لبرل ازم اور Paternalism

الف نظامی

لائبریرین
بھارت کی اکثریت مذہبی ہندو ہے مگر ریاست سیکولر ہے
اسرائیل کی اکثریت مذہبی یہودی ہے مگر ریاست سیکولر ہے
امریکہ کی اکثریت مذہبی مسیحی ہے مگر ریاست سیکولر ہے
ان تینوں ممالک میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔

موضوع کا عنوان یہ نہیں جس پر آپ بحث فرما رہے ہیں۔ کیا میرے تھریڈ پر ہی آپ کو غیر متعلقہ گفتگو اچھی لگتی ہے
مزید اپنے پروپگنڈا نیٹ ورک سے منسلک لوگوں کو بھی یہاں دعوت دے دیجیے کہ آئیے شوق پورا کریں۔ اگر آپ کو موضوع زیر بحث پر بات کرنا پسند نہیں تو اپنی پسند کا علیحدہ تھریڈ بنا لیجیے ہمیں معاف رکھیے۔
 

احسن جاوید

محفلین
یعنی یہ لکم دینکم ولی دین والی بات ہے۔ آپ کی خواہش ہو کہ یہاں مولوی یا مذہب کی بات نہ ہو تو ۵۱ فیصد ووٹ غیر مذہبی اور مولوی سے نفرت سے مبنی نظریہ کی بنیاد پر پارلیمان میں لے آئیں اور ترمیم کر لیجیے ورنہ آپ کو مذہب سے راہنمائی حاصل کرنے والے آئین و حکومت کا احترام یا اسے برداشت کرنا ہوگا۔
لکم دینکم ولی دین کا مفہوم صرف ایکسٹرنلی نہیں بلکہ انٹرنلی بھی اپلائی ہوتا ہے۔ ایک سٹیٹ کے اندر سٹیٹ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے نہ کہ سٹیٹ کسی نقطہ نظر کو سب پہ انفورس کرے۔ سٹیٹ کو خود بھی لکم دینکم ولی دین والے اصول پہ چلنا چاہیے۔ مذہب پہ چلتے ہوئے بھی مذہبی لوگ اگر انصاف پہ قائم نہ رہ سکیں یا کم سے کم انصاف کی بات بھی نہ کر سکیں تو یہ مذہبیت نہیں منافقت ہے کیونکہ ان میں مذہب سے زیادہ اپنی خواہش کا عمل دخل ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
لکم دینکم ولی دین کا مفہوم صرف ایکسٹرنلی نہیں بلکہ انٹرنلی بھی اپلائی ہوتا ہے۔ ایک سٹیٹ کے اندر سٹیٹ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے نہ کہ سٹیٹ کسی نقطہ نظر کو سب پہ انفورس کرے۔ سٹیٹ کو خود بھی لکم دینکم ولی دین والے اصول پہ چلنا چاہیے۔ مذہب پہ چلتے ہوئے بھی مذہبی لوگ اگر انصاف پہ قائم نہ رہ سکیں یا کم سے کم انصاف کی بات بھی نہ کر سکیں تو یہ مذہبیت نہیں منافقت ہے کیونکہ ان میں مذہب سے زیادہ اپنی خواہش کا عمل دخل ہے۔
دلیل ختم ، الزام تراشی شروع۔
فیکٹ چیک: گویا پاکستان میں آج تک تمام حکمران مذہبی تھے ، سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے :sneaky::rolleyes:
 

احسن جاوید

محفلین
لکم دینکم ولی دین کا مفہوم صرف ایکسٹرنلی نہیں بلکہ انٹرنلی بھی اپلائی ہوتا ہے۔ ایک سٹیٹ کے اندر سٹیٹ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے نہ کہ سٹیٹ کسی نقطہ نظر کو سب پہ انفورس کرے۔ سٹیٹ کو خود بھی لکم دینکم ولی دین والے اصول پہ چلنا چاہیے۔
جی بالکل دلیل وہی ہے جسے آپ دلیل سمجھتے ہیں۔ :LOL::ROFLMAO:
کیا ہونا چاہیے اور کیا ہے میں فرق ہوتا ہے۔ جو ہے اس پہ چاہے اکثریت بھی قائم ہو صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
یہ مراسلہ آپ کی ذات پہ نہیں ہے بلکہ اوور آل مذہبی معاشرے پر ہے۔ چور کی داڑھی میں تنکے والا معاملہ معلوم پڑتا ہے۔
مذہب پہ چلتے ہوئے بھی مذہبی لوگ اگر انصاف پہ قائم نہ رہ سکیں یا کم سے کم انصاف کی بات بھی نہ کر سکیں تو یہ مذہبیت نہیں منافقت ہے کیونکہ ان میں مذہب سے زیادہ اپنی خواہش کا عمل دخل
 

