اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم شہزاد خرم

IbW-0019.gif


فضل ششم​
غدر کے بعد ابن الوقت اور نوبل صاحب کی پہلی​
تفصیلی ملاقات۔ ابن الوقت نے نوبل صاحبکے​
ساتھ میز پر چھری کانٹے سے کھاناکھایا​
دربار کے مجمع میں نوبل صاحب نے اپنی ملاقات کا وقت بیتا ہی دیا تھا، دربار کے تیسری دن ابن الوقت ٹامس صاحب کی کوٹحی پر جاموجود ہوا۔ کوٹھی بجائے خود ایک چھاؤنی تھی۔ دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ زود بنگلے میں ہیں۔ بنگلے کا احاطہ الگ تھا۔ دیکھتا کیا ہے کہ احاطے کے بیرونی دروازے پر ملاقاتیوں کی سواریاں کھڑی ہیں۔ دروازے کے اندر چھوٹا سا مگر وسعت پیش صحن کے مناسب چمن ہے، خوب صورت، آراستہ و پیراست، اور اتنے ہی سے چمن میں چار مالی کام کر رہے ہیں۔ درختوں کی شادابی، سڑکوں کی صفائی، روشوں کی درستی کہے دیتی ہے کہ مالی صرف نوکری کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنے شوق سے بھی کام میں لگے لپٹے رہتے ہیں۔ پر ہاں ، کیا ریوں کی قطع اور درختوں کے انتخاب سے ایک حاضی سلیقہ اور نداق ظاہر ہوتا ہے جو کسی مالی کے بس کا نہیں۔​
ابن الوقت اس چمن میں جابجا رکتا، ٹھٹکتا برآمدے تک پہنچا تو ملاقاتیوں کا ہجوم تھا! بعض کرسیوں پر تھے، بعض فرش پر اور بعض(شاید امیدوراہوں) برامدے کے دونوں طرف نیچے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ نوبل صاحب کے آدمی ابن الوقت کو جان پہچان تو چکے ہی تھے، آتا ہوا دیکھ سب نے اسے کھڑا ہو کر سلام کیا اور اتنی اس کے ساتھ حضوصیت برتی کہ ایک الگ کمرے میں لے جا کر بھٹادیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک چپراسی نے آ خر خبر دی کے صاح کو آپ کی اطلاع ہوگئی ہے۔​
ابن الوقت: پھر صاحب نے کیا فرمایا؟​
چپراسی: آپ نے دیکھا کتنے آدمی آپ سے پہلے کے آئے ہوئے بیٹھے ہیں۔​
ابن الوقت: ان لوگوں کی ملاقات چار چار پانچ پانچ منٹ بلکہ صاحب نے آپ کا آنا تو سن ہی لیا ہے، لوگوں کو جلد جلد رخصت کریں گے۔ کیا کہیں صاحب، ہمارے صاحب کا مزاج ہی اس طرح کا ہے کہ کوئی آکھڑا ہو تو اس کو جواب نہیں دیتے۔ ملنے کے تو بڑے دھنی ہیں اور اسی وجہ سے ہمیں چھٹی نہیں ملتی، نہیں تو اب تک کبھی کے آپ کے سلام کو حاضر ہوئے ہوتے۔ اتوار کو ضرور سارے شاگرد پیشہ پیش ہوں گے، سب لوگ بڑی آس لگارہے ہیں۔​
ادھر نوبل صاحب اپنی جگہ ابن الوقت کے خیال سے واقع میں دو ہی دو باتیں کر کے لوگوں کو اوپر تلے ٹال رہے تھے ، پھر بھی ابن الوقت کو آدھ گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔ اس کی ملاقات نوبل صاحب کے ساتھ ایسی حالت میں شروع ہوئی کہ نوبل صاحب کی اس وقت کچھ ہستی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد سے جب جب نوبل صاحب سے ملے، منصبی اور قومی تعزز ہر حال میں ان کے ساتھ تھا۔ خواجہ باقی باللہ کی سڑک پر جب کہ ابن الوقت بیکار میں پکڑا ہوا ایک گٹھراٹھانے کو تھا، نوبل صاحب کو اس نے دیکھا کئی انگریزوں کے ساتھ عربی گھوڑے پر سوار ۔ پھر دربار میں دیکھا تو دربار کا اہتمام کرتے ہوئے انگریزوں میں پیش پیش۔ پھر آج اپنے بنگلے پر کہ ملاقاتیوں کی سواریاں دروازوں پر کھڑی ہیں اور شہر کے بیسیوں رائیس سلام کے منتظر حاضر۔ شاگرد پیشہ لوگوں کی یہ کثرت کہ احاطہ بجائے خود ایک چھوٹا سا محلہ معلوم ہوتا ہے۔ ہر قسم کی متعدد سواریاں احاطے کے اس سرے سے اس سرے تک بھری پڑی ہیں۔ بنگلے کے​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
( 78 )



ہوں کہ آپ کو اتنی دیر انتظار کرنا پڑا۔آپ کے شہر میں مخبری کا بازار اس قدر گرم ہورہا ہے کہ جس نے کچھ نہیں کیا وہ خوف کے مارے پریشان ہے کہ دیکھئے کوئی کیا جاکر لگا دے اور حکام کی نظر ہے سخت ، اس سے لوگ اور بھی ہراساں ہیں ۔ابن الوقت کچھ کہنا چاہتا تھا کہ صاحب بول اٹھے: مجھ کو آپ سے بہت دیرتک باتیں کرنی ہیں اور کھانا میز پر رکھا جاچکا ہے ، چلئے کھاتے بھی جائیں اور باتیں بھی کرتے جائیں "۔

