لال مسجد آپریشن شروع

پاکستانی

محفلین
پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ لال مسجد والے ہتھیار ڈال دیں ورنہ مارے جائیں گے۔

بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے دوران سنی شوران میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر مشرف نے کہا کہ حکومت زیادہ طاقتور ہے اور لال مسجد کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے، لیکن انہیں مسجد میں موجود بے گناہ عورتوں اور بچوں کا خیال آتا ہے کہ کہیں نقصان نہ پہنچ جائے۔
تفصیل
 

شمشاد

لائبریرین
یہ مولوی صاحب بلا وجہ بیکار کی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ معصوم بچوں کو ڈھال بنایا ہوا ہے۔ ایک تو برقعے میں فرار ہوتے پکڑے گئے، ان کو موقع نہیں مل سکا۔ یہ تو حرام موت مریں گے ہی، باقیوں کو بھی مروائیں گے۔

اللہ انہیں ہدایت دے اور یہ اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
منیر بھائی آپ یقین کریں میرا دل اس وقت خون کے آنسو رو رہا ہے۔

آپ ذرا تصور کریں ان بچوں کا جو اندر پھنسے ہوئے ہیں، ڈرے ہوئے، سہمے ہوئے، بے بس، بے گناہ، معصوم، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دین سیکھنے آئے تھے کہ پڑھ کر اسلام کی خدمت کریں گے لیکن ان ظالموں نے کیا سے کیا کر دیا۔

وہ برقع پوش مفرور کہہ رہا تھا کہ میں اس لیے بھاگ رہا تھا کہ زیادہ کشت و خون نہ ہو۔

تم سیدھا سیدھا اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیتے تو اتنا بھی خون نہ بہتا۔

وہ لوگ جو مارے گئے کیا ان کے لواحقین ان کو ساری عمر بھول پائیں گے؟ ان میں ایک 21 سالہ طالبعلم بھی تھا جو ادھر سے گزر رہا تھا، کیا اس کے والدین یہ صدمہ برداشت کر پائیں گے؟

وہ صحافی، کیا اس کے بال بچے جیتے جی نہیں مر گئے؟

اللہ تو ایک چیونٹی کو بھی بغیر وجہ کے مارنے کا حساب لے لے گا، یہ تو اشرف المخلوقات کو بے دردی سے مار رہے ہیں، کس لیئے؟ صرف اپنی انا کی خاطر، اپنی ضد کے لیے۔
 
شمشاد خون کے آنسو کس کا دل نہیں رو رہا مگر ذمہ داری صرف لال مسجد والوں پر ڈال کر آپ حکومت کو کس طرح بری الذمہ کر سکتے ہیں جس نے چھ ماہ تو ''مثالی صبر ' کیا او رپھر ایسی بے صبری کے بغیر نوٹس اور وارننگ کے اتنا بڑا آپریشن شروع کر دیا کہ اتنے لوگوں کی جان داؤ پر لگا دی ہے۔ چھ ماہ پہلے جو کاروائی پولیس کی سطح کی تھی وہ اب آرمی کے گرینڈ آپریشن سے بھی حل نہیں ہو رہی۔

کیا حکومت نے پچھلے تین دن میں کسی مذاکرات یا کسی وفد کو گفتگو کرنے کی اجازت دی ہے اور جو لوگ مذاکرات کر رہے تھے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟

مشرف صاحب کا اصرار ہے کہ ہتھیار ڈال دیں ورنہ مارے جائیں گے اور کسی قسم کا کوئی مذاکرہ نہیں کہ کسی طرح ان لوگوں کو لال مسجد سے نکال لیا جائے اور کسی اور جگہ ان سے معاملہ کیا جائے۔

حکومت کی رٹ قائم کرنے کی رٹ اب ہی کیوں اور اتنی لاشیں گرا کر کس پر رٹ قائم کرے گی ؟ چھ ماہ تک یہ رٹ کہاں سوئی ہوئی تھی اور اب یہ مسلسل جاگنے پر بضد کیوں ہے ۔ لوگوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے اور سب کو شدت پسند اور انتہا پسند بنانے کے ایجنڈے کو روشن خیالی کا نام دے رکھا ہے ۔ اب لوگوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں سب کو ختم کر دینا چاہیے ، ان لوگوں کو مکمل صفایا کر دینا چاہیے ، انسانی جانوں کے ضیاع کے لیے کتنی آسانی سے لوگ رائے دے رہے ہیں کیونکہ فضا ہی ایسی پیدا کر دی گئی ہے کہ لوگ اس معاملہ کا جلد از جلد حل چاہتے ہیں اور حکومت ہر طرح سے اس سے ثمرات اٹھا رہی ہے ۔

لوگ مدارس سے متنفر
لوگ مذہبی اور دینداروں سے متنفر
لوگ سب بھول کر اس طرف متوجہ
لوگوں کی تنقید کا رخ حکومت سے مڑ‌کر اس طرف

اس سے اچھا اور بہترین استعمال اور کیا ہو سکتا تھا لال مسجد کا۔
 

شمشاد

لائبریرین
میں یہ نہیں کہتا کہ ساری ذمہ داری لال مسجد والوں کی ہے بلکہ اس میں حکومت بھی برابر کی شریک ہے۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی ہے۔

لال مسجد والوں کی نیت بھلے ہی ٹھیک ہو لیکن ان کا طریقہ کار غلط تھا۔

دوسری طرف آپ یہ بھی دیکھیں کہ اصغر مال روڈ پر ایک مکان کی چھت پر Anti Air Craft Gun موجود ہے۔

