قضا نمازیں کیسے ادا کی جائیں۔۔؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ماوراء

محفلین
ایک قضا نماز کا فدیہ کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔؟

قضا نماز کا فدیہ مرنے کے بعد۔۔۔

قضاء نمازوں کا فدیہ کب ادا کیا جائے؟

زندگی میں تو نماز کا فدیہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ قضا نمازوں کا ادا کرنا ہی لازم ہے، البتہ اگر کوئی شخص اسی حالت میں مر جائے کہ اس کے ذمے قضاء نمازیں ہوں تو ہر نماز کا فدیہ صدقہ فطر کی طرح پونے دو سیر غلہ ہے۔ فدیہ ادا کرنے کے دن کی قیمت کا اعتبار ہے، اس دن غلہ کی جو قیمت ہو۔ اس حساب سے فدیہ ادا کیا جائے۔ اور چونکہ وتر ایک مستقل نماز ہے اس لیے دن رات کی چھ نمازیں ہوتی ہیں اور ایک دن کی نماز قضاء ہونے پر چھ صدقے لازم ہیں۔ میت نے اگر اس سے وصیت کی ہو، تب تو تہائی مال سے یہ فدیہ ادا کرنا واجب ہے۔ اور اگر وصیت نہ کی ہو تو وارثوں کے ذمے واجب نہیں۔ البتہ تمام وارث عاقل بالغ ہوں اور وہ اپنی اپنی خوشی سے فدیہ ادا کریں، توقع ہے میت کا بوجھ اتر جائے گا۔ (آپ کے مسائل ص ٣٥٩ جلد ٣)
 

ماوراء

محفلین
جہاں تک میرا خیال ہے کہ بدعت کہنے والوں نے بھی اور قضا عمری پڑھنے والوں نے بھی اپنا اپنا موقف بیان کر دیا ہے اب میرا نہیں خیال کہ اس پر مزید بات کرنے کی ضرورت ہے اب یہ ہم پڑھنے والوں پر بات چھوڑتے ہیں کہ وہ کس بات کو لیتے ہیں اور کسے چھوڑتے ہیں

خواتین و حضرات، میں سارا کی بات کی تائید کرتے ہوتے کہتی ہوں کہ یہاں سب اپنے اپنے فرقے کے مطابق خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ یہاں ہم ایک دوسرے کی باتوں کو سن کر اپنے عقیدے اور فرقے سے الگ ہو سکیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس بحث کو یہیں ختم کر دینا چاہیے۔ اور ہم سب اپنے فرقے کے مطابق ہی اس فرض کو ادا کریں۔ کیونکہ۔۔۔۔

جہاں تک فرقے کی بات ہے تو میرا تعلق کسی فرقے سے نہیں ہے اور نہ ہی مقصد کسی فرقے کو غلط ثابت کرنا ہے مجھے جو بات جس کی صحیح لگتی ہے اس پر عمل کرتی ہوں جو غلط لگتی ہے اسے چھوڑ دیتی ہوں۔

۔۔۔۔یہاں سب کو ہی اپنے فرقے یا اپنی بات ہی درست لگنی ہے۔ اور اس نے اسی پر عمل کرنا ہے۔
 

faqintel

محفلین
ماوراء

ماوراء بوہت خوب کہا آپ نے شکرٍِِ مگر فرقا اور فقہ میں ذمین آسمان کافرق ہے ذرا غور کریں مہربانی فرماکر۔
لیکن اگر کوئ صحیح حدیث لے آے اور اگر ایک بھی انسان اسپر عمل کرے تو میں سمجتا ہوں کہ صحیح حدیث لانے والے کی مہنت رنگ لائ

Sura(041)Fushshilat-Ayaa(33)
2004774660006352345_rs.jpg

میرےاسلامی بھایو اور بھنوں اللہ کے دین میں پھوٹ مت ڈالو اور فرکوں میں مت بٹو
رہی میری بات تو میں اپنے اپ کو صرف مسلمان ہی کہتا ہوں سنی یا وحابی نہی
 

