لائبریری کیلیے کتابیں حاصل کرنے کی معلومات

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

باسم

محفلین
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر میں کسی سے لائبریری کیلیے کتاب فراہم کرنے کی بات کروں تو اس کے سامنے کیا ضروری تفصیلات رکھنی ہونگی؟
اور وہ کون سی باتیں ہیں جو کسی کو کتاب فراہم کرنے پر آمادہ کرسکتی ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
میں عام طور پر یہ کہتا ہؤں کہ آج کل لوگوں نے کتابیں اور رسائل خرید کر پڑھنا ہی کیا پڑھنا ہی ختم کر دیا ہے۔ یہ زمانہ محض Visual کا زمانہ ہے۔ لوگ بس ٹی وی یا کمپیوٹر کے سکرین پر نظریں جمانا چاہتے ہیں۔ اس نسل تک اگر اردو ادب یا دین کی رسائی کی خواہش ہے تو بہترین ذریعہ انتر نیٹ ہے جہاں اپنی کتابیں فراہم کی جائیں تو امید ہے کہ پرنٹ ورژن سے زیادہ پڑھی جائیں گی۔ اور یوں بھی اگر کتاب ابھی شائع نہ بھی ہوئی ہو تو پرنٹ ورژن میں تو بہت خرچ بھی ہوتا ہے، ای بکس میں بس کمپوز ہو جائے کتاب باقی ہم لوگ دیکھ ہی لیں گے اور سارا کام کر دیں گے۔
امید ہے کہ یہی سوال ہوگا باسم جس کا میں نے جواب دینے کی کوشش کی ہے میں نے۔
 

باسم

محفلین
شکریہ محترم اعجاز صاحب
یہ میرے دوسرے سوال کا جواب ہے
پہلا سوال مصنف کی اجازت کے بارے میں ہے کہ لائبریری کیلیے کس کس طرح کی اجازت ہوسکتی ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
مصنف سے کہا جائے کہ انتر نیٹ اڈیئشن پرنٹ ورژن سے بالکل مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ ایک تو یہ ای بک 20۔30 صفحات کی بھی ہو سکتی ہے، یہ نہیں کہ سو ڈیڑھ سو صفحات ہوں تب ہی متاب کا سوچا جائے۔ پھر یہ ایک کتاب اگر چھپ بھی چکی ہے تو مصنف کی اجازت سے اسی کتاب کی دو یا زائد ای بکس بن سکتی ہیں، یا دو کتابوں کو ملا کر تین چار کتابں بنائی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر حیدر قریشی کے تین چار مجموعۂ کلام میں سے میں نے تین کتابیں بنائی ہیں، ایک میں تمام نظمیں، ایک میں غزلیں اور ایک میں ماہیے۔ چنانچہ اگر مصنف کو ناشر کے کاپی رائٹ کا خطرہ ہو بھی تو ناشر سے فائل حاصل کرتے ہوئے مصنف یہ Undertaking دے سکتا ہے کہ بالکل اسی حالت میں یہ کتاب اسی نام سے شائع نہیں کی جائے گی۔ محض مواد کی فراہمی کے لئے کتاب کی ان پیج فائل ناشر کاپی رائٹ کے باوجود دے سکتا ہے۔
یوں بھی میں اکثر ادفبی کتابوں میں سے طویل مقدمے، تقریظات سب حذف کر دیتا ہں۔ محض اصل کتاب کے متن پر تو ادیب کا حق بہر حال ہوتا ہی ہے۔ ناشر کا حق محض مکمل صورت میں ہوتا ہے جس میں فلیپ کی آراء، مقدمے اور دوسرے پیش لفظ وغیرہ کے طور پر دئے گئے مضامین اور اسی ترتیب کے ساتھ اصل کتاب پر ہوتا ہے۔
مصنف سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان ای بکس کو بھی اپنی تصانیف کے طور پر اپنی مطبوعات میں ڈال سکتا ہے۔ جیسے کہیں پروفیسر شپ کے لئے مطبوعات کی اعداد کی ضرورت ہو تو ایک کتاب بھی اگر واقعی چھپی ہو تو اسی کے مواد سے دو عدد ای بکس بھی شائع ہوئی ہوں تو وہ مکمل تعداد تین بتا سکتا ہے۔
اگر اب بھی تشفی نہیں ہوئی ہو تو سوال ذرا واضح کرو۔
 

باسم

محفلین
جی ہاں میں سوال واضح نہیں کر پایا۔
ناشر کی بات کی ضرورت ہی نہیں صرف مصنف اور لائبریری کا معاملہ ہو
لائبریری کیلیے کتاب کی اشاعت کی حقوق کس کس طرح کے ہیں جو حاصل کیے جانے چاہییں؟
عام اجازت کہ جو چاہے جیسے چاہے شائع کرے لائبریری کی سائٹ پر، ای بکس کی شکل میں اور دوسری سائٹس پر
یا صرف لائبریری کیلیے خاص ہو
اور اجازت کے الفاظ کس طرح کے ہونے چاہییں جو کافی ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
ایف ڈی ایل ہو یا کرئیٹیو کامنس۔ دونوں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ اجازت اگر صرف ہم کو بھی ہوگی تو ہمارا حواکہ دے کر کوئی بھی ہناری فائل نقل کر سکتا ہے، لیکن یہ اصل فائل تب ہی مانی جائے گی جب ہمارے دئے ہوئے سرٹیفکیٹ سے مطمئن ہوں سب۔
ناشر کو بھی شامل کرنا پڑے گا۔ اکثر کتابوں پر مصنف کا ہی نہیں، ناش کا نام بطورکاپی رائٹ کے دیا جاتا ہے۔ مصنف سے صرف اس کتاب کے متن کے بارے میں گفتگو کی جائے تو بہتر ہو گا۔
 

اسد

محفلین
کیا لائبریری کے لئے کتب کا کاپی رائٹ حاصل کرنے کا کوئی ڈوکیومنٹ موجود ہے، جسے چھاپ کر ہم مصنف سے اجازت (دستخط) حاصل کر سکیں؟
میرے خیال میں کاپی رائٹڈ مواد ویب پر ڈالنے سے پہلے تحریری اجازت نامہ ضروری ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top