یہ دوسری پارٹی اتنی آگے چلی گئی اور انٹیلیجنس والے سوئے رہے۔ اب جبکہ اس گھر کا مالک پکڑا گیا ہے تو اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہو جائے کم ہے۔
 

سید ابرار

محفلین
لال مسجد

چند سوالات صدر مشرف سے؛
1 ۔ اب تک جتنے طلبا اور طالبات آپ کے "سورماوں" نے شہید کیے ہیں کیا انہوں نے مملکت پاکستان میں کسی کا قتل کیاتھا 2۔ یاکسی کی آبرو لوٹی تھی 3۔ یاکسی کی زمیں پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا 4۔یا کسی مدرسہ پر ناحق بمباری کی تھی 5۔ یا دور جدید کے فرعون بد ترین دہشت گرد امریکہ کی عقوبت گاہوں اور مقتلوں میں معصوم پاکستانیوں، جن پر کسی پاکستانی عدالت میں کوئ الزام ثابت نہ کیا جاسکا ،کو پیسوں کے عوض پکڑ پکڑکر بھیجاجاتارہا
6۔ یا ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے ایک ایسے معاشرہ میں زندگی گذارنے کی خواہش کی تھی جہاں سو فیصد شریعت نافذ کی جاے
7۔ یا انھوں نے ایک ایسا” انوکھا “ احتجاج ایک ایسے ”سنگ دل “ حکمران کے سامنے کرنے کی کوشش کی جس نے اس ”گستاخی “ کی پاداش میں ان کی گردن قلم زد کرنے کا حکم دیا
 

مہوش علی

لائبریرین
چند سوالات صدر مشرف سے؛
1 ۔ اب تک جتنے طلبا اور طالبات آپ کے "سورماوں" نے شہید کیے ہیں کیا انہوں نے مملکت پاکستان میں کسی کا قتل کیاتھا 2۔ یاکسی کی آبرو لوٹی تھی 3۔ یاکسی کی زمیں پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا 4۔یا کسی مدرسہ پر ناحق بمباری کی تھی 5۔ یا دور جدید کے فرعون بد ترین دہشت گرد امریکہ کی عقوبت گاہوں اور مقتلوں میں معصوم پاکستانیوں، جن پر کسی پاکستانی عدالت میں کوئ الزام ثابت نہ کیا جاسکا ،کو پیسوں کے عوض پکڑ پکڑکر بھیجاجاتارہا
6۔ یا ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے ایک ایسے معاشرہ میں زندگی گذارنے کی خواہش کی تھی جہاں سو فیصد شریعت نافذ کی جاے
7۔ یا انھوں نے ایک ایسا” انوکھا “ احتجاج ایک ایسے ”سنگ دل “ حکمران کے سامنے کرنے کی کوشش کی جس نے اس ”گستاخی “ کی پاداش میں ان کی گردن قلم زد کرنے کا حکم دیا

ابرار صاحب،
حیرت ہے کہ آپ کو ابھی تک لال مسجد کے گھناؤنے جرائم نظر نہیں آئے۔

سب کچھ چھوڑئیے کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ سالوں سے یہ لوگ ناجائز زمین پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور پھر اسے مسجد کا نام دیتے ہیں۔ کیا یہی آپکا اسلام اور لال مسجد والوں کا اسلام ہے؟
ایسی غاصبی جگہ کو مسجد کہنا خود مساجد کی توہین ہے۔ چنانچہ اسے لال مسجد کہنے کی بجائے "لال نامسجد" کہا جائے تو بہتر ہے۔

تو اس غاصبی جگہ کی برکت تھی جو یہ جگہ شروع سے ہی فساد و فرقہ بندی کا گڑھ بن گئی۔ (ایجنسیوں کو تو ایسی ہی انکی سرگرمیاں نظر نہیں آئیں) مگر کیوں آپ بھی اب تک اتنے اندھے بن رہے ہیں کہ آپکو انکی فرقہ پرستانہ سرگمیاں نظر نہیں آئیں، اور دوسرے فرقوں کے خلاف جو نفرتیں یہاں پھیلائی جا رہی تھیں اور جو خطبے بیان کیے جاتے تھے تو آپ ان خطبوں کو سننے سے ابتک بہرے بنے ہوئے ہیں۔ صد افسوس۔

اور یہ بہرا پن اُس وقت اپنے عروج پر پہنچا جب اس غاصبی نامسجد والے اپنی اسی نفرت بھری تعلیم و تربیت کا اظہار کرتے ہوئے خواتین کے اغوا کے وقت "شیعہ کافر" کے نعرے لگا رہے تھے، مگر ہمارے میڈیا کا بہرہ پن یہ تھا کہ کسی ایک چینل یا اخبار والے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس بات پر غازی برادران سے کوئی سوال کرتے یا پھر اخبارات میں لکھنے والے کالم نگار دانشوروں میں سے کوئی ایک کالم نگار بھی اپنے کالموں میں اس کی مذمت کرتا۔

