ٹائپنگ مکمل لفظ از صبا اکبر آبادی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب فقط شبیر ہیں یا عابدِ بیمار ہیں
یہ ضعیف و تشنہ لب ہیں اور وہ ناچار ہیں
بیبیاں ہیں سر نگوں خاموش ماتم دار ہیں
سیدہ کے لال کی رخصت کے اب آثار ہیں
اکبر و قاسم نہیں، پیر و جواں کوئی نہیں
شمع ہے، پروانہ آتش بجاں کوئی نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سب سے رخصت ہوکے زینب کی طرف آئے امام
وہ بہن قربان جس نے کر دیے دو لالہ فام
جس کے ذمے ہے حَرم کی آبرو کا اہتمام
کہہ نہ پائی جو زباں وہ کر دیا اشکوں نے کام
نطق اپنا جلوہ اوّل دکھا کر رہ گیا
لفظ رخصت لب پہ آیا تھرتھرا کر رہ گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
رَزم گہ میں خطبہ شبیر کی گونجی صدا
لفظ جو آیا زباں پر تیر و خنجر بن گیا
کان اپنے بند کیا کرتا گروہِ اشقیا !!
ضربتِ الفاظ سے ہر سنگ دل رونے لگا
آیتیں قرآن کی اور ابنِ حیدر کی زباں
معجزہ الفاظ کا سبطِ پیمبر کی زباں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دفعتاً سالارِ لشکر کو ذرا آیا جو ہوش!
دل میں سوچا ہے خلافِ مصلحت رہنا خاموش
چیخ کر بولا، سپاہِ تُند کیوں ٹھنڈا ہے جوش!
کون ہے تم سا زمانے میں جَری اور سخت کوش
تا کُجا سنتے رہو گے گفتگو شبیر کی
ہاں روانی اب دکھاؤ جوہر شمشیر کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
روتے روتے جب ذرا چونکے جوانانِ سپاہ
آفتاب کعبہ کی جانب کیا روئے سیاہ
کیا ٹھہر سکتی رُخِ سبطِ پیمبر پر نگاہ
بند جنّت کے ہوئے دَر، کُھل گئی دوزخ کی راہ
فوج تھی موجود، دَستوں کے پَرے لگنے لگے
آتش دوزخ کے شعلے بھی ہَرے لگنے لگے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس طرف نکلی تڑپ کر ابنِ حیدر کی حُسام
دور سے برقِ جہندہ نے کیا جس کو سلام
بھر گیا اعدا کی لاشوں سے لڑائی کا مقام
اَب ٹھہرنے کی سکت تھی اور نہ یارائے قیام
حملہ تیغِ حُسینی سے وہ ہلچل ہو گئی
خون سے یوں تر ہوئی مٹی کہ دَلدل ہو گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تیغ اور رہوار کے اوصاف کیا لکھے قلم
اتنی تیزی ہے تخیل میں نہ اس میں اتنا دم
کون گِن سکتا تھا اس کاٹ اور اس کے قدم
دو فرشتے موت کے اِک کام کرتے تھے بہم
اک ذرا سی جنگ کی تھی سیّدِ ابرار نے
ایک کے جوہر نے مارا ایک کی رفتار نے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عین اُس ہنگام اٹھا ایک شورِ الاماں
رحم فرما اے علی کے لال، ہم جائیں کہاں
تو نے لکھ دی ہے لہو سے فتحِ حق کی داستاں
اے پیاسے خون کا دریا ہے قدموں میں رواں
سُن کے یہ فریاد شمشیر ہلالی رُک گئی
رحم سا آنے لگا شانِ جلالی رُک گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پُشتِ مَرکب سے اُتر آئے شہِ عالی وقار
دشمنوں کا بھی نہ دیکھا جا سکا خود حالِ زار
جذبہ رحمت کا ورثہ آ گیا بر رُوئے کار
سَر جُھکا کر، خاک پر، کہنے لگے پروردگار
تا دمِ آخر حفاظت کی ترے آئین کی
جتنی ممکن تھی وہ خدمت کر لی میں نے دین کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اپنے جد کا ایک اک ارشاد لایا ہوں بجا
وعدہ طفلی کو اس پیری میں پورا کر دیا
بھائی بھی بچھڑے، جواں فرزند بھی رخصت ہوا
ایک ششماہہ تھا وہ بھی تیر کھا کر سو گیا
سب ہوئے پورے تقاضے جتنے تھے ایمان کے
خون سے لکھا ہے ایک اک لفظ کو قرآن کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب سرِ تسلیم تیرے سامنے ہوتا ہے خَم
رکھ لیا حسبِ ضرورت دینِ احمد کا بھرم
جان تیرے واسطے جائے نہیں ہے کوئی غَم
بس یہ کافی ہے کہ راضی ہوں شہنشاہِ اُمم
اور جا سکتا تھا میں اَب کس کا دامن تھامنے
آخری سجدہ ادا کرتا ہوں تیرے سامنے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سَر بہ سجدہ ہو گئے جب خاکِ مقتل پر امام
آ گئی چاروں طرف سے پھر سمٹ کر فوجِ شام
بڑھ کے آیا شمر اپنی تیغ کر کے بے نیام
اک پیاسے سے لیا بدر و اُحد کا انتقام
ہر نفس پر دھار گو مڑتی رہی شمشیر کی
لے گیا سجدے سے گردن کاٹ کر شبیر کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زینبِ محزوں نے دیکھا بابِ خیمہ سے یہ حال
جانبِ سدھارا فاطمہ زہراء کا لال
صبر اس عالم میں کرنا ضبطِ غم کا تھا کمال
لا سکے گا کیا زمانہ بنتِ زہراء کی مثال
بھائی، بیٹے ، اقربا، حق پر پر فدا ہوتے ہوئے
تن سے سر شبیر کا دیکھا جدا ہوتے ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اِک صدائے غَیب آئی جانِ مادر ہوشیار
امتِ احمد پہ بیٹے کر دئیے میں نے نثار
فطرتاً ہونا ہے تم کو بھائی کا ماتم گُسار
امتحانِ صبر بھی دینے ہیں تم کو بے شمار
خون تو دیکھا ہے، شعلوں میں بھی گھرنا ہے تمہیں
سر برہنہ شام کی گلیوں میں پھرنا ہے تمہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بازؤں پر ریسماں کے نقش بھی پاؤ گی تم
بھائی کا سر جائے گا جس جا، وہاں جاؤ گی تم
عابدِ بیمار کی غربت میں کام آؤ گی تم
روحِ بنتِ مصطفٰی کو پاس ہی پاؤ گی تم
رُخ مقامِ صبر سے بیٹی کبھی پھرنے نہ پائے
حَشر آ جائے گا آنسو آنکھ سے گرنے نہ پائے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تم کو کیا معلوم، کیا ہے اس شہادت کا مقام
آسمانوں سے فرشتے بھیجتے ہیں خود سلام
قدرت خالق نے اتنا کر دیا ہے اہتمام
تا ابد بزمِ عزا ہو گی بہ عزّ و احتشام
لوگ دیکھیں گے میرے الفاظ کی تاثیر کو
تا قیامت روئے گی دنیا میرے شبیر کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اے صبا نوکِ قلم سے اب ٹپکتا ہے لہو
اس شہادت سے ہوا دینِ محمد سرخرو
رمزِ قدرت میں نہیں ہے کوئی جائے گفتگو
لفظ کہتے ہم پر کیا ستم کرتا ہے تو
امتحاں مقصود تھا اک مردِ حق آگاہ کا
ہے حسینی نام، جب تک نام ہے اللہ کا
 
Top