لبرل ازم اور Paternalism

الف نظامی

لائبریرین
لبرل (انفرادیت پسندانہ) فلاسفی کو اعلی ترین سطح پر علم معاشیات کے مختلف نظریات میں تھیورائز کیا گیا ہے جن میں سے اب تک سب سے کامیاب ترین نظریہ یوٹیلیٹیرین ازم (Utilitarianism) ہے
(اس کے سواء دیگر نظریات بھی ہیں مگر فی الوقت تفصیل مقصود نہیں)۔


لبرل فلاسفی سے ماخوذ پالیسی سازی اس مفروضے پر مبنی ہے کہ
"ہر فرد فطرتا یہ جانتا ہے کہ اس کے لئے کیا بہتر ہے
(every individual is the best judge of his own welfare)
نیز وہ اسی کے حصول کی جدوجہد کرتا ہے، لہذا فرد کو "نیک بنانا"، یہ ریاستی عمل (پالیسی و قانون سازی) کے دائرہ کار سے باہر ہے (ہمارے یہاں کے کچھ "جدید" مذہبی حلقے بھی اس قسم کا استدلال کرتے ہیں)


معاشیات دان every individual is the best judge of his own welfare کے اصول کو Pareto principle کہتے ہیں جو Paternalism کی ضرورت و امکان کی نفی کرتا ہے۔ ظاہر ہے جب فرد خود جانتا ہے کہ کیا بہتر ہے اور کیا نہیں، تو پھر اسے یہ بتانے و سکھانے کا کیا مطلب؟

یہ دعوی متعدد نوعیت کی اغلاط پر مبنی ہے
سر دست ایک کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ علم معاشیات کی ایک ذیلی شاخ Behavioral Economics کے ماہرین متعدد تجربات کی روشنی میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ:
  1. - فرد لبرل فلاسفی کے مفروضے کے مطابق خود غرض نہیں ہوتا
  2. - وہ ہمیشہ یہ بھی نہیں پہچانتا کہ اس کے لئے کیا بہتر ہے بلکہ لوگوں کی بڑی اکثریت متعدد انفرادی و معاشرتی عناصر سے متاثر ہونے کی بنا پر بالعموم غلط فیصلے کرتی ہے
  3. - اتنا ہی نہیں بلکہ فرد جسے بہتر سمجھتا ہے بسا اوقات اسے جاننے کے باوجود بھی اسے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا

اس کا حل کیا ہے؟
2017 میں Behavioral Economics میں نمایاں تحقیقی کام کرنے کی بنا پر نوبل پرائز جیتنے والے Richard Thaler کے مطابق اس کا حل ہے Libertarian Paternalism
یعنی یہ کہ
متعدد قسم کے دعوتی و اصلاحی طرق سے فرد کی "درست تربیت" نیز ایسی پالیسی سازی کرنا جس کے نتیجے میں فرد کے لئے "درست فیصلہ" (تھیلر چونکہ سرمایہ دارانہ عدل کی جستجو کرتا ہے لہذا اس کے یہاں "درست" سے مراد وہ فیصلہ ہے جو فرد کے "سیلف انٹرسٹ کے مطابق" ہو) کرنا ممکن ہو۔