اگر نفرتوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو یہ صرف "شیعہ کافر"' پر ختم ہونے والا نہیں، بلکہ اسکے بعد یہی مسلح دھشت گرد "بریلوی کافر" کے نام پر اہلسنت کا قتل عام کرنے والے ہیں، اور اسکے بعد پھر "دیو بندی" اور "اہلحدیث" ایک دوسرے پر فتوے بازیاں کرتے ہوئے ٹوٹنے والے ہیں۔ (شاید آپکو علم نہ ہو مگر اہلحدیث اور دیو بندی حضرات میں بہت عرصے سے ایک دوسرے کے خلاف فتوے بازیاں شروع ہیں اور کتابیں لکھ کر ایک دوسری کی تضحیک کی جا رہی ہے)۔

تو ابرار صاحب،
یہ لال نامسجد (جو کہ مسجدِ ضرار سے بھی زیادہ مسلم امت کے لیے نقصان دہ ہے)، کیا وجہ ہے کہ آپ کو ابھی تک انکی یہ "بنیادی" برائیاں اور جرائم ہی نظر نہیں آ سکے؟ اگر آپ یہ بنیاد ہی نہیں مانتے تو ان کے باقی گھناؤنے کردار کو آپکے سامنے رکھنا باعثِ عبث ہی ہو گا اور آپ کچھ بھی سوچنے سمجھنے دیکھنے جاننے سے قاصر رہیں گے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
شمشاد خون کے آنسو کس کا دل نہیں رو رہا مگر ذمہ داری صرف لال مسجد والوں پر ڈال کر آپ حکومت کو کس طرح بری الذمہ کر سکتے ہیں جس نے چھ ماہ تو ''مثالی صبر ' کیا او رپھر ایسی بے صبری کے بغیر نوٹس اور وارننگ کے اتنا بڑا آپریشن شروع کر دیا کہ اتنے لوگوں کی جان داؤ پر لگا دی ہے۔ چھ ماہ پہلے جو کاروائی پولیس کی سطح کی تھی وہ اب آرمی کے گرینڈ آپریشن سے بھی حل نہیں ہو رہی۔

کیا حکومت نے پچھلے تین دن میں کسی مذاکرات یا کسی وفد کو گفتگو کرنے کی اجازت دی ہے اور جو لوگ مذاکرات کر رہے تھے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟

مشرف صاحب کا اصرار ہے کہ ہتھیار ڈال دیں ورنہ مارے جائیں گے اور کسی قسم کا کوئی مذاکرہ نہیں کہ کسی طرح ان لوگوں کو لال مسجد سے نکال لیا جائے اور کسی اور جگہ ان سے معاملہ کیا جائے۔

حکومت کی رٹ قائم کرنے کی رٹ اب ہی کیوں اور اتنی لاشیں گرا کر کس پر رٹ قائم کرے گی ؟ چھ ماہ تک یہ رٹ کہاں سوئی ہوئی تھی اور اب یہ مسلسل جاگنے پر بضد کیوں ہے ۔ لوگوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے اور سب کو شدت پسند اور انتہا پسند بنانے کے ایجنڈے کو روشن خیالی کا نام دے رکھا ہے ۔ اب لوگوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں سب کو ختم کر دینا چاہیے ، ان لوگوں کو مکمل صفایا کر دینا چاہیے ، انسانی جانوں کے ضیاع کے لیے کتنی آسانی سے لوگ رائے دے رہے ہیں کیونکہ فضا ہی ایسی پیدا کر دی گئی ہے کہ لوگ اس معاملہ کا جلد از جلد حل چاہتے ہیں اور حکومت ہر طرح سے اس سے ثمرات اٹھا رہی ہے ۔

لوگ مدارس سے متنفر
لوگ مذہبی اور دینداروں سے متنفر
لوگ سب بھول کر اس طرف متوجہ
لوگوں کی تنقید کا رخ حکومت سے مڑ‌کر اس طرف

اس سے اچھا اور بہترین استعمال اور کیا ہو سکتا تھا لال مسجد کا۔


محب،

کبھی یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی چیز کے لیے پروگرامائزڈ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے مجھے مشرف حکومت پسند ہے تو میں شاید میں ہر عمل کی تائید کرتی رہوں۔
تو محب، کیا یہ ممکن ہے کہ آپ حکومت مخالفت کے لیے اتنے پروگرامائزڈ ہو چکے ہوں کہ اسکی ہر حرکت پر اعترا
 

مہوش علی

لائبریرین
معذرت،
میں نے محب کی پوسٹ کے جواب میں ایک لمبی تحریر لکھی تھی، مگر لگتا ہے کہ "ناظمین" کی جانب سے یہ طے ہے کہ کوئی بھی پوسٹ "ہزار" الفاظ سے زیادہ کی نہ ہو۔ اس وجہ سے باقی تمام پوسٹ کٹ گئی اور باقی نامکمل تحریر کو میں نے ڈیلیٹ کر دیا کیونکہ مجھ میں طاقت نہیں ہے کہ اس کو پھر سے مکمل کر پاتی۔
 

زیک

مسافر
سب کچھ چھوڑئیے کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ سالوں سے یہ لوگ ناجائز زمین پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور پھر اسے مسجد کا نام دیتے ہیں۔ کیا یہی آپکا اسلام اور لال مسجد والوں کا اسلام ہے؟
ایسی غاصبی جگہ کو مسجد کہنا خود مساجد کی توہین ہے۔ چنانچہ اسے لال مسجد کہنے کی بجائے "لال نامسجد" کہا جائے تو بہتر ہے۔

لال مسجد ناجائز زمین پر نہیں ہے کہ اسلام‌آباد کے شروع کے زمانے کی ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ملحق جامعہ حفصہ لڑکیوں کا مدرسہ ناجائز زمین پر ہے۔ پڑھیں یہ اور یہ۔
 

