ٹائپنگ مکمل لفظ از صبا اکبر آبادی

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

پہلا لفظ کُن تھا ، یہ دنیا ہے جس کی باز گشت
ہیں اُسی کی گونج یہ کوہ و دمن دریا و دشت
عالمِ وحدانیت میں کیا ہو بحثِ ہفت و ہشت
حرف دو تھے ، لفظِ واحد بن کے ہے یہ سر گذشت


اُس کی قدرت ہے نُمایاں عالمِ ایجاد سے
ذاتِ واحد ہے مبرا ، ہے مگر اعداد سے


بہت خوب سسٹرسیدہ صاحبہ،



والسلام
جاویداقبال
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم جاوید اقبال بھائی

مرثیہ اردو ادب میں ایک بہت منفرد صنف ہے۔ میر انیس اور میرزا دبیر بلکہ اردو ادب کے شعری میدان میں تقریباً ہر عام و خاص نام نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ صبا اکبر آبادی نے مرثیہ کو ایک مختلف انداز میں پیش کیا ہے اور محض کسی ایک لفظ و معنی کو لے کر متاثر کُن منفرد جہات بیان کی ہیں۔

آپ کی پسندیدگی و تبصرہ کے لئے بہت شکریہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کارواں بھی لفظ ہے جادہ بھی اور منزل بھی لفظ
حَال بھی اِک لفظ ہے ، ماضی و مستقبل بھی لفظ
قتل بھی اِک لفظ ہے ، مقتول اور قاتل بھی لفظ
ایک لفظِ حق ہے اُس کے سامنے باطل بھی لفظ
[align=left:cce8bac65c]
آشنائے حق جو ہو باطِل سے وہ ڈرتا نہیں
جو سمجھ لے لفظ کے معنی کبھی مرتا نہیں


[/align:cce8bac65c]
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کربلا بھی لفظِ حق کی مستقل تفسیر ہے
خونِ اہلِ بیت سے لکھی ہوئی تحریر ہے
کربلا بابِ حَریمِ صَبر کی تعمیر ہے
اِس زمیں پر گُلشنِ فردوس کی تصویر ہے
[align=left:f71915ae5f]
پانچ حرفوں میں نہاں قرآن کی تعلیم ہے
ایک لفظِ کربلا منزلِ گہہِ تعظیم ہے



[/align:f71915ae5f]
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آئیے بزمِ عزا سے کربلا چلتے ہیں ہم
خاک بر سَر ، دَست بر دل ، اے صبا چلتے ہیں ہم
اپنی آنکھوں میں لئے اشکِ عزا چلتے ہیں ہم
جَانبِ دربارِ مقتولِ جَفا چلتے ہیں ہم
[align=left:acb1bf4441]
ہیں گُلِ باغِ نبی جس میں، وہ گُلشن دیکھ لیں
فاطمہ کے لال کا پُر نور مَدفن دیکھ لیں


[/align:acb1bf4441]
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کربلا ہر ذرہ جس کا ہے جوابِ آفتاب
کربلا خوابِ خلیل اللہ کی تعبیرِ خواب
کربلا حق کی بلندی کا نشاں رفعت مآب
کربلا گنجینہ انوارِ ابنِ بو تراب
[align=left:ded9a4061a]
کربلا مختص ہے شبیر گرامی کے لئے
کربلا جس پر فلک خم ہے سلامی کے لئے



[/align:ded9a4061a]
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کربلا پہنائے سطحِ خاک کا رنگیں ورق
کربلا کے لفظ میں توقیرِ مذہب کا سبق
کربلا باطل شکار و کربلا عنوانِ حق
کربلا جس کے بیاں سے دل ہوئے جاتے ہیں شَق
[align=left:aa2c93b90d]
کربلا جس میں ہے اِک مردِ جَری سویا ہوا
کربلا ہر ذرہ جس کا خون سے دھویا ہوا

