قوالی فن نہیں عالم ہیں::::فرید ایاز سے گفتگو:::

tumblr_lfed9xKPrx1qbv819_1295654745_cover.jpg

دہلی قوال بچوں کا گھرانا سے تعلق رکھنے والے مقبول و معروف قوال فرید ایاز سے ہونے والے مکالمے کی روداد
دنیا: آپ قوالی گائیکی میں صدیوں پر محیط خاندانی ورثہ رکھتے ہیں، آپ کے نزدیک قوالی کیا ہے؟
فرید ایاز: اس مضمون پر میں کم از کم دو چار گھنٹے گفتگو کرسکتا ہوں۔ دنیا کا ہر فن انسانیت کو کچھ نہ کچھ دیتا ہے، تعمیر یاتخریب۔ یہاں پر جو آپ نے سوال کیا ہے وہ دراصل یوں ہونا چاہیے کہ قوالی انسانیت کو کیا دیتی ہے؟ یا فن قوالی انسانیت کو کیا دیتا ہے؟ پہلے اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ قوالی فن ہے یا علم ؟ عمومی طور پر لوگ فن اور علم کے مابین تمیز نہیں کرسکتے۔ قوالی ایک علم ہے لوگوں نے اسے فن بنا لیا ہے۔ فن علم کا ایک ریزہ یا ذرہ ہے جب کہ علم کُل ہے۔ قوالی وہ علم ہے جس میں کم از کم اٹھارہ علوم متداولہ کا جاننا اور ان پر مکمل دست رس رکھنا ضروری ہے۔ اس میں سب سے پہلا ریاضی ہے۔ ریاضی وہ علم ہے جس میں پورے سوال کے بیچ میں کہیں جمع وہ تفریق کی غلطی ہوجائے تو نتیجہ غلط ہوجاتا ہے۔ ریاضی ، منطق ، فلسفہ ، حکمت وغیرہ وغیرہ۔ اس کی ایک مثال میں دے دوں۔ شیخ بو علی سینا جو بعد میں حکیم بو علی سینا کے نام سے مشہور ہوئے، انھیں حکمت کی سند نہیں ملی اس کی وجہ یہ تھی کہ بو علی سینا کو علم موسیقی پر تو عبور حاصل تھا مگر عمل موسیقی پر عبور نہیں تھا۔ جب اس شخص نے علم موسیقی کے اظہار کا ایک ذریعہ ڈھونڈا، اس کے لیے ایک ساز ایجاد کیا۔ آپ اسے ساز کہتے ہیں میں اسے آلہ کہتا ہوں۔ اس نے اس ٹول کا نام رکھا ’’سینائی‘‘ جو بگڑ کر بن گیا شہنائی۔ یہ دراصل بوعلی سینا کی ایجاد ہے، جس کے ذریعے انھوں نے اپنے عمل موسیقی کا اظہار کیا۔ یہ اتنا نازک علم ہے۔
دنیا: کلاسیکی موسیقی میں شاعری سے زیادہ سُروں کے ذریعے سماں باندھا جاتا ہے، آپ کے والد دھرپد گائیکی کے استاد بھی تھے۔ کیا قوالی بھی بغیر شاعری کے ہو سکتی ہے؟
فرید ایاز:ابھی میں نے آپ سے کہا کہ علم موسیقی اٹھارہ علوم متداولہ ضروری ہیں اور ان میں شاعری اور کلام بھی ہے۔ وہ لوگ جو پوری طرح قوالی سیکھ نہیں پائے اور اس میں قدرت حاصل نہیں کرسکے وہ کلاسیکل میں چلے گئے۔ اب اس میں جو سُروں سے مزہ لینے والا ہے اسے تو اس میں مزہ آرہا ہے۔ لیکن جو میر تقی میر، غالب اور حافظ کا سننے والا ہے وہ بے لطف ہی رہے گا۔ اگر ان دونوں کا اچھا امتزاج ہو تو وہ قوال ہے۔ قوالی تو بڑا فن ہے۔ اب جسے گیت گانا آگیا اس نے گیت گانا شروع کردیا۔ آپ لوگ اس فرق کو سمجھتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کیوں کہ بڑے بڑے نام آتے ہیں۔ مجھے بھی بڑا شوق ہے، میں بھی انسان ہوں اور میری بھی سماعت اچھی ہے۔ میں کلاسیکل موسیقی کے گھرانے کا ایک فرد ہوں، اور موسیقی کی بہت اچھی سمجھ رکھتا ہوں۔ تو یہی موسیقی سننے کے لیے میں ایک جگہ چلا گیا۔ ایک ہال میں سات آٹھ سو مردوخواتین جمع تھے۔ کچھ خواتین بچوں کو بھی اپنے ساتھ لائی ہوئی تھیں۔ بڑا اچھا ماحول چل رہا تھا۔ کلاسیکل موسیقی میں ابتدائی ماحول ایسا ہوتا ہے جیسے پرواز کا آغاز کیا جارہا ہو۔ تو گائیک نے بڑی خوب صورتی کے ساتھ یہ ماحول بنایا۔ اور اس ماحول میں بڑا نشہ تھا۔ دھیمی دھیمی موسیقی چل رہی تھی، سات ساڑھے سات سو لوگ خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ موسیقی کا مطلب ہے سُر۔ اس سُر کا آپ کتنا ٹیون، ویل ٹیون اور کتنا فائن ٹیون کرسکتے ہیں اور کتنا ملٹی فائن کرسکتے ہیں ، اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ عام طور پر انسان کا سانس 45سیکنڈ سے لے کر 70سیکنڈ تک کا ہوتا ہے اور اسی دورانیے میں ایک سُر کو کتنی بار ٹیون کیا جاسکتا ہے، اس میں صرف دو سے پانچ سیکنڈ میں یہ ویل ٹیون ہوتا ہے اور یہی اس کی اصل لذت کا وقت ہوتا ہے۔ سُر کو اس سطح پر لانے کے لیے بڑی مشق کی ضرورت ہوتی ہے، اور ایک خاص دورانیے کے بعد سُر اپنی بہترین شکل میں نکلتا ہے۔ تو وہ گائیک وہی کام کررہاتھا کہ اچانک نہ جانے اسے کیا ہوا کہ اس نے بلندآہنگ میں گانا شروع کردیا۔ میرے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھیں جن کی گود میں بچہ تھا۔ اس اچانک بلند آواز سے وہ بچہ اس زور سے رویا جیسے کسی نے اس کے سر پر بہت زور سے ضرب لگا دی ہو۔ اسے کلاسیکل موسیقی کہیں گے؟ بچہ معصوم ہے اور عین فطرت پر ہے اگر اس کی سماعت پر گراں گزرا ہے، وہ سچا ہے ، وہ جھوٹے ہیں جو ایسی موسیقی کی تعریف کرتے ہو۔ (اپنے کمرے میں رکھی تجریدی پینٹگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تجریدی آرٹ کلاسیکل نہیں ہوسکتا۔ اور جو لوگ کلاسیکل نہیں جانتے نہیں مانتے اور اپنی دیواروں کو سجانا چاہتے ہیں، وہ تجریدی آرٹ پر سردھنتے ہیں۔ ؎ایبسٹریکٹ آرٹ کے ملبے سے یہ دولت نکلی جس کو سمجھا تھا انناس وہ عورت نکلی اس لیے میں کہتا ہوں کہ جس کو باقاعدہ طور پر قوالی کا علم عطا نہیں ہوا وہ کلاسیکل گویّا بن گیا۔ ایک تربیت یافتہ قوال میں آپ کو موسیقی، شاعری ، رقص اور دیگر فنون کی چیزیں من حیث الکل ملیں گی۔
دنیا: سماع سے کیا مراد ہے؟
فرید ایاز:عربی کا لفظ ہے ’’سمع‘‘ اور اسی سے سماع ہے، جس کے معنی سننا ہیں۔ صفت سماع ایک ایسی صفت ہے جو ایک دوسری صفت سے مشتق ہے۔ صرف سنا نہیں جا سکتا، جب تک کوئی بولنے والا نہ ہو۔ جب تک آواز نہ ہو ہم سن نہیں سکتے۔ تو آواز اور سماع لازم و ملزوم ہیں۔سماع کی جو کیفیت تصوف کے حوالے سے ہے، میں اس پر کچھ بات کروں گا۔ میرے پیش نظر وہ تصور نہیں جسے عام طور پر لوگ تصوف کہہ دیتے ہیں۔ ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں تین سوال آتے ہیں۔ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جائے گا؟ ان تینوں سوالوں کو جاننے کے لیے وہ دیگر تمام علوم کا سہارا لیتا ہے۔اور کسی نہ کسی صورت سے اپنے آپ کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی گذشتہ منزل کو جہاں سے وہ آیا ہے اسے یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ یاد کرتا ہے’’الست بربکم‘‘ اس سوال کو یاد کرتا ہے جب اس سے پوچھا گیا ’’کہہ کہ کیا میں تیر ارب نہیں ہوں‘‘۔ یہی تصوف ہے! آواز اپنی اصل میں روح ہے۔ یہ کوئی فلسفیانہ بات نہیں اور نہ ہی میں فلسفیوں کی طرح بحث میں الجھتا ہوں۔ اب پوچھیے آواز روح کیسے ہے؟ روح امر رب ہے، یعنی خدا کا حکم۔ اور امرِ رب ہے ’’کُن‘‘ اور یہ کلام ہے۔ تو دراصل اُسی آواز کُن کو اس فضائے بسیط میں سننے کی کوشش سماع ہے۔ اس آواز کو سب نے سُن رکھا ہے مگر اس کا ادراک ہرکسی کو نہیں اور یہ ادراک دینے والا ہی مرشد، پیر یا استاد ہے۔ اس آواز کو سنا سب نے ہے کیوں کہ جب تک آپ سُن نہیں چکے ہوںگے، پہچانیں گے کیسے؟ علم موسیقی کا ایک حصہ منطق بھی ہے۔ منطق ، نطق سے ہے، بولنے کا علم۔ دوبارہ وہی آواز سننے کی خواہش سماع ہے۔ یہ تلاش ہے کہ ’’از کُجا می آیدی آواز دوست‘‘(دوست کی آواز کہاں سے آتی ہے) مولانا روم فرماتے ہیں’’نیز تارو نیز چوب و نیز پوست‘‘ یہ تار، لکڑی اور کھال میں آواز کی تلاش بے کار ہے۔ اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبیں ہے آواز کسی کی ہے یہ بربط کی نہیں ہے
دنیا:کلام کا انتخاب قوالی کے لیے کتنا اہم ہے؟
فرید ایاز: یہ اہم سوال ہے اور اس کا جواب دینا بہت ضروری ہے۔ میرے نزدیک محفل قوالی کے حوالے سے کلام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جس قوالی کی ہم اور آپ بات کررہے ہیں یہ اس کے بارے میں کہہ رہا ہوں، چنے بیچنے والی قوالی نہیں، جس میں بس نیلے پیلے کپڑے پہن ، آڑی ٹوپیاں لگا اور گلے میں ہار ڈال کر، دو باجے اور دو ڈھولک لیے قوالی شروع ہوجاتی ہے۔ میں اس قوالی کی بات کررہا ہوں جس کا تعلق معرفت سے ہے تو ایسی قوالی میں میرے لیے کلام کی نہیں پیغام کی اہمیت ہے۔ ورنہ ’’جیسا تیرا سننا سنانا ویسا میرا گانا بجانا‘‘۔ معرفت ذات اور معرفت حق کوئی اور بات ہے۔ اس کے لیے برسوں لگ جاتے ہیں۔ کلا م سے سہارا ضرور ملتا ہے اور خاص طور پر بزرگان دین کا کلام۔ لیکن یہ بھی بات ذہن میںرہے کہ وہ کلام اس لیے اہم نہیں ہے کہ بزرگان دین کا ہے بلکہ وہ اس پیغام کی وجہ سے اہم ہے۔ گذشتہ سات سو سال سے ’’نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم‘‘ گائی جارہی ہے۔ میں گذشتہ چالیس سال سے قوالی گا رہا ہوں، اس میں کم از کم دس ہزاروں مرتبہ یہ غزل میں پڑھ چکا ہوں۔ اور ہر مرتبہ اس کا اثر مختلف پایا۔ سننے والوں سے مجھے کوئی غرض نہیں۔ کیوں کہ زیادہ تر سننے والے کلام کی مقبولیت کی وجہ سے اسے پسند کررہے ہوتے ہیں اس کے مفاہیم پر ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی۔ ان کے ذہن میں اپنے ہی مطالب ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال دیکھیے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی محفل میں قوّال نے حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی کی غزل کا مقطع پڑھا: در سینہ نصیر الدین جز عشق نمی گنجد ایں طرفہ تماشا بیں دریا بہ حباب اندر (نصیرالدین کے سینے میں سوائے عشق کے کچھ سماتا نہیں۔ یہ طرفہ تماشا دیکھ کہ دریا بُلبلے میں سما گیا ہے) ایک صاحب کو یہ شعر سُن کر کیفیت ہوگئی۔ اس نے بہت پیسے لٹائے، محفل میں موجود دیگر صوفیا حضرات حیرانی سے اسے دیکھنے لگے کہ یہ کون ہے جو ہم سے بھی زیادہ سمجھ دار ہے؟ اس سے جب پوچھا تو اس نے ہاتھ جوڑ کر رونا شروع کردیا، شعر کے دوسرے مصرعے میں’’دریا بہ حباب اندر‘‘سن کر اس کی حالت مزید غیر ہوجاتی۔ وہ مداری تھا اور جو کچھ کما کر لایا تھا لٹا چکا تھا۔ اس سے جب لوگوں نے پوچھا کہ تجھے اس شعر میں کیا سمجھ آیا تو اس نے کہا میں دریا پار کررہا تھا، میرا بندر میری نظروں کے سامنے اس میں ڈوب گیا، مجھے تو یہی سمجھ میں آرہا ہے ’’دریا میں بہا بندر‘‘ اس لیے میرا یہ حال ہے۔ یہ عالم ہے قوالی کا! ہمارے ساتھ ایسے واقعات روزانہ کی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ اور فرید ایاز انھیں دیکھتا رہتا ہے۔ کیوں کہ مسند نشین جنھیں ابا اور دادا سے مرید ورثے میں ملے ہیں اور ان کے ساتھ ایک اور بڑا مجمع معتقدین کا ہے وہ یہی کررہے ہوتے ہیں۔ انھوں نے فرید ایاز کو کیوں بلایا ہے؟ اس لیے کہ فرید ایاز ایک مقبول قوال ہے، ایک مقبول قوال کو بلا کر اپنی دکان داری چمکانی ہے اور کل کو آپ سے یہ کہنا ہے کہ فرید ایاز تو ہمارا حاضر باش ہے۔ میں ایسے لوگوں کو اُس وقت تک برداشت کرتا ہوں جہاں ایمانیات کا ٹکراؤ نہ ہو۔ لیکن جہاں ایسی صورت حال ہوتی ہے، کوئی رعایت نہیں کرتا۔ اس بات سے پاک و ہند کے تمام پروفیشنل پیر صاحبان واقف ہیں اور وہ حضرات بھی جو واقعتاً پیر ہیں۔
دنیا:روایتی سماع میں فارسی شعرا کا کلام بالخصوص گایا جاتا تھا ہے، لوگ اب فارسی سے عمومی طور پر واقف نہیں ہیں، کیا رفتہ رفتہ قوالی فارسی سے آگاہی نہ ہونے باعث اپنا روایتی رنگ برقرار رکھ پائے گی؟
فرید ایاز: میں پہلے یہ کہہ چکا ہوں کہ میرے نزدیک کلام کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس میں تھوڑا سا اور اضافہ کرنا چاہوں گا کہ وہ مضامین جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا، تو میں گذشتہ چار دہائیوں سے قوالی کررہا ہوں۔ اس میں میری کوئی بڑائی نہیں آج تک کبھی کتاب دیکھ کر نہیں پڑھا۔ ایک ایک کلام دو دو ہزار مرتبہ پڑھ چکا ہوں۔ ہرمرتبہ اس کلام میں نئی کیفیت اور نئی واردات ہوتی ہے۔ میرے خیال میں پنجابی میں صوفیا اور عمومی شعرا کا صوفیانہ کلام فارسی پر بھاری ہے۔ فارسی میں شاعر جو مضمون پوری غزل میں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے پنجابی کا شاعر ایک مصرعے میں وہ مضمون بیان کردیتا ہے۔ پنجابی ایک ایسی زبان ہے جو معرفت کے مضامین کو عیاں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
دنیا:قوالی میں کسی کلام کو پیش کرنے سے پہلے خود قوال کا اس کلام کو سمجھنا کتنا ضروری سمجھتے ہیں؟