ابن الوقت : میں کچھ وقت کا ایسا پابند نہیں ہوں ۔ آپ کھائیے ، میں گھر جاکر کھا لوں گا اور ابھی کچھ ایسا ناوقت بھی نہیں ہوا۔
نوبل صاحب : مسکرا کر ابن الوقت کے ساتھ کھانے کے کمرے کی طرف کو چلتے ہوئے ) کیوں ، کیا آپ کو میرے ساتھ کھانے میں کچھ احتراز ہے ؟ میں وہی نوبل ہوں کہ میں نے اور آپ نے مہینو ں ایک جگہ کھانا کھایا ہے اور آپ کو بخوبی علم ہے کہ میں اس وقت بھی ایسا ہی عیسائی تھا جیسا غدر سے پہلے اور اب ہوں اور خدا نے چاہا ، اس کی مدد سے مرتے دم تک رہوں گا۔"

ابن الوقت : نہیں ، مجھ کو اپنی ذات سے تو اعتراض یا احتراز کچھ بھی نہیں مگرلوگ اس کو برا سمجھتے ہیں ۔

نوبل صاحب : مگر آپ بھی اس میں کچھ برائی پاتے ہیں یا نہیں ؟

ابن الوقت : نہیں ، میں تو ہرگز کس طرح کی کوئی برائی نہیں پاتا۔

نوبل صاحب : "ہندوستان کو جس کمزوری نے تباہ کیا ، اصل میں وہ یہی کمزوری ہے ۔خدا نے جیسے ان کی طبیعتیں بودی اور محکوم بنائی تھیں ،ویسے ہی یہ لوگ صدا سے بودے اور محکوم رہتے چلے آئے ہیں اور جب تک یہ کمزوری ان کی طبیعتوں میں ہے ، آگے کو بھی ضرور بودے اور محکوم رہیں گے ۔"

ابن الوقت کو پہلے ہی سے انگریزوں کی طرف رجحان تھا، اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ، نوبل صاحب کا اشارہ پاتے ہی مقابل کی ایک کرسی پر ڈٹ گیا اور یہ عیسائیت کا نہیں بلکہ اس کی انگریزیت کا گویا اصطباغ تھا ۔حسن اتفاق سے اس وقت میز پر کوئی انگریز نہ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
( 79 )



تھا۔ یوں تو کئی صاحب ان کی کوٹھی میں ٹھہر رہے تھے مگر سب کے سب مل کر شکار کھیلنے چلے گئے تھے اور بہتر ہوا کہ نوبل صاحب اکیلے تھے ورنہ آج ابن الوقت کی خوب ہی ہنسی اڑی ہوتی ۔ اس نے ناواقفیت کی وجہ سے کھانے میں ایسی بے تمیزیاں کیں کہ وہ تو نوبل صاحب ہی جیسا متین آدمی تھا کہ نہ تو اس کو ہنسی آئی اور نہ اس نے کچھ برا مانا ۔ہنسنے کو کھانے کھلانے والے خدمت گار کیا کم تھے مگر نوبل صاحب کے ڈر کے مارے کسی کی کیا مجال تھی کہ مسکرا بھی لیتا ، ہنسنا تو بڑی بات ہے ۔ ابن الوقت کے بےجا حرکتیں دیکھتے اور دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے نظر کرکے رہ جاتے ، ہر اپنی جگہ جاکر تو مارے ہنسی کے خوب لوٹ پوٹ ہوئے ہوں گے ۔ اس نے بے تمیزی سی بے تمیزی کی ، دائیں ہاتھ میں کانٹا لیا تو بائیں ہاتھ میں چھڑی ۔پھر نوبل صاحب کے بتانے سے کانٹا بائیں میں لیا تو چھری کو اس زور سے کانٹے پر ریت دیا کہ ساری چھری کی ساری باڑھ جھڑ پڑی ۔خدمت گار نے میز پر سے دوسری چھری اٹھا کر دی ۔ شاید آلو ہی تھا کہ اس کو کاٹنے لگے تو اچھل کر ، بڑی خیر ہوگئی کہ ٹیبل کلاتھ (دسترخوان ) پر آگرا۔پھر جب کسی چیز کو کانٹے میں پرو کرمنہ میں لے جانا چاہتا ، ہمیشہ نشانہ خطا کرتااور جب تک باری باری سے ناک اور ٹھوڑی اور کلے یعنی تمام چہرے کو داغ دار نہیں کرلیتا ، کوئی لقمہ منہ میں نہیں لے جاسکتا۔ اس دن کھانے کے بعد کوئی اس کو منہ دیکھتا تو ضرور یہی پھبتی کہتا کہ چہرہ ہے یا دیوالی کی کلھیا ہے ۔ اس نے کہا تو نہیں مگر اس کی سسکی سے کئی دفعہ شبہ ہوا کہ ہونٹوں میں یا مسوڑھوں میں یا زبان میں کہیں نہ کہیں کانٹا چبھا ضرور۔ پھر اول مرتبہ خدمت گار چھوٹی رکابی سامنے سے ہٹانے لگا تو اس نے سمجھا کہ وہ دسترخوان بڑھانا چاہتا ہے کچھ کہنے ہی کو تھا ، خدمت گار تھا سلیقہ مند ، سمجھ گیا اور یہ کہہ کر رکابی آگے سے کھینچ کر چلتا ہوا کہ دوسری صاف پلیٹ لاتا ہوں ۔ تمام کھانے میں کوئی چھ یا سات رکابیاں بدلی گئیں مگر اس بندہ خدا نے چھری کانٹا ہاتھ سے نہ چھوڑا ، جب تک خدمت گار نے منہ پھوڑ پھوڑ کر نہیں مانگا۔ جب خدمت گار پہلی قعب اس کے برابر لایا تو اس نے دونوں کنارے پکڑ ، ساری قعب اس کے ہاتھ سے لے ، چمچے سمیت اپنے آگے رکھ لی۔ خدمت گار نے کان میں جھک کر کہا کہ اس میں سے جتنا آپ کو درکار ہو چمچے سے اپنے سامنے کی رکابی میں
 

