قیس و فرہاد سے، صحراؤں بیابانوں سے

عاطف ملک

محفلین
قیس و فرہاد سے، صحراؤں بیابانوں سے
توڑ آیا ہوں سبھی رابطے دیوانوں سے

ایسا آسودۂِ دل ہے ترے احسانوں سے
تیرا سائل کبھی ملتا نہیں سلطانوں سے

آگے بڑھ بڑھ کے لگاتا ہوں مصیبت کو گلے
میں وہ ساحل ہوں کہ ٹکراتا ہوں طوفانوں سے

ہر گھڑی جان ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں
کس میں ہمت ہے کہ الجھے ترے پروانوں سے

خود تو خلّاق جہاں کے بھی وفادار نہیں
اور امیدِ وفا ہے ہمیں انسانوں سے

۔ق۔
راہِ حق سے نہ پھریں، ظلم سے ٹکرا جائیں
رکھ نہ امید یہ ہم ایسے تن آسانوں سے

اب حسین ابنِ علیؓ جیسا مقابل ہی نہیں
جبر للکارتا ہے آج بھی ایوانوں سے
۔

جس طرح چاہے پرکھ دعویِٰ عشقِ عاطفؔ
صبر و اخلاص و وفا کے سبھی پیمانوں سے

عاطفؔ ملک
دسمبر ۲۰۲۰
 
آخری تدوین:
خوب غزل کہی ہے ۔۔۔ قطعہ بھی کافی جاندار ہے ماشاءاللہ ۔۔۔
مطلعے میں مجھے دیوانوں کے مقابل صحرا بیابان کا لانا کچھ عجیب سا لگا۔ اغلب گمان یہی ہے کہ دیوانوں کی نسبت قیس و فرہاد کی جانب ہی ہوگی ۔۔۔ مگر بیابان و صحرا کے تذکرے سے معنی میں کچھ الجھاؤ پیدا ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔
 

عاطف ملک

محفلین
خوب غزل کہی ہے ۔۔۔ قطعہ بھی کافی جاندار ہے ماشاءاللہ ۔۔۔
مطلعے میں مجھے دیوانوں کے مقابل صحرا بیابان کا لانا کچھ عجیب سا لگا۔ اغلب گمان یہی ہے کہ دیوانوں کی نسبت قیس و فرہاد کی جانب ہی ہوگی ۔۔۔ مگر بیابان و صحرا کے تذکرے سے معنی میں کچھ الجھاؤ پیدا ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔
شکریہ
دیوانوں کی نسبت قیس اور فرہاد ہی سے ہے۔۔۔صحرا و بیابان کا ذکر بھی اسی تناظر میں کیا کہ ان سے قیس و فرہاد کی نسبت ہے:unsure:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ! اچھے اشعار ہیں عاطف بھائی !

مطلع کے بارے میں راحل بھائی کا نکتہ قابلِ غور ہے ۔ دوسرے مصرع میں "سبھی" کا لفظ اس بات کا متقاضی ہے کہ پہلے مصرع میں صرف دیوانوں کی بات ہو ۔ "سبھی" کو بدل کر دیکھیں ۔
 

عاطف ملک

محفلین
بہت خوب ! اچھے اشعار ہیں عاطف بھائی !
بہت شکریہ ظہیر بھائی:)
مطلع کے بارے میں راحل بھائی کا نکتہ قابلِ غور ہے ۔ دوسرے مصرع میں "سبھی" کا لفظ اس بات کا متقاضی ہے کہ پہلے مصرع میں صرف دیوانوں کی بات ہو ۔ "سبھی" کو بدل کر دیکھیں ۔
یہاں ہر قسم کا تعلق توڑنے کا ذکر کرنا چاہا تھا۔
یعنی توڑ آیا ہوں تعلق سبھی، دیوانوں سے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت شکریہ ظہیر بھائی:)

یہاں ہر قسم کا تعلق توڑنے کا ذکر کرنا چاہا تھا۔
یعنی توڑ آیا ہوں تعلق سبھی، دیوانوں سے
عاطف بھائی ، شعر سمجھ میں آرہا ہے اور اس میں کوئی خامی نہیں ہے ۔ صرف "فائن ٹیوننگ" کی بات ہورہی ہے۔ :)