زینب

محفلین
قضا نماز کا فدیہ نہیں ہوتا، نماز ہی ادا کرنا ہوتی ہے۔


زندہ انسان کو نماز ادا کرنی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا پوچھنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ۔۔۔۔۔۔کسی کے والدین میں سے کوئی ایک وفات پا جائے۔۔اور اولاد کو معلوم نا ہو کہ ان کی کب کب اور کس کس وقت کی نماز کسی بھی وجہ سے چھوٹ گئی تھی تو ان کی طرف سے ان کے ایثال ثواب کے لیے ان کی اولاد میں سے کوئی فدیہ دینا چاہے تو روپے میں کس حساب سے دینا ہو گا۔۔۔۔دوسرا سوال اہل علم سے یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔والدین کی وفات کے بعد اولاد ایک تو نوافل کا ثواب پہنچا سکتی ہے اس کے علاوہ قرآن شریف کا ثواب بھی دیا جا سکتا ہے۔۔۔اور کوئی طریقہ ۔۔۔۔۔؟نیز قرآن پڑھ کے ثواب کے بارے میں کوئی حدیث وغرہ ہو تو پلیز شیئر کریں۔۔۔۔۔۔۔۔
 

قسیم حیدر

محفلین
طویل غیر حاضری کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
امن ایمان! اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے۔ نماز کی پابندی جاری رکھیے۔ اللہ تعالیٰ کو وہ انسان بڑا پسند ہے جوغلطی پر سچے دل سے توبہ کرتا ہے۔ ایسے خوش بختوں کی غلطیاں نہ صرف معاف کر دی جاتی ہیں بلکہ انہیں نیکی میں بدل دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
الا من تاب و امن و عمل عملا صالحا فاؤلئک یبدل اللہ سیاتھم حسنات (الفرقان)
“ الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرے اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگے، ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکی سے بدل دے گا”۔
اور فرمایا:
و انی لغفار لمن تاب و امن و عمل صالحا ثم اھتدٰی (طہ)
“ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں”
جب انسان اس راستے پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے توپہلا سابقہ اسے مختلف آراء سے پیش آتاہے۔اس دھاگے میں ہونے والی بات چیت اس کا ثبوت ہے۔ کتاب و سنت اور فقہاء کے اختلاف کے اسباب تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات انسان خود کو ایسے موڑ پر کھڑا پایا ہے جہاں سے کئی راستے نکل رہے ہوں اور وہ درست راستے کا فیصلہ نہ کر پا رہا ہو۔ میں اس کیفیت سے گزر چکا ہوں اس لیے اس کرب سے اچھی طرح واقف ہوں۔ قرآنِ کریم کو سمجھ کر پڑھا جائے تو آدھے سے زیادہ وہ مسائل فورًا حل ہو سکتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا ہے اور جو دینی ترتیب میں ثانوی یا ثالثی حیثیت بھی نہیں رکھتے لیکن بڑے معرکۃ الآرا سمجھے جاتے ہیں۔دوسری چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے۔ جو مسائل قرآن کریم میں بیان نہیں کیے گئے ان کے لیے صحیح حدیث کو حجت تسلیم کرنا چاہیے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب قرآن و حدیث کے پیچھے چلنے کی بجائے انہیں اپنے پیچھے چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اختلافات کی دلدل سے نکلنے کے لیے میں آپ کو مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ ایک رکوع روزانہ پڑھا جائے تو ایک سال میں قرآنِ کریم کی پوری تعلیم سامنے آ جاتی ہے۔ اتنا بھی نہ ہو سکے تو تین چار آیات پڑھنا بالکل مشکل نہیں ہے۔ قرآن کریم کا سب سے بڑا ادب اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔
کتٰب انزلنٰہ الیک مبٰرک لیدبروا آیاتہ (ص)
“یہ ایک عظیم الشان کتاب ہے، برکت والی، جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں”
تدبر و تفہیم کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے دوران ظاہری ادب میں کوتاہی بھی ہو جائے تو امید ہے اللہ تعالیٰ معاف کر دیں گے۔ لیکن جس کی طرف اللہ نے پیغام بھیجا ہے اور وہ اسے پڑھنے اور سمجھنے کی بجائے چومنے اور طاقوں میں سجانے ہی میں مصروف رہا وہ آخرت میں اپنا جواب سوچ رکھے۔ ممتاز مفتی کی کتاب “تلاش” کے اکثر مقامات سے اختلاف رکھنے کے باوجود مجھے ان کا یہ شکوہ بڑا پسند ہے کہ “میں قرآن کو اپنے سرہانے رکھنے چاہتا ہوں تاکہ جب دل کرے اسے کھولوں اور اللہ سے باتیں شروع کر دوں لیکن میری بیوی قرآن کا اتنا ادب کرتی ہے کہ اس کا ادب قرآن پڑھنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے”۔
دوسری چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے۔ مسائل کی وضاحت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانی اتھارٹی ہیں۔صحیح احادیث کے کسی بھی مجموعے سے استفادہ کیجیے۔ صحیح البخاری، صحیح المسلم اردو میں موجود ہیں اور آسانی سے دستیاب ہیں۔ ان دونوں باتوں پر عمل کرنے سے ان تمام خواتین و حضرات کی مشکل دور ہو جائے گی جو کثرتِ آراء کو دیکھ کر پریشان ہو رہے ہیں۔(ان شاء اللہ)
قضا نمازوں کے بارے میں کچھ پہلے لکھ چکا ہوں۔ سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوٰی ملاحظہ کیجیے:
“علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر اس کی قضا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے جو آدمی کو اسلام سے نکال کر زمرہ کفار میں داخل کر دیتا ہے۔ اور کافر پر حالت کفر میں چھوڑے ہوئے کاموں کی قضا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے:
“آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کو چھوڑ دینے (کا فرق) ہے۔ (صحيح مسلم الإيمان (82),سنن الترمذي الإيمان (2620),سنن أبو داود السنة (4678),سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (1078),مسند أحمد بن حنبل (3/370),سنن الدارمي الصلاة (1233).
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں جو ان پر حالتِ کفر میں فرض تھیں نہ ان کے بعد صحابہ نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جو مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے۔
اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کا منکر نہ ہو اور سستی وغیرہ کی وجہ سے نماز چھوڑتا رہا ہو اور اب احتیاط کی بنا پر ہر صورت قضا ہی ادا کر نا چاہے تو اس میں بھی حرج نہیں۔ (مجموعہ فتاوی و مقالات ابن باز۔ الجز العاشر)