فہیم

لائبریرین
لے لیجئے۔ پڈنگ۔ کاںٹے سے کھانے کی تھی اس کو جو لگی مزے کی، چمچے سے ہڑپ اور اس پر مزہ یہ کہ ذرا سی اور دینا۔ اخیر میں سب سے زیادہ جو بے تمیزی تھی وہ یہ تھی کہ فنگر گلاس کا پانی اٹھا، پی لیا۔
ابن الوقت کی بعض حرکتیں حقیقت میں سخت بے جا تھین مگر واہ رے شرافت، نوبل صاحب شروع سے آخر تک گردن جھکائے بیٹھے رہے، گویا کچھ خبر ہی نہیں۔ مگر میں نے ناحق اس کو کھانے میں شریک کیا۔ اس کی پشیمانی اس خیال میں سے ان کو ضرور ایذادہ ہوئی وہگی کہ ایسی خصوصیت پر کیوں کر ہوسکتا ہتھا کہ عین وقت پر کھانے کی تواضع نہ کرتا۔ تواضع کرنا تو مناسب بلکہ واجب تھا اور اب تواضع کی تو آگے کو ایک راستہ کھلا اور بھلے کو آج کوئی انگریز کھانے میں شریک نہ تھا اور ہوتا تو ساری عمر ان بدتمیزیوں کی نقلیں کرکے مجھ کو چھیڑا کرا۔ نوبل صاحب جب تک میز پر رہے اسی فکر میں تھے کہ انہوں نے ابن الوقت کے ساتھ مطلق کسی قسم کی بات نہ کی، ورنہ نوبل صاحب کے میز کے چمچے تمام چھاؤنی میں مشہور تھے۔
خیر کھانے کے بعد نوبل صاحب نے ایک خدمتگار کو اشارہ کہ آپ غسل خانہ میں جاکر ہاتھ دھلواؤ۔ وہاں سامنے سنگھار میز پر قد آدم آئینہ لگا تھا، ابن الوقت نے جاتے ہی اپنا عکس دیکھا تو بے ساختہ انشاء اللہ خان کا وہ مقولہ یاد آگیا "داڑھی کو لگا شیخ کی اب بزر قطونا اور بجنے لگی گت"۔
بارے ہاتھ منہ دھو، آدمیوں کی جون مٰں آکر پھر نوبل صاحب کے پاس آئے۔ نہ جاننا بھی جب مزے کی بات ہے۔ ابن الوقت کو اتنا بھی متنبہ نہ ہوا کہ معذرت کرتا۔ نوبل صاحب نے تو اپنے لئے پائپ روشن کرلیا تھا۔ ابن لوقت کی طرف سگریٹ کا بکس سرکادیا کہ اس میں تمباکو ہے روم کے علاقے میں پیدا ہوتا ہے اور چرٹ کے مقابلے بہت ہلکا ہے آپ بے تامل پیجئے اور جب چند روز اس کی عادت کیجئے گا تو میں یقین کرتا ہوں کہ آپ اس کے سامنے حقے کو منہ بھی نہ لگائیں گے۔ میں صبح و شام اور کھانے کے بعد تو پائپ پیتا ہوں اور باقی اوقات یہی سگریٹ۔ ابن الوقت گڑ کھا چکا تھا اور گلگلوں سے کاہے کا پرپیز۔ دیا سلائی سلگا، لگا انجن کی طح بھک بھک منہ سے دھواں نکالنے۔ اب نوبل صاحب نے اپنی باتوں کا سلسلہ شروع کیا کہ "جس روز آپ سے خواجہ باقی اللہ میں ملاقات ہوئی، اس کے بعد سے میں برابر دہلی کے باہر باہر رہا۔ اسی انثاء میں ایک بار صاحب چیف کمشنر بہاردر نے کرنال میں مجھے بلوا بھیجا۔ تابہ دیر غدر کے حالات استفسار فرماتے رہے اور اسی کے ضمن میں آپ کا بھی ذکر آیا۔ مجھ کو اس بات کے جاننے سے سخت حیرت ہوئی کہ چیف صاحب کو آپ کے ذاتی اور خانگی حالات مجھ سے بھی زیادہ معلوم ہیں۔ وہ آپ کے دور نزدیک ایک ایک رشتے دار سے واقف ہیں اور جو جو حرکتیں ان لوگوں سے غدر میں سرزد ہوئی ہیں ان کے پاس تاریخ وار، نام دار سب کی تحریری یاداشت موجود ہے۔ مجاہدوں کا گھروں میں ٹھہرانا، ان کے لئے چندہ جمع کرنا، روپے سے، ہتھیاروں سے، کھانے کپڑے سے ان کی مدد کرنا، مجاہدین کے ساتھ جا جا کر دمدمے بنوانا اور دھاروں میں ان کا ساتھ دینا، سرکاری میگزین کے ہتھیاروں اور سرکاری کالج کی کتابوں کا لوٹنا، انگریزی عمارتوں کا ڈھانا، انگریزوں کے مارے جانے کا تماشہ دیکھنا، لوگوں کو بغاوقت کی ترغیب دینا، نمازیں پڑھ پڑ کر علی الاعلان انگریزی عمل داری کے غارت ہونے کی دعائیں مانگنا اور اس کے لیے وظیفے اور ختم پڑھنا اور کیا کرنا، سارے پتے کی خبریں (خدا جانے کس بھیدی نے ان کو بتائی ہیں) ان پر منکشف ہیں۔ جہاد کے اصل مہری فتوے، لوگوں کے خانگی خطوط اور تمام شاہی دفتر ان کے پاس ہے۔ غرض سب کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں۔ مجھ کو تو ایسا نظر آتا ہے کہ دلی کے مسلمانوں میں سے شاذ و نارد کوئی متنفس الزام بغاوت سے بچ جائے تو بچ جائے ورنہ رواداد بہت ٹیڑھی ہے۔
ابن الوقت: آپ نے کہیں میرے روزنامچے کا تو کچھ تذکرہ نہیں کردیا؟
نوبل صاحب: آپ نے ان سب تحریرات کو دیکھا ہوتا جو میں نے دیکھی ہیں تو آپ خود سمجھ لیتے کہ آپ کے روزنامچے کا نام لینا نہ صرف فضول و لاحاصل تھا بلکہ دلیل حماقت۔ اجی حضرت، نہیں معلوم ایسے ایسے کتنے روزنامچے سرکار میں پیش ہیں اور نہیں معلوم کتنے آدمی روزنامچہ نویسی کے کام پر مامور تھے۔
ابن الوقت: تو یہ دربار اور اشتہار اور قول و قرار سب لغو۔
نوبل صاحب: نہیں نہیں۔ غدر و بغاوت کچھ لڑکوں کا کھیل تو تھا نہیں، اس کا
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ۸۴