فرید ایاز:کلام کو سمجھنا صد فی صد ضروری ہے اور صد فی صد قوال حضرات اس سے بے بہرہ ہیں۔ مجھے معاف کردیجیے گا میں خود نمائی کی غرض سے یہ بات نہیں کہہ رہا، حقیقت بیان کررہا ہوں کہ میں اس سے مستثنیٰ ہوں۔میں کوشش کرتا ہوں، لوگوں کو بلاتا ہوں انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ کہیں کسی کو کوئی غلطی کرتے ہوئے سنا تو اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ تو آگے سے کئی لوگ یہ جواب دیتے ہیں کہ ’’ابا سے ایسے ہی سنا تھا‘‘ تو انھیں کہتا ہوں کہ ابا تو مرحوم ہوگئے اب اس غلطی کو بھی درست کرلو۔ دوسری جانب میں اپنا دامن کشادہ رکھتا ہوں، اگر کوئی آکر مجھے سمجھاتا ہے کہ فلاں مصرع یا لفظ ایسا ہے یا ایسا نہیں ، بات سمجھ آتی ہے تو فوراً مان لیتا ہوں کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ اور ’’آپ صحیح کہہ رہے ہیں‘‘ کا مطلب میرے لیے کیا ہے؟ کہ میرا باپ غلط پڑھا کرتا تھا۔ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ اگر میں اپنے باپ کی غلطی کو درست کرتا ہوں تو اس کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے۔
دنیا:صوفی میوزک کی اصطلاح آپ کے نزدیک درست ہے؟
فرید ایاز: اس کا صرف ایک لفظی جواب ہے، نہیں!
دنیا: لیکن قوالی کو اسی میں شمار کیا جاتا ہے، اور صوفی ازم کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
فرید ایاز: قوالی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔’’ صوفی ازم‘‘ یعنی جس میں صوفی کے ساتھ ’’ازم‘‘ لگا ہوا ہے میں اس کا قائل نہیں ہوں یہ صرف لوگوں کو احمق بنانے کا دھندہ ہے۔ تصوف تو پورا ایک لفظ ہے۔ کسی نے ماتھے پر کتھے کی تین لکیریں کھینچ لیں وہ صوفی بن گیا، کسی نے گلے میں تسبیح ڈال لی وہ صوفی ہوگیا۔ بس اس زیادہ میں اس بارے میں کیا کہوں !
دنیا:عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ صوفیا نے قوالی کو تبلیغ کے لیے استعمال کیا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ لوگ موسیقی کے ذریعے کسی بڑے تصور کو قبول یا رد کردیں، کیوں کہ یہ تو محض کیف و سرور کے لیے سنی جاتی ہے؟
فرید ایاز: لوگ موسیقی کیوں سنتے ہیں اس بارے میں جو کچھ آپ نے سوال میں کہا وہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے، جسے منوا کر آپ جواب چاہ رہے۔ خیر! حکم یہ ہے کہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کرو۔ قوالی بھی لوگوں کی عقل کے مطابق بات کرنے کا نام ہے لوگوں کی سماعت کے مطابق بات کرنے کا نام ہے۔ جہاں تک یہ کہا جاتا ہے کہ خواجہ غریب نوازؒ نے لوگوں کو قوالی کے ذریعے مسلمان کیا، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ بے عمل قوال اور صوفی اپنا دھندہ چمکانے کے لیے یہ باتیں کرتے ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے اپنے کردار کے ذریعے لوگوں کو مسلمان کیا۔ میں یہ بات اس لیے اتنے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ میرے جدّ اعلیٰ جن کا نام میر ابراہیم تھا، وہ شام سے حضرت معین الدینؒ کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ ان کی یہ جماعت اجمیر میں آکر رکی تھی اس میں میر ابراہیم کا کام قرأت، اذان اور نماز پڑھانا تھا۔ وہ خوش گُلو و خوش الحان تھے۔ ہندوستان میں سُراورموسیقی آج تک مقدس تصور کیا جاتا ہے، اُس وقت بھی ایسا ہی تھا۔ یہاں کے لوگ سُروں کو سمجھنے اور ان سے کیف لینے والے تھے۔ لیکن ان کے سُر بے آہنگ تھے۔ یہ جماعت جب صبح سویرے فجر کی نماز ادا کرتی تھی ، تو عام لوگوں میں تجسس پیدا ہوا کہ یہ کیا کرتے ہیں۔ جب وہ قریب جا کر سنتے تھے تو قرأت کی آواز ان کے کانوں میں پڑتی تھی۔ عربی تو وہ سمجھتے نہیں تھے لیکن صوتی اثرات تو پڑتے تھے۔ وہ قرآن نہیں سن رہے ہوتے تھے بلکہ ان کی توجہ تو اس آواز پر ہوتی تھی۔ عام لوگ چھپ چھپ کر اپنے شہر میں آنے والے ان اجنبیوں کو دیکھتے تھے، جو یہ پڑھتے تھے وہ سنتے تھے۔ یہ وہ دور ہے جب عام ہندو کو سنسکرت کے مقدس الفاظ سننے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ جب ان لوگوں کو جنھیں ان کا معاشرہ شودر کہتا تھا، انھیں ہاتھ لگانے کا روادار نہیں تھا یہ لوگ انھیں اپنے سینے سے لگانے کے لیے تیار تھے، تو ایسے شخص کا دل کیوں نہیں پسیجے گا؟ صوفیا نے اپنے اعمال و کردار کے ذریعے دین پھیلایا۔ یہ غلط کہانی ہے کہ سماع کے ذریعے پھیلایا، سماع اس کوشش کا ایک حصہ ضرور تھا۔
دنیا:آپ قوالی کے دوران کئی مرتبہ اشعار کی تشریح بھی کرتے ہیں، مطالعے میں کیا رہتا ہے؟
فرید ایاز: بہت کچھ پڑھ چکا، اب صرف قرآن پڑھتا ہوں۔
دنیا:آپ کے پسندیدہ شعرا کون سے ہیں؟
فرید ایاز: اس بات کا انحصار کلام اور مضامین پر ہے۔ کیوں کہ متقدمین میں ایسے شعرا بھی ہیں جو مقبول نہیں ہیں لیکن مجھے وہ بہت پسند ہیں۔ جس میں پہلا نام میرزا عبدالقادر بیدلؔ ہیں، جنھیں سمجھنا تو دور کی بات رہی اب پڑھنے والے بھی کم ہی رہ گئے ہیں۔ موجودہ دور کی بات کریں تو ، ایک شخصیت تھی، ان کا انتقال ہوئے بیس بائیس برس ہوگئے۔ وہ اس وقت بھی مقبول تھے اور آج بھی مقبول ہیں، ان کا نام تھا باباذہین شاہ تاجی۔ یوں سمجھیے کہ آج تک میں ان کے کلام کو ایک آنہ نہیں سمجھ پایا جب کہ کئی بڑے بڑے نام والوں کو سمجھنا میرے لیے مشکل نہیں رہا۔
دنیا:فن قوالی میں آنے والی جدتوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
فرید ایاز: میں خود بھی جدید ساز اور ٹیکنالوجی کا استعمال کررہا ہوں۔ ہر جدت میرے لیے قابل قبول ہے بشرطے کہ مثبت، تعمیری اور خوبصورت ہو، بے ہودہ نہ ہو۔ قوالی میں کوئی بھی ساز استعمال کیا جاسکتا ہے بس اس میںسے گدھے کی آواز نہ نکلتی ہو۔
دنیا:آپ کے والد گرامی گائیکی کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے تھے، کیا ان کلام جمع کرنے کا ارادہ ہے؟
فرید ایاز: ان کا کچھ کلام میرے پاس موجود ہے، ان کا زیادہ تر کلام فی البدیہ ہوا کرتا تھا ، جو محفل میں قوالی کے دوران ہونے والے اشعار کی صورت میں ہے۔ انھوں نے ایک زمانے میں باقاعدہ شاعری بھی کی لیکن صاحب دیوان نہیں تھے۔ میں ان کا کلام گاتا بھی ہوں۔ ان کا کلام جمع کرنا بہت مشکل کام ہے کیوں کہ بکھرا ہوا بہت ہے۔
