قومی ترانے کی بحر

فرحت سعیدی

محفلین
میرا خیال ہے کہ یہ دیوانی بحر ہے جو بحر متقارب میں ہے.فعْل فعل فعل فعل فعل.
لیکن بعض مصرعے سمجھ نہیں آتے مثلا....ارض ِ پاکستان.
 

الف عین

لائبریرین
کھ مصرعے فاعلن مفاعلن فعول پر باندھے گئے لگتے ہیں، باقی کے لئے شاید بحر ضروری نہیں سمجھی گئی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
الف عین صاحب ! یہ کیسے ممکن ہے کہ بعض مصرع وزن میں ہوں اور بعض بے وزن ؟
میں نے بچپن میں کہیں سنا تھا کہ قومی ترانہ حفیظ صاحب نے پہلے سے بنائی ہوئی دُھن کے مطابق کہا تھا ۔ چناں چہ ایسے میں بحر کی پابندی باقی نہ رہنے کا امکان بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

فرحت سعیدی

محفلین
عاطف علی صاحب ! آپ وہ بات میں نے بھی سنی ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ دھن میں بعض مصرع تو کسی نہ کسی بحر میں ہوں اور بعض بالکل بے وزن ؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف علی صاحب ! آپ وہ بات میں نے بھی سنی ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ دھن میں بعض مصرع تو کسی نہ کسی بحر میں ہوں اور بعض بالکل بے وزن ؟
بھئی یہ تو سراسر دھن پر ہی موقوف ہے جیسی دھن ہو گی بحر بھی ویسی اور مصرعے بھی مطابق ہوں گے ۔ ۔ ۔ البتہ اس کی کوئی دلیل یا حوالہ نہیں کہ ایسا ہی ہوا ۔ ۔۔۔ویسے آپ ذرا قومی ترانے کی دھن اور مصرعوں کے الفاط و تراکیب کے آہنگ کی مطابقت پرذرا غور کیجیئے گا۔
 
میری اپنی معلومات کے مطابق بھی ہمارے قومی ترانے کی دُھن پہلے بنی تھی اور بول بعد میں لکھے گئےتھے۔عبدالکریم چھاگلہ صاحب نے جو دھن بنائی تھی وہ ایک ملک کے قومی ترانے کے لحاظ سے بڑی باوقار اور متاثر کرنے والی تھی جو نہ صرف پسند کی گئی بلکہ پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کی حیثیت سے منتخب بھی کر لی گئی ۔ اس کے بول بعد میں لکھے گئے۔ ممکن ہے اور شاعروں نے بھی طبع آزمائی کی ہو لیکن حفیظ جالندھری صاحب کو یہ فوقیت حاصل تھی کہ ان کے مزاج کو موسیقیت اور نغمگی سے فطری مناسبت تھی۔ وہ خود کہتے تھے کہ میں کوئی گیت کہتا ہوں تو اس کے موزوں ہونے سے پہلے میرے ذہن میں اس کی دھن بن جاتی ہے ۔ ان کی یہی صلاحیت یہاں بھی کام آئی اور ان کے ذہن رسا نے پہلے سے بنی ہوئی دھن پر ایسے بول تخلیق کئے جو اب ہمارے دل کی دھڑکن بن چکے ہیں۔ ہمیں دنیا کے کسی ملک کے قومی ترانے کے بول اور دھن ایسے نہیں لگتے کہ پاکستانی قومی ترانے کے پاسنگ بھی ہوں۔ نہ ہی ہمیں پاکستان کے پرچم سے زیادہ کوئی اور پرچم اچھا لگتا ہے ۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ بعض اور شاعروں نے بھی پاکستان کے لیے اس دھن سے ہٹ کر قومی ترانے لکھے تھے جن میں ہندوستان کے ایک بےحد مقبول شاعر بھی شامل ہیں اس وقت مجھےیادنہیں کہ وہ اسرار الحق مجاز ہیں یا جانثار اختر۔ بہر حال ہیں ان ہی دونوں میں سے ایک۔
 

بے الف اذان

محفلین
"پاکستان کا قومی ترانہ–"

۱۳ اگست ۱۹۵۴ء کو پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا–
پاکستان کے قومی ترانہ کی دھن۲۱ اگست ۱۹۴۹ء کو منظور ہوئی تھی اور اسے پہلی مرتبہ یکم مارچ ۱۹۵۰ء کو پاکستان میں ایران کے سربراہ مملکت کی آمد پر بجایا گیا تھا–
۵ جنوری ۱۹۵۴ء کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے اس دھن کو سرکاری طور پر قومی ترانہ قرار دے دیا–

اب اگلا مرحلہ اس دھن کے حوالے سے الفاظ کے چنائو کا تھا چنانچہ ملک کے تمام مقتدر شعرائے کرام کو اس ترانے کے گرامو فون ریکارڈز بھی بھجوائے گئے اور ہر رات ایک مخصوص وقت پر ریڈیو پاکستان سے اس ترانے کے نشر کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا— تا کہ وہ اس کی دھن سے ہم آہنگ ترانہ تحریر کر سکیں–

جواباً قومی ترانہ کمیٹی کو مجموعی طور پر ۱۷۲۳ ترانے موصول ہوئے– ان ترانوں میں سے قومی ترانہ کمیٹی کو جو ترانے سب سے زیادہ پسند آئے وہ حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کے لکھے ہوئے ترانے تھے– ۴ اگست ۱9۵۴ء کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے جناب حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کر لیا—

۱۳ اگست ۱۹۵۴ء کو یہ ترانہ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور یوں دنیا کے قومی ترانوں میں ایک خوبصورت ترانے کا اضافہ ہو گیا—


(خاکسار نے یہ مواد ف۔ب پر موجود ایک ادبی صفحے "اردو ادب" سے حاصل کیا ہے)

شکریہ۔
 
آخری تدوین:
Top