رضوان

محفلین
مہوش علی
میں نہیں سمجھتا کہ محب یہ سب کچھ محض حکومت کی مخالفت میں لکھ رہا ہے بلکہ یہ زمینی حقائق ہیں جو صرف یہاں رہتے ہوئے ہی بندہ بھگتتا ہے اور اسی کیے مطابق ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔ میرے حساب سے تنقید یا تائید سے کوئی پروگرامڈ نہیں ہوجاتا ہاں جس رنگ کی عینک پہن رکھی ہو اس سے منظر ضرور رنگا جاتا ہے۔
میں مشرف اور ملّا دونوں ہی کی مخالفت کرتا ہوں لیکن ان کی چالوں کا تجزیہ غیر جانبدار ہو کر کیجیے۔ آپ مدلّل گفتگو جاری رکھیے لیکن یاد رکھیے کہ پاکستانی سوسائٹی میں تمام مزہبی فرقے سماجی آزادی کے لیے ایک جیسی نجس سوچ رکھتے ہیں بس فرق اتنا ہے کہ کسی کا لاؤڈ اسپیکر آن ہے تو کوئی صرف مجالس میں آگ لگاتا ہے۔ ان کی معاش اسی کام سے وابستہ ہے اور اس کے علاوہ یہ کوئی ہنر نہیں جانتے اب بیچارے آگ نہ لگائیں تو روٹی کیسے پکے گی ہاں اس آگ کا ایندھن ساری عوام ہے سنی شیعہ مسلمان ہندو اورعیسائی کی کوئی تفریق نہیں۔
اہلِ محفل سے گزارش ہے کہ عینکیں صاف رکھیے
 

ظفری

لائبریرین
جو لوگ دینی شناخت کے ساتھ معاشرے میں جیتے ہیں ان کی رسوائی پر دل خون کے آنسو روتا ہے اور اسی طرح جب مذہبی سیاست دانوں کی اخلاقی پستی دیکھتا ہوں تو اپنی ذات میں سمٹنا اور شرمندہ ہوتا رہتا ہوں ۔ ایک ہی خیال ذہن میں سوال اٹھاتا ہے کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ دین سے محبت کرنے والے سوچیں کہ ایسی ناکامی ، شرمندگی اور رسوائی ان کا مقدر کیوں بنتی ہے ۔ ؟ آکر ملا عمر اور صدام جیسے لوگ ہماری صفوں‌ میں کیوں ہوتے ہیں ۔ میں یہاں کسی کا اخلاص اور اخروی انجام زیرِ بحث نہیں‌ لانا چاہتا ۔ یہ وہ اُمور ہیں جن کا علم صرف عالمِ الغیب کو ہے ۔ ہم سب کے لیئے تو سوال یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے نام پر مسلمانوں کی قیادت کے حقدار ہیں ان کی حکمتِ عملی میں ہمیشہ شکست ہی کیوں لکھ دی گئی ہے ۔ ؟

لال مسجد کے سانحے نے ان سوالات کو ایک بار پھر تقویت دی ہے ۔ اور یہ واقعہ ہماری توجہ بھی انہی سوالات کی طرف دلانا چاہتا ہے ۔ اور آج ہم اپنے اپنے دائرے سے اگر باہر نہیں نکلیں تو یقین مانیں یہ اس طرح کے واقعات مستقبل میں بھی رونما ہوتے رہیں گے ۔

میں نے یہاں جس قسم کی پوسٹیں دیکھیں ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ان کی سوچوں اور نظریات کو دیکھوں تو مجھے نہیں لگتا کہ یہاں کوئی بھی میری اس تلخ نوائی سے خوش ہوگا ۔ مگر پھر بھی میں یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کہ اگر سب ہی اسلام کی خدمت کے دعویدار ہیں تو کیوں نہ میں ایک کنارے پر کھڑے ہوکر ان سے کچھ سوال کر لوں ۔

اس ضمن میں میرا پہلا سوال یہ ہے کہ ۔۔۔۔ دین کی اس تعبیر کا ماخذ کیا ہے ۔ ؟ جس نے آج کے واقعے سمت آج کے مسلمان معاشرے کو اس قدر انتشار میں مبتلا رکھا ہے ۔ ؟ مسلمان اہلِ علم ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔ جو حق اور سچ کی بات کرتے رہیں ہیں ۔ مگر ان کا وجود کبھی کسی فتنے ، شر یا فساد کا باعث نہیں بنا ۔ خلافت راشدہ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے استثنا کے ساتھ مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی ایسا دور نہیں رہا جس میں فی الواقع دینی تعلیمات کی حکمرانی ہو ۔ اس کے باوجود مسلم اہل ِ علم نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے کسی مسلمان کی زندگی خطرے میں پڑی ہو ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ لال مسجد کا تعلق فقہ حنفی سے ہے ۔ اس فقہ کی مستند کتاب " ہدایہ " میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ " الا مر بالمعروف ہالیدالی الاامراء باللسان الی غیر ھم " یعنی ہاتھ یا طاقت کے ساتھ برائی کو روکنا اور معروف کو قائم کرنا حکمرانوں کا کام ہے ۔ اور جن کے پاس طاقت نہیں وہ زبان سے برائی کو روکیں ۔ ابو امام حنیفہ رحمتہ اللہ تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان کے پاس ممنوعہ آلات ِ موسیقی ہیں اور کوئی دوسرا مسلمان اسے توڑ دے تو اُسے تاوان دینا پڑے گا کیونکہ اس نے اپنی حد سے زیادہ تجاویز کیا ۔ جب فقہی روایت یہ کہتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روایت پسندی کی شہرت رکھنے والے ان علماء کے اس طرزِ عمل کا ماخذ کیا ہے ۔ ؟ جس کے تحت وہ برائی کو ہاتھ سے روکنے کے مجاز ہوگئے ہیں ۔