خدمت کےعوض میں نے سرکار سے کسی صلے یا انعام کی درخواست نہیں کی اور نہ مجھ کو اس کا استحقاق یا دعوٰی ہے۔میں نے اگر کچھ سلوک کیا( اگرچہ سلوک کا نام لیتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے تو آپ کی ذات سے کیا اور آپ نے اضعافاََ مضاعفتہ" مجھ کو اس کا عوض دیا۔میرا پچاس روپیہ بھی آپ پر خرچ نہ ہوا ہوگا 'آپ نے مجھ کو ہزار کا توڑا پکڑا دیا۔میں نے آپ کے میگزین لانے اور رکھنے اور بوعلی شاہ کے تکیہ تک پہنچانے میں ہرگا وہ بلکہ اس کی آدھی تہائی زحمت بھی نہیں اٹھائی جو آپ نے مجھ کو اور میرے ضخاندان کے لوگوں کو خواجہ باقی باللہ سےلانے میں۔آپ نے ہم لوگوں کو بیگار کی بے حرمتی سے بچالینے میں احسان کیا میں اپنے تمام خدمات کی اس ایک احسان کے مقابلے میں کچھ بھی حقیقت نہیں سمجھا۔غرض آپ نے اپنے ذاتی احسانات اسقدر مجھ پر لادئے ہیں کہ اگر شریف ہوں تو ساری عمر کو میری گردن آپ کے سامنے خم رہے گی اور یہ زمینداری جو بے استحقاق محض مجھ کو سرکار نے دی ہے ' یہ بھی آپ ہی کا طفیل ہے۔
ںوبل صاحب: آپ میں اور مجھ میں بڑا فرق ہے۔ آپ نے بے غرضانہ ' جوکھو اُٹھا کر مجھ کو پناہ دی مگر خیر " حساب دوستاں در دل" آئیے کچھ ضروری باتیں کریں۔ کھیر پور جو آپ کو انعام میں ملا ہے ' میں نے دیکھا ہوا ہے۔ میں گوڑ گانوہ کے صاحب کلکٹر کے ساتھ کئی بار وہاں شکار کو گیا ہوں۔ گوئوں میں تھوڑہ سا رمنہ اوتر ایک بہت بڑا تالاب ہے۔ گیہوں'چاول'نیشکر'روئی'نیل سب طرح کی عمدہ پیداوار وہاں بکثرت ہوتی ہے ۔ جب وہاں میرے جانے کا اتفاق ہوا' نادان سنگھ جس کا یہ گائوں ہے'مجھ سے ملا۔اچھی شان سے رہتا تھا۔اس کی رہنے کی گڑھی بجائے خود ایک قلعہ ہے۔نادان سنگھ کو گھوڑیوں اور بھینسوں کا بہت شوق تھا۔ ہزار ہزار روپے کی گھوڑی اس کی سواری میں رہتے تھی۔ غرض نادان سنگھ گوڑ گانوہ کے بڑے خوش حال زمینداروں میں سے تھا۔یوں تو اس کے پاس اور بھی گائوں تھے مگر اس کا مقولہ تھا بھگوان نے کھیر پور کی دھرتی بڑی اپچائو کی ہے اور اس نے کھیر پور کی آبادی میں اپنی پونجی اور عمر اور آسائش کو بے دریغ خرچ کیا ہے اور وہ اسی ایک گائوں کی آمدنی سے چھوٹا سا ایک راجہ بنا ہوا تھا۔ خیر فرض کیا جائے کہ جس قدر محاصل لوگ
۸۵
بیان کرتے تھے اس میں مبالغہ ہو اور لوگوں کا دستور بھی ہے کہ دوسرے کی آمدنی جانچنے میں بڑے سخی بن جاتے ہیں اور خرچ کے اندازہ کرنے میں بخیل' مگر عموماََ ضلع گوڑ گانوہ کے بندو بست سے وہاں کے زمیندار اس قدر رضا مند ہیں کہ جس گائوں کی جمع سنگین ہے اس میں بھی بعد وضع مصارف' بقدر جمع سرکاری منافع ہے تو اس حساب سے بھی آپ کی اکسٹرا اسسٹنٹ کی تنخواہ کہیں نہیں گئی۔ میں نے اس گائوں کے انتخاب میں دو باتوں کا لحاظ کیا۔ اول تو قربِ دہلی۔دوم اس گائوں کے رقبے میں سے ہوکر ریل نکلنے والی ہے اور ریل کی وجہ سے گاڑی کی حیثیت میں خوب ترقی ہوگی۔ میں نے آپ کے لیئے نوکری کے حاصل کرنے میں کوئی خاص جان بوجھ کر خود کوشش نہیں کی' اس لئے کہ میں نے عِز٘ت طلب ہندوستانیوں کو اکثر انگریزوں کی مدارات کا شاکی پایا اور اگر آپ نوکری کی خواہش کریں گے تو میں ہر وقت کوشش کرنے کو موجود ہوں۔
ابن الوقت: میں آپ سے بار بار عرض کرچکا ہوں کہ ہم لوگ پشت با پشت سے شاہی سرکاروں کے متوسل ہیں۔ ان سرکاروں کا یہ رنگ تھا کہ چھوٹی موٹی کل خدمتیں موروثی۔ یہ کتنے کتنے بڑے ااطمینان کی بات تھی کہ سارے ملازم نہ صرف اپنی بلکہ اولاد کی معاش سے بھی بے فکر تھے۔ میں واقعات کے طور پر ان سرکاروں کے دستور اور قاعدے آپ سے بیان کرتا ہوں' آپ ان کو درست نہ درست۔' واجب نہ واجب جو چاہیں سمجھیں۔ جرمانے' معطلی'موقوفی کانام بھی سارے قلعے میں کبھی کسی سے نہ سنا۔داد دہش انعام و اکرام کی کوئی حد نہ تھی۔ تیمور کی نسل نے کبھی روپے کو روپیہ سمجھا ہی نہیں۔ شاہی تنخواہیں اولاد اور اولاد پر تقسیم ہوتے ہوتے بعض کے حصے میں صرف پیسے رہ گئے تھے اور وہ بھی دو دو ڈھائی ڈھائی برس میں ملی تو ملی' ورنہ اکثر تنخواہیں محض برائے نام تبرک کی طرح۔ صرف سرکار کی داد دہش پر نوکروں کا گزر تھا۔ مگر وہ پیسے لوگوں کو ایسے عزیز تھے کہ مفتی صدرالدین خان صدر الصدور دہلی کی نقل مشہور ہے کہ قلعہ سے ڈحائی یا تین روپے ان کی تنخواہ کے بھی تھے۔ خواجہ محبوب علی خان نے تخفیف کا قلم جاری کیا تو مفتی صاحب کا نام بھی زمرہ ملازمانِ شاہی سے کاٹ دیا۔ مفتی صاحب تو مفتی صاحب' ایسے تین تین
 