عاطف بھائی ، کنایہ بڑے کام کی چیز ہے ۔ کنایہ شعر کی لطافت کو بڑھا دیتا ہے۔ مثلاً قیس و فرہاد کے بجائے دیوانوں اور دیوانگی کی علامات (یعنی پراکسی) کی بات کی جائے تو بہتر ہوگا ۔ قیس و فرہاد تو ظاہر ہے کہ دیوانے ہیں ہی اور یہ مشہور بات ہے۔ اس کے بجائے اگر یہ کہیں کہ کانٹوں سے ، بگولوں سے ،غزالوں سے ، بیابانوں سے وغیرہ ۔ توڑ آیا میں تعلق سبھی ، دیوانوں سے ۔ تو میری ناقص رائے میں شعر کی لطافت اور شعریت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
 

عاطف ملک

محفلین
عاطف بھائی ، کنایہ بڑے کام کی چیز ہے ۔ کنایہ شعر کی لطافت کو بڑھا دیتا ہے۔ مثلاً قیس و فرہاد کے بجائے دیوانوں اور دیوانگی کی علامات (یعنی پراکسی) کی بات کی جائے تو بہتر ہوگا ۔ قیس و فرہاد تو ظاہر ہے کہ دیوانے ہیں ہی اور یہ مشہور بات ہے۔ اس کے بجائے اگر یہ کہیں کہ کانٹوں سے ، بگولوں سے ،غزالوں سے ، بیابانوں سے وغیرہ ۔ توڑ آیا میں تعلق سبھی ، دیوانوں سے ۔ تو میری ناقص رائے میں شعر کی لطافت اور شعریت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
جی ظہیر بھائی درست فرمایا،
کوشش کی تھی کہ ایسا ہی کچھ کہہ سکوں۔لیکن مجھے قیس و فرہاد ہی کو لانا پڑا۔وحشت و جنوں بذاتِ خود آنے کو تیار نہیں تھے۔منانے کی کوشش کرتا ہوں۔شاید کوئی صورت بن جائے:)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جی ظہیر بھائی درست فرمایا،
کوشش کی تھی کہ ایسا ہی کچھ کہہ سکوں۔لیکن مجھے قیس و فرہاد ہی کو لانا پڑا۔وحشت و جنوں بذاتِ خود آنے کو تیار نہیں تھے۔منانے کی کوشش کرتا ہوں۔شاید کوئی صورت بن جائے:)
عاطف بھائی ۔ اگر خیال ذہن میں واضح ہے اور بات صرف مناسب پیرایہ یا الفاظ ڈھونڈنے کی ہے تو ایسی صورت میں غزل کو پال میں لگادینا چاہئے۔ کچھ دنوں کے غور و فکر کے بعد عموماً کوئی نہ کوئی بہتر صورت نکل آتی ہے ۔ :)

برسبیلِ تذکرہ ، مطلع کے دوسرے مصرع میں "سبھی" کی وجہ سے جو تعقید پیدا ہورہی ہے اسے یوں بھی دور کیا جاسکتا ہے :
قیس و فرہاد سے، صحراؤں بیابانوں سے
توڑ آیا ہوں سبھی رابطے دیوانوں سے

وغیرہ وغیرہ۔
 

عاطف ملک

محفلین
عاطف بھائی ۔ اگر خیال ذہن میں واضح ہے اور بات صرف مناسب پیرایہ یا الفاظ ڈھونڈنے کی ہے تو ایسی صورت میں غزل کو پال میں لگادینا چاہئے۔ کچھ دنوں کے غور و فکر کے بعد عموماً کوئی نہ کوئی بہتر صورت نکل آتی ہے ۔ :)
:)
قریباً دو سال سے ہماری زنبیل میں ہی موجود تھے یہ اشعار۔اس کے باوجود ہم سے یہی ہو پایا۔
احباب سے بھی رائے لی لیکن شاید ان سے بھی یہ نکتہ چوک گیا۔
برسبیلِ تذکرہ ، مطلع کے دوسرے مصرع میں "سبھی" کی وجہ سے جو تعقید پیدا ہورہی ہے اسے یوں بھی دور کیا جاسکتا ہے :
قیس و فرہاد سے، صحراؤں بیابانوں سے
توڑ آیا ہوں سبھی رابطے دیوانوں سے
جی بہت اچھی صلاح ہے۔میں ابھی مزید غور کرتا ہوں۔شاید کوئی اور بہتر صورت مل جائے۔
 