بہت سے لوگ سابقہ نمازوں کی قضا کے خوف سے نماز کی باقاعدہ ادائیگی شروع نہیں کرتے۔دین آسان ہے، اسے اسی طرح رہنا چاہیے جیسے اللہ کے نبی نے پیش کیا تھا۔ ادھر تو یہ حال ہے کہ کوئی مسجد میں چلا جائے تو آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے کہا جاتا ہے کہ میاں پچھلے بیس تیس برس کدھر تھے، سابقہ نمازوں کی گنتی پوری کرو، پھر آگے چلنا۔ یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ توبہ کرنے والے انسان کو حوصلہ دینے کی بجائے الٹا پچاس سال کی نمازوں کی قضا کا مژدہ سنا دیا جائے۔
بشروا و لا تنفروا
“خوشخبری سناؤ اور نفرت نہ دلاؤ”
یسروا و لا تعسروا
“لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو مشکلات نہ بناؤ”
قضا نمازوں کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا مسئلہ کفر اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ ان کی ادائیگی ضروری نہیں لیکن کوئی انہیں بہرصورت ادا ہی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے لیکن اس کا یہ عمل احتیاط کا مظہر ہو گا جیسا کہ الشیخ ابن باز کے فتوے میں مذکور ہے۔
 

faqintel

محفلین
زینب

زینب
نیک اولاد کے تمام نیک کاموں میں والدین کو برابر کا ثواب ملتا ہے کیا ؟
نیک اولاد بھی صدقہ جاریا میں شمار ہوتی ہے کیا ؟
 

امن ایمان

محفلین
طویل غیر حاضری کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
امن ایمان! اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے۔ نماز کی پابندی جاری رکھیے۔ اللہ تعالیٰ کو وہ انسان بڑا پسند ہے جوغلطی پر سچے دل سے توبہ کرتا ہے۔ ایسے خوش بختوں کی غلطیاں نہ صرف معاف کر دی جاتی ہیں بلکہ انہیں نیکی میں بدل دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
الا من تاب و امن و عمل عملا صالحا فاؤلئک یبدل اللہ سیاتھم حسنات (الفرقان)
“ الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرے اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگے، ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکی سے بدل دے گا”۔
اور فرمایا:
و انی لغفار لمن تاب و امن و عمل صالحا ثم اھتدٰی (طہ)
“ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں”
اختلافات کی دلدل سے نکلنے کے لیے میں آپ کو مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ ایک رکوع روزانہ پڑھا جائے تو ایک سال میں قرآنِ کریم کی پوری تعلیم سامنے آ جاتی ہے۔ اتنا بھی نہ ہو سکے تو تین چار آیات پڑھنا بالکل مشکل نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں جو ان پر حالتِ کفر میں فرض تھیں نہ ان کے بعد صحابہ نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جو مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے۔
اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کا منکر نہ ہو اور سستی وغیرہ کی وجہ سے نماز چھوڑتا رہا ہو اور اب احتیاط کی بنا پر ہر صورت قضا ہی ادا کر نا چاہے تو اس میں بھی حرج نہیں۔ (مجموعہ فتاوی و مقالات ابن باز۔ الجز العاشر)