زلفی شاہ

لائبریرین
سید مقبول شیرازی زلفی کے لیے :
صفحہ 88
بھائی صاحب: بات صاف صاف تو یہ ہے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مجھ جیسا تنگ مزاج آدمی رشوت لے بھی نہیں سکتا۔
میں: میں تو سنتا تھا کہ انگریز رشوت سے بہت چڑتے ہیں اور آپ کے فرمانے سے بالکل الٹی ابت معلوم ہوتی ہے۔
بھائی صاحب: سچ تو یہ ہے کہ مجھ کو کسی مرتشی انگریز سے معاملہ نہیں پڑا۔ نہ میں نے کبھی کسی انگریز کو رشوت دی۔ انگریزوں کی بڑی رشوت کیا ہے، ڈالی یا دورے میں گئے تو رسد یا ڈاک بٹھانے کی ضرورت ہوئی تو گھوڑا گاڑی یا شکار کو نکلے تو مانگنے کے ہاتھی وغیرہ یا خاص خاص لوگوں سے شاذ و نادر تحائف یا سوئیں ان چیزوں پر رشوت کا اطلاق نہیں کر سکتا۔ رسد میں تو اکثر نوکروں کی شرارت ہوتی ہے کہ صاحب سے بھی ایک ایک کے دو دو لیتے ہیں اور پیچ میں آپ چٹ کر جاتے ہیں اور صاحب کو خبر نہیں ہونے دیتے اور شاید کوئی میم والا صاحب ہوا اور میم ہوئی کفایت شعار، جز رس اور اس نے دھیلے انڈا اور آنے مرغی کے دام کاٹ دیے اور لکڑی گھاس مفت کہ یہ چیزیں تحصیل دار، تھانے دار دیہات سے ضرور بے قیمت لیتےہیں اور ہم کتنے ہی دام کیوں نہ دیں، اصل مالکوں کو کوڑی ملنے والی نہیں۔ تو ہاں اس کا بھی عجب نہیں۔ مگر پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ انگریزوں میں رشوت نہیں چلتی مگر ان کے حصے کی بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ ان کے اردلی، خدمت گار،شاگرد پیشہ،پیشے کے عملے لے مرتے ہیں۔اور صاحب کی آنکھ، کان اور زبان بلکہ ہم زاد جو کچھ یہی لوگ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص میری طرح ان ہم زادوں یا حرام زادوں کو راضی نہیں رکھ سکتا تو کتنا بھی بڑا عہدہ دار کیوں نہ ہو، اختیارات، حکومت، تنخواہ سب کچھ ہے مگر عزت نہیں۔اور میں چاہوں تو انگریزوں کے شاگرد پیشوں کو کچھ خرچ کر کرا کے راضی کر لے سکتا ہوںمگر مجھ کو ان کے نام سے کچھ ایک چڑ سی آ پڑی ہے کہ دوہری دوہری سواریاں رکھتا ہوں، خدا کے فضل سے نوکر بھی متعدد ہیں۔ مکان کا کرایہ، اخبار، کھانا، کپڑامیرا سارا خرچ میرے پندار میں اجلا ہے۔سال می سینکڑوں روپے تو ہسپتال ،مدرسہ اور متفرق چندوں میں نکل جاتے ہوں گے۔یہ تمام مصارف میں خوش دلی سےکرتا ہوں لیکن ڈالیوں اور
IbW-0026.gif
 