قیس و فرہاد سے، صحراؤں بیابانوں سے
توڑ آیا ہوں سبھی رابطے دیوانوں سے

ایسا آسودۂِ دل ہے ترے احسانوں سے
تیرا سائل کبھی ملتا نہیں سلطانوں سے

آگے بڑھ بڑھ کے لگاتا ہوں مصیبت کو گلے
میں وہ ساحل ہوں کہ ٹکراتا ہوں طوفانوں سے

ہر گھڑی جان ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں
کس میں ہمت ہے کہ الجھے ترے پروانوں سے

خود تو خلّاق جہاں کے بھی وفادار نہیں
اور امیدِ وفا ہے ہمیں انسانوں سے

۔ق۔
راہِ حق سے نہ پھریں، ظلم سے ٹکرا جائیں
رکھ نہ امید یہ ہم ایسے تن آسانوں سے

اب حسین ابنِ علیؓ جیسا مقابل ہی نہیں
جبر للکارتا ہے آج بھی ایوانوں سے
۔

جس طرح چاہے پرکھ دعویِٰ عشقِ عاطفؔ
صبر و اخلاص و وفا کے سبھی پیمانوں سے

عاطفؔ ملک
دسمبر ۲۰۲۰

عاطف صاحب ، آداب عرض ہے!

آپ کی غزل نظر نواز ہوئی . زیادہ تر اشعار صاف ستھرے اور قابل تحسین ہیں . داد قبول فرمائیے . مطلع پر قابل احباب اپنی رائے عنایت کر چکے ہیں . اجازت ہو تو دو باتیں اور عرض ہیں .

1 . شعر نمبر 2 میں آسودۂِ دِل کی ترکیب میرے لیے نئی ہے . اِس سے کیا مراد ہے؟ کہیں آپ آسودہ دِل تو نہیں کہنا چاہ رہے؟

2 . شعر نمبر 5 كے مصرع اولیٰ کی بنت بہتری چاہتی ہے . لیکن میری ناچیز رائے میں شعركے خیال پر بھی آپ کو دوبارہ غور کرنا چاہیے .

امید ہے آپ میری گستاخی پر خفا نہیں ہونگے .

نیازمند،
عرفان عؔابد
 

عاطف ملک

محفلین
عاطف صاحب ، آداب عرض ہے!

آپ کی غزل نظر نواز ہوئی . زیادہ تر اشعار صاف ستھرے اور قابل تحسین ہیں . داد قبول فرمائیے
ممنون ہوں
مطلع پر قابل احباب اپنی رائے عنایت کر چکے ہیں . اجازت ہو تو دو باتیں اور عرض ہیں .

1 . شعر نمبر 2 میں آسودۂِ دِل کی ترکیب میرے لیے نئی ہے . اِس سے کیا مراد ہے؟ کہیں آپ آسودہ دِل تو نہیں کہنا چاہ رہے؟
جی۔
آپ نے نشاندہی کی تو پتا چلا کہ یہ کچھ نیا ہوا ہے۔
ظہیراحمدظہیر بھائی نے بھی اس پر کلام نہیں کیا۔
اس کا متبادل تو شاید ہو سکتا کہ "آسودہ دلی" لے آئیں۔کیا فرماتے ہیں؟
2 . شعر نمبر 5 كے مصرع اولیٰ کی بنت بہتری چاہتی ہے . لیکن میری ناچیز رائے میں شعركے خیال پر بھی آپ کو دوبارہ غور کرنا چاہیے .