اپنی کتاب Nudge: Improving Decision about Health, Wealth and Happiness میں وہ بتاتا ہے کہ ایسا کرنا کیونکر لازم و ناگزیر ہے نیز جو لوگ Paternalism کو رد کرتے ہیں وہ ایک غیر منطقی و غیر حقیقی دعوی کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ لبرل سٹیٹ ہمیشہ سے Paternalistic کردار ادا کرتی رہی ہے
(جسکی واضح ترین مثال سٹیٹ سپانسرڈ اور لازمی ایجوکیشن ہے)
اگرچہ اس سٹیٹ کو تھیورائز کرنے والے یہ جھوٹ بولتے رہے ہیں کہ لبرل سٹیٹ ایسا نہیں کرتی اور نہ ہی اسے یہ کرنا چاہئے۔ یہ واضح کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ ہمارے یہاں اگر مذہب کی بنیاد پر کسی پالیسی سازی کی بات کی جائے تو لبرل طبقہ جھٹ سے یہ اعتراض جڑ دیتا ہے: "یہ فرد کی انفرادیت کی نفی ہے"۔ اور شومئی قسمت کہ اس طبقے کے مذہبی ہمنوا ان کی ہاں میں ہاں ملا کر کہتے دکھائی دیتے ہیں: "فرد کو نیک بنانا، اس مقصد کے لئے ریاستی عمل استعمال کرنے کی قرآن میں کوئی دلیل موجود نہیں"۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
جدید لبرل سیکولر فلاسفہ مسلمانوں سمیت تمام اہل مذاہب کو یہ باور کرانے اور یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارے مذھب میں ایسی گنجائش موجود ہے کہ تم لوگ لبرل تصور آزادی سے اخذ ہونے والے حقوق کو اپنا کر لبرل نظام حیات کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہو، یوں لبرل ازم اور تمہارے مذھب کے مابین جھگڑا ختم ہوجائے گا۔ اس کے لئے وہ مسلمانوں کو ایسا اجتہاد کرنے کی دعوت دیتے اور ایسا اجتہاد کرچکنے والوں کی مثالیں دیتے ہیں کہ دیکھو تمہارے فلاں محقق و مفکر کے مطابق فلاں فلاں لبرل حقوق کے لئے مذھبی گنجائش موجود ہے۔ چنانچہ لبرل مفکرین کا ماننا ہے کہ لبرل حقوق کو قبول کرنے کے لئے لبرل تصور آزادی پر "ایمان رکھنا" ضروری نہیں ہے، ہر نظرئیے اور مذھب پر ایمان رکھنے والا شخص اپنے اپنے نظرئیے اور مذھب کی بنیاد پر ان حقوق کا جواز وضع کرکے لبرل اجتماعی نظام کا حصہ بن سکتا ہے۔ لبرل مفکرین اسے over-lapping consensus کہتے ہیں، یعنی لبرل معاشرت میں شریک مختلف زاویہ ہائے نگاہ رکھنے والے لوگوں کے مابین لبرل حقوق پر عمل پیرا ہونے کے لئے مختلف النوع توجیہات سے جنم لینے والا اجماع یا اتفاق رائے۔ یعنی ہر گروہ لبرل حقوق کو مان رہا ہے، مگر اپنی اپنی دلیل کی بنیاد پر اور اس بنا پر وہ لبرل اجتماعیت پر راضی ہے۔ یہ لبرل تصور اجماع ہے۔​
اس کے ساتھ ہی لبرل مفکرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگرچہ ہر شخص ان حقوق کو اپنی مخصوص دلیل کی وجہ سے قبول کررہا ہے، تاہم یہ حقوق اپنی سچائی و حقانیت کے لئے ان میں سے کسی بھی دلیل کے محتاج نہیں ہیں بلکہ لبرل آئیڈیالوجی کی بنیاد پر اپنی سچائی کا جواز از خود رکھتے ہیں۔ ان معنی میں یہ لبرل حقوق free-standing بھی ہوتے ہیں، یعنی تمام نظریہ ہائے حیات اور مذاھب سے آزاد حیثیت میں از خود حق ہوتے ہیں اور جن کی حقانیت کو خود لبرل آئیڈیالوجی کے سواء کسی علم اور قدر کی بنیاد پر نہیں جانچا جاسکتا۔
یعنی لبرل حقوق کے حق ہونے کی دلیل یہ نہیں ہے کہ سب زاویہ نگاہ رکھنے والے انہیں حق مانتے ہیں بلکہ اس کی دلیل خود لبرل آئیڈیالوجی ہے۔ چنانچہ جب یہ فیصلہ کرنے کا وقت آئے گا کہ لبرل معاشرت میں کونسی پالیسی بنائی اور اپنائی جائے گی تب یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ لبرل معاشرت میں بسنے والے ہر زاویہ نگاہ کے حامل شخص کی علمیت اس بارے میں کیا کہتی ہے بلکہ یہ فیصلہ اصولا لبرل اصولوں کی روشنی میں طے ہوگا، ہاں دیگر علمیتوں والے اپنے اپنے نظرئیے اور مذھب سے اس کے دلائل دینے کے پابند ہوں گے تاکہ لبرل اجماع قائم رہے۔
پس جب کوئی مفکر لبرل حقوق کو قبول کروانے کے لئے اول الذکر اجماع کی بات کرکے لبرل ازم کی آفاقی حیثیت کو معقول بتانے کی کوشش کرے تو اس کی بات کے جھانسے میں نہیں آنا چاہئے۔
 

