قطعات ۔ صوفی تبسم

فرخ منظور

لائبریرین
پوچھتا کیا ہے ہم نشیں مجھ سے
کس لیے ضبطِ آہ کرتا ہوں
کہہ تو دوں تجھ سے حالِ دل اپنا
تیری غم خواریوں سے ڈرتا ہوں
 

فرخ منظور

لائبریرین
اٹھاتے ہیں مزے جور و ستم کے
کچھ ایسے خوگرِ بے داد ہیں ہم
قفس کی تیلیاں ٹوٹیں تو پھر کیا
اسیرِ الفتِ صیّاد ہیں ہم​
 

فرخ منظور

لائبریرین
اے دوست نہ پوچھ مجھ سے کیا ہے
بے تابیِ عشق کا فسانہ
انسان کی زندگی ہے فانی
اور دل کی تڑپ ہے جاودانہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
عشق کی ابتدا ہے سوزِ دروں
عشق کی انتہا ہے ذوقِ نگاہ
دل اگر سرد ہے تو عشق، جنوں
اور اگر پست ہے نظر تو گناہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
علم کے تھے بہت حجاب مگر
حُسن کا سحر پُر فسوں ہی رہا
عقل نے لاکھ کی عناں گیری
عشق آمادۂ جنوں ہی رہا

 

فرخ منظور

لائبریرین
وہی چمن کی اداسی، وہی فسردہ فضا
وہی ملول نگاہیں، وہی دلوں کی کسک
نہ جانے کس کے لیے لے کے آئی صبحِ بہار
لہک صبا کی، گُلوں کی مہک، کلی کی چٹک

 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
آرزو کا گداز افسردہ
شمعِ غم کی بجھی بجھی تنویر
آ کہ یہ زندگی ہے تیرے بغیر
اِک پریشان خوابِ بے تعبیر
 

فرخ منظور

لائبریرین
آج کچھ مضمحل سی یادوں کے
یوں سلگنے لگے ہیں افسانے
جیسے اِک نیم سوز شمع کے گرد
سسکیاں لے رہے ہوں پروانے

 

فرخ منظور

لائبریرین
ان مرمریں بازوؤں میں شعلوں کا گداز
ان مد بھری تانوں کی عقابی پرواز
مینائیں گھُلی ہوئیں شرابی رس میں
یا حوروں کے ناز میں ملائک کا نیاز
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
محبت ہے وہ طوفانِ بلا خیز
کہ موجیں بھی کنارا ڈھونڈتی ہیں
مگر کیا ہمّتیں ہیں اہلِ دل کی
محبت کا سہارا ڈھونڈتی ہیں

 

فرخ منظور

لائبریرین
عالمِ درد بھی اک شان ہے زیبائی کی
تم بھی اس روپ میں اک روز سنور کر دیکھو
میں نے مانا کہ وفا ایک کٹھن منزل ہے
ہو سکے تو کبھی اس رہ سے گذر کر دیکھو

 

فرخ منظور

لائبریرین
کتنی ہنگامہ خُو تمنّائیں
مضمحل ہو کے رہ گئیں دل میں
جیسے طوفاں کی مضطرب موجیں
سو گئی ہوں کنارِ ساحل میں

 

فرخ منظور

لائبریرین
دل کی ہر آرزو ہے خوابیدہ
اب نہ وہ کیفیت، نہ سوز، نہ رنگ
ہر نظر ایک شعلۂ بے نور
ہر نفس ایک سازِ بے آہنگ

 

فرخ منظور

لائبریرین
آنسوؤں میں الم کا رنگ نہ تھا
قہقہوں میں خوشی کی بات نہ تھی
تھے عجب ڈھنگ زندگانی کے
کوئی بھی زندگی کی بات نہ تھی

 

فرخ منظور

لائبریرین
ہر خزاں غارت گرِ چمن ہی سہی
پھر بھی اک سر خوشی بہار میں ہے
موت پر اختیار ہو کہ نہ ہو
زندگی اپنے اختیار میں ہے

 

فرخ منظور

لائبریرین
ترے فراق میں زہرابِ غم پیے جاؤں
ہزار موت کے صدمے سہوں جیےجاؤں
بغیر دوست کے جینا گناہ ہے لیکن
جو تُو کہے تو یہ بھی گناہ کیے جاؤں

 

فرخ منظور

لائبریرین
تمنّا کچھ تو لے آتی ہے لب پر
یہ کچھ قصّے سناتی ہے نظر سے
مگر ہے آنکھ ایسی راز پرور
نظر کو بھی چھپاتی ہے نظر سے

 
Top