امید ہے آپ میری گستاخی پر خفا نہیں ہونگے
بہت بہتر۔میں دوبارہ غور کر لیتا ہوں۔
لیکن اگر آپ مناسب سمجھیں تو بتا دیجیے کہ کس پہلو سے نظرِ ثانی کی جانی چاہیے۔
آپ نے اپنی رائے دی،بہت اچھا لگا۔
ہم تو جو تھوڑا بہت الٹا سیدھا لکھ لیتے ہیں،اس میں سارا کمال محفل کے اساتذہ کی رہنمائی ہی کا ہے۔ورنہ ہم کہاں اور شعر گوئی کہاں!
اس لیے بلاتردد کہیے۔خفا ہونے والوں میں سے ہم نہ ہوں گے۔
والسلام
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
1 . شعر نمبر 2 میں آسودۂِ دِل کی ترکیب میرے لیے نئی ہے . اِس سے کیا مراد ہے؟ کہیں آپ آسودہ دِل تو نہیں کہنا چاہ رہے؟
جی۔
آپ نے نشاندہی کی تو پتا چلا کہ یہ کچھ نیا ہوا ہے۔
ظہیراحمدظہیر بھائی نے بھی اس پر کلام نہیں کیا۔
آسودہ کے معنی ہیں مطمئن ، پرسکون ، آرمیدہ وغیرہ ۔ آسودہ کی بہت ساری تراکیب اردو میں عام مستعمل ہیں ۔ جیسے آسودۂ خاک ، آسودۂ جاں ، آسودۂ غم ، آسودۂ راحت ، آسودۂ خواب وغیرہ وغیرہ ۔ ( عام طور پر کسی جگہ مدفون شخص کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ صاحب فلاں شہر میں آسودۂ خاک ہیں ۔)

احمد فراز کا شعر ہے : وہ جو آسودۂ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم ۔۔۔۔ اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر
عبیداللہ علیم کا شعر: نکہت ِگل کی طرح ناز سے چلنے والو ۔۔۔۔ ہم بھی کہتے تھے کہ آسودۂ جاں ہیں ہم لوگ
فیض کی نظم کا ایک شعر: کتنے وعدے جو نہ آسودۂ اقرار ہوئے ۔۔۔ کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بد خواہوں کی

اب عاطف کا شعر دیکھئے : ایسا آسودۂِ دل ہے ترے احسانوں سے ۔ تیرا سائل کبھی ملتا نہیں سلطانوں سے

آسودۂ دل کی ترکیب تو درست ہے اور عاطف کے شعر کا مطلب بھی سادہ سا ہے ۔ یعنی تیرے احسانوں کے سبب تیرا سائل اپنے دل( کی طرف)سے یا اپنے دل میں اس قدر آسودہ ہے کہ اسے سلطانوں سے ملنے کی ضرورت نہیں ۔
ویسے عاطف بھائی ، اس موقع پر مجھے تہِ ٹیگ خوب کیا آپ نے ۔ بھئی شعر آپ کا ہے تو اس کا مطلب بھی آپ ہی کو بتانا تھا نا! یعنی اگر ظہیر صاحب کسی شعر پر" کلام کئے بغیر" آگے گزرجائیں تو پھر اس شعر پر اعتراضات کا جواب دینا بھی ان کے ذمہ ہوا ۔ :):):) ہائیں !!! ایسا ستم مت کیجئے ۔ میں تو اردو محفل پر ویسے ہی ایک آنکھ پوری اور دوسری آدھی بند کرکے غزلیں پڑھتا ہوں ۔ اگر ہر شعر پر نکات اٹھا نے لگے تو ایک غزل پر ہی پورا ہفتہ لگ جائے گا ۔ :D
 

عاطف ملک

محفلین
ویسے عاطف بھائی ، اس موقع پر مجھے تہِ ٹیگ خوب کیا آپ نے ۔ بھئی شعر آپ کا ہے تو اس کا مطلب بھی آپ ہی کو بتانا تھا نا! یعنی اگر ظہیر صاحب کسی شعر پر" کلام کئے بغیر" آگے گزرجائیں تو پھر اس شعر پر اعتراضات کا جواب دینا بھی ان کے ذمہ ہوا ۔ :):):) ہائیں !!! ایسا ستم مت کیجئے ۔ میں تو اردو محفل پر ویسے ہی ایک آنکھ پوری اور دوسری آدھی بند کرکے غزلیں پڑھتا ہوں ۔ اگر ہر شعر پر نکات اٹھا نے لگے تو ایک غزل پر ہی پورا ہفتہ لگ جائے گا
ارے نہیں،مطلب بتانے کیلیے تو ٹیگ ہرگز نہیں کیا تھا۔ویسے بھی آج کل تشریح کا ٹرینڈ ہے،سو جس کو ہو دین و دل عزیز وغیرہ۔۔۔۔۔۔یہ صرف ترکیب کے حوالے سے تھا،اور وہ بھی میں عابد صاحب کو جواب دے دیتا لیکن ایک اور صاحبِ علم دوست بھی یہی سوال اٹھا چکے تھے سو بڑوں سے پوچھنا مناسب سمجھا اور آپ کی شفقت کہ آپ نے جواب دے بھی دیا۔
رہ گئی بات مطلب کی تو مطلب اتنا سادہ تھا کہ ہم نے
سے کام چلایا:)
ظہیراحمدظہیر بھائی،تکلیف دینے پر معذرت خواہ ہوں:unsure:
 