احسن جاوید

محفلین
کیونکہ ہمارے یہاں اگر مذہب کی بنیاد پر کسی پالیسی سازی کی بات کی جائے
باقی تو لبرل جو آپ نے بیان کیے ہیں وہی جانیں اور آپ جانیں۔ سوال یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پہ پالیسی سازی کی بات ہی کیوں جائے؟ کیا سٹیٹ میں ایک مذہب ہے؟ اگر بات کرنی ہی اتنی ضروری ہے تو پھر دو حل ہیں جو میری سمجھ میں آتے ہیں۔ پہلا حل یہ کہ ایک جنرل پالیسی بنائی جائے جس کا اطلاق سب پہ ہو نہ کہ ایک خاص مذہب پہ، جس میں دوسروں کے خداؤں یا مذہب کو برا بھلا کہنے والے یکساں سزا کا مرتکب ہونگے اور اپنے اپنے مذہب پہ عمل کرنے کے یکساں پابند ہونگے۔ دوسرا حل یہ کہ ہر مذہب کو سٹیٹ کے دائرے میں لایا جائے اور ہر مذہب کی تعلیمات کے مطابق ان کے لیے قانون سازی کی جائے جو صرف اسی مذہب یا سیکٹ پہ امپلیمنٹ کی جائی۔ اب یہ دونوں ہی مجھے تقریباً ناقابلِ عمل لگتی ہیں۔ سٹیٹ کا کام تعلیم کی آڑ میں کسی خاص نظریے یا مذہب کی ترویج یا سپانسرشپ کے ذریعے پورے معاشرے پہ اس کا اطلاق مختلف الخیال معاشرے کے ساتھ ظلم ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک زمانہ تھا کہ مذہب سیاست کو ڈیفائن کرتا تھا ، اب آپ چاہتے ہیں کہ سیاست مذہب کو ڈیفائن کرے۔
لیکن سینے میں دو دل نہیں ہو سکتے کہ ایک سیاسی ہو اور دوسرا مذہبی۔
 

احسن جاوید

محفلین
ایک زمانہ تھا کہ مذہب سیاست کو ڈیفائن کرتا تھا ، اب آپ چاہتے ہیں کہ سیاست مذہب کو ڈیفائن کرے۔
لیکن سینے میں دو دل نہیں ہو سکتے کہ ایک سیاسی ہو اور دوسرا مذہبی۔
مذہب نے کبھی بھی سیاست کو ڈیفائن نہیں کیا، یہ خود مذہب پر ںہتان باندھنے والی بات ہے۔ البتہ مذہبی لوگ ضرور سیاست کو ڈیفائن کیا کرتے تھے جنہوں نے مذہب پر اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی تھی۔
سینے میں ایک ہی دل ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے انسان کا۔ انسان سے معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے سے سیاست وجود میں آتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوال یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پہ پالیسی سازی کی بات ہی کیوں جائے؟
کیونکہ بھٹو نے آئین پاکستان میں قادیانیوں کو مذہبی عقائد کی بنیاد پر کافر قرار دیا تھا۔ جبکہ لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد میں یہ لکھ چھوڑا تھا کہ ملک کا کوئی بھی قانون مذہب سے متصادم نہیں ہو سکتا۔ یوں قیامت تک پاکستان کا آئینی و قانونی ڈھانچہ ان گلی محلے کے مولویوں کی غلامی کرے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
سٹیٹ کا کام تعلیم کی آڑ میں کسی خاص نظریے یا مذہب کی ترویج یا سپانسرشپ کے ذریعے پورے معاشرے پہ اس کا اطلاق مختلف الخیال معاشرے کے ساتھ ظلم ہے۔
بالکل۔ اسی لیے قرار داد مقاصد پاس کرتے وقت پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں موجود ہندو لیڈران نے کافی شور مچایا تھا کہ یہ قائد اعظم کا ویژن نہیں۔ اور تحریک پاکستان کے ایک بڑے ہندو لیڈر قرار داد مقاصد پاس ہونے کے بعد احتجاجا پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے گئے تھے۔
EF32-E50-C-F0-FE-4-B31-A0-FB-D4-DA0-E13774-F.jpg

