قیس و فرہاد سے، صحراؤں بیابانوں سے

قیس و فرہاد سے، صحراؤں بیابانوں سے
توڑ آیا ہوں سبھی رابطے دیوانوں سے

ایسا آسودۂِ دل ہے ترے احسانوں سے
تیرا سائل کبھی ملتا نہیں سلطانوں سے

آگے بڑھ بڑھ کے لگاتا ہوں مصیبت کو گلے
میں وہ ساحل ہوں کہ ٹکراتا ہوں طوفانوں سے

ہر گھڑی جان ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں
کس میں ہمت ہے کہ الجھے ترے پروانوں سے

خود تو خلّاق جہاں کے بھی وفادار نہیں
اور امیدِ وفا ہے ہمیں انسانوں سے

۔ق۔
راہِ حق سے نہ پھریں، ظلم سے ٹکرا جائیں
رکھ نہ امید یہ ہم ایسے تن آسانوں سے

اب حسین ابنِ علیؓ جیسا مقابل ہی نہیں
جبر للکارتا ہے آج بھی ایوانوں سے
۔

جس طرح چاہے پرکھ دعویِٰ عشقِ عاطفؔ
صبر و اخلاص و وفا کے سبھی پیمانوں سے

عاطفؔ ملک
دسمبر ۲۰۲۰
خوبصورت خوبصورت! کیا بات ہے جناب! داد ہی داد۔
 
آسودہ بمعنی مطمئن
آسودۂِ دل بمعنی دل سے مطمئن یعنی اطمینانِ قلب کی کیفیت کا حامل
وجہ ۔۔۔۔ترے احسانوں سے
یعنی تیرے سائل کو ترے احسانوں کے طفیل ایسا اطمینانِ قلبی نصیب ہوا کہ اسے کسی سلطان سے ملنے کی حاجت نہیں۔
میں اپنے تئیں یہ کہنا چاہ رہا ہوں۔

آسودہ دلی والا مصرع اس لیے چھوڑا کہ اس میں شاید فاعل کی کمی محسوس ہوتی کہ آسودہ دلی کس کو ہوئی ہے۔
اور صرف آسودہ سے مجھے آسودۂ دل بہتر لگ رہا تھا۔

جہاں تک میری فہم ہے،خلّاق اسمِ صفت ہے،جس کا مطلب خالق ہی ہوتا ہے،بلکہ اس سے مراد افضل ترین یا کامل ترین خالق ہے۔
بالکل ویسے ہی جیسے رزّاق یعنی رزق دینے والا۔
اور میرا شعر یہ ہے کہ انسان اپنے خالق تک سے تو وفا کرتا نہیں،اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے وفا کی امید رکھتا ہے۔
امید کرتا ہوں کہ باقی احباب کو مفہوم کے ابلاغ میں مسئلہ نہیں ہو رہا ہوگا۔:)
لو جی ہم نے بھی اپنے جیسے انسانوں سے امید رکھ لی:p
آسودہ بمعنی مطمئن
آسودۂِ دل بمعنی دل سے مطمئن یعنی اطمینانِ قلب کی کیفیت کا حامل
وجہ ۔۔۔۔ترے احسانوں سے
یعنی تیرے سائل کو ترے احسانوں کے طفیل ایسا اطمینانِ قلبی نصیب ہوا کہ اسے کسی سلطان سے ملنے کی حاجت نہیں۔
میں اپنے تئیں یہ کہنا چاہ رہا ہوں۔

آسودہ دلی والا مصرع اس لیے چھوڑا کہ اس میں شاید فاعل کی کمی محسوس ہوتی کہ آسودہ دلی کس کو ہوئی ہے۔
اور صرف آسودہ سے مجھے آسودۂ دل بہتر لگ رہا تھا۔

