لطیفے ۔۔۔۔۔۔تصویری یالفظی

ماہی احمد

لائبریرین
ایک وہ تھے جو خوش رہنے کے طریقے بتا رہے تھے رونے کے ذریعے اور ایک یہ آ گئے ہیں کہ موٹاپے کو کم کرنے کے لیے روئیں۔
بھیا یہ آج کا دور ہے جس میں ہر اُلٹی بات کرکے نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔۔
بیچاروں کو سیدھی باتوں سے نتائج ملتے نہیں تھے، اس لئیے اب الٹی باتوں سے کوشش کرتے ہیں۔۔۔ :ROFLMAO:
 

سیما علی

لائبریرین
بھری عدالت میں جب وکیل نے جرح کرتے ہوئے کٹہرے میں کھڑی خاتون سے سوال کیا۔۔ قتل کے وقت آپ کے شوہر کے آخری الفاظ کیا تھے؟۔۔کٹہرے میں کھڑی خاتون نے جواب دیا۔۔ انہوں نے کہا کہ میری عینک کہاں ہے شہناز؟۔۔وکیل نے حیرانی سے پوچھا، تو اس میں قتل کردینے والی کون سی بات تھی؟۔۔خاتون نے اطمینان سے جواب دیا۔۔کیوں کہ میرا نام رضیہ ہے۔۔:cool::cool:
 

سیما علی

لائبریرین
ایک عورت نے ایک دن اپنے شوہر کا موبائیل چیک کیا،جس میں نام کچھ اس طرح ”محفوظ“ کئے گئے تھے۔۔آنکھوں کا علاج۔۔ہونٹوں کا علاج۔۔دل کا علاج۔۔بیوی نے نہایت غصے میں اپنا نمبر ڈائل کیا تاکہ اسے پتہ چلے کہ اس کا نمبر کس نام سے ”سیو“ کیاگیا ہے۔۔موبائل اسکرین پر ایک دم سے آیا۔۔لاعلاج۔۔
:applause::applause::applause::applause::applause:
 

شمشاد

لائبریرین
بٹیا
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا:)
آپی دوا بھی کیا کرئے۔ پتہ ہے ایک دفعہ اس کو معمولی سا نزلہ زکام ہوا۔ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے کہا میں دوائی لکھ دیتا ہوں۔ کہنے لگی، ڈاکٹر صاحب کڑوی دوا نہ لکھنا۔
ڈاکٹر کہنے لگا، اچھا تو میں آدھ کلو جلیبیاں لکھ دیتا ہوں۔
یہ کہنے لگی، ہاں یہ ٹھیک ہے۔ اور ڈاکٹر نے واقعی آدھ کلو جلیبیاں لکھ دیں۔
اب یہ ڈاکٹر کا پرچہ پکڑ کر کیمسٹ کے پاس گئی اور آدھ کلو جلیبیاں طلب کیں۔ اب کیمسٹ لاکھ کہہ رہا ہے، بی بی یہ دوائیوں کی دکان ہے، کوئی حلوائی کی دکان نہیں ہے۔
لیکن یہ مانے تو تب ناں۔ کہنے لگی ڈاکٹر نے دوا لکھ کر دی ہے تو دوائیوں کی دکان سے ہی ملے گی ناں۔
کیمسٹ نے اپنے پلے سے پیسے دے کر لڑکے کو بھیجا کہ جاؤ، حلوائی کی دکان سے آدھ کلو جلیبیاں لے کر آؤ۔ وہ لیکر آیا تو اس نے اس کو دیں اور پیسے بھی نہیں لیے۔
اب دوا یہاں کیا کرئے، آپ ہی بتائیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
reDKaWG_d.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
نکتے کو دو بار کیو ں نہیں لگایا ۔۔ہماری ایک باس خاتون اس بات پر ناراض ہوجاتیں کہ فونٹ کا کلر کیوں بلیک نہیں تھا New Times Roman کیوں نہیں تو ہم کرِ کرِ بجائے صرف ایک جواب لکھتے
Mam noted for future compliance
تو جواب شکریہ آجاتا اور راوی چین لکھ دتیا ورنہ جو خاموشی اختیار کرتے تو ناراضگی ہفتوں چلتی۔۔۔۔:):)
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
کہتے ہیں کہ ہندوستان میں کرنسی نوٹ جب پہلی بار تصویر کے ساتھ جاری کیے گئے تو اس وقت کے مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی، اس ضمن میں ایک وفد اس دور کے ایک بڑے عالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا کہ کرنسی نوٹ پر تصویر کا ہونا صحیح ہے یا غلط؟ محترم عالم دین نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ میرے بھائیو! میرے فتویٰ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میرا فتویٰ نہیں چلے گا کرنسی نوٹ چل جائے گا۔
(دور حاضر کے تقاضوں سے لاعلم اور بے خبر علما کرام کے نام۔)
 