Objectives Resolution - Wikipedia
یوں ملک و قوم کو تباہی کے راستہ پر ۱۹۴۹ میں ہی لگا دیا گیا تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مذہب نے کبھی بھی سیاست کو ڈیفائن نہیں کیا، یہ خود مذہب پر ںہتان باندھنے والی بات ہے۔ البتہ مذہبی لوگ ضرور سیاست کو ڈیفائن کیا کرتے تھے جنہوں نے مذہب پر اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی تھی۔
سینے میں ایک ہی دل ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے انسان کا۔ انسان سے معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے سے سیاست وجود میں آتی ہے۔
ژولیدہ فکر اور اور سمپلی فیکیشن ، کمپلیکس معاملہ کو سادہ فکری سے بیان کر کے اخذ کردہ نتائج کو قطعی سمجھنا
آپ نے اپنے تجزیہ میں کلی طور پر مذہب کو نظر انداز کر دیا اس کے باوجود آپ یہ سمجھتے ہوں گے کہ تجزیہ قطعی اور کامل ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ نے اپنے تجزیہ میں کلی طور پر مذہب کو نظر انداز کر دیا اس کے باوجود آپ یہ سمجھتے ہوں گے کہ تجزیہ قطعی اور کامل ہے۔
مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ریاست یا حکومت کو اس میں ٹانگ اڑانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ جب تک آئین پاکستان میں مذہبی شقیں موجود ہیں یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ریاست یا حکومت کو اس میں ٹانگ اڑانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ جب تک آئین پاکستان میں مذہبی شقیں موجود ہیں یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اول تو اس تھریڈ کا موضوع مذہب بمقابلہ سائنس نہیں لہذا یہ آپ کو اپنی کمپنی کی مشہوری کے لیے ہر تھریڈ میں ایسی بحث کرنے کا شوق ہے۔
دوم مذہب انسان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے تو سیاست بھی انسان کی ذات کے متعلقات کے متعلق ہی پالیسی سازی کرتی ہے وہ غیر انسانوں کی ایڈمنسٹریشن نہیں کرتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
دوم مذہب انسان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے تو سیاست بھی انسان کی ذات کے متعلقات کے متعلق ہی پالیسی سازی کرتی ہے وہ غیر انسانوں کی ایڈمنسٹریشن نہیں کرتی۔
لبرل سیکولر ریاستوں میں بھی مذہب سے متعلق قانون سازی ہوتی ہے مگر وہاں باقاعدہ نام لے کر کسی خاص مذہب کو ریاست کا مذہب کہا نہیں جاتا۔ اور نہ ہی کسی مخصوص مذہبی طبقہ کو کافر قرار دیا جاتا ہے۔
آئین ملک کے تمام باسیوں کیلئے بلا تفریق دستور اساسی کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے۔ اسی لئے اس میں مذہبی بنیادوں پر تقسیم غیر ضروری ہے۔
 