دوسرا یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ جب ہم اسلام کے نام پر مسلم معاشرے کو انتشار اور فساد میں مبتلا کرتے ہیں تو اسکا فائدہ کس کو جاتا ہے ۔ اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس سے اسلام اور مسلمانوں کو کتنا فائدہ ہوا ۔؟ میں مسلسل دیکھ رہا ہوں کہ " ایک دو " کو چھو ڑ کر ہر کوئی حکومت کے خلاف اپنی رائے دے رہا ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ حکمرانوں ‌کا رویہ مثالی نہیں ہے مگر ان کو ہٹانے کے لیئے مسلمانوں‌ کے معاشرے کو مستقلاً اضطراب اور انتشار میں رکھنا اسلام کی کونسی خدمت ہے ۔ ؟ ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایک تحریک اسلام کے نام پر برپا رہتی ہے ۔ جس سے معاشرہ مسلسل اضطراب ، بے چینی اور عدم و استحکام کا شکار ہے ۔ اور اس صورتحال میں اب نہ تو سیاسی اصطلاحات ممکن رہیں ہیں اور نہ ہی معاشی اصطلاحات ۔ حکمرانوں سے لیکر عوام الناس تک دعوتِ حق پہنچانا اور لوگوں کو ان کی دینی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا کبھی بھی دشوار یا ممنوع نہیں رہا ہے ۔ اور آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جدید ذرائع ِ ابلاغ کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے ۔ اسکے باوجود اسلام کے نام پر معاشرے میں عدم واستحکام پھیلانے کا کیا جواز ہے ۔ ؟

آخری سوال یہ ہے کہ کیا اخلاقیات کا سیاست اور مذہب سے اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا ۔ لال مسجد کے ذمہ داروں نے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے اسے شرعی ، اخلاقی ، عقلی آئینی اعتبار سے کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ حکومت کو ہٹانے کی ضد میں بعض علماء بھی اس حد تک گر گئے ہیں کہ کوئی بھی اس طرزِ عمل کی مذمت کے لیئے تیار نہیں ہوا ۔ مجھے تو پہلی مرتبہ مولانا فضل الرحمن قاضی احمد حیسن سے بہتر جگہ پر کھڑے نظر آئے ۔ کہ انہوں نے اس طرزِ عمل کو قطعی غلط قرار دیا ( میں اسی ٹاپک پر کسی جگہ چینیوں کے اغواء کے حوالوں سے ذکر کر چکا ہوں ( ۔ انہوں نے حکومت کی مذمت تو کی مگر لال مسجد والوں کا دفاع نہیں کیا ۔ قاضی صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کو غلط نہیں کہا ۔ جناب بلوچ سے کئی پہلوؤں سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہا " اس کی ذمہ دار حکومت ہے " جنرل حمید گُل نے ارشاد فرمایا کہ " یہ سب امریکہ کے اشارے پر کیا گیا ہے " ۔
یہ وہ لوگ ہیں جو کم از کم میرے نزدیک اخلاق و کردار کے لحاظ سے بہترین لوگ ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جب معاشرے کی اس سطح کے یہ لوگ بھی گروہی مفادت کی اسیری میں سچ کو سچ کہنے کو تیار نہیں تو پھر اس معاشرے کے مستقبل کے بارے میں کوئی کیسے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرے ۔ ؟
مسلمانوں کو گذشتہ کئی عشروں سے جس زوال کا سامنا ہے اس کے بارے میں مسلم علماء اور رہنماؤں نے کچھ تجزیات کیئے ہیں ۔ ان میں ایک تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس حالتِ زار اغیار کی سازشوں کا نتیجہ ہے ( جس میں امریکہ سرفہرست ہے ۔( ۔ دوسرا اس حالت کی زبوں حالی کا اصل سبب ہمارے حکمران ہیں ۔ چناچہ اس تجزیئے کے نتیجے میں جو حکمت عملی سامنے آئی ۔ اس کے تحت کبھی انگریزوں اور امریکہ کے خلاف اعلان جہاد ہوا ۔ مزید یہ کہ مسلمان معاشروں کے اندر اصلاح کی ہر کوشش کا دائرہ سیاست ہی رہی ۔ یعنی کہ ان تمام تجزیات اور تحریکوں کے مطابق اگر مسمانوں کا اقتدار صالح لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے تو تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ یہ تجزیہ غلط تھا ۔ سو اس کی بنیاد پر جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی وہ بھی نتیجہ انگیز ثابت نہ ہوسکی ۔ ہم نے غیروں کے خلاد اعلانِ جہاد کیا تو ہمارا معاشرہ سید احمد اور شاہ اسماعیل جیسے جلیل و القدر لوگوں سے خالی ہوگیا ۔ مسلمان حکمرانوں کے خلاف جہاد کیا توقبضہِ خانہِ کعبہ اور لال مسجد جیسے واقعات رونما ہوگئے ۔
چناچہ انہی باتوں کو ذہن میں رکھ کر ایک یہ تجزیہ حکمتِ عملی کی بنیاد میں رکھا جا سکتا ہے ۔ جس کے دو بنیادی نکات یہ ہوں ۔ ایک ۔۔۔ یہ کہ ہماری حالتِ زار کے اسباب خارج میں نہیں بلکہ داخل میں ہیں ۔ دوسرا یہ کہ اصلاح کا حدف حکمران نہیں عوام ہیں ۔ اقتدار نہیں سماج ہے ۔ اگر اس نظریے پر غورو فکر کیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ کئی اور ایسے پہلو سامنے آجائیں جو ہمارے معاشرے کو عدم و استحکام سے بچا سکیں ۔ اور کسی اور عالم ِ دین کا اس طرح تمسخر نہ اُڑسکے اور نہ ہی دوسرے لوگوں کے ساتھ ایسے معصوم طلبا و طالبات کا خون بہہ سکے جو مستقبل میں اللہ کی کتاب کی مفسر ہوتے اور زمانے کے سامنے اس آخری واہدی الہی کے عجائب خانے بے نقاب کرتے ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم پروفیسر ظفری بہت اچھا لکھا آپ نے اور کئی اچھے نکات اٹھائے ہیں