ممنون ہوں

جی۔
آپ نے نشاندہی کی تو پتا چلا کہ یہ کچھ نیا ہوا ہے۔
ظہیراحمدظہیر بھائی نے بھی اس پر کلام نہیں کیا۔
اس کا متبادل تو شاید ہو سکتا کہ "آسودہ دلی" لے آئیں۔کیا فرماتے ہیں؟

عاطف صاحب ، سلام عرض ہے!

مجھے خوشی ہے کہ آپ نے میری جسارت کو بخوشی برداشت کیا . شکریہ!

’آسودۂِ دِل‘ پر ظہیر صاحب نے اپنی راۓ تفصیل سے اور امثال كے ساتھ بیان کی ہے جس كے لئے وہ شکریہ كے مستحق ہیں . لیکن جناب اعلیٰ، بات بنی نہیں .:) میں حسب صلاحیت وجہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں .

میں نے جب بھی لفظ ’آسودہ‘ دیکھا ہے، یا تو تنہا دیکھا ہے جیسے:
آسودہ کیونکے ہوں میں کہ مانندِ گرد باد
آوارگی تمام ہے میری سرشت میں (مؔیر)

یا آسودگی كے سبب كے ساتھ دیکھا ہے جیسے:
لذتِ درد سے آسودہ کہاں دل والے
ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے (شان الحق حؔقّی)

ظہیر صاحب کی عنایت کردہ ساری مثالوں میں سبب موجود ہے جیسے ساحل، جاں اور اقرار . اب سوچئے کہ دِل کا (سینے میں) وجود آسودگی کا سبب کیسے ہو سکتا ہے؟ جان یا زندگی کی بات الگ ہے . جان جب تک ہے، ہمیں اتمینان رہتا ہے کہ سب کام ہو جائینگے . لیکن دِل؟ اگر یہ مان بھی لیں کہ’آسودۂِ دِل‘ ایک قابل قبول مرکب ہے تو ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آپ كے شعر میں آسودگی کا سبب احسان ہے یا دل؟

امید ہے میرا موقف واضح ہو گیا ہو گا . مجھے تو ذاتی طور پر آپ کی تجویز کردہ متبادل شکل (ایسی آسودہ دلی ہے ترے احسانوں سے) بہتر لگی . یا یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ ’ایسا آسودہ ہوا ہے ترے احسانوں سے .‘ بہرحال، یہ تو میری ادنیٰ رائے ہے . شعر آپ کا ہے سو آپ اسے جو شکل دینا چاہیں، دے سکتے ہیں .:)

بہت بہتر۔میں دوبارہ غور کر لیتا ہوں۔
لیکن اگر آپ مناسب سمجھیں تو بتا دیجیے کہ کس پہلو سے نظرِ ثانی کی جانی چاہیے۔
آپ نے اپنی رائے دی،بہت اچھا لگا۔
ہم تو جو تھوڑا بہت الٹا سیدھا لکھ لیتے ہیں،اس میں سارا کمال محفل کے اساتذہ کی رہنمائی ہی کا ہے۔ورنہ ہم کہاں اور شعر گوئی کہاں!
اس لیے بلاتردد کہیے۔خفا ہونے والوں میں سے ہم نہ ہوں گے۔
والسلام

