لذت بادہ سے تلخی کا مزا یاد آیا - سید محمدحنیف اخگر

کاشفی

محفلین
غزل
(سید محمد حنیف اخگر)

لذت بادہ سے تلخی کا مزا یاد آیا
حسب توفیق شفا زہر دوا یاد آیا

جراءت ترک تمنا کا خیال آتے ہی
عہد پابندیء آداب وفا یاد آیا

اختصار شب وعدہ کی شکایت پہ اُسے
شب ہجراں کی درازی کا گلہ یاد آیا

دل کو احساس مسرت ہی بہت تھا لیکن
تیرے غم میں تھی وہ لذت کہ خدا یاد آیا

کھل کے اک پھول بنا، پھول سے گلزار بنا
نخل غم کو عمل نشو و نما یاد آیا

جب رہ عشق میں دنیا نے بچھائے کانٹے
ہم کو اپنا ہی سا اک آبلہ پا یاد آیا

بت کدہ چھوڑ کے جاتے ہو حرم کو اخگر
تم کو آیا بھی تو کس وقت خدا یاد آیا
 
Top