زلفی شاہ

لائبریرین
صفحہ 88
بھائی صاحب: بات صاف صاف تو یہ ہے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مجھ جیسا تنگ مزاج آدمی رشوت لے بھی نہیں سکتا۔
میں: میں تو سنتا تھا کہ انگریز رشوت سے بہت چڑتے ہیں اور آپ کے فرمانے سے بالکل الٹی ابت معلوم ہوتی ہے۔
بھائی صاحب: سچ تو یہ ہے کہ مجھ کو کسی مرتشی انگریز سے معاملہ نہیں پڑا۔ نہ میں نے کبھی کسی انگریز کو رشوت دی۔ انگریزوں کی بڑی رشوت کیا ہے، ڈالی یا دورے میں گئے تو رسد یا ڈاک بٹھانے کی ضرورت ہوئی تو گھوڑا گاڑی یا شکار کو نکلے تو مانگنے کے ہاتھی وغیرہ یا خاص خاص لوگوں سے شاذ و نادر تحائف یا سوئیں ان چیزوں پر رشوت کا اطلاق نہیں کر سکتا۔ رسد میں تو اکثر نوکروں کی شرارت ہوتی ہے کہ صاحب سے بھی ایک ایک کے دو دو لیتے ہیں اور پیچ میں آپ چٹ کر جاتے ہیں اور صاحب کو خبر نہیں ہونے دیتے اور شاید کوئی میم والا صاحب ہوا اور میم ہوئی کفایت شعار، جز رس اور اس نے دھیلے انڈا اور آنے مرغی کے دام کاٹ دیے اور لکڑی گھاس مفت کہ یہ چیزیں تحصیل دار، تھانے دار دیہات سے ضرور بے قیمت لیتےہیں اور ہم کتنے ہی دام کیوں نہ دیں، اصل مالکوں کو کوڑی ملنے والی نہیں۔ تو ہاں اس کا بھی عجب نہیں۔ مگر پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ انگریزوں میں رشوت نہیں چلتی مگر ان کے حصے کی بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ ان کے اردلی، خدمت گار،شاگرد پیشہ،پیشے کے عملے لے مرتے ہیں۔اور صاحب کی آنکھ، کان اور زبان بلکہ ہم زاد جو کچھ یہی لوگ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص میری طرح ان ہم زادوں یا حرام زادوں کو راضی نہیں رکھ سکتا تو کتنا بھی بڑا عہدہ دار کیوں نہ ہو، اختیارات، حکومت، تنخواہ سب کچھ ہے مگر عزت نہیں۔اور میں چاہوں تو انگریزوں کے شاگرد پیشوں کو کچھ خرچ کر کرا کے راضی کر لے سکتا ہوںمگر مجھ کو ان کے نام سے کچھ ایک چڑ سی آ پڑی ہے کہ دوہری دوہری سواریاں رکھتا ہوں، خدا کے فضل سے نوکر بھی متعدد ہیں۔ مکان کا کرایہ، اخبار، کھانا، کپڑامیرا سارا خرچ میرے پندار میں اجلا ہے۔سال می سینکڑوں روپے تو ہسپتال ،مدرسہ اور متفرق چندوں میں نکل جاتے ہوں گے۔یہ تمام مصارف میں خوش دلی سےکرتا ہوں لیکن ڈالیوں اور
 

زلفی شاہ

لائبریرین
مجھے ٹیگ کرنا نہیں آتا اور صفحہ لکھنے کا طریقہ بھی نہیں آتا یہ وجہ ہے کہ میں نے پہلے جواب میں لکھ کر کاپی کر کے یہاں پیسٹ کر دیا ہے منتظمین سے التماس ہے کہ راہنمائی فرمائیں۔
 