احسن جاوید

محفلین
ژولیدہ فکر اور اور سمپلی فیکیشن ، کمپلیکس معاملہ کو سادہ فکری سے بیان کر کے اخذ کردہ نتائج کو قطعی سمجھنا
آپ نے اپنے تجزیہ میں کلی طور پر مذہب کو نظر انداز کر دیا اس کے باوجود آپ یہ سمجھتے ہوں گے کہ تجزیہ قطعی اور کامل ہے۔
میں تو جو سمجھ رہا ہوں بیان کر رہا ہوں لیکن محسوس ہوتا ہے آپ کو موضوع سے زیادہ اختلاف رائے رکھنے والے کی ذات پہ تبصرہ کرنے میں دلچسپی ہے۔ میں کلی طور پر مذہب کو سیاست میں نہ لانے کا قائل ہوں اور میں اپنے اس بیانیے پہ قائم ہوں۔ مذہب کو سیاست میں نہ لانے والے معاشرے بھی قائم ہیں اور چل رہے ہیں لہذا یہ معاملہ اتنا بھی کمپلیکس نہیں ہے جتنا اس کے حصار میں آپ خود کو قید کر کے دوسروں پہ اوور سمپلیفیکیشن اور ژولیدہ فکری جیسے الزام لگانے کی سعی کر رہے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میں تو جو سمجھ رہا ہوں بیان کر رہا ہوں لیکن محسوس ہوتا ہے آپ کو موضوع سے زیادہ اختلاف رائے رکھنے والے کی ذات پہ تبصرہ کرنے میں دلچسپی ہے۔ میں کلی طور پر مذہب کو سیاست میں نہ لانے کا قائل ہوں اور میں اپنے اس بیانیے پہ قائم ہوں۔ مذہب کو سیاست میں نہ لانے والے معاشرے بھی قائم ہیں اور چل رہے ہیں لہذا یہ معاملہ اتنا بھی کمپلیکس نہیں ہے جتنا اس کے حصار میں آپ خود کو قید کر کے دوسروں پہ اوور سمپلیفیکیشن اور ژولیدہ فکری جیسے الزام لگانے کی سعی کر رہے ہیں۔
چوں کہ اس موضوع کا عنوان یہ نہیں لہذا اس موضوع پر مکالمہ ، مباحثہ یا مجادلہ میرا مطمع نظر نہیں کیوں کہ محفل پر کئی مقامات پر ایسی بحث موجود ہے اور یہ بحث بھی لا حاصل ہے کیوں کہ یہ دو مختلف فکری دھارے ہیں جو مختلف تصورِ علم اور ورلڈ ویو سے متعلق ہیں لہذا جہاں سیکولر لوگوں کی اکثریت ہے وہاں جمہوری اصولوں کے تحت سیکولر حکومت قائم ہے اور جہاں مذہبی لوگوں کی تعداد غالب ہے وہاں طرزِ حکومت میں مذہب سے راہنمائی کا عمل دخل زیادہ ہے۔ یعنی یہ لکم دینکم ولی دین والی بات ہے۔ آپ کی خواہش ہو کہ یہاں مولوی یا مذہب کی بات نہ ہو تو ۵۱ فیصد ووٹ غیر مذہبی اور مولوی سے نفرت سے مبنی نظریہ کی بنیاد پر پارلیمان میں لے آئیں اور ترمیم کر لیجیے ورنہ آپ کو مذہب سے راہنمائی حاصل کرنے والے آئین و حکومت کا احترام یا اسے برداشت کرنا ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
جہاں سیکولر لوگوں کی اکثریت ہے وہاں جمہوری اصولوں کے تحت سیکولر حکومت قائم ہے
بھارت کی اکثریت مذہبی ہندو ہے مگر ریاست سیکولر ہے
اسرائیل کی اکثریت مذہبی یہودی ہے مگر ریاست سیکولر ہے
امریکہ کی اکثریت مذہبی مسیحی ہے مگر ریاست سیکولر ہے
 
Top