---------------------------------
موضوع سے ہٹ کر... آپ شعر کے علاوہ نثر میں ضرور لکھیں آپ کے کئی جملے اس پوسٹ میں بہت اچھے ہیں.
 

مہوش علی

لائبریرین
ظفری کی پوسٹ میں بہت اچھے نکات ہیں (میرا خیال ہے کہ ظفری نے جنگ اخبار کے کالم سے مواد لیا ہے، بہرحال انہیں یہاں پوسٹ کرنے کا شکریہ۔

رضوان،
آپکی بات بالکل درست ہے کہ انتہا پسندوں کا کوئی دین مذھب نہیں ہوتا۔ کوئی مسجد میں آگ لگاتا ہے تو کوئی مجالس میں اور اسی طرح اپنی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں کہ اگر وہ یہ نہ کریں تو شاید انہیں کوئی سننے نہ آئے۔

مگر ایک حقیقت ہے کہ اختلاف رائے ہے اور اسی اختلاف رائے کی وجہ سے پورے پورے فرقے وجود میں آئے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اختلاف کو صرف اختلاف رکھنے کی بچائے انہیں فتنہ بنا دیا گیا ہے۔ مثلا مولانا مودودی کے اپنے نظریات ہیں اور انہوں نے اہل تشیع کے نظریات پر اپنی کتابوں اور خاص کر ماہنامہ ترجمان القران میں اکثر گرفت کی ہے۔ میں مودودی صاحب سے پوری متفق ہوں کہ انہیں حق حاصل ہے کہ وہ گرفت کریں اور اپنے نظریات کی حقانیت کے لیے دلائل پیش کریں۔

مگر مودودی صاحب اور سپاہ صحابہ میں پھر بھی ہمیں فرق کرنا چاہیے۔ اختلاف دونوں جگہ ہے مگر ایک جگہ صرف اختلافِ رائے تک محدودی ہے جبکہ دوسری طرف فتنے تک پہنچ جانا ہے۔ تو اس دوسری قسم کی ہر جگہ تنقید کی جانی چاہیے اور یہ اتنی کھل کر ہو تاوقتیکہ وہ اپنا فتنہ ختم کر کے اختلاف رائے تک محدود نہ ہو جائیں۔ لیکن یہاں ہو یہ رہا ہے کہ ان فتنے والوں کو ہیرو بنایا جا رہا ہے اور کوئی کھل کر اس پر تنقید نہیں کر رہا۔ تو پھر بتائیں کہ یہ فتنہ کیسے ختم ہو گا؟
 

مہوش علی

لائبریرین
لال مسجد ناجائز زمین پر نہیں ہے کہ اسلام‌آباد کے شروع کے زمانے کی ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ملحق جامعہ حفصہ لڑکیوں کا مدرسہ ناجائز زمین پر ہے۔ پڑھیں یہ اور یہ۔

زکریا،
جہاں تک میں نے پڑھا ہے تو لال مسجد ابتدا میں بہت چھوٹی جگہ پر تعمیر ہوئی تھی۔ مگر موجودہ مسجد کو طول و عرض اسکے قانونی رقبے سے بڑھ گیا ہے۔ اور اسکے بعد پھر جامعہ حفضہ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ وہ آرٹیکل ڈھونڈ سکوں۔

جہاں تک پوسٹ کی لمبائی دس ہزار الفاظ کا تعلق ہے تو واقعی یہ مناسب لگتا ہے۔ بہرحال تجربات سے پتا چلے گا کہ یہ کافی ہے یا نہیں کیونکہ میرے خیال میں میری پوسٹ اتنی لمبی نہیں تھی اور شاید مستقبل میں باقی ممبرز بھی اتنی لمبی پوسٹ لکھیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محب
شمشاد خون کے آنسو کس کا دل نہیں رو رہا مگر ذمہ داری صرف لال مسجد والوں پر ڈال کر آپ حکومت کو کس طرح بری الذمہ کر سکتے ہیں جس نے چھ ماہ تو ''مثالی صبر ' کیا او رپھر ایسی بے صبری کے بغیر نوٹس اور وارننگ کے اتنا بڑا آپریشن شروع کر دیا کہ اتنے لوگوں کی جان داؤ پر لگا دی ہے۔ چھ ماہ پہلے جو کاروائی پولیس کی سطح کی تھی وہ اب آرمی کے گرینڈ آپریشن سے بھی حل نہیں ہو رہی۔