پہلے مصرعے کی بنت میں مجھے دو دقّتیں پیش آئیں . اول تو یہ کہ آپ نے ’خلّاق جہاں كے‘ (صیغہ جمع) کہا ہے . عام عقیدہ تو یہ ہے کہ جہاں کا خالق ایک ہے، یعنی اللہ . اور اگر کوئی بِگ بینگ تھیوری میں یقین رکھتا ہے تو اس كے لیے خالق کوئی نہیں .:) آپ كے مطابق جہاں كے ایک سے زیادہ خالق ہیں . یہ بات قرین قیاس نہیں ہے . دوم یہ کہ لفظ ’بھی‘ کا مقام الجھن پیدا کر رہا ہے . آپ شاید ’خود بھی‘ کہنا چاہ رہے تھے، لیکن ’بھی‘ ’خود‘ سے اتنا دور ہو گیا ہے کہ لگتا ہے’جہاں کے وفادار‘ کی بات ہو رہی ہے یا جہاں كے خلّاق كے علاوہ کسی اور چیز كے خلّاق بھی ذکر میں ملحوظ خاطر ہیں . تَعْقِید حالانکہ افضل نہیں ، لیکن قابل قبول ہے بشرطیکہ وہ معنی میں الجھاؤ نہ پیدا کرے .

اب معنی کا ذکر آیا ہے تو عرض ہے کہ اللہ کی وفا پر شک میں احتیاط لازمی ہے . مذہبی نظریے کی بجائے صرف اَدَبی نظریے سے بھی دیکھیں تو خالق کی وفا کی تعریف کیا ہے اور کس پیمانے پر اسے بےوفا کہا جا سکتا ہے؟ خالق كے وعدے ضروری نہیں کہ اسی زندگی میں وفا ہو جا ئیں، پِھر ابھی سے ہَم کیسے کہ سکتے ہیں کہ وہ وفا دار نہیں؟ دَر اصل خالق کا تصور بہت وسیع اور انسان کی عقل سے بالاتر ہے لہٰذا اس پر انسانی پیمانوں کا اطلاق نہیں ہوتا .

خط نہ چاہتے ہوئے بھی طویل ہو گیا . امید ہے میں نے آپ کو بور نہیں کیا .:) اب اجازت چاہونگا .

نیازمند ،
عرفان عؔابد
 
آخری تدوین:

عاطف ملک

محفلین
ظہیر صاحب کی عنایت کردہ ساری مثالوں میں سبب موجود ہے جیسے ساحل، جاں اور اقرار . اب سوچئے کہ دِل کا (سینے میں) وجود آسودگی کا سبب کیسے ہو سکتا ہے؟ جان یا زندگی کی بات الگ ہے . جان جب تک ہے، ہمیں اتمینان رہتا ہے کہ سب کام ہو جائینگے . لیکن دِل؟ اگر یہ مان بھی لیں کہ’آسودۂِ دِل‘ ایک قابل قبول مرکب ہے تو ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آپ كے شعر میں آسودگی کا سبب احسان ہے یا دل؟
آسودہ بمعنی مطمئن
آسودۂِ دل بمعنی دل سے مطمئن یعنی اطمینانِ قلب کی کیفیت کا حامل
وجہ ۔۔۔۔ترے احسانوں سے
یعنی تیرے سائل کو ترے احسانوں کے طفیل ایسا اطمینانِ قلبی نصیب ہوا کہ اسے کسی سلطان سے ملنے کی حاجت نہیں۔
میں اپنے تئیں یہ کہنا چاہ رہا ہوں۔
مجھے تو ذاتی طور پر آپ کی تجویز کردہ متبادل شکل (ایسی آسودہ دلی ہے ترے احسانوں سے) بہتر لگی . یا یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ ’ایسا آسودہ ہوا ہے ترے احسانوں سے .‘ بہرحال، یہ تو میری ادنیٰ رائے ہے . شعر آپ کا ہے سو آپ اسے جو شکل دینا چاہیں، دے سکتے ہیں
آسودہ دلی والا مصرع اس لیے چھوڑا کہ اس میں شاید فاعل کی کمی محسوس ہوتی کہ آسودہ دلی کس کو ہوئی ہے۔
اور صرف آسودہ سے مجھے آسودۂ دل بہتر لگ رہا تھا۔
پہلے مصرعے کی بنت میں مجھے دو دقّتیں پیش آئیں . اول تو یہ کہ آپ نے ’خلّاق جہاں كے‘ (صیغہ جمع) کہا ہے . عام عقیدہ تو یہ ہے کہ جہاں کا خالق ایک ہے، یعنی اللہ . اور اگر کوئی بِگ بینگ تھیوری میں یقین رکھتا ہے تو اس كے لیے خالق کوئی نہیں .:) آپ كے مطابق جہاں كے ایک سے زیادہ خالق ہیں . یہ بات قرین قیاس نہیں ہے .
جہاں تک میری فہم ہے،خلّاق اسمِ صفت ہے،جس کا مطلب خالق ہی ہوتا ہے،بلکہ اس سے مراد افضل ترین یا کامل ترین خالق ہے۔
بالکل ویسے ہی جیسے رزّاق یعنی رزق دینے والا۔
اور میرا شعر یہ ہے کہ انسان اپنے خالق تک سے تو وفا کرتا نہیں،اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے وفا کی امید رکھتا ہے۔
امید کرتا ہوں کہ باقی احباب کو مفہوم کے ابلاغ میں مسئلہ نہیں ہو رہا ہوگا۔:)
لو جی ہم نے بھی اپنے جیسے انسانوں سے امید رکھ لی:p
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پہلے مصرعے کی بنت میں مجھے دو دقّتیں پیش آئیں . اول تو یہ کہ آپ نے ’خلّاق جہاں كے‘ (صیغہ جمع) کہا ہے
خود تو خلّاق جہاں کے بھی وفادار نہیں
اور امیدِ وفا ہے ہمیں انسانوں سے
عرفان صاحب ، منقولہ بالا شعر میں خلاق پر اضافت لگالیجئے اور اسے "خلاقِ جہاں" پڑھئے تو آپ کے تمام اشکالات دور ہوجائیں گے ۔ اور مصرع اول میں خود کو"ہم خود" پڑھئے تو تمام اعتراضات بھی دور ہوجائیں گے۔ :):):)
عاطف میاں ، اسی لئے کہتے ہیں کہ شاعری میں ٹائپو نہیں ہونا چاہئے ۔پوسٹ کرتے وقت ذرا سی محنت تو ہوتی ہے لیکن بعد میں کئی قسم کے مسائل سے بچت ہوجاتی ہے ۔ :)