جزاک اللہ !

قسیم صاحب مطمئن تو میں شاکر القادری صاحب کے جواب سے بھی ہوگئی تھی۔۔۔لیکن آپ کے جواب نے میرایقین اور مضبوط کردیا۔ سب سے پہلے آپ کی اس دعا پر آمین ثم آمین۔ میری بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ مجھے استقامت عطا فرمائیں اور میری غطیاں معاف فرمائیں۔۔آمین۔

جی قسیم قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا یقننا بہت سے مسائل کا حل اور بڑی خوش بختی کی بات ہے۔۔اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرمائیں۔۔میں آج کل "تفسیر عثمانی" پڑھ رہی ہوں۔آپ بھی پلیزز میرے لیے چاہے ایک بار ہی لیکن دعا ضرور کردیجیئے گا۔

قسیم نمازوں کے چھوڑنے کہ وجہ یہی تھی کہ کسی نے نماز کی اہمیت نماز نہ پڑھنے کے گناہ کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔۔۔نماز کی فرضیت میں شک کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ بس بچپن میں لگتا ہے کہ مرنا صرف بڑی عمر میں جاکر ہے۔۔۔اس لیے ڈر بھی نہیں لگتا تھا۔ :(
میں نے سارہ سے قضا نماز کو اپنے لیے خود ایک سزا تجویز کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جس طرح ہر گناہ کی ایک سزا دنیا میں بھی ملتی ہے (آخرت کی سزا کا تو سوچ بھی نہیں سکتی ) تو نماز چھوڑنے کی سزا اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ یہ ملے کہ ۔۔ساری نمازیں ادا کی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوں اور نہ اس کی وسعت کا احاطہ میری سوچ کرسکتی ہے۔۔میں تو بس خود اپنا محسابہ کرنا چاہتی تھی۔

آپ کا بہت شکریہ۔۔۔آپ نے دونوں طرح سے مجھے مزید مطمئن کردیا۔۔۔۔قضا نماز پڑھنے کے حوالے سے اور نہ پڑھنے کے حوالے سے۔

اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا کریں۔۔آمین

آپ کے ساتھ ساتھ باقی سب کے لیے بھی یہی دعا کرتی ہوں۔
 

سارا

محفلین


خواتین و حضرات، میں سارا کی بات کی تائید کرتے ہوتے کہتی ہوں کہ یہاں سب اپنے اپنے فرقے کے مطابق خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ یہاں ہم ایک دوسرے کی باتوں کو سن کر اپنے عقیدے اور فرقے سے الگ ہو سکیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس بحث کو یہیں ختم کر دینا چاہیے۔ اور ہم سب اپنے فرقے کے مطابق ہی اس فرض کو ادا کریں۔ کیونکہ۔۔۔۔



۔۔۔۔یہاں سب کو ہی اپنے فرقے یا اپنی بات ہی درست لگنی ہے۔ اور اس نے اسی پر عمل کرنا ہے۔
ماوراء میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ دوسروں کے بارے میں تو مجھے نہیں پتا کہ وہ اپنے فرقے سے الگ ہوں گے یا نہیں لیکن مجھے اگر قرآن اور صحیح حدیث سے بتائی گئی کوئی بات کسی بھی فرقے سے تعلق رکھنے والا کہے (چاہے وہ سنی ہو 'وہابی ہو دیوبندی ہو یا بریلوی) تو میں انشا اللہ اس کی بات پر عمل کروں گی۔۔میں فرقے کو نہیں دیکھوں گی کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ اس کی بات کو دیکھوں گی کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔۔۔۔
 