محب، آپکو دوبارہ بہت مختصر الفاظ میں جواب دینے کی کوشش کر رہی ہوں۔

محب، آپکو کس نے کہہ دیا کہ حکومت نے 6 ماہ بعد بغیر وارننگ کے آپریشن شروع کر دیا؟
اور کیا واقعی آپکا یہ خیال ہے کہ 6 ماہ پہلے جب انہوں نے چلڈرن لائبریری پر قبضہ کیا تھا تو یہ پولیس کی سطح کا معمولی آپریشن تھا؟ آپکی رائے کے برعکس میرے مطابق آج سے 6 ماہ پہلے جامعہ حفضہ والوں کو زیادہ سپورٹ حاصل تھی اور اُس وقت آپریشن میں دو چار طالبات بھی زخمی ہو جاتیں تو لال مسجد کے یہ ملا حضرات واقعی آسمان سر پر اٹھا دیتے اور انکے خود کش حملوں کو بھی عوام میں تائید مل جاتی۔ مگر آج 6 ماہ کے بعد لال مسجد والے کمزور اور حکومتی موقف مضبوط ہوا ہے۔



کیا حکومت نے پچھلے تین دن میں کسی مذاکرات یا کسی وفد کو گفتگو کرنے کی اجازت دی ہے اور جو لوگ مذاکرات کر رہے تھے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟ مشرف صاحب کا اصرار ہے کہ ہتھیار ڈال دیں ورنہ مارے جائیں گے اور کسی قسم کا کوئی مذاکرہ نہیں کہ کسی طرح ان لوگوں کو لال مسجد سے نکال لیا جائے اور کسی اور جگہ ان سے معاملہ کیا جائے۔

افسوس کہ ہماری یاداشتیں بہت کمزور ہیں۔ فتنہ جب اٹھتا ہے تو اتنی آسانی سے نہیں بیٹھتا۔ اور اگر حکومت مخالفت میں ہم یہ بھول جائیں کہ پچھلے 6 ماہ سے لال مسجد والے جس طرح مذاکرات کے نام پر حکومت (بلکہ اپنی ایم ایم اے) کا جس طرح مذاق اڑاتے چلے آ رہے ہیں تو یہ ایک بڑا سانحہ ہو گا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ جو 6 ماہ سے باتوں سے نہیں مانے وہ ان 3 دنوں میں مان جائیں گے؟ تو پھر یہ محاورہ کس کے لیے بنایا گیا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مگر ایک حقیقت ہے کہ اختلاف رائے ہے اور اسی اختلاف رائے کی وجہ سے پورے پورے فرقے وجود میں آئے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اختلاف کو صرف اختلاف رکھنے کی بچائے انہیں فتنہ بنا دیا گیا ہے۔ مثلا مولانا مودودی کے اپنے نظریات ہیں اور انہوں نے اہل تشیع کے نظریات پر اپنی کتابوں اور خاص کر ماہنامہ ترجمان القران میں اکثر گرفت کی ہے۔ میں مودودی صاحب سے پوری متفق ہوں کہ انہیں حق حاصل ہے کہ وہ گرفت کریں اور اپنے نظریات کی حقانیت کے لیے دلائل پیش کریں۔

مگر مودودی صاحب اور سپاہ صحابہ میں پھر بھی ہمیں فرق کرنا چاہیے۔ اختلاف دونوں جگہ ہے مگر ایک جگہ صرف اختلافِ رائے تک محدودی ہے جبکہ دوسری طرف فتنے تک پہنچ جانا ہے۔ تو اس دوسری قسم کی ہر جگہ تنقید کی جانی چاہیے اور یہ اتنی کھل کر ہو تاوقتیکہ وہ اپنا فتنہ ختم کر کے اختلاف رائے تک محدود نہ ہو جائیں۔ لیکن یہاں ہو یہ رہا ہے کہ ان فتنے والوں کو ہیرو بنایا جا رہا ہے اور کوئی کھل کر اس پر تنقید نہیں کر رہا۔ تو پھر بتائیں کہ یہ فتنہ کیسے ختم ہو گا؟

السلام علیکم مہوش... المیہ یہی ہے کہ اس سطح پر بہت کم اذہان پہنچ پاتے ہیں جس کا آپ نے ذکر کیا ہے. اسی وجہ سے عمومی طور پر منفی سوچ معاشرے میں پروان چڑھتی ہے جو منفی عمل بن کر تباہی پھیلاتی چلی جاتی ہے.

چند کام ایک ساتھ کئے جانے چاہییں :
  1. ضروی تنقید جہاں جہاں اس کی ضرورت ہو اور اس تنقید کا حق ادا کیا جائے.
  2. دوسرا ایسے متون ، گفتگو اور مباحث پیش کئے جائیں جو محدود اذہان کی تعلیم و تربیت میں مددگار ثابت ہو سکیں.
  3. اختلافی امور پر پر گفتگو اس نہج پر کی جائے جس سے یہ فرق نمایاں تر ہو سکے کہ گفتگو اور شخصی پسند و نا پسند کس طرح محض اختلاف کی حد پار کر کے فرقہ واریت کو جنم دینے کا سبب ابتدا سے بنتی آئی ہے اور بن جاتی ہے .
 