دنیا: کیا آپ خود بھی شاعری کرتے ہیں؟
فرید ایاز: کبھی کبھار مجھے بھی شاعری کا دورہ اٹھتا ہے۔ لیکن باقاعدہ شاعری میں اس لیے نہیں کرتا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔ اپنا ایک شعر مجھے بہت پسند ہے، آپ بھی سنیے اور دیکھیے کہ اس کا اطلاق کس طرح ہوتا ہے۔ ؎ شعر تنقید کی حد سے تو نکلتا ہی نہیں احتراماً نظر انداز کیا جاتا ہے
دنیا:ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ قوال گھرانوں کے بچے اسی شعبے کا انتخاب کرتے ہیں، کیا کوئی اور کام کرنے کے حوالے سے پابندی ہوتی ہے ؟
فرید ایاز: اس بات کو اگر لوگ سمجھ لیں تو اس کا اطلاق ہر علم و فن پر ہوتا ہے۔ اگر والدین ڈاکٹر ہیںتو بچے کے لیے اس علم کا اکتساب زیادہ آسان ہوگا۔ یہی معاملہ قوالی کا ہے۔ گھر میں جو ماحول ہوتا ہے اس کے مطابق کسی شعبے کو اپنانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
دنیا:آپ نے دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا، کس جگہ سامعین نے آپ کو متاثر کیا؟
فرید ایاز: سوال تو آپ کا بہت اچھا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ میرا تجربہ آپ کو گراں گزرے۔ میرے سننے والے سبھی سامعین اچھے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ بُرے سامعین مجھے سنتے ہی نہیں(قہقہہ)
دنیا:قوالی میں سامعین پر حال کی کیفیت طاری ہوتی ہے، یہ کیفیت درحقیقت ہے کیا اور قوال پر یہ کیفیت طاری کیوں نہیں ہوتی؟
فرید ایاز: قوال پر کیفیت طاری ہوتی ہے لیکن اس کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ کبھی اسے سمجھوں ، اور فقط اتنا سمجھا ہوں کہ’’سمجھ جاتا ہوں لیکن مجھ سے سمجھایا نہیں جاتا‘‘۔ دیکھیے! کسی بھی کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پھر یہ تو کیفیت ملکوتی ہے جو لفظوں میں بیان ہوہی نہیں سکتی۔
دنیا:قوال اتنا پان کیوں کھاتے ہیں؟
فرید ایاز: اس کا کوئی تعلق گانے بجانے سے نہیں ہے یہ صرف ماحول کی بات ہے۔ طبی بنیادوں پر کبھی کبھی اس کا استعمال گلے کے لیے مفید ہوتا ہے لیکن عام طور پر قوال جس کثرت سے پان کھاتے ہیں تو اس کے یہ فوائد بھی زائل ہوجاتے ہیں۔ گانے بجانے سے پان کا کوئی تعلق نہیں قوال صرف ماحول کی وجہ سے اس کا استعمال زیادہ کرتے ہیں
انٹرویو: رانا محمد آصف تصاویر: محمد مہدی

ماخذ
 

محمد وارث

لائبریرین
ان کے والد صاحب منشی رضی الدین اور چچا بہاءالدین دونوں ہی میرے پسندیدہ قوال ہیں، خاص طور پر جو فارسی کلام انہوں نے گایا ہے وہ لاجواب ہے۔ فرید ایاز اور انکے بھائی ابومحمد دونوں ہی اچھے قوال ہیں۔
 
ان کے والد صاحب منشی رضی الدین اور چچا بہاءالدین دونوں ہی میرے پسندیدہ قوال ہیں، خاص طور پر جو فارسی کلام انہوں نے گایا ہے وہ لاجواب ہے۔ فرید ایاز اور انکے بھائی ابومحمد دونوں ہی اچھے قوال ہیں۔
ان کا انداز واقعی لاجواب ہے۔ ان کے بزرگوں کو میں نے ابھی کچھ دن پہلے سنا تھا۔ پتا چلا اصل فن تو یہ ہے۔ پھر اس انٹرویو میں جو انکشافات پڑھے تو مزید فین۔۔۔!!
 
Top