سارا

محفلین
طویل غیر حاضری کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
امن ایمان! اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے۔ نماز کی پابندی جاری رکھیے۔ اللہ تعالیٰ کو وہ انسان بڑا پسند ہے جوغلطی پر سچے دل سے توبہ کرتا ہے۔ ایسے خوش بختوں کی غلطیاں نہ صرف معاف کر دی جاتی ہیں بلکہ انہیں نیکی میں بدل دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
الا من تاب و امن و عمل عملا صالحا فاؤلئک یبدل اللہ سیاتھم حسنات (الفرقان)
“ الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرے اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگے، ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکی سے بدل دے گا”۔
اور فرمایا:
و انی لغفار لمن تاب و امن و عمل صالحا ثم اھتدٰی (طہ)
“ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں”
قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ ایک رکوع روزانہ پڑھا جائے تو ایک سال میں قرآنِ کریم کی پوری تعلیم سامنے آ جاتی ہے۔ اتنا بھی نہ ہو سکے تو تین چار آیات پڑھنا بالکل مشکل نہیں ہے۔ قرآن کریم کا سب سے بڑا ادب اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔
کتٰب انزلنٰہ الیک مبٰرک لیدبروا آیاتہ (ص)
“یہ ایک عظیم الشان کتاب ہے، برکت والی، جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں”
۔
دوسری چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے۔ مسائل کی وضاحت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانی اتھارٹی ہیں۔صحیح احادیث کے کسی بھی مجموعے سے استفادہ کیجیے۔ صحیح البخاری، صحیح المسلم اردو میں موجود ہیں اور آسانی سے دستیاب ہیں۔ ان دونوں باتوں پر عمل کرنے سے ان تمام خواتین و حضرات کی مشکل دور ہو جائے گی جو کثرتِ آراء کو دیکھ کر پریشان ہو رہے ہیں۔(ان شاء اللہ)
قضا نمازوں کے بارے میں کچھ پہلے لکھ چکا ہوں۔ سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوٰی ملاحظہ کیجیے:
“علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر اس کی قضا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے جو آدمی کو اسلام سے نکال کر زمرہ کفار میں داخل کر دیتا ہے۔ اور کافر پر حالت کفر میں چھوڑے ہوئے کاموں کی قضا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے:
“آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کو چھوڑ دینے (کا فرق) ہے۔ (صحيح مسلم الإيمان (82),
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں جو ان پر حالتِ کفر میں فرض تھیں نہ ان کے بعد صحابہ نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جو مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے۔
اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کا منکر نہ ہو اور سستی وغیرہ کی وجہ سے نماز چھوڑتا رہا ہو اور اب احتیاط کی بنا پر ہر صورت قضا ہی ادا کر نا چاہے تو اس میں بھی حرج نہیں۔ (مجموعہ فتاوی و مقالات ابن باز۔ الجز العاشر)
بہت سے لوگ سابقہ نمازوں کی قضا کے خوف سے نماز کی باقاعدہ ادائیگی شروع نہیں کرتے۔دین آسان ہے، اسے اسی طرح رہنا چاہیے جیسے اللہ کے نبی نے پیش کیا تھا۔ ادھر تو یہ حال ہے کہ کوئی مسجد میں چلا جائے تو آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے کہا جاتا ہے کہ میاں پچھلے بیس تیس برس کدھر تھے، سابقہ نمازوں کی گنتی پوری کرو، پھر آگے چلنا۔ یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ توبہ کرنے والے انسان کو حوصلہ دینے کی بجائے الٹا پچاس سال کی نمازوں کی قضا کا مژدہ سنا دیا جائے۔
بشروا و لا تنفروا
“خوشخبری سناؤ اور نفرت نہ دلاؤ”
یسروا و لا تعسروا
“لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو مشکلات نہ بناؤ”
قضا نمازوں کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا مسئلہ کفر اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ ان کی ادائیگی ضروری نہیں لیکن کوئی انہیں بہرصورت ادا ہی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے لیکن اس کا یہ عمل احتیاط کا مظہر ہو گا جیسا کہ الشیخ ابن باز کے فتوے میں مذکور ہے۔

