۔ یہاں روزے رکھنا بالکل ویسا ہی ہے جیسے کراچی میں۔ بلکہ یہاں کا خوش گوار موسم تو روزے کی سختی کا ذرا برابر بھی احساس نہیں ہونے دیتا۔ اذان بھی الحمدللہ ٹی وی پر بااہتمام سنائی دیتی ہے اور اس خدمت میں ریڈیو سروس بھی بہت فعال ہے۔ میڈیا کی ترقی نے معاشروں میں ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا نے تو بطور خاص کلچرل فضاء ہم وار کرنے میں گراں قدر کام کیا ہے۔ اسلامک چینلز کھل چکے ہیں جو رمضان میں 24 گھنٹے اسی حوالے سے پروگرام پیش کرتے رہتے ہیں۔ ریڈیو اس کے علاوہ ہیں۔ یہاں کل وقتی ماہ رمضان ہونے کا محترم احساس موجود ہے۔ اب تو محلے محلے اسلامک سینٹرز موجود ہیں۔ ان میں تراویح کا باقاعدہ انتظام ہے۔ یہاں خواتین کیلئے بھی مساجد میں صفیں مخصوص ہیں۔ کراچی کی طرح اسلامک کلینڈرز ہر گھر میں موجود ہیں جن میں سحر و افطار کے اوقات موجود ہیں۔ لوگ الارم لگاکر سحری میں اٹھتے ہیں اور اٹھتے ہی ٹی وی اور ریڈیو لگادیتے ہیں۔ باہر سے البتہ اذان کی آواز نہیں آتی۔ تو خیر یہ بھی کوئی انہونی نہیں۔ میں کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں رہائش پذیر ہوں۔ وہاں بھی مسجد کافی دور ہے اور اذان کی آواز نہیں آتی۔ میں بھی وہاں سحری اور افطاری کیلئے ٹی وی کا سہارا لیتی ہوں۔ تو بھلا یہاں اور وہاں میں کیا فرق ہوا؟ روزے کا دورانیہ البتہ یہاں نسبتاً واقعی طویل ہے مگر مجال ہے جو ذرا برابر بھی پریشانی ہوتی ہو۔ لندن کیا اب تو دنیا بھر میں پاکستانی کمیونٹی بہت منظّم اور مضبوط ہے۔ یہاں پاکستان سے بھی زیادہ ذوق و شوق اور توجہ کے ساتھ مذہبی فرائض ادا کئے جاتے ہیں۔ پوری کمیونٹی اس وقت انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ ماہ رمضان کی عبادات میں مصروف ہے۔ یہاں یہ بات بطور خاص تحسین کے لائق ہے کہ نوجوان نسل بھی اس سعادت کے حصول میں کسی سے پیچھے نہیں۔ یہاں زیادہ تر لوگوں کا روزہ ہوتا ہے۔ پورے پورے خاندان اس نیکی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں روزہ چھوڑنے کا رواج ہی نہیں ہے۔ افطاری باقاعدگی سے مسجدوں اور اسلامک سینٹروں میں بھیجی جاتی ہے۔ سحری کا بھی خصوصی انتظام ہوتا ہے۔ پاکستانی اکثریت والے علاقے تو بالکل پاکستان کا منظر پیش کرتے ہیں۔ دکانوں پر پھینی، جلیبی، پکوڑے، سموسے، دہی بڑے سب دستیاب ہیں۔ افطاریاں بھی زوروں پر ہیں۔ پاکستان کا ہر ذائقہ دستر خوان کی زینت ہے۔ جب سے مسالا انڈسٹری نے ترقی کی ہے، تب سے پوری دنیا میں اپنے علاقائی کھانے من و عن پکائے اور کھائے جاسکتے ہیں۔ رہی سہی کسر ٹی وی کے کوکنگ پروگراموں نے پوری کردی ہے۔ اسی طرح مغرب کی نماز اور تراویح کیلئے مسجدیں بھری ملتی ہیں۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہاں کے مسلمان اپنے بچوں میں مذہبی ذمہ داری پیدا کررہے ہیں۔ خود بھی مثال بن رہے ہیں اور نئی نسل کی کردار سازی میں بھی بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ خصوصاً نائن الیون کے بعد مغرب میں پروردہ نئی نسل اس کنفیوژن سے باہر آرہی ہے جو دو تہذیبوں کے ٹکراؤ سے پیدا ہوا تھا۔ پاکستان میں نئی نسل اس ذمہ داری اور یک سُوئی کے ساتھ مذہب کی آگہی میں دلچسپی نہیں لے رہی، جس طرح دیارِ غیر میں مغربی کلچر اور تعلیم سے بہرہ مند نئی نوجوان مسلمان نسل اپنی بنیادوں کی طرف متوجہ ہورہی ہے۔ دراصل پاکستان میں مذہبی ماحول اور مذہبی عبادات کی ادائیگی معمول ہے‘ یہاں تو سب ہی مسلمان ہیں‘ ہمیں کسی سے سند نہیں لینی نہ کسی سے ہمارا دوبدو مقابلہ ہے‘ نہ ہمیں کوئی رول ماڈل بن کر کسی کو متوجہ کرنا ہے۔ نہ ہم کسی دوسرے مذہب کے مدّمقابل ہوکر کوئی تجربہ کررہے ہیں‘ شاید یہی زمینی حقائق ہیں کہ ہم مذہبی کلچر کو بہت ایزی لیتے ہیں۔ سب کچھ پکا پکایا مل جائے تو کسی تردّد کی کیا ضرورت ہے۔ عید قریب آرہی ہے‘ تو عید کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں۔ بازار جائیں تو یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ پاکستان نہیں ہے البتہ جب قیمت پونڈز میں بتائی جائے تو خیال آتا ہے کہ ہم لندن میں ہیں۔ عید پر وہی لباس، وہی چُوڑیاں، وہی کون مہندی، وہی سویّاں شیرخورمہ اور دیسی مٹھائیاں مطلوب و مقصود مومن ہیں۔ مردوں کے شلوار قمیض اور کرتے پاجامے شو کیسوں کی زینت ہیں۔ تراویح وہی 5 روزہ اور 10 روزہ چل رہی ہیں۔ دکان دار منہ مانگے دام وصول کررہے ہیں۔ آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔ وہی مول تول اور جذباتی بلیک میلنگ جو ہمارا خاصہ ہے‘ یہاں بھی موجود ہے۔ بھلا چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے کب جائے۔ یہاں عید کیلئے رویتِ ہلال کا حال البتہ پاکستان سے بھی گیا گذرا ہے۔ وہاں تو ہم دو عیدوں کو ہی روتے رہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ سرحد اور فاٹا والوں کو اللہ ہدایت دے کہ وہ کبھی عید پورے پاکستان کے ساتھ منائیں۔ مگر لندن کا احوال تو بہت زیادہ ایڈوانس ہے۔ یہاں کئی کئی عیدیں ہوتی ہیں‘ سنا ہے ہر محلے کی عید الگ دن ہوتی ہے۔ گویا عید ہفتہ منایا جاتا ہے۔ شنید ہے کہ ائمہ حضرات عید کے دن کا تعیّن کرکے مسجدوں میں تالا ڈال دیتے ہیں تاکہ حکم عدولی نہ ہوسکے۔ اور یہ اعلانات علی الاعلان ٹی وی پر نشر کئے جاتے ہیں۔ اس بات کا احساس کئے بغیر کہ دوسرے مذاہب کے پیروکار ہمارے تعلق سے کیا قیاس کریں گے؟ دوسرا انتہائی شرمندہ کرنے والا مشن زکواۃ خیرات کی اپیلیں ہیں جو رمضان المبارک کے توسط سے کی جاتی ہیں۔ بے پناہ چیرٹی ٹرسٹ قائم ہیں اور ان لوگوں نے چینلز کے چینلز اس دھندے کیلئے مخصوص کررکھے ہیں‘ان کا فنڈ ریزنگ چینل 24 گھنٹے آن ایئر رہتا ہے اور رمضان کا نام لے لیکر اس قدر ڈھٹائی سے چندہ طلب کرتا ہے کہ سن کر شرم محسوس ہوتی ہے۔ مسلمان قوم کا وقار مجروح ہوتا ہے اور اس اندازِ کاسہ گری سے لالچ کی بو آتی ہے۔ ہمارے پاکستان کے بہت سے نامی گرامی فلاحی ٹرسٹ بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہمارے تمام چینل اس ضمن میں انتہائی تعریف کے مستحق ہیں کہ یہاں پر بھی فنڈ ریزنگ پروگرام ہوتے ہیں لیکن انتہائی باوقار حدود میں۔ ورنہ لندن میں تو یہ انداز تقریباً گھگھیا اور گڑگڑاکر بھیک مانگنے سے مشابہ ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ فلاں صاحب نے ہمارے فنڈ میں 5 پونڈ دیئے ہیں‘ ان کے حالات کی بہتری کیلئے دعا کی جائے۔ استغفراللہ۔ دوسرا محیرالعقول نیٹ ورک یہاں جادو ٹونے اور تعویذوں کے کاروبار کا ہے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ پاکستان چونکہ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ہے، اس وجہ سے لوگ وہاں بوجوہ ان خرافات پر یقین کرتے اور اپنے آپ کو توہّمات میں گرفتار کرتے ہیں مگر لندن میں ان سب چیزوں پر بے پناہ اعتقاد‘ حیرت میں مبتلا کرتا ہے۔ ہمارے یہاں تو یہ کاروبار ڈھکے چھپے انداز میں ہوتا ہے۔ علی الاعلان اس کا طبل نہیں بجایا جاتا۔ مگر لندن میں یہ مافیا اتنی مضبوط ہے کہ ٹی وی پر ”باباجی“ اپنے درشن کے ساتھ اپنے سلفی توڑ اور جادو ٹونے اور عملیات اور بدعملیات کی تشہیر کرتے نظر آتے ہیں۔ جی جناب تو یہ ہے جدید ترین ماڈرن‘ مغربی دنیا کا ترقی یافتہ حواس باختہ اور امن کی فاختہ لندن۔۔۔!

اصل ربط
 

مغزل

محفلین
ہیںںںںںںںںںں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے پرانہ مضمون ہے ۔
یا پھر از حد دروغ گوئی۔۔۔
موصوفہ یہیں کراچی میں ہیں
گزشتہ دنوں ایک مشاعرے میں
گلبرگ میں ملاقات ہوئی تھی۔

حیرت ہے ۔۔۔ ؟؟
اب باقی مضمون پر کیا کہوں ؟؟؟
 

ابو کاشان

محفلین
بھائی جان ربط بھی ساتھ میں موجود ہے۔
میں نے تو کل کے جنگ میں ہی پڑھا تھا۔ اب نجانے کتنے عرصہ پہلے لکھا گیا ہو گا مگر چھپا تو کل ہی کے اخبار میں ہے۔
 

مغزل

محفلین
صحیح فرماتے ہیں ۔۔ آپ ۔۔۔
جناب میں نے آپ پر کوئی حرف تھوڑی ہی اچھالے ہیں۔
میں تو اس کھلے ’’ تی زاد ‘‘ کی بات کررہا ہوں جو یہ نام
نہاد سینئرز روا رکھے ہوئے ہیں۔۔ (ربط میں نے دیکھ لیا تھا)
 
Top