زین

لائبریرین
ص۔ 94

کیا لکھتے ہیں۔ ‘‘ اسی کشمکش میں بڑھتے بڑھتے میں تو اپنی بگھی تک جا پہنچا۔ سائیس پٹ کھولے کھڑا ہی تھا کہ پائیدان پر پاؤں رکھ‘ غڑپ بھگی کے اندر ۔ سائیس نے کھت سے پٹ بھیڑ دیا اور گھوڑا تھا کہ آہٹ پاتے ہی چل نکلا۔ میں نے کوچبان سے لے کر کاغذ کے پرزے میں ایک روپیہ رکھ ‘ پڑیا بنا‘ اُردلیوں کو دکھا کر نیچے پھینک دیا۔ پھر میں نے کھڑکی سے منہ نکال کر دیکھا تو ایک چپراسی نے پڑیا اٹھائی بھی۔ ایک روپیہ دیکھ کر یقینابہت ہی بگڑے ہوں گے مگر میں ان کی گالیوں کی زد سے باہر نکل جاچکا تھا۔
بگھی کے اندر بیٹھ کر میں نے ایک ایسا لمباسا سانس لیا جیسے کوئی مزدور سر پر سے بھاری بوجھ اتار کر۔ تمام راستہ اسی ملاقات کی ادھیڑ بن میں طے ہوا۔ بار بار خیال آتا تھا کہ سر رشتہ دار اور چپراسیوں کی نظر میں میری کیا عزت رہی ، اب یہ لوگ تمام شہر میں اس کا ڈھونڈرا پیٹیں گے۔ ایسی بے حرمتی سے روٹی کمانے پر لعنت ہے ۔ پھر دل کو سمجھاتا کہ عزت ایک امر اضافی ہے ‘ مجھے اپنے اقران و امثال پر نظر کرنی چاہیئے ، ان کے ساتھ بھی تو انیس بیس کے فرق سے ایسی ہی مدارس کی جاتی ہے تو جس مجلس میں سب ننگے ہیں وہاں لنگوٹی کی کیا شرم ۔
اسی حیص بیص میں گھر پہنچا۔ چند آدمی منتظر ملاقات بیٹھے ہوئے تھے مگر نہ وہ ڈپٹی تھے اور نہ میں کلکٹر کے برآمدے میں محتاج اطلاع بیٹھے ہوں، آئے تو میں موجود نہ تھا ‘ مزے میں گاؤ تکیوں کے سہارے سے پھیل پھیل کر بیٹھے۔ گھر میں پان آگئے‘آدمیوں نے حُقے بھر دیئے۔ جوں مجھ کو دیکھا‘ ایک صاحب بولے ’’ اللہ اکبر ڈپٹی صاحب‘ آج تو کلکٹر صاحب سے خوب گاڑھی چھنی۔ کون وقتوں سے میں آپ کا منتطر بیٹھا ہوں۔‘‘

دوسرے صاحب: آج بندے کا ارادہ بھی کلکٹر صاحب کے سلام کو جانے کا تھا‘ معلوم ہوا کہ ڈپٹی صاحب تشریف لے گئے ہیں۔ میں نے کہا بس آج کسی کی دال نہیں گلتی ۔
تیسرے صاحب: مدت سے جدید تحصیل داری قائم ہونے کی خبر تھی‘ یہاں تک کہ بورڈ سے منظوری بھی آچکی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج اسی انتظام کے صلاح

ص۔95


مشورے میں اتنی دیر لگی۔
لوگ آپس میں یہ باتیں کررہے ہیں اور میں کپڑے اتارتا جاتا ہوں اور اندر ہی اندر دل میں خوش ہوں کہ بھلا ہے ‘ خدا کرے لوگ ایسی ہی غلط فہمی میں مبتلا رہے
 