مہوش علی

لائبریرین
حکومت کی رٹ قائم کرنے کی رٹ اب ہی کیوں اور اتنی لاشیں گرا کر کس پر رٹ قائم کرے گی ؟ چھ ماہ تک یہ رٹ کہاں سوئی ہوئی تھی اور اب یہ مسلسل جاگنے پر بضد کیوں ہے ۔ لوگوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے اور سب کو شدت پسند اور انتہا پسند بنانے کے ایجنڈے کو روشن خیالی کا نام دے رکھا ہے ۔ اب لوگوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں سب کو ختم کر دینا چاہیے ، ان لوگوں کو مکمل صفایا کر دینا چاہیے

محب، آئیے آپکے اس اعتراض کو تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ مگر پہلے یہ بتائیں کہ کیا آپ اللہ کے اس قرانی فرمان کو مانتے ہیں کہ اہل فتنے کو قتل کرو اور اس حد تک قتل کرو یہ یہ ختم نہ ہو جائے یا پھر اپنے فتنے سے تائب نہ ہو جائے؟ (اور خدارا اب یہ بحث نہ شروع کر دیجئے گا کہ یہ حکم صرف کفار کے لیے ہے۔

علی ابن ابی طالب (خلیفہ چہارم) کا خارجی مسلمانوں کا قتلِ عام

خارجی مسلمانوں کا وہ گروہ ہے جو اپنے تقوے، راستگوئی اور دینداری اور بہادری میں باقی تمام مسلم گروہوں سے آگے تھا۔ اس گروہ میں بڑے بڑے تابعین موجود تھے اور دیندار اتنے تھے کہ جب میدان میں فوج اکھٹی ہوئی اور کھجور کے درخت کاٹ کر نماز ادا کرنے کا وقت ہوا تو پہلے اس جگہ اور درختوں کی قیمت وہاں کے مالک کو ادا کی (لال مسجد والوں کے برعکس جو دوسری جگہوں پر غاصبوں کے طرح قبضہ آور ہو رہے ہیں)۔

جبتک یہ خارجی پارسا مسلمان صرف زبانی کلامی حکومت پر تنقید کرتے رہے اُس وقت تک علی ابن ابی طالب نے ان کو کچھ نہ کہا، مگر جب انہوں نے مسلح ہو کر وارداتیں شروع کیں اور مار کٹائی کرنے لگے تو پہلے انہیں شہر بدر کیا گیا۔ مگر جب ان دیندار خارجی تابعین نے پھر بھی توبہ نہ کی اور کاروائیاں بڑھا دیں تو اس فتنے کو واحد حل وہی قرانی حکم باقی رہ گیا کہ اہل فتنہ کو قتل کرو حتیٰ کہ وہ جڑ سے ختم نہ ہو جائے یا پھر توبہ نہ کر لے۔

تو نتیجہ یہ نکلا کہ خلیفہ چہارم نے نہروان کے مقام پر اس تابعین کے گروہ سے جنگ کر کے انکا قتل عام کیا حتی کہ سوائے چار پانچ لوگوں میں سے کوئی نہ بچا۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

محب،
میں آپکے نظریات سے متفق نہیں ہو پائی کیونکہ ایک طرف آپ 6 ماہ پہلے کاروائی کرنے کا کہہ رہے ہیں، تو دوسری طرف جب حکومت نے بلوچستان میں کاروائی کر کے مسلح دھشت گردی سے وطن کو نجات دلائی تو آپ کی بندوق کا رخ پھر حکومت کے طرف ہو گیا اور بلوچستان کے ان مسلح لوگوں کو آپ نے دھشت گرد نہیں کہا۔ (جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم پر اسلحے کو وجہ سے فورا آپ نے دھشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا تھا۔ )

اور اب جب یہ لال مسجد والے پچھلے چھ ماہ سے مذاکرات کے نام پر اپنے فتنے کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور کوئی بات نہیں مانتے اور جب جی چاہتا ہے پولیس کی گاڑیوں کو حکومتی اہلکاروں سمیت اٹھا لیتے ہیں، اور کبھی اسلحے کے ساتھ ہی انہیں اغوا کر لیتے ہیں، نہ حکومت کی سنتے ہیں اور نہ اپنے دیگر ملا بھائیوں کی۔۔۔۔۔۔ تو ان سب کے باوجود آپ اب کہہ رہے ہیں کہ ان سے مذاکرات کرو؟؟؟؟ تو یہ بتائیے کہ حکومت کیا کرے کہ آپ کو خوش کر سکے؟
اور اگر حکومت اب بھی ان کو رہا کر دے تو کیا گارنٹی ہے کہ مستقبل میں انہیں پھر جہاد کی بشارت نہ ہو؟ اور انہیں پھر جہادی بشارت ہو گئی اور پھر انکی شرارتوں سے لوگ مارے گئے تو آپ ہی ہوں گے جو پھر اسی حکومت پر بڑھ چڑھ کر اعتراضات کر رہے ہوں گے۔

صورتحال یہ ہے کہ غازی برادران کے لیے حکومت نے اب بھی راستہ کھلا رکھا ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر گرفتاری دے دیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت قتل و غارت نہیں چاہتی۔ مگر غازی برادران کی غیر مشروط گرفتاری سے کم کوئی چیز قبول نہیں ہو سکتی۔ اور اگر آپ اب بھی اس حکومتی مطالبے پر اعتراضات کریں تو میرے مطابق ہر کسی کو خوش کرنا ممکن نہیں ہوتا اور ایسا کرنے والا خود بے وقوف ہوتا ہے۔
 
Top