ظہیر صاحب کی عنایت کردہ ساری مثالوں میں سبب موجود ہے جیسے ساحل، جاں اور اقرار . اب سوچئے کہ دِل کا (سینے میں) وجود آسودگی کا سبب کیسے ہو سکتا ہے؟ جان یا زندگی کی بات الگ ہے . جان جب تک ہے، ہمیں اتمینان رہتا ہے کہ سب کام ہو جائینگے . لیکن دِل؟ اگر یہ مان بھی لیں کہ’آسودۂِ دِل‘ ایک قابل قبول مرکب ہے تو ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آپ كے شعر میں آسودگی کا سبب احسان ہے یا دل؟

ایسا نہیں ہے جیسا کہ آپ سوچ رہے ہیں ۔آسودہ کے معنی ہیں مطمئن ، پرسکون ، آرمیدہ وغیرہ ۔ کسرہ کے ساتھ ترکیب اضافی بھی ہوتی ہے اور توصیفی بھی ۔ اس لئے اس کا سلیس ترجمہ بھی مفہوم کے لحاظ سے کیا جائے گا۔ آسودۂ خاک کے معنی خاک سے آرمیدہ نہیں بلکہ خاک میں آرمیدہ ہونگے ۔ آسودۂ ساحل یعنی ساحل پر مطمئن ۔ اسی طرح آسودۂ جاں کا مطلب اپنی جاں میں پرسکون یا مطمئن ہوگا۔ یہی مطلب آسودۂ دل کا ہوگا یعنی اپنے دل میں پرسکون یا مطمئن ۔ امید ہے کہ اب واضح ہوگیا ہوگا۔
 

عاطف ملک

محفلین
عاطف میاں ، اسی لئے کہتے ہیں کہ شاعری میں ٹائپو نہیں ہونا چاہئے ۔پوسٹ کرتے وقت ذرا سی محنت تو ہوتی ہے لیکن بعد میں کئی قسم کے مسائل سے بچت ہوجاتی ہے
اللہ اکبر،@ظہیراحمدظہیر بھائی،مجھے قطعاً احساس نہیں ہوا کہ ایک زیر نے شعر کے مفہوم کو زیر و زبر کر دیا۔:unsure:
نشاندہی کیلیے شکریہ
 
Top