قوافی سے متعلق ایک سوال !

السلام علیکم
استاد محترم جناب الف عین سر اور احباب محفل
کیا مندرجہ ذیل قوافی ایک غزل میں استعمال کئے جا سکتے ہیں ؟ مجھے کچھ تردد ہو رہا ہے۔ برائے مہربانی میرا ابہام دور کرنے میں مدد فرمائیں۔
گزارے، پکارے، ابھارے، نکھارے، کنارے، نہارے، اتارے، نثارے، ستارے، تانے، مانے، ٹھانے، جانے، چھانے، دانے، شانے، خزانے، پرانے، نشانے وغیرہ وغیرہ۔
بات پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے میری ایک غزل کو دو اشعار دیکھئے :
بیچنے وقت بھی آتا ہے گلی میں حسرت
میں نے بدلے ہیں کئی خواب پرانے کر کے

اس کی آفاقی محبت کا بنا کر اک چاند
وعدے سب ٹانک دئیے میں نے ستارے کر کے

غزل تقریباََ مکمل ہو چکی، تب اس طرف میرا دھیان گیا !
آپ سب کا شکریہ۔
جزاک اللہ !
 
السلام علیکم
استاد محترم جناب الف عین سر اور احباب محفل
کیا مندرجہ ذیل قوافی ایک غزل میں استعمال کئے جا سکتے ہیں ؟ مجھے کچھ تردد ہو رہا ہے۔ برائے مہربانی میرا ابہام دور کرنے میں مدد فرمائیں۔
گزارے، پکارے، ابھارے، نکھارے، کنارے، نہارے، اتارے، نثارے، ستارے، تانے، مانے، ٹھانے، جانے، چھانے، دانے، شانے، خزانے، پرانے، نشانے وغیرہ وغیرہ۔
بات پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے میری ایک غزل کو دو اشعار دیکھئے :
بیچنے وقت بھی آتا ہے گلی میں حسرت
میں نے بدلے ہیں کئی خواب پرانے کر کے

اس کی آفاقی محبت کا بنا کر اک چاند
وعدے سب ٹانک دئیے میں نے ستارے کر کے

غزل تقریباََ مکمل ہو چکی، تب اس طرف میرا دھیان گیا !
آپ سب کا شکریہ۔
جزاک اللہ !
مطلع میں کیا قوافی استعمال کیے ہیں۔ اس پر ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
 
شکریہ تابش بھائی
مطلع حالانکہ ابھی ٹھیک کرنا ہے۔ لیکن آپ کے لئے جیسا ہے ویسا ہی حاضر ہے:
بات کرتا ہے تغافل کو وہ آگے کر کے
کیسے ملنے کو میں آؤں گا بہانے کر کے
شکریہ
 
شکریہ تابش بھائی
مطلع حالانکہ ابھی ٹھیک کرنا ہے۔ لیکن آپ کے لئے جیسا ہے ویسا ہی حاضر ہے:
بات کرتا ہے تغافل کو وہ آگے کر کے
کیسے ملنے کو میں آؤں گا بہانے کر کے
شکریہ
میرے ناقص علم کے مطابق تو پھر ان قوافی میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
اساتذہ کی رائے کا انتظار بھی کر لیتے ہیں۔ :)
 
لیکن حرفِ روی کا تو مسئلہ نہیں آ رہا یہاں ؟
اس معاملہ میں نالائق ہوں کہ یہ اصطلاحات یاد نہیں ہوتیں۔ :)
شاید موجودہ صورتحال میں ے حرفِ روی ہے۔
جو میں آج تک سمجھا ہوں، اس کے مطابق اگر مطلع کے قوافی گزارے، پکارے، ابھارے، نکھارے، کنارے، نہارے میں سے ہوتے تو نے اور گے نہیں آ سکتے تھے۔
اس صورتحال میں ر حرفِ روی ہوتا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر آپ خزانے اور ستارے کو مطلع میں لاتے ہیں یعنی ( نے اور رے کو ) جمع کرتے ہیں تو باقی غزل میں لفظی قیود سےآزاد ہو جاتے ہیں اور پوری غزل میں کوئی بھی بقیہ مذکورہ قوافی لاسکتے ہیں۔
لیکن رے اور نے کا صوتی تاثر کیوں کہ مختلف ہے اور غزل میں اہم بھی ہے ۔لہذا ( میرے خیال میں )بہتر یہی ہو گا کہ یا تو ستارے نکھارے وغیرہ رکھیں یا پھر پرانے خزانے وغیرہ ۔ اس طرح غزل کا مجموعی تاثر زیادہ مستحکم رہے گا۔لیکن یہ محض میری رائے ہے ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ تابش بھائی
مطلع حالانکہ ابھی ٹھیک کرنا ہے۔ لیکن آپ کے لئے جیسا ہے ویسا ہی حاضر ہے:
بات کرتا ہے تغافل کو وہ آگے کر کے
کیسے ملنے کو میں آؤں گا بہانے کر کے
شکریہ
اس مطلع کی صورت میں صرف 'یے' پر قافیے کا مدار ہے اور قافیہ بہت کشادہ ہو گیا ہے لیکن بہرحال قافیہ درست ہے اور اس کے ساتھ بہت سارے قافیے آ سکتے ہیں۔