[/align:aa2c93b90d]
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خون بھی کس کا، نبی کی گود کے پالے کا خون
جسم میں جس کی روانی قلب میں جس کا سکون
کربلا جس نے مٹایا اہلِ نخوت کا جنون
رُعبِ شاہی کا نہ جس پر چل سکا کوئی فسون
خون وہ جو غازہ کارِ عارضِ ایّام ہے
جس کی سُرخی آبروئے ملت ِ اسلام ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیوں بَہا وہ خون؟ کیوں کاٹا گیا اس کا گلا
کیوں بھرا کنبہ مٹا، کیوں اُس کا آخر گھر جلا؟
ظلم، ایسا ظلم، یوں ظاہر بظاہر، برملا
بول سکتی ہو تو منہ سے بول ارضِ کربلا
لفظ ہوں تجھ میں اگر کچھ اطلاعِ راز دے
کربلا ہاں اے زمینِ کربلا آواز دے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تیری خاموشی تیرے ماتم کی ہے آئینہ وار
ساڑھے تیرہ سو برس سے تو بھی ہے یوں سوگوار
ہاں بہتر چاند تارے ہیں تیرے زیرِ کنار
تیرا سرمایہ محمد کے نواسے کا مزار
جنت گنج شہیداں ہے تیرے آغوش میں
کیسے کیسے لفظ ہیں تیرے لب خاموش میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کربلا ہے تجھ سے کتنی دُور وہ نہر فرات
جس کے پانی سے رہی محروم مظلوموں کی ذات
تشنگی جس سے بجھاتی تھی سپاہِ بد صفات
موت تھی سیراب جس سے اور پیاسی تھی حیات
تر نہ اپنے لب کئے اک صاحبِ احساس نے
جس کے ساحل پر تیمم کر لیا عباس نے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آج تک پھیلی ہے تجھ میں چار سو اک روشنی
روکشِ اوجِ فلک ہے روضہ سبطِ نبی
ایک اک ذرے میں لہریں لے رہی ہے زندگی
استراحت کر رہی ہے تجھ میں اولادِ علی
دامنِ دریا پہ خاکِ آستیں جھاڑے ہوئے
شیر اک ساحل پہ سوتا ہے علم گاڑے ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تجھ پہ اترا تھا کبھی آل نبی کا قافلہ
تھا مدینے سے یہاں تک نور کا اک سلسلہ
یاد تو ہو گا تجھے صبر و رضا کا مرحلہ
حق و باطل کا ہوا تھا تیرے گھر میں فیصلہ
تو نے دیکھے ہیں کرشمے گردشِ ایّام کے
تیرے ہی صحرا پہ گھر آئے تھے بادل شام کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ علی کا لاڈلا وہ فاطمہ کا نورِ عین
قلب عالم کی تسلی خاطرِ زینب کا چین
وہ حسینِ لالہ رُخ منبر کی جس سے زیب و زین
وہ حَسن کا نقشِ ثانی نام تھا جس کا حُسین
حُسن جس کے رُوئے روشن کی بلائیں لیتا تھا
خود جسے اسلام جینے کی دُعائیں دیتا تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کوفیوں کے وعدہ باطل پہ کر کے اعتبار
چھوڑ کر بیمار بیٹی کو مدینے میں نزار
گھر سے نکلا تھا کہ رکھے دینِ احمد کا وقار
چاہتا یہ تھا رہے قرآن و سنّت کا وقار
مومنوں کے سر پہ کوئی جابرِ مطلق نہ ہو
دین پر آئے نہ زد قرآن کا دل شق نہ ہو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کچھ جوانانِ قریشی، چند بچے، بیبیاں
جنگ کا سامان تھا کوئی نہ عزمِ خوںچکاں
دین و ایماں کی حفاظت، صُلح کل دردِ زباں
پشت پر قبرِمحمد سامنے باغِ جناں
ایک پیغامِ محبت امنِ عالمگیر کا
تھا علم میں ایک پھریرا چادرِ تطہیر کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ سنا تھا حکمِ خالق ہو رہا ہے پائمال
سنتِ پیغمبری کی پیروی ہے اب محال
ہے جمالِ حق پہ غالب زعمِ شاہی کا جلال
سلب ہے اب فسق سے انکار کرنے کی مجال
کون دیکھے آج کل انسان ہیں کس حال میں
قید ہیں آزاد بھی اب سیم و زر کے جال میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سیم و زر کے جال تھے ہر دور میں وجہ جمود
جن میں تھے پابند مدت سے نصاریٰ و یہود
تھے گوارا خود اسیروں کو یہ اسلوبِ قیود
رد نہ اب تک کر سکا جس کو نبیوں کا ورود
مسخ کر کے رکھ دیا پیغمبری قانون کو
اپنے ہی الفاظ میں ڈھالا تھا ہر مضمون کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جہل میں صدیوں سے تھی ارضِ عرب بھی مبتلا
ختم ہوتا ہی نہ تھا جوشِ جنوں کا سلسلہ
اُس بیاباں میں گُلِ وحدانیت آخر کُھلا
لفظِ واحد جس سے پہلی بار دُنیا کو ملا
منکروں کے لب سِلے یارا نہ تھا تردید کا
پتھروں میں بو دیا اُس نے شجر توحید کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ نہالِ دیں جو تھا سرمایہ خیرالبشر
جس کی نزہت امن اور وحدانیت جس کا ثمر
جس کے سائے میں تر و تازہ ہوئے علم و ہُنر
جس کے متوالوں نے دنیا جیتی بے تیغ و سپر
وحشتیں جس کی ہوا سے عقل ساماں ہو گئیں
جس کی نکہت سے فضائیں عنبر افشاں ہو گئیں
 
Top