جہاں تک میری فہم ہے،خلّاق اسمِ صفت ہے،جس کا مطلب خالق ہی ہوتا ہے،بلکہ اس سے مراد افضل ترین یا کامل ترین خالق ہے۔
بالکل ویسے ہی جیسے رزّاق یعنی رزق دینے والا۔
اور میرا شعر یہ ہے کہ انسان اپنے خالق تک سے تو وفا کرتا نہیں،اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے وفا کی امید رکھتا ہے۔
امید کرتا ہوں کہ باقی احباب کو مفہوم کے ابلاغ میں مسئلہ نہیں ہو رہا ہوگا۔:)
لو جی ہم نے بھی اپنے جیسے انسانوں سے امید رکھ لی:p

عاطف صاحب ، آداب!

جواب کا شکریہ! آپ نے آسودۂِ دل کا جو جواز بتایا ہے، وہ بجا معلوم ہوتا ہے . میں اِس ترکیب پر مزید غور کروں گا .

پانچویں شعر میں آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں، وہ آپ کی اور ظہیر صاحب کی وضاحت سے صاف ہو گیا . غرض یہ کہ لمبے راستے ہی سے سہی، مسافر آخر کار منزل تک پہنچ گیا . :)

اک بار پِھر، تفصیلی جواب کا شکریہ !

نیازمند،
عرفان عؔابد
 
خود تو خلّاق جہاں کے بھی وفادار نہیں
اور امیدِ وفا ہے ہمیں انسانوں سے
عرفان صاحب ، منقولہ بالا شعر میں خلاق پر اضافت لگالیجئے اور اسے "خلاقِ جہاں" پڑھئے تو آپ کے تمام اشکالات دور ہوجائیں گے ۔ اور مصرع اول میں خود کو"ہم خود" پڑھئے تو تمام اعتراضات بھی دور ہوجائیں گے۔ :):):)
عاطف میاں ، اسی لئے کہتے ہیں کہ شاعری میں ٹائپو نہیں ہونا چاہئے ۔پوسٹ کرتے وقت ذرا سی محنت تو ہوتی ہے لیکن بعد میں کئی قسم کے مسائل سے بچت ہوجاتی ہے ۔ :)



ایسا نہیں ہے جیسا کہ آپ سوچ رہے ہیں ۔آسودہ کے معنی ہیں مطمئن ، پرسکون ، آرمیدہ وغیرہ ۔ کسرہ کے ساتھ ترکیب اضافی بھی ہوتی ہے اور توصیفی بھی ۔ اس لئے اس کا سلیس ترجمہ بھی مفہوم کے لحاظ سے کیا جائے گا۔ آسودۂ خاک کے معنی خاک سے آرمیدہ نہیں بلکہ خاک میں آرمیدہ ہونگے ۔ آسودۂ ساحل یعنی ساحل پر مطمئن ۔ اسی طرح آسودۂ جاں کا مطلب اپنی جاں میں پرسکون یا مطمئن ہوگا۔ یہی مطلب آسودۂ دل کا ہوگا یعنی اپنے دل میں پرسکون یا مطمئن ۔ امید ہے کہ اب واضح ہوگیا ہوگا۔

ظہیر صاحب ، آداب!

خلاق والے شعر کی وضاحت کا شکریہ! واقعی ایک زیر کی کمی نے مجھے بالکل غلط فلائٹ پر بٹھا دیا تھا .:) اب عاطف صاحب کو کیا الزام دوں، یہ کوتاہی خود مجھ سے بارہا سرزد ہوتی ہے .

آپ کی آسودۂِ دل کی تفصیل بھی معقول ہے . میں اِس ترکیب پر مزید غور کروں گا .

احباب كے مراسلے پڑھنا اور ان پر تفصیلی جواب تحریر کرنا خاصہ دماغ ریزی کا کام ہے . اِس کار خیر كے لیے آپ کو سات توپوں کی سلامی پیش کی جاتی ہے .:)

نیازمند،
عرفان عؔابد
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
Top