سیما علی

لائبریرین
ایک شہری خاتون گاؤں میں عورتوں کو حساب سکھا رہی تھیں۔ اس نے ایک عورت سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس پچاس روپے ہوں اس میں سے تم بیس روپے اپنے شوہر کو دے دو تو بتاؤ تمہارے پاس کتنے روپے بچیں گے؟ عورت نے جواب دیا کچھ بھی نہیں۔ خاتون نے دیہاتی عورت کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ احمق عورت! تم حساب بالکل نہیں جانتی ہو۔ دیہاتی عورت نے جواب دیا۔ آپ بھی میرے شوہر ’’شیرو‘‘ کو نہیں جانتی ہو۔ وہ سارے روپے مجھ سے چھین لے گا۔

یہ لطیفہ ان ماہرین کے نام جو پالیسیاں بناتے وقت زمینی حقائق سے لاعلم ہوتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک مولوی صاحب کسی گاؤں پہنچے۔ انھیں تبلیغ کا شوق تھا۔ جمعہ کا خطبہ پورے ایک ہفتے میں تیار کیا لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ جمعہ کے دن صرف ایک نمازی مسجد میں آیا۔ مولوی صاحب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ انھوں نے اس شخص سے کہا کہ تم واحد آدمی ہو جو مسجد آئے ہو۔ بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ وہ شخص بولا۔ مولوی صاحب! میں ایک دیہاتی آدمی ہوں۔ مجھے اتنا پتا ہے کہ میں اگر بھینسوں کے لیے چارہ لے کر پہنچوں گا اور وہاں صرف ایک بھینس ہو تو میں اسے چارہ ضرور دوں گا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے بھی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ اس کے بعد انھوں نے دیہاتی سے پوچھا کہ بتاؤ خطبہ کیسا تھا؟ دیہاتی نے لمبی جمائی لی اور کہا۔ مولوی صاحب! میں ایک دیہاتی آدمی ہوں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر میرے سامنے ایک بھینس ہوگی تو میں ساری بھینسوں کا چارہ اس کے آگے نہیں ڈالوں گا۔

(نصاب تعلیم مرتب کرنے والوں کے نام۔)
 

سیما علی

لائبریرین
قدیم نوادرات جمع کرنے کی شوقین ایک خاتون نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی دکان کے کاؤنٹر پر بلی کو جس پیالے میں دودھ پلا رہا ہے اس چینی کے قدیم پیالے کی قیمت تیس ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ خاتون نے سوچا کہ شاید یہ شخص اس پیالے کی قیمت سے ناواقف ہے۔ اس خاتون نے اپنے طور پر بے حد چالاکی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ جناب! کیا آپ یہ بلی فروخت کرنا پسند کریں گے؟ تو اس شخص نے کہا۔ یہ میری پالتو بلی ہے، پھر بھی آپ کو یہ اتنی ہی پسند ہے تو پچاس ڈالر میں خرید لیجیے۔

خاتون نے فوراً پچاس ڈالر نکال کر اس شخص کو دیے اور بلی خرید لی، لیکن جاتے جاتے اس دکان دار سے کہا ۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ پیالہ آپ کے کسی کام کا نہیں رہا۔ برائے کرم اسے بھی مجھے دے دیجیے۔ میں اس پیالے میں بلی کو دودھ پلایا کروں گی۔ دکان دار نے کہا۔ خاتون! میں آپ کو یہ پیالہ نہیں دے سکتا، کیونکہ اس پیالے کو دکھا کر اب تک 300 بلیاں فروخت کرچکا ہوں۔
(پاکستان میں بسنے والے ان باشعور عوام کے نام جنھیں طرح طرح سے بے وقوف بنایا جاتا ہے۔)
 
Top