احمد ندیم قاسمی کی ایک شاہکار غزل دیکھیے، کچھ ایسا ہی قافیہ ہے لیکن انہوں نے قافیہ تھوڑا تنگ رکھا ہے یعنی "نے" اور اس سے پہلے الف، یعنی خانے، خزانے، بہانے، مانے، شانے وغیرہ۔ اس صورت میں قافیہ تو تنگ ہو گیا لیکن نون کی قید سے قافیہ زیادہ مترنم ہو گیا:

ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے

زندہ رہنے کی ہو نیّت تو شکایت کیسی
میرے لب پر جو گِلے ہیں وہ بہانے میرے

رخشِ حالات کی باگیں تو مرے ہاتھ میں تھیں
صرف میں نے کبھی احکام نہ مانے میرے

میرے ہر درد کو اس نے اَبَدیّت دے دی
یعنی کیا کچھ نہ دیا مجھ کو خدا نے میرے

میری آنکھوں میں چراغاں سا ہے مستقبل کا
اور ماضی کا ہیولٰی ہے سَرھانے میرے

تُو نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا
اس قدر بوجھ کے لائق نہیں شانے میرے

راستہ دیکھتے رہنے کی بھی لذّت ہے عجیب
زندگی کے سبھی لمحات سہانے میرے

جو بھی چہرہ نظر آیا ترا چہرہ نکلا
تو بصارت ہے مری، یار پرانے میرے

سوچتا ہوں مری مٹّی کہاں اڑتی ہوگی
اِک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے

صرف اِک حسرتِ اظہار کے پر تو ہیں ندیم
میری غزلیں ہوں کہ نظمیں کہ فسانے میرے
 
اگر آپ خزانے اور ستارے کو مطلع میں لاتے ہیں یعنی ( نے اور رے کو ) جمع کرتے ہیں تو باقی غزل میں لفظی قیود سےآزاد ہو جاتے ہیں اور پوری غزل میں کوئی بھی بقیہ مذکورہ قوافی لاسکتے ہیں۔
لیکن رے اور نے کا صوتی تاثر کیوں کہ مختلف ہے اور غزل میں اہم بھی ہے ۔لہذا ( میرے خیال میں )بہتر یہی ہو گا کہ یا تو ستارے نکھارے وغیرہ رکھیں یا پھر پرانے خزانے وغیرہ ۔ اس طرح غزل کا مجموعی تاثر زیادہ مستحکم رہے گا۔لیکن یہ محض میری رائے ہے ۔
جزاک اللہ عاطف بھائی
کوشش کروں گا کہ مطلع بہتر ہو جائے کیونکہ ایک نہیں بلکہ کئی اشعار "نے اور" رے" کے قوافی پر ہیں !
بہت بہت شکریہ !
 
اس مطلع کی صورت میں صرف 'یے' پر قافیے کا مدار ہے اور قافیہ بہت کشادہ ہو گیا ہے لیکن بہرحال قافیہ درست ہے اور اس کے ساتھ بہت سارے قافیے آ سکتے ہیں۔

احمد ندیم قاسمی کی ایک شاہکار غزل دیکھیے، کچھ ایسا ہی قافیہ ہے لیکن انہوں نے قافیہ تھوڑا تنگ رکھا ہے یعنی "نے" اور اس سے پہلے الف، یعنی خانے، خزانے، بہانے، مانے، شانے وغیرہ۔ اس صورت میں قافیہ تو تنگ ہو گیا لیکن نون کی قید سے قافیہ زیادہ مترنم ہو گیا:

ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے

زندہ رہنے کی ہو نیّت تو شکایت کیسی
میرے لب پر جو گِلے ہیں وہ بہانے میرے

رخشِ حالات کی باگیں تو مرے ہاتھ میں تھیں
صرف میں نے کبھی احکام نہ مانے میرے

میرے ہر درد کو اس نے اَبَدیّت دے دی
یعنی کیا کچھ نہ دیا مجھ کو خدا نے میرے

میری آنکھوں میں چراغاں سا ہے مستقبل کا
اور ماضی کا ہیولٰی ہے سَرھانے میرے

تُو نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا
اس قدر بوجھ کے لائق نہیں شانے میرے

راستہ دیکھتے رہنے کی بھی لذّت ہے عجیب
زندگی کے سبھی لمحات سہانے میرے

جو بھی چہرہ نظر آیا ترا چہرہ نکلا
تو بصارت ہے مری، یار پرانے میرے

سوچتا ہوں مری مٹّی کہاں اڑتی ہوگی
اِک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے

صرف اِک حسرتِ اظہار کے پر تو ہیں ندیم
میری غزلیں ہوں کہ نظمیں کہ فسانے میرے
جزاک اللہ وارث بھائی۔ آپ کی بات درست ہے۔ اصل میں کئی اشعار انھیں قوافی پر ہیں تو شاید سب جگہ تبدیلی ممکن نہ ہو پائے ۔
کوشش کروں گا کہ مطلع بہتر ہو سکے اور روانی برقرار رہے، جس کی طرف آپ کے ساتھ عاطف بھائی نے بھی توجہ مبذول کرائی ہے۔
اور اس خوبصورت غزل کے لئے شکریہ ! :)
جزاک اللہ!
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کے علاوہ بہتر ہے کہ ’رے‘ اور ’نے‘ قوافی کے درمیان وقفہ رکھیں۔ اور ان دونوں کے علاوہ بھی دوسرے وقوافی رکھیں جیسا کہ مطلع میں ہے
 
Top