احسن جاوید

محفلین
فیکٹ چیک: گویا پاکستان میں آج تک تمام حکمران مذہبی تھے ، سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے :sneaky::rolleyes:
اس پہ تو میں نے بات ہی نہیں کی کہ کون کیا رہا ہے اور نہ ہی یہ میرا کنسرن ہے۔ میرا کنسرن سٹیٹ ہے جس کا میں رہائشی ہوں اور وہ اگر جانبدار ہے تو میں اپنے تحفظات واضح طور پر ظاہر کرنے کا حق رکھتا ہوں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس پہ تو میں نے بات ہی نہیں کی کہ کون کیا رہا ہے اور نہ ہی یہ میرا کنسرن ہے۔ میرا کنسرن سٹیٹ ہے جس کا میں رہائشی ہوں اور وہ اگر جانبدار ہے تو میں اپنے تحفظات واضح طور پر ظاہر کرنے کا حق رکھتا ہوں۔
paternalism کیا ہوتا ہے؟

دعوی: دنیا میں کوئی سٹیٹ غیر جانبدار نہیں
دلیل:
ہر سٹیٹ اپنے آئین کے لیے جانبدار ہوتی ہے۔
خواہ وہ رائٹ ونگ والی حکومت ہو یا لیفٹ ونگ والی۔
اپنے اپنے ونگ کے لیے جانبدار ہی ہوتی ہے اور غیر ہمیشہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