مقدس

لائبریرین
92

تھلگ جیسے اڈے پر گلدم' کرسی پر بیٹھنا ہی تھا کہ کمبخت چپراسی نے پیچھے سے ہاتھ جوڑ کر کہا" خداوند' سر رشتہ دار حاضر ہیں۔" صاحب ہیں کہ میری طرف دیکھتے جاتے ہین اور چپراسی فرما رہے ہی: "اچا آنے دو۔" یعنی اچھا' سر رشتہ دار سے کہو کہ چلے آئیں۔ سبحان اللہ! سات برس اسسٹنٹ رہے' نو برس کے قریب جنٹ اور اس سولہ برس میں صرف ایک بار ڈیڑھ سال کے لیے فراد پر ولایت گئے تھے بارہ برس دلی میں رہے اور بھاڑ جھونکا۔ چودہ برس ہیں حضرت نے اردو میں کیا کمال حاصل کیا ہے "اچا آنے بولو" اب میں منتظر ہوں کہ صاحب آگے کچھ تو پوچھیں تو جواب دوں اور سر رشتہ دار مردود' آگے آگے آپ' پیچھے بستہ قلم دان لیے ہوئے چپراسی' آ ہی گھسا۔ سر رشتہ دار کے روبرو مجھ سے پوچھتے ہیں تو کیا پوچھتے ہیں:"ول صاحب'گرمی بوٹ"۔
میں: (گردن جھکا کر) ہاں خدا وند' گرمی کے تو دن ہیں۔ میرے علاقے میں تو پولیس کی رپورٹ سے ایسا معلو ہوا ہے کہ لو سے کئی آدمی مرے۔
صاحب کو تو یہ جواب دے رہا ہوں اور دل میں کہہ رہا ہوں کہ گرمی کا تو حال معلوم تھا' ارے ظالم تجھ کو یہ بھی خدا کا ترس آیا کہ ایک بندہ خدا جس کو کچہری میں سرکار سے ایک ٹٹی ملتی ہے (ناظر اپنی بدذاتی سے تین برس کے پرانے خس کی بندھوا دیتا ہے تو وہ جانے اور اس کا ایمان) اور جس کو گھر پر بھی ٹٹ لگانے کا مقدور ہے اور جو واقع میں گرمی بھر اپنے گھر ٹٹی مٰں رہتا ہے' کتنی دیر سے برآمدے میں بیٹھا بھن رہا ہے' لاؤ سلام لے کر اس کو آذاد کروں۔ میں تو سمجھا تھا کہ آدمیوں کا لو سے مرنا سن کر چونک پڑے گا اور ضرور پوچھے گا کہ کس تھانے سے رپورٹ آئی' کتنے آدمی مرے' لو کا ہندوستانی کیا علاج کرتے ہیں اور کوئی لاش ڈاکٹر صاھب کے ملاحظے کو بھی آئی یا نہیں؟ غرض آدمی کا دل بولنے اور بات کرنے کو چاہے تو بہتر ہے حیلے ہیں' پر صاحب تو کچھ پی سے گئے۔ نہٰں معلوم دھیان سے نہیں سنا یا سمجھتے نہیں یا کالے آدمیوں کے مرنے کی پرواہ نہیں کی۔ اب سر رشتہ دار ہے کہ بستہ کھول' کاغذ پھیلا رہا ہے اور میری اور صاھب کی یہ تپاک کی ملاقات ہو رہی ہے کہ دونوں چپ۔ جب سر رشتہ دار کاغذ پھیلا' لگا صاحب کا منہ دیکھنے تو صاحب مجھ سے فرماتے ہیں' آُ کچ کچ۔۔۔"یعنی آپ کو کچھ اور کہنا ہے۔ یہ سنتے ہی میں تو یہ کہہ کر اٹھ کھڑا

93

ہوا کہ نہیں میں تو صرف سلام کے لیے حاضر ہوا تھا' بہت دن ہو گئے تھے' جی ملنے کو چاہتا تھا' پھر حاضر ہوں گا÷
میری اس اخیر بات میں۔۔۔ اور باتیں ہی ایسی کون سی بہت ہوئی تھیں کہ اس کو اخیر کہوں۔۔۔۔ بلکہ دوسری بات میں "جی ملنے کو چاہتا تھا" بالکل جھوٹ تھا۔ کس مسخرے کا جی ملنے کو چاہتا ہے۔ ملاقات کے بامزہ اور بے مزہ ہونے کا معیار وقت ہے' دیر تک ملاقات رہی تو جانو کہ خوب دل کھول کر باتیں ہوئیں۔ ہماری ملاقات کیا خاک بامزہ سمجھی جائے کہ جانا اور اٹھاؤ چالہے کی طرح بیٹھنا اور گفتگو اور رخصت سب کچھ دو ہی منٹ میں ہو ہوا چکا۔ اپنے ضساب سے کون ایسا تیسا ملاقات کے ارادے سے گیا تھا۔ خدا گواہ ہے صرف متھا پھٹول' وہ بھی اپنے سر کا چھد اتارنے کے لیے۔ صاحب مجھ سے چاہتے ایک بات بھی نہ کرتے مگر سر رشتہ دار اور چپراسیوں کو میرا التے پاؤں لوٹ آنا معلوم نہ ہوتا تو مجھ کو کچھ بھی شکایت نہ تھی مگر میری تفضیح ان لوگوں کی نطروں میں ہوئی جو منصبی عزت میں میرے پاسنگ نہ تھے۔
باہر نکلا تو چپراسیوں اور خدمت گاروں کا غول کا غول موجود تھا۔ مجھ کو دیکھتے ہی سب نے فراشی سلام کیا۔ الہی یہ کاہے کی ایسی لمبی چوڑی تعظیم ہو رہی ہے۔ گھنٹوں میں برآدمدے میں بیٹھا سوکھا کیا' ان میں سے کسی کی صورت بھی نظر نہین پڑی' اب یہ حشرات الارض کہاں سے نکل پڑے؟ آہا! مین اتنی جان نشانی کے بعد صاحب کو ایک سلام کر لینے کا گنہ گار ہوں یہ سرکاری پیادے اس کا جرمانہ وصول کرنے کے لیے مجھ پر تعنیات ہیں۔ ہر چند کہتا ہوں یہ سرکاری پیادے اس کا جرمانہ وصول کرنے کے لیے مجھے تعنیات ہیں۔ ہر چند کہتا ہوں' مکان پر آنا' تنخواہ پر دیکھا جائے گا' عید قریب ہے اس میں سمجھ لینا: بےحیا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ آخر میں نے ذرا ترش رو ہو کر کہا کہ اس وقت میرے پاس نہیں ہے' ہوتا تو دینے کا نام کبھی کا دے چکا ہوتا۔ ایسی ہی بےاعتباری ہے تو ایک آدمی میرے ساتھ چلو۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ایک آدمی تیار سا ہوا کہ مھ سے پہلے آگے کوچ بکس پر بیٹھ لے۔ اتنے میں جمعدار پنسل اور کاغذ نکال میرے ہاتھ دیا کہ حضور ناظر کو رقعہ لکھ دیں۔ جب جب میں قلم اٹھاتا تھا' بےادب ہاتھ پکر لیتے تھے: "پہلے فرما دیجئے کہ آپ
 
Top