لاکھوں کی سنا تم نے تقدیر سنواری ہے


لاکھوں کی سنا تم نے تقدیر سنواری ہے
مجھ سے یہی کہ دیتے اب کہ تیری باری ہے
ڈالی ھے نظر جب سے اک نشہ سا طاری ہے
کیا کوئ پری ساقی شیشے میں اتاری ہے
کیوں اسکو رجھائیں گے جنت کے حسیں جلوے
دھلیز تیرے در کی جس خاص کو پیاری ہے
وراثت میں ملی ہم کو شاہی بھی فقیری بھی
اور غم تو "شفق" گویا جاگیر ہماری ہے
 
Top