احسن جاوید

محفلین
اگر آپ کو نہیں معلوم تو گوگل کر لیجیے، اگر آپ کو معلوم ہے تو پھر سوال کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور اگر آپ کا اشارہ کسی اور طرف ہے تو پھر کھل کر اپنا مدعا بیان کیجیے۔
دعوی: دنیا میں کوئی سٹیٹ غیر جانبدار نہیں
دلیل:
ہر سٹیٹ اپنے آئین کے لیے جانبدار ہوتی ہے۔
خواہ وہ رائٹ ونگ والی حکومت ہو یا لیفٹ ونگ والی۔
اپنے اپنے ونگ کے لیے جانبدار ہی ہوتی ہے اور غیر ہمیشہ غیر جانبدار ہوتا ہے
آپ پھر وہی بات دہرا رہے ہیں جس کا میں پہلے اظہار کر چکا ہوں۔ حکومت سٹیٹ نہیں ہے اس لیے چاہے وہ رائٹ ونگ ہو، لیفٹ ونگ ہو، پیپلز پارٹی ہو، نون لیگ ہو یا تحریک انصاف ہر کسی کا اپنا منشور ہے، اپنا نظریہ ہے جو خود سٹیٹ کو ڈیفائن نہیں کرتا۔ میں ذرا واضح الفاظ میں اس کی وضاحت پیش کرتا ہوں۔
آئین بنیادی طور پر وہ پیس آف پیپر ہے جس نے بادشاہت/آمریت و رعیت کے تعلق کو سٹیٹ و شہریت کے تعلق سے ریپلیس کیا۔ پہلے بادشاہ خود آئین ہوتا تھا اور ورچوئلی ابسلوٹ اختیارات رکھتا تھا وہ اپنی رعایا کو جیسے مرضی ٹریٹ کرے یہ اس کا ذاتی اختیار ہوتا تھا، شہریوں کے بنیادی حقوق اس کے مرہون منت تھے، جو اس کا مذہب ہوتا تھا وہ اسی کی سپانسرشپ کرتا تھا۔ آئین نے اس بادشاہت اور اس کے ورچوئلی ابسلوٹ اختیارات کے تصور کو ختم کر کے سٹیٹ و شہریت کے تعلق کا تصور دیا۔ اس کے مطابق نہ کوئی بادشاہ ہے اور نہ کوئی رعایا۔ اب صرف سٹیٹ ہے اور تمام اس کے شہری جو بنیادی طور پر رنگ، نسل، مذہب، ذات، برادری سے ماوراء برابر ہیں اور ایک جیسے حقوق رکھتے ہیں اور سٹیٹ کا نمائندہ وہ حقوق دینے کا پابند ہے۔ اب سٹیٹ ورچوئلی غیر جانبدار ہے اور شہری بادشاہ کی بجائے آئین کی پابند ہے۔ سٹیٹ کے امور چلانے کے لیے شہری اپنا جو نمائندہ منتخب کرتے ہیں وہ خود اسی آئین کے تابع ہے۔ اب وہ سٹیٹ پریمئر خود چاہے رائٹ ونگ سے تعلق رکھتا ہو، لیفٹ ونگ سے تعلق رکھتا ہو، اس کا اپنا چاہے کوئی بھی نظریہ ہو وہ آئین سے ماوراء نہیں ہو سکتا اور وہ خود سٹیٹ نہیں ہے بلکہ سٹیٹ ریپریزنٹیٹیو ہے۔ آئین ہر حال میں غیر جانبدار رہے گا حکومتیں چاہے جتنی بدلتی رہیں۔ اب آئین خود اگر پارٹی بن جائے تو پھر شہریت کی برابری کا اصول ہی ختم ہو جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
اگر آپ کو نہیں معلوم تو گوگل کر لیجیے، اگر آپ کو معلوم ہے تو پھر سوال کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور اگر آپ کا اشارہ کسی اور طرف ہے تو پھر کھل کر اپنا مدعا بیان کیجیے۔
سوال پوچھنے کا مطلب ان ڈائریکٹلی یہ بتانا تھا کہ جس موضوع پر آپ گفتگو فرما رہے ہیں وہ اس تھریڈ کا عنوان نہیں ہے اور یہ ایک پروپگنڈا ٹیکنیک ہوتی ہے کہ موضوع سے ہٹ کر کوئی دوسرا موضوع زیربحث لایا جائے اور اصل موضوع سے توجہ ہٹا دی جائے۔ مزید اس حوالے سے آپ گفتگو کرنا چاہیں تو علیحدہ تھریڈ کھول لیجیے۔ یہاں غیر متعلقہ مباحث کا اس مراسلے کے بعد جواب نہیں ملے گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پہلا مقدمہ: ہم چاہتے ہیں کہ مذہب کو ریاست سے الگ کرو کیونکہ اگر مذہب میں کوئی آفاقی سچائی ہے تو اسے ریاست کے سہارے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔ (اس مقدمے کا علمی و عقلی اعتبار سے نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر، خیر تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں)
- دوسرا مقدمہ: ریاست کو البتہ لازما لبرل سیکولر تناظر اختیار کرنا اور نافذ کرنا چاہئے بلکہ زیادہ افضل یہ ہے کہ وہ مارکس کی آفاقی سچائی کو بڑھاوا دے

ایسی واضح متضاد باتیں آج "عقل پرستوں" کے ایک گروپ پر نظر دوڑاتے نظر آئیں، وہ بھی ایک ہی پوسٹ میں۔ جناب، جس معیار پر مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کی بات کرتے ہیں اس پر فلسفیوں کے اپنی خواہشات سے بنائے ہوئے خیالات کو جانچنا کیوں بھول جاتے ہیں؟
سوچتا ہوں کہ ایسی باتیں دیکھ کر عقل بھی حیران و پریشان نہ ہو تو کیا ہو، وہ بھی تب کہ جب ایسی متضاد باتیں عقل کا دم بھرنے والے خود کریں! مذہب کو ریاستی عمل سے بے دخل کرنے کے لئے دلیل نما جھانسا دینے والی ایسی باتیں فلسفی اٹھارویں اور انیسویں صدی میں کیا کرتے تھے، اب ان سے کوئی دھوکے میں نہیں آتا، کوئی نئی ترکیب اختیار کی جانی چاہئے۔
 

سید عمران

محفلین
بھارت کی اکثریت مذہبی ہندو ہے مگر ریاست سیکولر ہے
اسرائیل کی اکثریت مذہبی یہودی ہے مگر ریاست سیکولر ہے
امریکہ کی اکثریت مذہبی مسیحی ہے مگر ریاست سیکولر ہے
اور مزے کی بات مسلم دشمنی میں کھلم کھلا خونخوار!!!
 
Top