ماشا اللہ بہت اچھے طریقے سے وضاحت کر دی ہے اب مزید کسی بات کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔۔اللہ آپ کے علم اور عمل میں برکت دے آمین۔۔
 

faqintel

محفلین
اب مزید کسی بات کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی
ایسا تو مت بولیں I Think کہ ہمیں قسیم حیدر کی بوہت زیادہ ضرورت ہے ۔اللہ قسیم حیدرکو ہمارے ساتہ رکہے آمین
 

سارا

محفلین
بھائی میرا مطلب تھا کہ اس سلسلے میں مزید کسی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔۔۔
اور بھی سوالات ہو رہے ہیں یہاں تومیرا خیال ہے کہ اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہیے
 

سارا

محفلین
ایک صحیح حدیث کے مطابق 3 اعمال ایسے ہیں جس کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔۔

صدقہ جاریہ ،علم نافع ،نیک اولاد۔۔۔
اس کے علاوہ مرنے والے کے لیے حج کرنا اور اس کے فرض روزوں کی قضا کا بھی ثبوت ملتا ہے۔۔اس کے علاوہ میرا نہیں خیال کہ کسی اور کا کچھ ثبوت ملتا ہے اگر کسی کو قرآن یا صحیح حدیث کے مطابق کچھ پتا ہو تو وہ بتا سکتا ہے۔۔۔
 

قسیم حیدر

محفلین
ایک صحیح حدیث کے مطابق 3 اعمال ایسے ہیں جس کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔۔

صدقہ جاریہ ،علم نافع ،نیک اولاد۔۔۔
اس کے علاوہ مرنے والے کے لیے حج کرنا اور اس کے فرض روزوں کی قضا کا بھی ثبوت ملتا ہے۔۔اس کے علاوہ میرا نہیں خیال کہ کسی اور کا کچھ ثبوت ملتا ہے اگر کسی کو قرآن یا صحیح حدیث کے مطابق کچھ پتا ہو تو وہ بتا سکتا ہے۔۔۔

آپ نے بالکل درست فرمایا۔ ان چیزوں کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں‌کہ مرنے والے کو ان کا "ثواب ملتا ہے" باقی کے متعلق لوگوں نے قیاس کیا ہے کہ "ثواب ملتا ہوگا"۔ جب تک "ہوگا" کو چھوڑ کر قرآن و حدیث کی طرف نہیں‌آئیں گے مسئلے حل نہیں‌ہوں گے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
آپ نے بالکل درست فرمایا۔ ان چیزوں کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں‌کہ مرنے والے کو ان کا "ثواب ملتا ہے" باقی کے متعلق لوگوں نے قیاس کیا ہے کہ "ثواب ملتا ہوگا"۔ جب تک "ہوگا" کو چھوڑ کر قرآن و حدیث کی طرف نہیں‌آئیں گے مسئلے حل نہیں‌ہوں گے۔

اور اس "ھوگا" کو لوگ اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک قرآن و حدیث سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ "نہیں ملتا" کیونکہ اس "ہوگا" میں امید ہے مایوسی نہیں اور امید پر دنیا قائم ہے جبکہ مایوسی کو کفر کہا جاتا ہے
اور دیکھا جائے تو
صدقہ جاریہ ،علم نافع ،نیک اولاد۔۔۔
تین ایسے ہیڈ ہے جن میں بے شمار ضمنی چیزیں آجاتی ہیں اولاد نیک ہوگی تو ماں باپ کے لیے ایصال ثواب کرے کی نا بد اولاد سے کسی چیز کی توقع ہو سکتی ہے
 

قسیم حیدر

محفلین
اور اس "ھوگا" کو لوگ اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک قرآن و حدیث سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ "نہیں ملتا" کیونکہ اس "ہوگا" میں امید ہے مایوسی نہیں اور امید پر دنیا قائم ہے جبکہ مایوسی کو کفر کہا جاتا ہے
اور دیکھا جائے تو
صدقہ جاریہ ،علم نافع ،نیک اولاد۔۔۔
تین ایسے ہیڈ ہے جن میں بے شمار ضمنی چیزیں آجاتی ہیں اولاد نیک ہوگی تو ماں باپ کے لیے ایصال ثواب کرے کی نا بد اولاد سے کسی چیز کی توقع ہو سکتی ہے

اس بارے میں یہ اصول پیش نظر رکھنا چاہیے کہ عبادات میں سے کوئی چیز کرنے کے لیے اور معاملات میں‌ نہ کرنے کے لیے قرآن و حدیث سے دلیل چاہیے ہوتی ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top